اوورسیز پاکستانیوں سے فنانسنگ پر حکومت غیر سنجیدہ
کرنسی ایکسچینج ڈیلر ز کے ذریعے24 بلین ڈالر فنانسنگ کا منصوبہ زیر غور ہے
اوپن مارکیٹ کرنسی ڈیلرز اوور سیز پاکستانیوں سے24 بلین ڈالر کی بلا سود فنانسنگ کا عمل شروع کرنے کے لیے اگلے ہفتے دوبارہ حکومت سے رجوع کریں گے۔
ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان نے کہا کہ گزشتہ ماہ جب یہ تجویز وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے سامنے رکھی گئی تھی، تو اس وقت انھوں نے اس منصوبے پر عمل کیلیے بڑا جوش دکھایا تھا، میں عید کی چھٹیوں کے بعد وزیراعظم اور وزیرخزانہ دونوں کو خط لکھوں گا۔
ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے اس حوالے سے کہا کہ پاکستان تیزی سے دیوالیہ ہونے کی جانب سفر کر رہا ہے، اگر حکومت اس منصوبے کو مفید خیال کرتی ہے، تو حکومت کو اس پر فوری عمل کرنا چاہیے، اس سلسلے میں تاخیر ملکی معیشت کے لیے مشکلات کھڑی کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں: جنوری میں اوورسیز پاکستانیوں کی بھیجی گئی ترسیلات زر میں کمی ریکارڈ
انھوں نے مزید کہا کہ ہم سجھتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی کی وجہ سے حکومت کو اس منصوبے پر عملدرآمد کے لیے وقت نہیں مل پا رہا ہے۔ انھوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ پلان بی نہیں کہ آئی ایم ایف ڈیل نہ ملنے کی صورت میں اس پر عمل کیا جائے، بلکہ اس منصوبے پر عمل کے لیے آئی ایم ایف کو بھی آن بورڈ لینا ہوگا، اور دونوں منصوبوں کو ایک ساتھ چلانا ہوگا۔
ظفر پراچہ نے کہا کہ یہ اتنا آسان کام نہیں ہے، ہم اپنے تخمینہ ایک ارب ڈالر کے بجائے ماہانہ بنیادوں پر پانچ سو ملین ڈالر ہی حاصل کرسکتے ہیں، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ جلد از جلد اس منصوبے کو چلائے۔ انھوں نے کہا کہ فنانسنگ اینٹی منی لانڈرنگ سے متعلق فیٹیف کے بنیادی قواعد و ضوابط کے مطابق کی جائے گی۔
ملک بوستان نے مزید کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ایکسچینج کمپنیاں ڈالر کی قلت کا شکار ملک کے لیے فنانسنگ کا بندوبست کریں گی، اس سے قبل 1998 میں جب عالمی پابندیوں کے نتیجے میں پاکستان شدید مالی بحران کا شکار تھا، تو اس وقت بھی ہم نے 10 بلین ڈالر کی فنانسنگ اسی طرح کی تھی۔
مزید پڑھیں: اوورسیز پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں 8.6 فیصد کمی
انھوں نے کہا کہ حکومت یہ پالیسی منظور کرے، بیرون ملک مقیم پاکستانی بڑی تعداد میں اپنے وطن کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان کے فارن ایکسچینج ریزرو 4.03 بلین ڈالر کی خطرناک حد تک کم ہیں، اور پاکستان کو 30جون 2023 تک 4.5 بلین ڈالر کے قرض ادا کرنے ہیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومت نے امپورٹس پر سخت پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں، جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں فیکٹریاں بند ہوچکی ہیں اور ایک اندازے کے مطابق پانچ ملین سے زائد افراد بیروزگار ہوچکے ہیں۔
ملک میں جاری سیاسی ہلچل کی وجہ سے حکومت اوورسیز پاکستانیوں سے فنانسنگ کے لیے پالیسی بنانے کی طرف توجہ نہیں دے پا رہی، مجوزہ منصوبے کے تحت حکومت اوورسیز پاکستانیوں سے پانچ سال کی مدت کے لیے ماہانہ بنیادوں پر ایک ارب ڈالر اگلے چوبیس ماہ تک حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان نے کہا کہ گزشتہ ماہ جب یہ تجویز وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے سامنے رکھی گئی تھی، تو اس وقت انھوں نے اس منصوبے پر عمل کیلیے بڑا جوش دکھایا تھا، میں عید کی چھٹیوں کے بعد وزیراعظم اور وزیرخزانہ دونوں کو خط لکھوں گا۔
ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے اس حوالے سے کہا کہ پاکستان تیزی سے دیوالیہ ہونے کی جانب سفر کر رہا ہے، اگر حکومت اس منصوبے کو مفید خیال کرتی ہے، تو حکومت کو اس پر فوری عمل کرنا چاہیے، اس سلسلے میں تاخیر ملکی معیشت کے لیے مشکلات کھڑی کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں: جنوری میں اوورسیز پاکستانیوں کی بھیجی گئی ترسیلات زر میں کمی ریکارڈ
انھوں نے مزید کہا کہ ہم سجھتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی کی وجہ سے حکومت کو اس منصوبے پر عملدرآمد کے لیے وقت نہیں مل پا رہا ہے۔ انھوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ پلان بی نہیں کہ آئی ایم ایف ڈیل نہ ملنے کی صورت میں اس پر عمل کیا جائے، بلکہ اس منصوبے پر عمل کے لیے آئی ایم ایف کو بھی آن بورڈ لینا ہوگا، اور دونوں منصوبوں کو ایک ساتھ چلانا ہوگا۔
ظفر پراچہ نے کہا کہ یہ اتنا آسان کام نہیں ہے، ہم اپنے تخمینہ ایک ارب ڈالر کے بجائے ماہانہ بنیادوں پر پانچ سو ملین ڈالر ہی حاصل کرسکتے ہیں، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ جلد از جلد اس منصوبے کو چلائے۔ انھوں نے کہا کہ فنانسنگ اینٹی منی لانڈرنگ سے متعلق فیٹیف کے بنیادی قواعد و ضوابط کے مطابق کی جائے گی۔
ملک بوستان نے مزید کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ایکسچینج کمپنیاں ڈالر کی قلت کا شکار ملک کے لیے فنانسنگ کا بندوبست کریں گی، اس سے قبل 1998 میں جب عالمی پابندیوں کے نتیجے میں پاکستان شدید مالی بحران کا شکار تھا، تو اس وقت بھی ہم نے 10 بلین ڈالر کی فنانسنگ اسی طرح کی تھی۔
مزید پڑھیں: اوورسیز پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں 8.6 فیصد کمی
انھوں نے کہا کہ حکومت یہ پالیسی منظور کرے، بیرون ملک مقیم پاکستانی بڑی تعداد میں اپنے وطن کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان کے فارن ایکسچینج ریزرو 4.03 بلین ڈالر کی خطرناک حد تک کم ہیں، اور پاکستان کو 30جون 2023 تک 4.5 بلین ڈالر کے قرض ادا کرنے ہیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومت نے امپورٹس پر سخت پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں، جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں فیکٹریاں بند ہوچکی ہیں اور ایک اندازے کے مطابق پانچ ملین سے زائد افراد بیروزگار ہوچکے ہیں۔
ملک میں جاری سیاسی ہلچل کی وجہ سے حکومت اوورسیز پاکستانیوں سے فنانسنگ کے لیے پالیسی بنانے کی طرف توجہ نہیں دے پا رہی، مجوزہ منصوبے کے تحت حکومت اوورسیز پاکستانیوں سے پانچ سال کی مدت کے لیے ماہانہ بنیادوں پر ایک ارب ڈالر اگلے چوبیس ماہ تک حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔