سوات دھماکا اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ
مراد سعید اس سانحے پر بھی ریاستی اداروں پر الزام تراشیوں اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے باز نہیں آرہے
سوات میں ایک سانحہ ہوا جس میں سی ٹی ڈی تھانے میں دھماکا ہوا۔ اس کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹس تیار ہیں۔ اس سانحے پر دو طرح کی آراء سامنے آرہی ہیں۔ ایک رائے کے مطابق یہ سانحہ مس مینجمنٹ کی وجہ سے پیش آیا۔
ان علاقوں میں آپریشن دہائیوں سے جاری ہے۔ ایک فُل فلیج آپریشن ہوچکا ہے اور اس کے بعد بھی مختلف اطلاعات پر چند گھنٹے کا آپریشن ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں دہشتگرد گرفتار ہوتے ہیں، ان سے اسلحہ اور بارودی مواد برآمد ہوتا ہے۔ یہ سارا اسلحہ اور بارودی مواد سرکار اپنے پاس جمع کرتی ہے۔ اس کا مکمل ریکارڈ مرتب ہوتا ہے۔ اس سانحے میں بھی دو دھماکے ہوئے اور سی ٹی ڈی کی کسٹڈی میں موجود اسلحہ بھی تباہ ہوا۔ ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق یہ واقعہ شارٹ سرکٹ کے باعث پیش آیا۔
پی ٹی آئی کے سرگرم رہنما مراد سعید نے اس سانحے کا الزام براہ راست ریاستی اداروں پر لگاتے ہوئے اسے دہشتگردانہ کارروائی کہا ہے۔ مراد سعید نے ایک جلوس بھی نکالا، جس میں سیکڑوں افراد نے شرکت کی۔ مراد سعید اصل میں پی ٹی آئی کے مذموم بیانیے کو آگے بڑھا رہے ہیں جس میں فوج کو بدنام کرنا شامل ہے۔ انہیں ایک موقع ملا ہے اور وہ اس کو کیش کروانے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ یہ بھول رہے ہیں کہ یہ وہی فوج ہے جس نے ایک بڑے مذہبی طبقے کی مخالفت کے باوجود سوات میں آپریشن کرکے طالبان کو شکست دی تھی اور وہ سوات جو خوف کی علامت بن گیا تھا، جہاں پر لاشیں چوک میں لٹکائی جاتی تھیں، جہاں خودساختہ شریعت کی خلاف ورزی کی سزا سرعام موت تھی، اس کو دوبارہ اس قابل کیا کہ وہاں مقامی اور بین الاقوامی سیاح بلاخوف و خطر گھوم سکیں۔
شاید قصور مراد سعید کا بھی نہیں، اگر ہم پی ٹی آئی کی ساکھ کو دیکھیں تو ہمیں سمجھ میں آجائے گا کہ مراد سعید بغیر عمران خان کی ہدایت کے کچھ نہیں کرتے۔ عمران خان نے ہی اُنہیں اس موقع کو کیش کروانے کا کہا ہوگا۔ پی ٹی آئی کا طریقہ واردات ایک ہی ہے کہ وہ موقع کا بیانیہ بناتی ہے اور اس کو شدت کے ساتھ پھیلاتی ہے۔ اس بیانیے میں 80 فیصد سے زیادہ جھوٹ ہی ہوتا ہے۔ یہ بیانیے بنانے کی ماہر جماعت ہے اور اس کا بیانیہ اس کے ہمدرد دونوں ہاتھوں سے لیتے ہیں۔ اب چاہے بعد میں اُسی بیانیے میں سے جھوٹ در جھوٹ برآمد ہوجائے، نہ تو یہ جماعت شرمندہ ہوتی ہے اور نہ ہی وہ جو اس کے خریدار ہوتے ہیں۔
مراد سعید سمیت سب ہی کی تاریخ کی درستگی کےلیے اب کچھ عرض کرتے ہیں کہ آج آپ بول رہے ہیں تو کل تک کیوں خاموش تھے؟ عمران خان تو ان ہی طالبان کو واپس لاکر بسانے کے خواہاں رہے۔ اس کےلیے وہ کام بھی کرتے رہے اور اپنے جذبات کا اظہار بھی کرتے رہے۔ غیر ملکی نشریاتی اداروں کو اپنے انٹرویوز میں وہ اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ ٹی ٹی پی کے کچھ گروپس کے ساتھ بات چیت میں ملوث رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں، انہوں نے ہتھیار ڈالنے کی شرط پر عام معافی کا اعلان بھی کیا تھا۔ یہاں یہ واضح رہے کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے ایسا کچھ بھی نہیں کہا گیا۔ اس حوالے سے ایک سابق جرنیل پر بھی سنجیدہ نوعیت کے الزامات ہیں۔
اگر ہم یہ مان لیں کہ اتنے بڑے فیصلے ایک جماعت یا فرد واحد نہیں بلکہ طاقت کے سب مراکز مل کر کرتے ہیں تو یہ مراد سعید باتیں کس کو سنا رہے ہیں؟ بلکہ، خان صاحب تو کہتے تھے کہ سب فیصلے میں خود کرتا ہوں اور کسی کی ڈکٹیشن نہیں لیتا ہوں تو کیا مراد سعید، خان صاحب کو باتیں سنا رہے ہیں؟
تاریخ کی اپنی ایک ترتیب ہے، اس کو نظر انداز کرنا تو ممکن ہی نہیں۔ تاہم ماضی کے بیانات کے مطابق تو فوج اور عمران خان ایک پیج پر تھے اور یہ پیج تب تک قائم تھا جب تک کہ ان کی حکومت عدم اعتماد کے نتیجے میں ختم نہیں ہوئی۔ اس کے بعد بھی ایک بیانیہ بنا جس کے غبارے سے ہوا اب تک نکل چکی ہے، لیکن تحریک انصاف کے سپورٹرز آج بھی اس بیانیے کے خریدار ہیں۔ اب یہ ایک الگ بات کہ اُسی صاحب کے کہنے پر اپنی صوبائی حکومتیں ختم کردیں جن پر نجانے کیا کیا الزامات تھے اور جو پی ٹی آئی کی اپنی منطق کے مطابق نظام بدلنے کے معمار تھے۔ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!
مراد سعید حالیہ واقعے کو بھی دہشتگردی سے جوڑ رہے ہیں جبکہ حکومت اور افواج کا کہنا ہے کہ یہ کوئی دہشتگردی کی کارروائی نہیں بلکہ ایک سانحہ ہے۔ دستیاب اطلاعات تک ہمیں حکومت کی بات کو ہی اہمیت دینی ہوگی۔ تاہم مراد سعید چونکہ اس علاقے سے تحریک انصاف کے رہنما ہیں لہٰذا اُن کا بیان بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اتنی جلدی اور عجلت میں دہشتگردی کا الزام صرف اس لیے لگایا جارہا ہے کیونکہ یہ سابق حکومت میں جو کچھ کرتے رہے ہیں، انہیں اس کا بخوبی علم ہے اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ یہ میڈلز بھی افواج کے گلے میں ڈال کر خود سائیڈ پر ہوجائیں۔ اسی لیے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے وہ ایسی گھٹیا ٹویٹس کررہے ہیں جو ان کے بیانیے کو تقویت دیں۔ ان تمام امور کا واحد مقصد افواج پاکستان کو بدنام کرنے کے سوا کچھ نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ان علاقوں میں آپریشن دہائیوں سے جاری ہے۔ ایک فُل فلیج آپریشن ہوچکا ہے اور اس کے بعد بھی مختلف اطلاعات پر چند گھنٹے کا آپریشن ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں دہشتگرد گرفتار ہوتے ہیں، ان سے اسلحہ اور بارودی مواد برآمد ہوتا ہے۔ یہ سارا اسلحہ اور بارودی مواد سرکار اپنے پاس جمع کرتی ہے۔ اس کا مکمل ریکارڈ مرتب ہوتا ہے۔ اس سانحے میں بھی دو دھماکے ہوئے اور سی ٹی ڈی کی کسٹڈی میں موجود اسلحہ بھی تباہ ہوا۔ ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق یہ واقعہ شارٹ سرکٹ کے باعث پیش آیا۔
پی ٹی آئی کے سرگرم رہنما مراد سعید نے اس سانحے کا الزام براہ راست ریاستی اداروں پر لگاتے ہوئے اسے دہشتگردانہ کارروائی کہا ہے۔ مراد سعید نے ایک جلوس بھی نکالا، جس میں سیکڑوں افراد نے شرکت کی۔ مراد سعید اصل میں پی ٹی آئی کے مذموم بیانیے کو آگے بڑھا رہے ہیں جس میں فوج کو بدنام کرنا شامل ہے۔ انہیں ایک موقع ملا ہے اور وہ اس کو کیش کروانے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ یہ بھول رہے ہیں کہ یہ وہی فوج ہے جس نے ایک بڑے مذہبی طبقے کی مخالفت کے باوجود سوات میں آپریشن کرکے طالبان کو شکست دی تھی اور وہ سوات جو خوف کی علامت بن گیا تھا، جہاں پر لاشیں چوک میں لٹکائی جاتی تھیں، جہاں خودساختہ شریعت کی خلاف ورزی کی سزا سرعام موت تھی، اس کو دوبارہ اس قابل کیا کہ وہاں مقامی اور بین الاقوامی سیاح بلاخوف و خطر گھوم سکیں۔
شاید قصور مراد سعید کا بھی نہیں، اگر ہم پی ٹی آئی کی ساکھ کو دیکھیں تو ہمیں سمجھ میں آجائے گا کہ مراد سعید بغیر عمران خان کی ہدایت کے کچھ نہیں کرتے۔ عمران خان نے ہی اُنہیں اس موقع کو کیش کروانے کا کہا ہوگا۔ پی ٹی آئی کا طریقہ واردات ایک ہی ہے کہ وہ موقع کا بیانیہ بناتی ہے اور اس کو شدت کے ساتھ پھیلاتی ہے۔ اس بیانیے میں 80 فیصد سے زیادہ جھوٹ ہی ہوتا ہے۔ یہ بیانیے بنانے کی ماہر جماعت ہے اور اس کا بیانیہ اس کے ہمدرد دونوں ہاتھوں سے لیتے ہیں۔ اب چاہے بعد میں اُسی بیانیے میں سے جھوٹ در جھوٹ برآمد ہوجائے، نہ تو یہ جماعت شرمندہ ہوتی ہے اور نہ ہی وہ جو اس کے خریدار ہوتے ہیں۔
مراد سعید سمیت سب ہی کی تاریخ کی درستگی کےلیے اب کچھ عرض کرتے ہیں کہ آج آپ بول رہے ہیں تو کل تک کیوں خاموش تھے؟ عمران خان تو ان ہی طالبان کو واپس لاکر بسانے کے خواہاں رہے۔ اس کےلیے وہ کام بھی کرتے رہے اور اپنے جذبات کا اظہار بھی کرتے رہے۔ غیر ملکی نشریاتی اداروں کو اپنے انٹرویوز میں وہ اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ ٹی ٹی پی کے کچھ گروپس کے ساتھ بات چیت میں ملوث رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں، انہوں نے ہتھیار ڈالنے کی شرط پر عام معافی کا اعلان بھی کیا تھا۔ یہاں یہ واضح رہے کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے ایسا کچھ بھی نہیں کہا گیا۔ اس حوالے سے ایک سابق جرنیل پر بھی سنجیدہ نوعیت کے الزامات ہیں۔
اگر ہم یہ مان لیں کہ اتنے بڑے فیصلے ایک جماعت یا فرد واحد نہیں بلکہ طاقت کے سب مراکز مل کر کرتے ہیں تو یہ مراد سعید باتیں کس کو سنا رہے ہیں؟ بلکہ، خان صاحب تو کہتے تھے کہ سب فیصلے میں خود کرتا ہوں اور کسی کی ڈکٹیشن نہیں لیتا ہوں تو کیا مراد سعید، خان صاحب کو باتیں سنا رہے ہیں؟
تاریخ کی اپنی ایک ترتیب ہے، اس کو نظر انداز کرنا تو ممکن ہی نہیں۔ تاہم ماضی کے بیانات کے مطابق تو فوج اور عمران خان ایک پیج پر تھے اور یہ پیج تب تک قائم تھا جب تک کہ ان کی حکومت عدم اعتماد کے نتیجے میں ختم نہیں ہوئی۔ اس کے بعد بھی ایک بیانیہ بنا جس کے غبارے سے ہوا اب تک نکل چکی ہے، لیکن تحریک انصاف کے سپورٹرز آج بھی اس بیانیے کے خریدار ہیں۔ اب یہ ایک الگ بات کہ اُسی صاحب کے کہنے پر اپنی صوبائی حکومتیں ختم کردیں جن پر نجانے کیا کیا الزامات تھے اور جو پی ٹی آئی کی اپنی منطق کے مطابق نظام بدلنے کے معمار تھے۔ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!
مراد سعید حالیہ واقعے کو بھی دہشتگردی سے جوڑ رہے ہیں جبکہ حکومت اور افواج کا کہنا ہے کہ یہ کوئی دہشتگردی کی کارروائی نہیں بلکہ ایک سانحہ ہے۔ دستیاب اطلاعات تک ہمیں حکومت کی بات کو ہی اہمیت دینی ہوگی۔ تاہم مراد سعید چونکہ اس علاقے سے تحریک انصاف کے رہنما ہیں لہٰذا اُن کا بیان بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اتنی جلدی اور عجلت میں دہشتگردی کا الزام صرف اس لیے لگایا جارہا ہے کیونکہ یہ سابق حکومت میں جو کچھ کرتے رہے ہیں، انہیں اس کا بخوبی علم ہے اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ یہ میڈلز بھی افواج کے گلے میں ڈال کر خود سائیڈ پر ہوجائیں۔ اسی لیے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے وہ ایسی گھٹیا ٹویٹس کررہے ہیں جو ان کے بیانیے کو تقویت دیں۔ ان تمام امور کا واحد مقصد افواج پاکستان کو بدنام کرنے کے سوا کچھ نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔