آڈیو وڈیو لیکس کتنی جائز کتنی ناجائز
ہر دور میں لیکس سامنے آتی رہی ہیں اور سیاسی مخالفین ان لیکس کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں
آج کل آڈیو وڈیو لیکس کا زمانہ ہے۔ ہر کسی کی آڈیو اور وڈیو لیک ہو رہی ہے۔ کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ اب تو کسی سے بات کرتے ڈر لگتا ہے کہ کب کونسی لیک ہو جائے۔لیکن پاکستان میں یہ لیک کوئی پہلی دفعہ نہیں ہو رہی ہیں۔
ہر دور میں لیکس سامنے آتی رہی ہیں اور سیاسی مخالفین ان لیکس کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ اس لیے جب کوئی لیک آپ کو فائدہ دے رہی ہو تو وہ اچھی ہے اور جب کسی لیک سے آپ کو نقصان ہو رہا ہو تو وہ بری ہے۔ یہ کوئی ٹھیک بات نہیں ہے۔
آج کل تحریک انصاف کی لیکس زیادہ آرہی ہیں۔ اس لیے تحریک انصاف ان آڈیو اور وڈیو لیکس پر زیادہ شور مچا رہی ہے۔ لیکن مجھے ان کے احتجاج اور شور پر شدید اعتراض ہے۔ جب ان کے مخالفین کی لیکس آتی ہیں تو وہ خوش ہوتے ہیں ان سے بھر پور سیاسی فائدہ اٹھاتے ہیں۔
اس کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے کوئی موقع جانے نہیں دیتے۔ اس لیک کو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے سب تک پہنچاتے ہیں، اور اس لیک کو اپنے حق میں پروپیگنڈے کے لیے خوب استعمال کرتے ہیں۔ لیکن جونہی ان کے اپنی لیکس آتی ہیں انھیں بنیادی حقوق، آئین اور قانون یاد آجاتا ہے۔
تحریک انصاف کے اپنے دور حکومت میں جب مریم نواز پرویز رشیدکی گفتگو کی لیکس آتی تھیں۔ تو تحریک انصاف اس پر بہت شور مچاتی تھی۔ تب ان کے لیے یہ لیکس حلال تھیں۔ تب کہتے تھے یہ مت کہیں لیکس غلط ہیں بلکہ دیکھیں بات کیا ہو رہی ہے۔ جب بطور وزیر اعظم شہباز شریف کی لیک سامنے آئی تھی تب بھی تحریک انصاف نے اس لیک سے بھر پور سیاسی فائدہ اٹھایا۔ اس پر خوب پروپیگنڈہ کیا۔
مریم نواز شریف کے خلاف اس لیک کو استعمال کیا۔ پریس کانفرنسیں کیں۔ سوشل میڈیا پر شور مچایا۔ لیکن جونہی اپنی لیک آتی ہے تو مظلوم بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب مریم نواز شہباز شریف پرویز رشید اور دیگر لیکس جائز ہیں تو پھر باقی سب کی لیکس کیوں جائز نہیں۔ جس چیز کو اپنے مخالف کے لیے حلال سمجھتے ہیں اس کو اپنے لیے بھی حلال ہی سمجھیں۔
عدلیہ نے بھی ماضی میں جب دیگر لوگوں کی آڈیو وڈیو لیکس سامنے آرہی تھیں تو ایک خاموشی اختیار کی۔ آج جب ججز اور ان کے اہل خانہ کی لیکس سامنے آرہی ہیں تو عدلیہ کو اس پر شور مچانے اور احتجاج کا کوئی حق نہیں۔ جو قانون عام شہری کے لیے ہے وہی قانون جج اور ججز کے خاندان کے لیے بھی ہے۔
ججز اور ان کے اہل خانہ کوئی آسمان سے اتری مخلوق نہیں کہ ان کی لیکس تو جرم ہیں لیکن باقی سب کی لیکس کوئی جرم نہیں ہیں۔ یہ دو عملی کیسے چل سکتی ہے۔ اگر عدلیہ ماضی میں لیکس پر خاموش رہی ہے تو آج اپنی دفعہ بھی خاموش رہے۔ جج اور ان کے اہل خانہ کوئی مقدس گائے نہیں ہو سکتے۔ اگر سیاستدانوں کی باتیں سامنے آسکتی ہیں تو ججز اور ان کے اہل خانہ کی باتیں بھی سامنے آنی چاہئیں۔
تحریک انصاف کا بالخصوص اور دیگر سیاسی جماعتوں کا یہ موقف تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے مخالفین کی آڈیو اور وڈیو لیکس تو بہت اچھی ہیں۔ لیکن ان کی آڈیو لیک اچھی نہیں ہے۔ ان کی ذاتی زندگی کو ایک تحفظ حاصل ہونا چاہیے۔ لیکن ان کے مخالفین کی ذاتی زندگی کو وہ تحفظ حاصل نہیں ہونا چاہیے۔
عدلیہ کسی عام شہری اور سیاستدان کی لیک پر تو کوئی ایکشن نہ لے لیکن اپنی اور اپنے اہل خانہ لیکس پر ایکشن لینا شروع کر دے۔ یہ کیسے چل سکتا ہے۔ کل تک فواد چوہدری اپنے سیاسی مخالفین کی آڈیو لیکس پر ان کا تمسخر اڑاتے تھے۔ آج احتجاج کیسے کر سکتے ہیں۔ اگر جسٹس قیوم کی لیک جائز تھی اور عدلیہ نے اس کوجائز قرار دیا تو آج باقی ججز اور ان کے اہل خانہ کی لیک غلط کیسے ہیں۔
اگر جسٹس قیوم کی لیکس پر ان کوعہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے تو آج ایکشن کیوں نہیں لیا جا سکتا۔ اگر جسٹس قیوم کی لیکس سے ایک سیاسی جماعت نے اپنے کیسز ختم کروائے اور اپنی بے گناہی ثابت کی دوسرے سیاسی لیڈر کو بھی یہ حق حاصل ہونا چاہیے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جسٹس قیوم کی لیکس نا جائز تھیں۔
لیکن جج ارشد ملک کی لیکس جائز نہیں ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جسٹس شوکت صدیقی کی دفعہ احتساب کا معیار کچھ اور ہو اور باقی ججز کی دفعہ آپ کا احتساب کا معیار کچھ اور ہو۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی دفعہ تو آپ احتساب کی گاڑی کو فل اسپیڈ پر چلا دیں۔
لیکن جسٹس مظاہر علی نقوی کی دفعہ احتساب کی گاڑی کو بریکیں لگا دیں۔ یہ کوئی انصاف نہیں۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ ٹارگٹڈ احتساب اور ٹارگٹڈ انصاف انتقام کی بد ترین شکلیں ہیں۔ یہ کتنے بھی جائز ہوں یہ جائز نہیں ہو سکتے۔ کیوںکہ یہ یکساں نظام انصاف اور یکساں نظام احتساب کی نفی کرتے ہیں۔
میں ذاتی طور پر آڈیو اور وڈیو لیکس کے حق میں نہیں ہوں۔ میں اس کو جرم سمجھتا ہوں۔ کسی بھی مہذب اور قانون پسند ملک میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہو سکتی۔ لیکن یہ سب یکساں ہونا چاہیے۔ اگر آڈیو لیک جرم ہے اور اس پر کوئی بھی ایکشن ہونا ہے تو کیا آج سے ہونا ہے۔ کل تک تحریک انصاف نے ان سے بھر پورفائدہ اٹھایا ہے۔ آج جب انھیں نقصان ہو رہا ہے تو بند کر دی جائیں۔
اگر ان لیکس سے انھوں نے سیاسی فائدہ اٹھایا ہے تو آج نقصان بھی اٹھانا چاہیے۔ کل تک ان آڈیو لیکس کو صحافیوں کو بدنام کرنے کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔ آج جب اپنی باری ہے تو رونے لگ گئے ہیں۔ آپ سب کو یاد ہوگا وہ آذر بائیجان سے آنے والی فروٹ باسکٹ کی لیکس جس کو صحافیوں کو بدنام کرنے اور ان کی پروفیشنل ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیا گیا۔آج جب دوسری طرف کے صحافیوں کی باری آئی ہے تو شور کیوں مچا رہے ہیں۔
میں اس بحث میں بھی نہیں جانا چاہتا کہ کون یہ آڈیو اور وڈیو لیکس کرتا ہے۔ پوری قوم جانتی ہے کہ کون کرتا ہے۔ جن کی لیکس سامنے آتی ہیں انھیں بھی پتہ ہوتا ہے کہ کس نے جاری کی ہیں۔
اس لیے یہ کوئی راز کی بات نہیں۔ مجھے اعتراض ہے کہ جب وہ آپ کے ساتھ ہوں تو آپ ان کے اس کام کو اپنے فائدہ کے لیے استعمال کرتے ہیں اور جب وہ آپ کے خلاف ہو جائیں تو آپ اس پر اعتراض کرنے لگ جائیں۔ جب آپ ان کے ساتھ ہوں تو آپ ان کا دفاع کریں لیکن جب آپ یا وہ آپ کے خلاف ہو جائیں تو آپ اعتراض کرنے لگ جائیں۔ مجھے اس دو عملی پر اعتراض ہے۔
یہ درست ہے کہ پی ڈی ایم کے قائدین کو بھی کل اپنی لیکس پر شدید اعتراض تھا۔ اور آج وہ بھی اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ لیکن وہ اپنی باری دے چکے ہیں۔
ان کی دفعہ کسی نے ان کا اعتراض اور احتجاج قبول نہیں کیا تھا۔ تب کہا جاتا تھا کہ لیک پر بات نہ کریں اس میں ہونے والی گفتگو پر بات کریں۔ یہ دیکھیں بات کیا ہوئی۔ قوم کو سچ جاننے کا حق ہے۔ اندر کی باتیں سامنے آنی چاہیے۔ تو آج بھی قوم کو سچ جاننے کا حق ہے اور اندر کی باتیں سامنے آنی چاہیے۔