اب کیا ہوگا
عدلیہ کے اندر اتنی تقسیم ہے کہ تین رکنی بنچ کے لیے غیرمعمولی فیصلہ کرنا ممکن نظر نہیں آتا
ایک سوال سب پوچھ رہے ہیں کہ خوشدامن کی آڈیو آنے کے بعد چیف جسٹس پاکستان کیا کریں گے؟ عمومی رائے تو یہ ہے کہ جواب نہایت سخت ہوگا۔ یہ بھی بحث ہے کہ سخت جواب کیا ہو سکتا ہے؟
یہ سوال بھی ہے کیا چیف جسٹس واقعی غصہ نکالیں گے یا اس ایشو کو نظر انداز کر کے اپنا کام جاری رکھیں گے، بہرحال ان سب سوالوں کے جواب 27اپریل کو پنجاب کے انتخابات کے کیس کی سماعت میں ہی مل سکیں گے۔
یہ سوال کیوں ہے کہ چیف جسٹس کوئی جواب دیں گے، رد عمل دیں گے۔ دوستوں کی رائے ہے کہ جب چیف جسٹس پاکستان نے جسٹس مظاہر علی نقوی کو بنچ میں رکھ کر ایک خاموش پیغام دیا تھا۔ عام فہم زبان میں خاموش پیغام یہی تھا کہ میں جسٹس مظاہر علی نقوی کے ساتھ کھڑا ہوں۔ اسی لیے جسٹس مظاہر علی نقوی کے خلاف ریفرنس فائل ہونے کے باوجود سپریم جیوڈیشل کونسل کا اجلاس نہیں بلایا جا رہا ہے۔
حالانکہ اس سے قبل جسٹس شوکت صدیقی اور جسٹس قاضیٰ فائز عیسیٰ کے معاملے میں سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس فوری بلایا گیا تھا بلکہ کارروائی بھی فوری شروع کر دی گئی تھی۔ دوستوں کی رائے میں چیف جسٹس پاکستان نے ایک نہیں بلکہ کئی خاموش پیغام دیے ہیں۔
اسی تناظر میں یہ قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ اب بھی خاموش پیغام دیا جائے گا یا کھلا اور سخت پیغام دیں گے یا کوئی جوابی سخت ایکشن کریں گے۔ تحریک انصاف کے دوستوں کو امید ہے کہ حکومت بالخصوص وزیر اعظم پر توہین عدالت لگا کر انھیں گھر بھیج دیا جائے گا، انھیں امید ہے کہ اب کیس تیز ہو جائے گا کیونکہ تمام ریڈ لائنز کراس ہو گئی ہیں لہٰذا اب حکمرانوں کے گھر جانے کا وقت ہو گیا ہے۔ تحریک انصاف کی امیدیں کتنی پوری ہوںگی۔ یہ بات بھی 27کو ہی طے ہوگی۔
کیا چیف جسٹس پاکستان کو آڈیو مکمل طور پر نظر انداز کر دینا چاہیے۔ اگر باقی لیک ہونے والی آڈیوز کو نظر انداز کیا گیا ہے تو پھر یہ خواتین کی گفتگو پر مشتمل آڈیو بھی نظر انداز کر دینا چاہیے۔
اگر مریم نواز کی آڈیو پر کوئی ایکشن نہیں ہوا تو اب بھی نہیں ہونا چاہیے۔ اگر باقی کسی کی آڈیو پر کوئی ایکشن نہیں ہوا تو اب بھی نہیں ہونا چاہیے۔
یہی یکساں نظام انصاف کی روح ہے۔ ججز کے خاندانوں پر بھی وہی قوانین لاگو ہیں جوعام شہریوں پر لاگو ہیں، انھیں کوئی خصوصی رعایت نہیں مل سکتی۔ اس لیے اس بیانیے میں کوئی جان نہیں ہے کہ اب کوئی طوفان آگیا ہے۔اگر وزیر اعظم کی آڈیو لیک سے کچھ نہیں ہوا تو اب بھی کچھ نہیں ہونا چاہیے۔اگر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی آڈیو سے کوئی طوفان نہیں آیا تو اب بھی نہیں آنا چاہیے۔
میں سمجھتا ہوں آج تنازعہ کی بڑی وجہ یہ تین رکنی بنچ کا فیصلہ ہے ، اگر معاملہ تین رکنی بنچ سے فل کورٹ کو چلا جاتا تو شاید حالات اتنے خراب ہی نہ ہوتے،اس لیے اس لڑائی کو آج بھی ختم کرنا ہے تو فل کورٹ کی طرف جانا ہوگا۔ سپریم کورٹ کے سنیئر ججز کو اہم کیسز کے بنچ میں شامل کرنا ہوگا ورنہ تنازعہ اور بحران دونوں بڑھتے جائیں گے۔
حکومت نے تو ایک پوزیشن لے لی ہے، میں اس پر کوئی رائے نہیں دینا چاہتا لیکن غلط یا صحیح ایک پوزیشن لے لی گئی ہے۔ جیسے عمران خان کے بیانیے کے غلط یا صحیح ہونے سے قطع نظر وہ بیانیہ موجود رہا ہے، اسی طرح حکمران جماعت کا بھی ایک بیانیہ موجود ہے، موجود ہ آڈیوز اس بیانیے کو دلیل اور طاقت دے رہی ہیں۔ اس لیے ہمیں سمجھنا ہوگا کہ بنچ فکسنگ کے سوال اب نظر انداز نہیں کیے جا سکتے، چیف جسٹس کے سوموٹو کا اختیار اب اس طرح مزید نہیں چل سکتا۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا حکومت بند گلی میں ہے یا سپریم کورٹ بند گلی میں ہے۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیاچیف جسٹس اس قدر مضبوط ہیں کہ وزیر اعظم کو توہین عدالت میں گھر بھیج سکیں۔ لوگ ماضی کی مثالیں دیتے ہیں لیکن بھول جاتے ہیں کہ ماضی میں عدلیہ اور بالخصوص چیف جسٹس صاحبان کو مقتدر حلقوں کی حمایت حا صل تھی، سیاسی حمایت بھی حاصل تھی۔
اب تو عدلیہ کے اندر اتنی تقسیم ہے کہ تین رکنی بنچ کے لیے غیرمعمولی فیصلہ کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ آج مقتدر حلقے غیرسیاسی ہیں ، ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں عدلیہ کے فیصلوں ساتھ نہیں کھڑی نظرا ٓرہیں، صرف تحریک انصاف کی حمایت کافی نہیں۔ پارلیمان بھی ڈٹ کر کھڑی نظر آرہی ہے۔
عمران خان پارلیمان میں عدلیہ کی کوئی حمایت نہیں کر سکتے۔ ماضی میں عدلیہ کو ایسے فیصلوں کے وقت مکمل سیاسی حمایت حاصل رہی ہے۔ ثاقب نثار کو نواز شریف کو گھر بھیجنے کے معاملے میں نہ صرف مقتدر حلقوں کی حمایت حاصل تھی بلکہ پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم ، تحریک انصاف سمیت سیاسی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل تھی، نواز شریف سیاسی تنہائی کا شکار تھے۔
یوسف رضا گیلانی کی دفعہ بھی اسٹبلشمنٹ عدلیہ کے ساتھ کھڑی نظر آرہی تھی، ن لیگ ساتھ تھی، اب اکیلے عمران خان کی حمایت کافی نہیں۔ لیکن پھر بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ تین رکنی بنچ کسی دباؤ میں ہے کیونکہ ابھی تک تمام تر محاذ آرائی کے باوجود تین رکنی بنچ اپنی جگہ قائم ہے۔
لہٰذا دوستوں کی رائے ہے کہ یہ بنچ معاملات کو آگے لے کر جائے گا ، آڈیولیک سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ معاملات اپنے اسکرپٹ کے مطابق ہی آگے بڑھیں گے بلکہ تیز ہو جائیں گے۔ میں اب بھی یہ سمجھتا ہوں کہ اگرمعاملات کو سلجھانے کی طرف قدم نہیں بڑھایا گیا تو نقصان نظام انصاف کا ہی ہوگا۔