رمضان کی ’’ برکات ‘‘
آج کی نوجوان نسل کو یاد نہیں ہوگا کہ جب لاوڈ اسپیکر آیا تو اس میں اذان دینے پر بے تحاشا اعتراضات ہوئے
رمضان کا مہینہ عبادتوں، برکتوں، ریاضتوں اور نعمتوں کا مہینہ ہوتا ہے، ہر خاص و عام اس مہینے کو ''رمضان المبارک'' کہتے ہیں، کبھی کبھی صرف رمضان بھی کہہ دیا جاتا ہے لیکن جب سے رمضان المبارک کو شوبز کا تڑکا لگایا گیا ہے، تب سے یہ میلوں، ٹھیلوں، کھیل تماشوں اورکرتب بازی کا مہینہ قرار پایا ہے۔
طرح طرح کے ہنر مند اورکرتب بازاس میں اپنے اپنے کمالات کامظاہرہ کرتے ہیں اور ہرلحاظ سے اس ماہ مقدس کی روح کو مجروح بلکہ فتوح کرکے انعامات حاصل اور و صول کرتے ہیں۔ عام بازاروں میں جو میلے لگتے ہیں، وہ تو تقریباً ہر ہرلحاظ سے ماہ رمضان کے تقاضوں کے برعکس ہوتے ہیں بلکہ میلوں، ٹھیلوں کی بھی تضیحک ہوتی ہے کہ باقاعدہ ایک پشتو کہاوت کے مطابق ہوتے ہیں۔
اس پشتو کہاوت کے مطابق، بازار کیا ہے تھپڑ بازی کامقابلہ ہے، جدید اصطلاح میں اسے باکسنگ رنگ بھی کہاجاتا ہے جہاں تجربہ کار کھلاڑی ہی جیتے ہیں،بلکہ آج کل تو جب بھی رمضان کا مہینہ آتاہے، ہم بازار جانا چھوڑ دیتے ہیں، کوئی کس دل سے نہتے خریداروں پر شیروں بھیڑوں چیتوں یہاں تک کہ گیدڑوں اورکتے بلیوں کو حملہ آوردیکھ سکتاہے ۔
خیریہ تو سب کے دیکھے ہوئے عام مناظر ہیں جو رمضان کے لیے خصوصی طورپر مرتب کیے جاتے ہیں، ہم ذرا شوبزکلاکاروں اور بناوٹ کاروں کے ہاتھوں ''رمضان'' کا حشر نشر دیکھتے ہیں، تو اس زرخیز ذہن کو داد نہ دینا بہت ناانصافی ہوگی جس نے ٹی وی اسکرین پر ''نیا رمضان'' متعارف کرایا جو آج کل ٹی وی اسکرین کا مستقل حصہ ہے۔
دین آن سکر ین ہوا تو سب کو معلوم ہے کہ اسکرین تو نام ہی روپ بہروپ کے کھیل کا ہے، تو اسکرین کے کھلاڑیوں نے وہی کیا جو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں۔ اس تجارت میں منافع توقع سے بھی زیادہ بڑھا تو ''داڑھی'' فیشن بن گئی ۔
جو آج کل اتنا زیادہ مروجہ اورہمہ گیر ہے کہ پڑوسی ملک کی اسکرینوں پر بھی ایسا چہرہ بہت کم ہی دکھائی دیتاہے جس پر شوبز والی مخصوص داڑھی کا میک اپ نہ ہو۔
ہمارے ساتھ بانگ حرم کے دفتر میں ایک کاتب تھا جو حافظ تھا یا نہیں لیکن لوگ اسے حافظ کہتے تھے، وہ سارا سال یا تو کلین شیو میں رہتا تھا یاداڑھی کو زیرومشین کے تلے رکھتا تھا لیکن جیسے ہی رمضان کی آمد آمد ہوتی تو داڑھی بڑھنے لگتی اور وہ رمضان میں کسی گاؤں کی مسجد میں تراویح اور ختم القرآن کی جاب پکڑ لیتا اور پھر جیسے ہی عید گزرتی،
داڑھی گھٹتے گھٹتے زیرو پر آجاتی ،اب یہ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ تراویح میں جو ختم القرآن کرتا ہے، اس میں کیا پڑھتا ہے، مسلمانوں کے خیال میں ویسے بھی قرآن پڑھنے اور سمجھنے کی چیزنہیں بلکہ سننے سنانے کی چیزہے ، وہ قرآن جو مولاناحالی کے مطابق
اتر کرحرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
وہ نسخہ کیمیا تو دلوںسے نکل کر طاقوں اور غلافوں کی زینت بنایاگیا ہے ، اس خلا سے فائدہ اٹھا کر نوٹکی بازوں نے فائدہ اٹھایا، دین کو کاروبار میں داخل کردیا، اب یہ انڈسٹری ہے ،کارخانہ ہے، دکان ہے اور سامان تجارت ہے۔
کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ یہ جو ٹی وی اسکرینوں میں جو کچھ ہوتا ہے ، اس پر ہم تو واویلا کر رہے ہیں لیکن جب دین کو جاننے والے ہی اسکرین کے جادو کا شکار ہوجائیں تواس کامطلب کیا ہے ؟ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی ، یہ بولنے والا سمجھتا ہے نہ سننے والا۔ ہمارے خیال میں اگر ''حافظ'' کا معاملہ درمیان میں نہ ہوتا تو رمضان میں پوری تراویح کو بھی اسکرین پر منتقل کیاجاسکتاہے ۔
آج کی نوجوان نسل کو یاد نہیں ہوگا کہ جب لاوڈ اسپیکر آیا تو اس میں اذان دینے پر بے تحاشا اعتراضات ہوئے۔ کوئی یہ دلیل دیتا کہ لاؤڈ اسپیکر میں سے نکلنے والی آواز اصل نہیں بلکہ مصنوعی اور تبدیل ہوجاتی ہے ،یہ الیکٹرانک آلات سے نکلی ہوئی آواز ہوتی ہے لیکن آج یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے بلکہ کوشش کی جاتی ہے کہ ہائی فائی فریکونسی والا لاوڈ اسپیکر رکھا جائے اوراسے کبھی بند نہ کیاجائے ۔
حرف آخر یہ ہے کہ ہمارے ہاں عموماً کہا جاتاہے کہ ماہ رمضان کا مقصد بھوک، پیاس کی شدت کا احساس دلاناہے تاکہ مسلمانوں کو بھوک اور پیاس کا احساس ہو اور وہ بھوکوں پیاسوں کی مدد کریں، یہ توجہ یہ شاید کسی حد تک درست ہے لیکن ماہ رمضان کا صرف اتنا مقصد نہیں بلکہ رمضان مسلمانوں کے لیے ریفریشر کورس ہوتاہے۔
اﷲکو یہ یقین دلانا کہ ہم آپ کے حکم پر جائز اورحلال چیزیں چھوڑ سکتے ہیں تو حرام کیوں نہیں چھوڑیں گے ،جب کہ اس مقصد کو بھی الٹ دیاگیا ہے، ہم حلال چیزیں کھانا تو چھوڑ دیتے ہیں لیکن حرام ہرگزنہیں چھوڑتے۔
طرح طرح کے ہنر مند اورکرتب بازاس میں اپنے اپنے کمالات کامظاہرہ کرتے ہیں اور ہرلحاظ سے اس ماہ مقدس کی روح کو مجروح بلکہ فتوح کرکے انعامات حاصل اور و صول کرتے ہیں۔ عام بازاروں میں جو میلے لگتے ہیں، وہ تو تقریباً ہر ہرلحاظ سے ماہ رمضان کے تقاضوں کے برعکس ہوتے ہیں بلکہ میلوں، ٹھیلوں کی بھی تضیحک ہوتی ہے کہ باقاعدہ ایک پشتو کہاوت کے مطابق ہوتے ہیں۔
اس پشتو کہاوت کے مطابق، بازار کیا ہے تھپڑ بازی کامقابلہ ہے، جدید اصطلاح میں اسے باکسنگ رنگ بھی کہاجاتا ہے جہاں تجربہ کار کھلاڑی ہی جیتے ہیں،بلکہ آج کل تو جب بھی رمضان کا مہینہ آتاہے، ہم بازار جانا چھوڑ دیتے ہیں، کوئی کس دل سے نہتے خریداروں پر شیروں بھیڑوں چیتوں یہاں تک کہ گیدڑوں اورکتے بلیوں کو حملہ آوردیکھ سکتاہے ۔
خیریہ تو سب کے دیکھے ہوئے عام مناظر ہیں جو رمضان کے لیے خصوصی طورپر مرتب کیے جاتے ہیں، ہم ذرا شوبزکلاکاروں اور بناوٹ کاروں کے ہاتھوں ''رمضان'' کا حشر نشر دیکھتے ہیں، تو اس زرخیز ذہن کو داد نہ دینا بہت ناانصافی ہوگی جس نے ٹی وی اسکرین پر ''نیا رمضان'' متعارف کرایا جو آج کل ٹی وی اسکرین کا مستقل حصہ ہے۔
دین آن سکر ین ہوا تو سب کو معلوم ہے کہ اسکرین تو نام ہی روپ بہروپ کے کھیل کا ہے، تو اسکرین کے کھلاڑیوں نے وہی کیا جو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں۔ اس تجارت میں منافع توقع سے بھی زیادہ بڑھا تو ''داڑھی'' فیشن بن گئی ۔
جو آج کل اتنا زیادہ مروجہ اورہمہ گیر ہے کہ پڑوسی ملک کی اسکرینوں پر بھی ایسا چہرہ بہت کم ہی دکھائی دیتاہے جس پر شوبز والی مخصوص داڑھی کا میک اپ نہ ہو۔
ہمارے ساتھ بانگ حرم کے دفتر میں ایک کاتب تھا جو حافظ تھا یا نہیں لیکن لوگ اسے حافظ کہتے تھے، وہ سارا سال یا تو کلین شیو میں رہتا تھا یاداڑھی کو زیرومشین کے تلے رکھتا تھا لیکن جیسے ہی رمضان کی آمد آمد ہوتی تو داڑھی بڑھنے لگتی اور وہ رمضان میں کسی گاؤں کی مسجد میں تراویح اور ختم القرآن کی جاب پکڑ لیتا اور پھر جیسے ہی عید گزرتی،
داڑھی گھٹتے گھٹتے زیرو پر آجاتی ،اب یہ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ تراویح میں جو ختم القرآن کرتا ہے، اس میں کیا پڑھتا ہے، مسلمانوں کے خیال میں ویسے بھی قرآن پڑھنے اور سمجھنے کی چیزنہیں بلکہ سننے سنانے کی چیزہے ، وہ قرآن جو مولاناحالی کے مطابق
اتر کرحرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
وہ نسخہ کیمیا تو دلوںسے نکل کر طاقوں اور غلافوں کی زینت بنایاگیا ہے ، اس خلا سے فائدہ اٹھا کر نوٹکی بازوں نے فائدہ اٹھایا، دین کو کاروبار میں داخل کردیا، اب یہ انڈسٹری ہے ،کارخانہ ہے، دکان ہے اور سامان تجارت ہے۔
کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ یہ جو ٹی وی اسکرینوں میں جو کچھ ہوتا ہے ، اس پر ہم تو واویلا کر رہے ہیں لیکن جب دین کو جاننے والے ہی اسکرین کے جادو کا شکار ہوجائیں تواس کامطلب کیا ہے ؟ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی ، یہ بولنے والا سمجھتا ہے نہ سننے والا۔ ہمارے خیال میں اگر ''حافظ'' کا معاملہ درمیان میں نہ ہوتا تو رمضان میں پوری تراویح کو بھی اسکرین پر منتقل کیاجاسکتاہے ۔
آج کی نوجوان نسل کو یاد نہیں ہوگا کہ جب لاوڈ اسپیکر آیا تو اس میں اذان دینے پر بے تحاشا اعتراضات ہوئے۔ کوئی یہ دلیل دیتا کہ لاؤڈ اسپیکر میں سے نکلنے والی آواز اصل نہیں بلکہ مصنوعی اور تبدیل ہوجاتی ہے ،یہ الیکٹرانک آلات سے نکلی ہوئی آواز ہوتی ہے لیکن آج یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے بلکہ کوشش کی جاتی ہے کہ ہائی فائی فریکونسی والا لاوڈ اسپیکر رکھا جائے اوراسے کبھی بند نہ کیاجائے ۔
حرف آخر یہ ہے کہ ہمارے ہاں عموماً کہا جاتاہے کہ ماہ رمضان کا مقصد بھوک، پیاس کی شدت کا احساس دلاناہے تاکہ مسلمانوں کو بھوک اور پیاس کا احساس ہو اور وہ بھوکوں پیاسوں کی مدد کریں، یہ توجہ یہ شاید کسی حد تک درست ہے لیکن ماہ رمضان کا صرف اتنا مقصد نہیں بلکہ رمضان مسلمانوں کے لیے ریفریشر کورس ہوتاہے۔
اﷲکو یہ یقین دلانا کہ ہم آپ کے حکم پر جائز اورحلال چیزیں چھوڑ سکتے ہیں تو حرام کیوں نہیں چھوڑیں گے ،جب کہ اس مقصد کو بھی الٹ دیاگیا ہے، ہم حلال چیزیں کھانا تو چھوڑ دیتے ہیں لیکن حرام ہرگزنہیں چھوڑتے۔