سستی اور محفوظ ٹرانسپورٹ فراہم کرنے میں تانگہ اہم ذریعہ

تانگے میں جتا گھوڑا سڑک کی تال سے پاؤں ملاکر دھن بجاتا تو آواز کانوں کو بھلی لگتی

اس ثقافت کو بحال کرنا ضرورت، پارکوں میں تانگے کے ٹریک بنائے جائیں، زاہد رفیق ۔ فوٹو : فائل

عوام کو سستی اور محفوظ ٹرانسپورٹ فراہم کرنے میں تانگہ اہم ذریعہ تھا، تانگہ کبھی شاہی سواری بھی ہوا کرتی تھی۔

مغلیہ دور میں شہنشاہوں اور شہزادیوں کو لے کر جب بڑی بڑی بگھیاں محل سے نکلتیں تو راستوں پر محو انتظار عوام انھیں حسرت سے دیکھتے، کچھ منچلے موسم سے لطف اندوز ہونے کیلیے شاہی سواری کا استعمال کرتے تھے لیکن دورِ حاضر میں تانگہ سازی اور تانگہ سوار دونوں ختم ہوچکے ہیں۔


آنے والی نسلیں تانگے کا ذکر صرف کتابوں میں پائیں گی۔ راولپنڈی میں اس شاہی سواری کا اپنا ہی مزہ تھا ،کھلی فضا میں تانگے میں جتا گھوڑا سڑک کی تال سے پاؤں ملاکر دھن بجاتا تو یہ آواز کانوں کو بھلی لگتی، تانگہ بنانے والے کاریگر آج بھی اس کام میں مصروف ہیں مگر یہ تانگے اب شاہرات پر دوڑانے کیلیے نہیں بلکہ شوقین حضرات اور بڑے زمیندار اپنی ثقافت کو زندہ رکھنے کیلیے آرڈر دے کر تیار کراتے ہیں۔

ایکسپریس سے گفتگو میں تانگہ ساز زاہد رفیق اعوان کا کہنا تھا یہ ہمارا خاندانی کام ہے ڈھوک کھبہ میں ہماری ورکشاپ ہے بی اے کے بعد والد نے مجھے یہ ہنر سکھایا لیکن نئی نسل میں سے اب کوئی بھی یہ کام سیکھنے کو تیار نہیں۔سی این جی اور اب چنگ چی رکشہ کلچر کو فروغ مل گیا اور یوں تانگہ سواری کلچر کا خاتمہ ہو گیا۔

ان کا کہنا تھا اس ثقافت اور روایت کو بحال کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ بڑے پارکوں میں تانگے کے لیے ٹریک بنائے جائیں۔
Load Next Story