پاکستان کی سیاسی صورتحال اور مسئلہ کشمیر
اگربھارت مقبوضہ کشمیرمیں بیرونی عناصرکو متاثرکرنے میں کامیاب ہوجاتاہے تو پھروہ گلگت بلتستان اورآزاد کشمیرکارخ کرے گا
اِدھر پاکستان میں سیاستدانوں کی جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے اور اُدھر سڑک پار مودی سرکار مقبوضہ کشمیر میں اپنے پنجے گاڑنے کی تیاری کر رہی ہے۔
جموں کشمیر تنظیمِ نَو بھارتی پارلیمنٹ میں منظور کرنے کے بعد مودی سرکار اب اپنے کشمیر ایجنڈے کے دوسرے حصہ کو نافذ کرنے میں مصروف ہے۔ اُس کا طریقہ واردات یہ ہے کہ ناجائز طور پر قبضہ کرنے کے بعد اب وہ اِس علاقہ میں بیرونِ ملک سے سرمایہ کاروں کو دعوت دے رہی ہے جس میں خلیجی ریاستوں کے سرمایہ کاروں کو خاص ترجیح دی جا رہی ہے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے سری نگر میں بھارت کے جی 20 سیاحت کے ور کنگ گروپ کا اجلاس، اگلے ماہ مئی میں انعقاد کرنے پر شدید غصہ کا اظہارکیا ہے۔ سری نگر میں نوجوانوں کے فورم کے اجلاس کا انعقاد بھی تشویش کی بات ہے۔
بھارت کا یہ غیر ذمے دارانہ عمل بھی اُس کی کارروائیوں کے سلسلہ کی ایک کڑی ہے، جس کی پاکستان شدید مذمت کرتا ہے۔بھارت اِس علاقہ پر اپنے ناجائز قبضہ منوانے کے لیے اِس طرح کی کارروائیاں کر رہا ہے۔
نئی دہلی کی کوشش ہے کہ مقبوضہ کشمیر پر اپنے شکنجہ کو مضبوط کرنے کے لیے بین الاقوامی تعاون حاصل کیا جائے۔ مارچ 2022 میں خلیجی ممالک سے تعلق رکھنے والے 30 سے زیادہ سی ای اوز نے سری نگر میں سرمایہ کاری کے مواقع کے سلسلہ میں اجلاس میں شرکت کی۔
ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق دبئی کی حکومت اور بھارتی حکومت کے مابین ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت کشمیر میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے پر دستخط کیے گئے۔ ِس کا صاف صاف مطلب یہ ہوا کہ دنیا کو کشمیر کے تنازعہ اور اُس کے مقبوضہ ہونے میں کوئی دلچسپی نہیں، اُسے دلچسپی ہے تو صرف کشمیر میں تجارت اور سرمایہ کاری میں۔
دبئی کے ایک تجارتی گروپ نے کشمیر میں 60.5 ملین ڈالرکی سرمایہ کاری کرنے پر اتفاق کیا ہے جس کے نتیجہ میں وہ سری نگر میں ایک شاپنگ مال اور متفرق چیزوں پر مشتمل ایک شاپنگ ٹاور تعمیر کرے گا۔
شارجہ سے سری نگر تک براہِ راست پروازیں بھی سری نگر میں شیخوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کی عکاسی کرتی ہیں۔یہ نہ صرف متنازعہ وادی تک کا معاملہ ہے جہاں مودی سرکار بیرونی ممالک کے سرمایہ کاروں کو راغب کررہی ہے بلکہ لداخ میں بھی سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کررہی ہے۔
اگر بھارت مقبوضہ کشمیر میں بیرونی عناصر کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو پھر وہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیرکا رخ کرے گا جنھیں وہ پاکستان کے زیرِ قبضہ علاقہ قرار دیتا ہے۔بھارت کے وزیرِ دفاع راج ناتھ کی یہ دھمکی ریکارڈ پر موجود ہے کہ ہم گلگت بلتستان کو حاصل کر کے اُسے بھارت میں ضَم کرلیں گے۔
پانچ اگست سن دوہزار انیس کے نام نہاد تنظیمِ نَو ایکٹ کی کامیابی کے بعد جس کے نتیجہ میں جموں اور کشمیر کو ہڑپ کرلیا گیا، نئی دہلی کا وطیرہ یہ ہے کہ کسی طرح مسلم اکثریت والی وادی میں ہندوؤں کو بسانے کے لیے انھیں ڈومیسائل سرٹیفکیٹ دیے جائیں تاکہ انتہا پسند ہندو جماعت بی جے پی کو آیندہ الیکشن میں نمایاں کامیابی حاصل ہوسکے۔
پاکستان جو اِس وقت شدید سیاسی اور معاشی بحران میں گھِرا ہوا ہے، بھارت کو مقبوضہ کشمیر پر اپنے پنجے گاڑھنے سے روکنے میں ناکام رہا ہے جس سے بھارت کو سری نگر میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے جی ٹوئنٹی کے اجلاس کے انعقاد میں کوئی دقت پیش نہیں آرہی ہے۔
بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی سفارت کاری اتنی کمزور ہے کہ وہ جی ٹوئنٹی کے ممبر ممالک ( چین ، ترکی اور سعودی عرب) کو اِس بات پر آمادہ کرنے میں ناکام ہے کہ کسی طرح بھارت کو سری نگر میں سیاحت سے متعلق اجلاس کرنے سے روکا جا سکے۔
مودی سرکار کی ساری توجہ بین الاقوامی برادری کو قطعی غیر جانبداری سے روکنے پر مرکوز ہے تاکہ وہ مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت والی آبادی پر اپنی قانونی حیثیت اور غلبہ حاصل کرسکے، اگر بھارت مقبوضہ علاقہ میں جی ٹوئنٹی کا اجلاس بلانے میں کامیاب ہوگیا تو اِس سے بھارت کو مقبوضہ علاقہ پر اپنے قبضہ کو جائز قرار دلانے میں آسانی ہوگی۔
دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان اِس صورتحال میں کیا اقدام کرتا ہے اور مودی سرکار مقبوضہ کشمیر میں اپنے معاشی قدم جمانے میں بین الاقوامی برادری کا تعاون حاصل کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے؟ سوال یہ ہے کہ پاکستان کے اندرونی مسائل نے کس طرح بھارت کو اپنی تمام تر توجہ مقبوضہ کشمیر کو پوری طرح یکجا کرنے اور گلگت بلتستان میں اپنی توسیع پسند عزائم میں مدد دی ہے؟
چند عوامل ایسے ہیں جن کی بِنا پر بھارت کو زیرِ قبضہ جموں اور کشمیر کے مسئلہ پر بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے میں کامیابی ہوئی ہے۔ سب سے پہلے بھارت کے انسانی حقوق اور سِوِل سوسائٹی کے ادارے جنھوں نے ماضی میں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے فوجی کریک ڈاؤن، محاصروں، غیر قانونی تلاشیوں، ماورائے عدالت قتل اور انٹرنیٹ بند ہونے پر اپنی آواز اٹھائی تھی،اب بالکل خاموش ہیں۔
یہی حال بھارتی کانگریس،کمیونسٹ اور دوسری مخالف پارٹیوں کا ہے جنھوں نے کبھی بی جے پی پر زور ڈالا تھا کہ تنظیم ِ نَو کشمیر ایکٹ کو تبدیل کر کے جموں و کشمیر کو ایک خود مختار ریاست کے طور پر بحال کیا جائے۔
سچ تو یہ ہے کہ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اندرونی چپقلش نے پاکستان کی ساکھ کو بہت بُری طرح متاثر کیا ہے اور اِس کے مضمرات نہایت شدید ہیں۔ کاش ! ہمارے سیاستدانوں کو اِس کا اندازہ اور خیال ہوتا۔
ہمارے قائدین کو ہوش کے ناخن لینے میں نامعلوم ابھی مزید کتنی دیر لگے گی۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے انسانیت سوز ظلم و تشدد کی جانب بین الاقوامی برادری کیوں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
جموں کشمیر تنظیمِ نَو بھارتی پارلیمنٹ میں منظور کرنے کے بعد مودی سرکار اب اپنے کشمیر ایجنڈے کے دوسرے حصہ کو نافذ کرنے میں مصروف ہے۔ اُس کا طریقہ واردات یہ ہے کہ ناجائز طور پر قبضہ کرنے کے بعد اب وہ اِس علاقہ میں بیرونِ ملک سے سرمایہ کاروں کو دعوت دے رہی ہے جس میں خلیجی ریاستوں کے سرمایہ کاروں کو خاص ترجیح دی جا رہی ہے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے سری نگر میں بھارت کے جی 20 سیاحت کے ور کنگ گروپ کا اجلاس، اگلے ماہ مئی میں انعقاد کرنے پر شدید غصہ کا اظہارکیا ہے۔ سری نگر میں نوجوانوں کے فورم کے اجلاس کا انعقاد بھی تشویش کی بات ہے۔
بھارت کا یہ غیر ذمے دارانہ عمل بھی اُس کی کارروائیوں کے سلسلہ کی ایک کڑی ہے، جس کی پاکستان شدید مذمت کرتا ہے۔بھارت اِس علاقہ پر اپنے ناجائز قبضہ منوانے کے لیے اِس طرح کی کارروائیاں کر رہا ہے۔
نئی دہلی کی کوشش ہے کہ مقبوضہ کشمیر پر اپنے شکنجہ کو مضبوط کرنے کے لیے بین الاقوامی تعاون حاصل کیا جائے۔ مارچ 2022 میں خلیجی ممالک سے تعلق رکھنے والے 30 سے زیادہ سی ای اوز نے سری نگر میں سرمایہ کاری کے مواقع کے سلسلہ میں اجلاس میں شرکت کی۔
ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق دبئی کی حکومت اور بھارتی حکومت کے مابین ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت کشمیر میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے پر دستخط کیے گئے۔ ِس کا صاف صاف مطلب یہ ہوا کہ دنیا کو کشمیر کے تنازعہ اور اُس کے مقبوضہ ہونے میں کوئی دلچسپی نہیں، اُسے دلچسپی ہے تو صرف کشمیر میں تجارت اور سرمایہ کاری میں۔
دبئی کے ایک تجارتی گروپ نے کشمیر میں 60.5 ملین ڈالرکی سرمایہ کاری کرنے پر اتفاق کیا ہے جس کے نتیجہ میں وہ سری نگر میں ایک شاپنگ مال اور متفرق چیزوں پر مشتمل ایک شاپنگ ٹاور تعمیر کرے گا۔
شارجہ سے سری نگر تک براہِ راست پروازیں بھی سری نگر میں شیخوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کی عکاسی کرتی ہیں۔یہ نہ صرف متنازعہ وادی تک کا معاملہ ہے جہاں مودی سرکار بیرونی ممالک کے سرمایہ کاروں کو راغب کررہی ہے بلکہ لداخ میں بھی سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کررہی ہے۔
اگر بھارت مقبوضہ کشمیر میں بیرونی عناصر کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو پھر وہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیرکا رخ کرے گا جنھیں وہ پاکستان کے زیرِ قبضہ علاقہ قرار دیتا ہے۔بھارت کے وزیرِ دفاع راج ناتھ کی یہ دھمکی ریکارڈ پر موجود ہے کہ ہم گلگت بلتستان کو حاصل کر کے اُسے بھارت میں ضَم کرلیں گے۔
پانچ اگست سن دوہزار انیس کے نام نہاد تنظیمِ نَو ایکٹ کی کامیابی کے بعد جس کے نتیجہ میں جموں اور کشمیر کو ہڑپ کرلیا گیا، نئی دہلی کا وطیرہ یہ ہے کہ کسی طرح مسلم اکثریت والی وادی میں ہندوؤں کو بسانے کے لیے انھیں ڈومیسائل سرٹیفکیٹ دیے جائیں تاکہ انتہا پسند ہندو جماعت بی جے پی کو آیندہ الیکشن میں نمایاں کامیابی حاصل ہوسکے۔
پاکستان جو اِس وقت شدید سیاسی اور معاشی بحران میں گھِرا ہوا ہے، بھارت کو مقبوضہ کشمیر پر اپنے پنجے گاڑھنے سے روکنے میں ناکام رہا ہے جس سے بھارت کو سری نگر میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے جی ٹوئنٹی کے اجلاس کے انعقاد میں کوئی دقت پیش نہیں آرہی ہے۔
بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی سفارت کاری اتنی کمزور ہے کہ وہ جی ٹوئنٹی کے ممبر ممالک ( چین ، ترکی اور سعودی عرب) کو اِس بات پر آمادہ کرنے میں ناکام ہے کہ کسی طرح بھارت کو سری نگر میں سیاحت سے متعلق اجلاس کرنے سے روکا جا سکے۔
مودی سرکار کی ساری توجہ بین الاقوامی برادری کو قطعی غیر جانبداری سے روکنے پر مرکوز ہے تاکہ وہ مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت والی آبادی پر اپنی قانونی حیثیت اور غلبہ حاصل کرسکے، اگر بھارت مقبوضہ علاقہ میں جی ٹوئنٹی کا اجلاس بلانے میں کامیاب ہوگیا تو اِس سے بھارت کو مقبوضہ علاقہ پر اپنے قبضہ کو جائز قرار دلانے میں آسانی ہوگی۔
دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان اِس صورتحال میں کیا اقدام کرتا ہے اور مودی سرکار مقبوضہ کشمیر میں اپنے معاشی قدم جمانے میں بین الاقوامی برادری کا تعاون حاصل کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے؟ سوال یہ ہے کہ پاکستان کے اندرونی مسائل نے کس طرح بھارت کو اپنی تمام تر توجہ مقبوضہ کشمیر کو پوری طرح یکجا کرنے اور گلگت بلتستان میں اپنی توسیع پسند عزائم میں مدد دی ہے؟
چند عوامل ایسے ہیں جن کی بِنا پر بھارت کو زیرِ قبضہ جموں اور کشمیر کے مسئلہ پر بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے میں کامیابی ہوئی ہے۔ سب سے پہلے بھارت کے انسانی حقوق اور سِوِل سوسائٹی کے ادارے جنھوں نے ماضی میں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے فوجی کریک ڈاؤن، محاصروں، غیر قانونی تلاشیوں، ماورائے عدالت قتل اور انٹرنیٹ بند ہونے پر اپنی آواز اٹھائی تھی،اب بالکل خاموش ہیں۔
یہی حال بھارتی کانگریس،کمیونسٹ اور دوسری مخالف پارٹیوں کا ہے جنھوں نے کبھی بی جے پی پر زور ڈالا تھا کہ تنظیم ِ نَو کشمیر ایکٹ کو تبدیل کر کے جموں و کشمیر کو ایک خود مختار ریاست کے طور پر بحال کیا جائے۔
سچ تو یہ ہے کہ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اندرونی چپقلش نے پاکستان کی ساکھ کو بہت بُری طرح متاثر کیا ہے اور اِس کے مضمرات نہایت شدید ہیں۔ کاش ! ہمارے سیاستدانوں کو اِس کا اندازہ اور خیال ہوتا۔
ہمارے قائدین کو ہوش کے ناخن لینے میں نامعلوم ابھی مزید کتنی دیر لگے گی۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے انسانیت سوز ظلم و تشدد کی جانب بین الاقوامی برادری کیوں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔