جب علامہ اقبالؒ نے اسمبلی کا الیکشن لڑا
رکنِ اسمبلی منتخب ہونے کے بعد علامہ اقبال پوری تیاری کے ساتھ اسمبلی کی کارروائی میں بھرپور حصہ لیتے رہے
برصغیر کے مسلم دانشور یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو ایک آزاد ملک محمد علیؒ جناح صاحب کی جدوجہد سے حاصل ہوا، یعنی پاکستان کے بانی جناحؒ صاحب ہیں جب کہ مسلمانوں کے قومی وجود کے خالق علامہ اقبالؒ ہیں۔
علامہ اقبالؒ طبعاً عوامی سیاست سے الگ رہتے تھے وہ عموماً عوامی اجتماعات میں جانے سے گریز کرتے تھے، مشاعروں میں نہیں جاتے تھے، لوگوں کی فرمائش پر بھی شعر سنانے سے گریز کرتے تھے، وہ تشہیر بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔ علامہ شاعری کو ابلاغ کا ایک موثر ذریعہ سمجھتے تھے اور اس کے ذریعے لوگوں تک خصوصاً ملت اسلامیہ تک اپنا پیغام پہنچانا چاہتے تھے۔
اگرچہ مفکر پاکستان بر صغیر کی سیاست پر گہری نظر رکھتے تھے اور عالمی سیاست کے مدوجزر سے بھی بخوبی آگاہ تھے مگر ایک عظیم تخلیق کار ہونے کے ناتے وہ خلوت کو جلوت سے زیادہ پسند کرتے تھے اور عملی سیاست میں حصہ لینے سے گریزاں رہتے تھے۔ مگر ایک بار بتقاضائے حالات ڈاکٹر علامہ اقبال کو الیکشن میں حصہ لینا پڑا، وہ واقعہ کب اور کیسے ہوا، یہ قارئین کے لیے یقیناً بڑی دلچسپی کا باعث ہوگا۔
ہوا یوں کہ 1923 میں ڈاکٹر اقبالؒ صاحب کے بعض دوستوں نے خیال ظاہر کیا کہ وہ پنجاب کی مجلسِ قانون ساز میں اہل لاہور کی نمایندگی کریں۔ جب انھیں معلوم ہوا کہ ان کے قریبی دوست میاں عبدالعزیز بھی اس حلقے سے انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں تو انھوں نے امیدوار بننے سے معذرت کرلی۔
1925میں جب دوبارہ انتخاب ہونے والے تھے تو اپنے چاہنے والوں اور دوستوں کے بے حد اصرار پر علامہ اقبال انتخاب میں حصہ لینے پر آمادہ ہوگئے۔ اس بار میاں عبدالعزیز نے الیکشن سے دستبردار ہوکر علامہ اقبالؒ کے حق میں مہم چلانے کا اعلان کردیا۔
کافی عرصے سے لوگ چاہتے تھے کہ علامہ اقبال جیسا قابل، صاحبِ بصیرت اور ملت کا خیرخواہ اور ہمدرد اسمبلی میں پہنچ کر اہلِ لاہور کی نمایندگی کرے۔ خود علامہ نے بھی ملت کی خیرخواہی کے اس تقاضے کو محسوس کرلیا چنانچہ انھوں نے اس موقع پر ایک بیان میں کہا ''مسلمانوں کو معلوم ہے کہ میں اب تک اس قسم کے مشاغل سے بالکل علیحدہ رہا ہوں لیکن اب قوم کے مصائب مجبور کررہے ہیں کہ میں اپنا حلقۂ عمل قدرے وسیع کروں، شاید میرا ناچیز وجود اس طرح اس ملت کے لیے زیادہ کارآمد ہوسکے۔''
علامہ اقبال کے مقابلے میں بلدیہ کے صدر ملک محمد حسین اور آرائیں برادری کے ایک مشہور کاروباری شخص ملک محمد دین (جنھیں انگریزوں سے خان بہادر کا ملا ہوا تھا) بھی امیدوار تھے۔ علامہ اقبال کے احترام میں ملک محمد حسین تو ان کے حق میں دستبردار ہوگئے لیکن ملک محمد دین کو اپنی آرائیں برادری پر بہت بھروسا تھا اس لیے وہ الیکشن لڑنے پر بضد رہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چیف کورٹ لاہور کے جج سر شادی لال نے ملک محمد دین کو ڈاکٹر اقبال کے مدمقابل کھڑا ہونے پر اُکسایا تھا۔ علامہ اقبالؒ کے نیاز مندوں نے ان کی انتخابی مہم میں بڑے جوش اور ولولے سے حصہ لیا۔ اُن کی حمایت میں جلسے منعقد ہوئے جن میں عوام الناس کے علاوہ کالجوں کے طلبا، پروفیسر صاحبان اور معززین شہر بڑی تعداد میں شریک ہوتے رہے۔ انتخابی مہم میں جلوس بھی نکالے گئے،جن میں اردو اور پنجابی میں علامہ کی عظمت کے گیت گائے جاتے اور علامہ کی اپنی نظمیں بھی پڑھی جاتیں۔
اگر کسی جگہ ڈاکٹر صاحب تشریف لاتے تو انھیں پھولوں سے لاد دیا جاتا۔ رضاکاروں کی ترکی ٹوپیوں پر لفظ 'اقبال' نمایاں طور پر لکھا ہوا نظر آتا تھا۔ پوری انتخابی مہم کے دوران علامہ اقبالؒ نے تقریباً بیس جلسوں سے خطاب کیا۔ ایک جلسے میں ڈاکٹر سیف الدین کچلو نے تقریر کرتے ہوئے کہا ''یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ڈاکٹر اقبال جیسی شخصیت کو الیکشن کے لیے مہم چلانی پڑ رہی ہے۔
چاہیے تو یہ تھا کہ ہم ڈاکٹر صاحب سے درخواست پر دستخط کراتے اور پھر بلامقابلہ آپ کو ہار پہنا کر اسمبلی ہال میں چھوڑ آتے۔ میں سخت شرم اور دکھ کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ کیسی بدنصیب ہے وہ قوم جس کے بعض افراد اقبالؒ جیسی عظیم شخصیت کا مقابلہ کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔''
علامہ کی انتخابی مہم بڑے والہانہ انداز میں مگر رضاکارانہ طور پر چلائی گئی، خود ڈاکٹر صاحب کو کچھ بھی خرچ کرنے نہ دیا گیا، ہر شخص ڈاکٹر اقبال صاحب کو کامیاب کرانے کے لیے جان لڑارہا تھا۔ لاہورکی متعدد برادریاں بھی علامہ اقبال کی حمایت کررہی تھیں۔
علامہ نے اپنی تقریروں میں اعلیٰ پائے کی اصولی باتیں کیں۔ انھوں نے ایک جلسے میں کہا ''میں نے مسلمانوں کو زندگی کے صحیح مفہوم سے آشنا کرنے، اسلاف کے تقش قدم پر چلانے اور نا امیدی، بزدلی اور کم ہمتی سے باز رکھنے کے لیے نظم کا ذریعہ استعمال کیا۔ میں نے پچیس سال تک اپنے بھائیوں کی مقدور بھر ذہنی خدمت کی، اب میں ان کی عملی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کررہا ہوں۔'' علامہ اقبال کے انتخابی حریف ملک محمد دین آرائیں برادری کی عصبیّت کو ہوا دے رہے تھے۔
ڈاکٹر صاحب کے مخالفین نے ان کے لیے بہت نامناسب اور گھٹیا الفاظ بھی استعمال کیے مگر علامہ اقبالؒ نے تہذیب اور شائستگی سے ذرہ برابرتجاوز نہیں کیا، اگر ان کے کسی حامی نے ان کے مخالف امیدوار کو برا بھلا کہا یا کوئی الزام لگایا تو علامہ نے اسے سختی سے روک دیا۔ انتخابی مہم میں امیدوار اکثر اعتدال اور توازن ملحوظ نہیں رکھتے اور شائستگی اور سنجیدگی کا دامن چھوڑ دیتے ہیں، مگر علامہ اقبالؒ کی شخصیت سے یہ بعید تھا کہ وہ کسی طرح کی بے اعتدالی کریں۔
علامہ اقبال اسمبلی کی رکنیّت کے لیے ہونے والے انتخاب میں بھی اپنے بلند علمی مقام اور مرتبے کے مطابق تقریریں کرتے رہے اور ان جلسوں میں بھی ملت اسلامیہ کے مسائل کا حل بتاتے رہے، وہ اپنے موقف کا اظہار بڑے پُرخلوص طریقے سے اور انتہائی دردمندی اور دل سوزی کے ساتھ کرتے تھے۔
ایک موقع پر انھوں نے کہا ''مسلمانوں کی زندگی کا راز اتحاد میں مضمر ہے۔ میں نے برسوں مطالعہ کیا ، راتیں غور و فکر میںگزار دیں تاکہ وہ حقیقت معلوم کروں جس پر کاربند ہوکرسرزمین حجاز کے بدّو حضورؐ سرورِ کائنات کی صحبت میںتیس سال کے اندر اندر دنیا کے امام بن گئے، وہ حقیقت اتحاد و اتفاق میں ہے۔
حضورؐ کے پیروکارو! اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو متحد ہوجاؤ۔ تنگ نظری چھوڑ دو... مسلمانانِ ہند کے لیے دوسری چیز یہ ہے کہ وہ ہندوستان کی سیاست کے ساتھ گہری وابستگی پیدا کریں۔ جو لوگ خود اخبار نہ پڑھ سکتے ہوں، وہ دوسروں سے سنیں۔ اس وقت جو قوتیں دنیا میں کارفرما ہیں، ان میں سے اکثر اسلام کے خلاف کام کررہی ہیں لیکن لِیُظھِرَہُ عَلیَ الدّینِ کلّٰہُ کے دعوے پر میرا ایمان ہے ۔'' تقریر کا اختتام ایک اور قرآنی آیت پر ہوا۔
اس انتخاب کا نتیجہ 6دسمبر 1926 کو ضلع کچہری میں سنایا گیا۔ الیکشن میں ووٹ ڈالنے کا تناسب 68 فیصد تھا۔ علامہ اقبال کو 5675 ووٹ اور ان کے مدمقابل کو 2498ووٹ ملے۔ نتائج کے مطابق علامہ اقبالؒ نے اپنے حریف پر 2677ووٹوں کی سبقت حاصل کرکے کامیابی حاصل کی ۔
علامہ اقبال کے حامیوں نے انھیں ساتھ لے کر اظہار مسرت کے لیے ایک جلوس نکالا جو انارکلی، لوہاری اور بھاٹی گیٹ سے ہوتا ہوا چوک جھنڈ میں پہنچا۔ یہاں علامہ کے چاہنے والوں نے علامہ اقبال اور کچھ دوسرے لیڈروں کے سروں پر پگڑیاں باندھیں، جلوس رات دس بجے منتشر ہوا۔ کئی دنوں تک علامہ کو مبارکباد کے پیغامات اور خطوط موصول ہوتے رہے۔
رکنِ اسمبلی منتخب ہونے کے بعد علامہ اقبال پوری تیاری کے ساتھ اسمبلی کی کارروائی میں بھرپور حصہ لیتے رہے، انھوں نے قانون سازی میں کئی اہم تجاویز دیں مگر اُن کی افتادِ طبع سیاست کے مزاج سے لگا نہیں کھاتی تھی، وہ دنیاداری، موقع پرستی اور خوشامد سے کوسوں دور رہتے تھے۔ اس لیے دو تین سالوں میں ہی وہ مفاد پرستی اورچاپلوسی کی سیاست سے بدظن ہوگئے۔
چنانچہ 1929 میں جب ان کے چاہنے والوں نے انھیں دوبارہ انتخاب لڑنے کی درخواست کی تو علامہ اقبال نے یہ کہہ کر انکارکردیا کہ وہ اسمبلی کا رکن بننے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔اس کے بعد علامہ اقبال ؒ پنجاب مسلم لیگ کے صدر بھی رہے اور قائداعظمؒ اور مولانا محمد علی جوہرؒ سمیت ہندوستان کے تمام بڑے لیڈر رہنمائی کے لیے علامہ اقبالؒ سے ملنے آیا کرتے تھے مگر انھوں نے اس ایک الیکشن کے بعدکبھی کسی الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔ (اس تحریر کے لیے معروف اقبال شناس ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی کتاب 'علامہ اقبال ۔۔۔ شخصیت اور فکرو فن' سے استفادہ کیا گیا ہے۔)
علامہ اقبالؒ طبعاً عوامی سیاست سے الگ رہتے تھے وہ عموماً عوامی اجتماعات میں جانے سے گریز کرتے تھے، مشاعروں میں نہیں جاتے تھے، لوگوں کی فرمائش پر بھی شعر سنانے سے گریز کرتے تھے، وہ تشہیر بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔ علامہ شاعری کو ابلاغ کا ایک موثر ذریعہ سمجھتے تھے اور اس کے ذریعے لوگوں تک خصوصاً ملت اسلامیہ تک اپنا پیغام پہنچانا چاہتے تھے۔
اگرچہ مفکر پاکستان بر صغیر کی سیاست پر گہری نظر رکھتے تھے اور عالمی سیاست کے مدوجزر سے بھی بخوبی آگاہ تھے مگر ایک عظیم تخلیق کار ہونے کے ناتے وہ خلوت کو جلوت سے زیادہ پسند کرتے تھے اور عملی سیاست میں حصہ لینے سے گریزاں رہتے تھے۔ مگر ایک بار بتقاضائے حالات ڈاکٹر علامہ اقبال کو الیکشن میں حصہ لینا پڑا، وہ واقعہ کب اور کیسے ہوا، یہ قارئین کے لیے یقیناً بڑی دلچسپی کا باعث ہوگا۔
ہوا یوں کہ 1923 میں ڈاکٹر اقبالؒ صاحب کے بعض دوستوں نے خیال ظاہر کیا کہ وہ پنجاب کی مجلسِ قانون ساز میں اہل لاہور کی نمایندگی کریں۔ جب انھیں معلوم ہوا کہ ان کے قریبی دوست میاں عبدالعزیز بھی اس حلقے سے انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں تو انھوں نے امیدوار بننے سے معذرت کرلی۔
1925میں جب دوبارہ انتخاب ہونے والے تھے تو اپنے چاہنے والوں اور دوستوں کے بے حد اصرار پر علامہ اقبال انتخاب میں حصہ لینے پر آمادہ ہوگئے۔ اس بار میاں عبدالعزیز نے الیکشن سے دستبردار ہوکر علامہ اقبالؒ کے حق میں مہم چلانے کا اعلان کردیا۔
کافی عرصے سے لوگ چاہتے تھے کہ علامہ اقبال جیسا قابل، صاحبِ بصیرت اور ملت کا خیرخواہ اور ہمدرد اسمبلی میں پہنچ کر اہلِ لاہور کی نمایندگی کرے۔ خود علامہ نے بھی ملت کی خیرخواہی کے اس تقاضے کو محسوس کرلیا چنانچہ انھوں نے اس موقع پر ایک بیان میں کہا ''مسلمانوں کو معلوم ہے کہ میں اب تک اس قسم کے مشاغل سے بالکل علیحدہ رہا ہوں لیکن اب قوم کے مصائب مجبور کررہے ہیں کہ میں اپنا حلقۂ عمل قدرے وسیع کروں، شاید میرا ناچیز وجود اس طرح اس ملت کے لیے زیادہ کارآمد ہوسکے۔''
علامہ اقبال کے مقابلے میں بلدیہ کے صدر ملک محمد حسین اور آرائیں برادری کے ایک مشہور کاروباری شخص ملک محمد دین (جنھیں انگریزوں سے خان بہادر کا ملا ہوا تھا) بھی امیدوار تھے۔ علامہ اقبال کے احترام میں ملک محمد حسین تو ان کے حق میں دستبردار ہوگئے لیکن ملک محمد دین کو اپنی آرائیں برادری پر بہت بھروسا تھا اس لیے وہ الیکشن لڑنے پر بضد رہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چیف کورٹ لاہور کے جج سر شادی لال نے ملک محمد دین کو ڈاکٹر اقبال کے مدمقابل کھڑا ہونے پر اُکسایا تھا۔ علامہ اقبالؒ کے نیاز مندوں نے ان کی انتخابی مہم میں بڑے جوش اور ولولے سے حصہ لیا۔ اُن کی حمایت میں جلسے منعقد ہوئے جن میں عوام الناس کے علاوہ کالجوں کے طلبا، پروفیسر صاحبان اور معززین شہر بڑی تعداد میں شریک ہوتے رہے۔ انتخابی مہم میں جلوس بھی نکالے گئے،جن میں اردو اور پنجابی میں علامہ کی عظمت کے گیت گائے جاتے اور علامہ کی اپنی نظمیں بھی پڑھی جاتیں۔
اگر کسی جگہ ڈاکٹر صاحب تشریف لاتے تو انھیں پھولوں سے لاد دیا جاتا۔ رضاکاروں کی ترکی ٹوپیوں پر لفظ 'اقبال' نمایاں طور پر لکھا ہوا نظر آتا تھا۔ پوری انتخابی مہم کے دوران علامہ اقبالؒ نے تقریباً بیس جلسوں سے خطاب کیا۔ ایک جلسے میں ڈاکٹر سیف الدین کچلو نے تقریر کرتے ہوئے کہا ''یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ڈاکٹر اقبال جیسی شخصیت کو الیکشن کے لیے مہم چلانی پڑ رہی ہے۔
چاہیے تو یہ تھا کہ ہم ڈاکٹر صاحب سے درخواست پر دستخط کراتے اور پھر بلامقابلہ آپ کو ہار پہنا کر اسمبلی ہال میں چھوڑ آتے۔ میں سخت شرم اور دکھ کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ کیسی بدنصیب ہے وہ قوم جس کے بعض افراد اقبالؒ جیسی عظیم شخصیت کا مقابلہ کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔''
علامہ کی انتخابی مہم بڑے والہانہ انداز میں مگر رضاکارانہ طور پر چلائی گئی، خود ڈاکٹر صاحب کو کچھ بھی خرچ کرنے نہ دیا گیا، ہر شخص ڈاکٹر اقبال صاحب کو کامیاب کرانے کے لیے جان لڑارہا تھا۔ لاہورکی متعدد برادریاں بھی علامہ اقبال کی حمایت کررہی تھیں۔
علامہ نے اپنی تقریروں میں اعلیٰ پائے کی اصولی باتیں کیں۔ انھوں نے ایک جلسے میں کہا ''میں نے مسلمانوں کو زندگی کے صحیح مفہوم سے آشنا کرنے، اسلاف کے تقش قدم پر چلانے اور نا امیدی، بزدلی اور کم ہمتی سے باز رکھنے کے لیے نظم کا ذریعہ استعمال کیا۔ میں نے پچیس سال تک اپنے بھائیوں کی مقدور بھر ذہنی خدمت کی، اب میں ان کی عملی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کررہا ہوں۔'' علامہ اقبال کے انتخابی حریف ملک محمد دین آرائیں برادری کی عصبیّت کو ہوا دے رہے تھے۔
ڈاکٹر صاحب کے مخالفین نے ان کے لیے بہت نامناسب اور گھٹیا الفاظ بھی استعمال کیے مگر علامہ اقبالؒ نے تہذیب اور شائستگی سے ذرہ برابرتجاوز نہیں کیا، اگر ان کے کسی حامی نے ان کے مخالف امیدوار کو برا بھلا کہا یا کوئی الزام لگایا تو علامہ نے اسے سختی سے روک دیا۔ انتخابی مہم میں امیدوار اکثر اعتدال اور توازن ملحوظ نہیں رکھتے اور شائستگی اور سنجیدگی کا دامن چھوڑ دیتے ہیں، مگر علامہ اقبالؒ کی شخصیت سے یہ بعید تھا کہ وہ کسی طرح کی بے اعتدالی کریں۔
علامہ اقبال اسمبلی کی رکنیّت کے لیے ہونے والے انتخاب میں بھی اپنے بلند علمی مقام اور مرتبے کے مطابق تقریریں کرتے رہے اور ان جلسوں میں بھی ملت اسلامیہ کے مسائل کا حل بتاتے رہے، وہ اپنے موقف کا اظہار بڑے پُرخلوص طریقے سے اور انتہائی دردمندی اور دل سوزی کے ساتھ کرتے تھے۔
ایک موقع پر انھوں نے کہا ''مسلمانوں کی زندگی کا راز اتحاد میں مضمر ہے۔ میں نے برسوں مطالعہ کیا ، راتیں غور و فکر میںگزار دیں تاکہ وہ حقیقت معلوم کروں جس پر کاربند ہوکرسرزمین حجاز کے بدّو حضورؐ سرورِ کائنات کی صحبت میںتیس سال کے اندر اندر دنیا کے امام بن گئے، وہ حقیقت اتحاد و اتفاق میں ہے۔
حضورؐ کے پیروکارو! اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو متحد ہوجاؤ۔ تنگ نظری چھوڑ دو... مسلمانانِ ہند کے لیے دوسری چیز یہ ہے کہ وہ ہندوستان کی سیاست کے ساتھ گہری وابستگی پیدا کریں۔ جو لوگ خود اخبار نہ پڑھ سکتے ہوں، وہ دوسروں سے سنیں۔ اس وقت جو قوتیں دنیا میں کارفرما ہیں، ان میں سے اکثر اسلام کے خلاف کام کررہی ہیں لیکن لِیُظھِرَہُ عَلیَ الدّینِ کلّٰہُ کے دعوے پر میرا ایمان ہے ۔'' تقریر کا اختتام ایک اور قرآنی آیت پر ہوا۔
اس انتخاب کا نتیجہ 6دسمبر 1926 کو ضلع کچہری میں سنایا گیا۔ الیکشن میں ووٹ ڈالنے کا تناسب 68 فیصد تھا۔ علامہ اقبال کو 5675 ووٹ اور ان کے مدمقابل کو 2498ووٹ ملے۔ نتائج کے مطابق علامہ اقبالؒ نے اپنے حریف پر 2677ووٹوں کی سبقت حاصل کرکے کامیابی حاصل کی ۔
علامہ اقبال کے حامیوں نے انھیں ساتھ لے کر اظہار مسرت کے لیے ایک جلوس نکالا جو انارکلی، لوہاری اور بھاٹی گیٹ سے ہوتا ہوا چوک جھنڈ میں پہنچا۔ یہاں علامہ کے چاہنے والوں نے علامہ اقبال اور کچھ دوسرے لیڈروں کے سروں پر پگڑیاں باندھیں، جلوس رات دس بجے منتشر ہوا۔ کئی دنوں تک علامہ کو مبارکباد کے پیغامات اور خطوط موصول ہوتے رہے۔
رکنِ اسمبلی منتخب ہونے کے بعد علامہ اقبال پوری تیاری کے ساتھ اسمبلی کی کارروائی میں بھرپور حصہ لیتے رہے، انھوں نے قانون سازی میں کئی اہم تجاویز دیں مگر اُن کی افتادِ طبع سیاست کے مزاج سے لگا نہیں کھاتی تھی، وہ دنیاداری، موقع پرستی اور خوشامد سے کوسوں دور رہتے تھے۔ اس لیے دو تین سالوں میں ہی وہ مفاد پرستی اورچاپلوسی کی سیاست سے بدظن ہوگئے۔
چنانچہ 1929 میں جب ان کے چاہنے والوں نے انھیں دوبارہ انتخاب لڑنے کی درخواست کی تو علامہ اقبال نے یہ کہہ کر انکارکردیا کہ وہ اسمبلی کا رکن بننے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔اس کے بعد علامہ اقبال ؒ پنجاب مسلم لیگ کے صدر بھی رہے اور قائداعظمؒ اور مولانا محمد علی جوہرؒ سمیت ہندوستان کے تمام بڑے لیڈر رہنمائی کے لیے علامہ اقبالؒ سے ملنے آیا کرتے تھے مگر انھوں نے اس ایک الیکشن کے بعدکبھی کسی الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔ (اس تحریر کے لیے معروف اقبال شناس ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی کتاب 'علامہ اقبال ۔۔۔ شخصیت اور فکرو فن' سے استفادہ کیا گیا ہے۔)