وہ عیدیں جو واقعی میٹھی ہوتی تھیں
اب کس کے ہاں شیرینی دینے کے بہانے ’عید مبارک‘ کہنے جائیں
بچپن میں جانے ہمیں رمضان کا زیادہ انتظار ہوتا تھا یا عید کا اس کا تعین کرنا تقریباً ناممکن ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ عید کی طرح رمضان بھی ہماری زندگی کا ایک بھرپور تیوہار ہوا کرتا تھا جب روزے رکھنے کی عمر کو نہیں پہنچے تھے، تب بھی ایک عجیب طرح کی مسرت اور شادمانی ہمارے دلوں کو بھر دیتی تھی شاید اس میں کچھ سبب سحر وافطار کے اہتمام کے ساتھ مدرسے اور اسکول سے جلدی چھٹی کا بھی رہا ہوگا، لیکن نہیں، اس کے سوا بھی کچھ اردگرد کا ماحول اور سماں ہی ایسا ہوتا تھا کہ ہمارے دل خوش ہو جاتے تھے، اس کے بعد عید کے آنے کی خوشی اپنی جگہ، لیکن ہمیں رمضان کے جلدی سے گزر جانے کا ملال بھی ہمیشہ ہوتا تھا۔
کہتے ہیں کہ وقت تو بدلتا رہتا ہے، اور انسان کو اپنے بچپن کی بے فکری تاعمر یاد رہتی ہے، شاید یہ کچھ اس وقت کی سوغات بھی ہوتی ہے اور پھر زمانہ تو نئی انگڑائی لیتا ہے، رِیتی رواج بھی بدلاﺅ لاتے ہیں اس وقت بے فکری سے اچھل کود کرنا، بادشاہوں کی طرح زندگی بسر کرنا اپنی جگہ، فرصت سے گھومنا پھرنا اور بھاگ دوڑ کرنے کا دوبارہ کبھی نہ ملنے والے لطف کے سوا بھی تو چیزیں وقت کے ساتھ ساتھ کتنی بدل جاتی ہیں۔
ہم اپنی زندگی کی تلخیوں اور فکروں کا کیا ذکر کریں، وقت گزرنے کے ساتھ لوگ بھی تو وہ نہیں رہتے، پھر کتنے ہی بزرگ ہم سے چھوٹ کر جا چکے ہوتے ہیں کتنے ہی گھرانے سُونے ہو چکے ہوتے ہیں اور کتنے ہی لوگوں کے رویوں میں بھی بوجوہ وقت کی گرد پڑ چکی ہوتی ہے! اب کس کے ہاں شیرینی دینے کے بہانے 'عید مبارک' کہنے جائیں، اب کون رشتے دار ہمارے ہاں آ کر بے فکری سے بہت سارا وقت گزاریں اب کہاں کی ہم جولیاں، اور وہ کہاں کے ہم عمر، سب اپنی اپنی دِشاﺅں میں کہیں نکل گئے، پاس پڑوس کے سارے پرانے گھر بکھر گئے، اپنا محلہ سچ پوچھیے تو اب اپنا رہا ہی نہیں پرانے رشتے داروں میں وہ بات نہیں رہی، تو وہ ہر وقت دیوار سے لگے ہوئے ہم سائے بھی تِتّر بِتر ہو گئے اب ان میٹھے تیوہاروں کو تو پھیکا ہونا ہی تھا ناں
بقول ممتاز شاعر عرفان مرتضیٰ کے کہ
"اب بھی ایسا ہوتا ہوگا اور عید سے پہلے کی راتوں میں مہندی اب بھی لگتی ہو گی چوڑی والے اب بھی آ کر اپنے تخت سجاتے ہوں گے کچھ یاروں کو لاتے ہوں گے چوڑی بھی پہناتے ہوں گے ہاتھ میں لے کر ہاتھ کسی کا جملے کستے جاتے ہوں گے اور عید جو آتی ہو گی یارو کچھ مہماں آ جاتے ہوں گے لوگ ہمارے گھر پر یارو میٹھا کھانے آتے ہوں گے دھوبی بھی آ جاتا ہو گا سقہ بھی آ جاتا ہو گا عیدی لینے والوں کا اک میلہ سا لگ جاتا ہو گا اب بھی ایسا ہوتا ہو گا؟"
اپنے گزرے وقت کے تہواروں کی بُہتیری یادیں تو ہم پہلے ہی لکھ چکے، آج ہمیں عید کی مناسبت سے اپنی ایک سرگرمی یاد آرہی ہے، جو عید کارڈوں سے متعلق تھی، اب پہلے تو اس تبدیلی کا بھی 'رونا' کہ کس طرح پندرہ، بیس سال پہلے تک رمضان کے بازار میں بچوں کی توجہ کا محور یہ انواع اقسام کے عید کارڈ ہوا کرتے تھے ایک سے بڑھ کر ایک خوب صورت اور دیدہ زیب، مہنگے سے مہنگے عید کارڈ آپ کے پیغام تہنیت کے بھرپور اور آپ کے اہم ہونے کی خبر دیتے تھے ابتداً تو بہت سادہ ہی سے کارڈ آتے رہے، پھر اس میں وقت گزرنے کے ساتھ ایک سے بڑھ کر ایک تخلیقی گُر آزمائے جانے لگے، جس میں کارڈ کھولیے تو اندر ایک اور ہی جہاں برآمد ہوتا تھا۔ اور سب سے مہنگا کارڈ اپنے سب سے اچھے دوست کی نذر کیا جاتا تھا اور اس کے بعد جس سے جیسا تعلق ہوتا اُسے اس کے حساب سے عید کارڈ پیش کر دیا جاتا تھا اور پھر اس کے اندر باقاعدہ یہ لکھنا کہ "میرے اور میرے تمام گھر والوں کی طرف سے آپ کو اور آپ کے تمام گھر والوں کو دلی عید مبارک قبول ہو! مِن جانب: فلاں فلاں" اور اس کے سامنے والے ورقے پر بڑے اہتمام سے مصرع آڑھے ترچھے، بہت خوب صورت کر کے 'عید کے نئے سے نئے اور اچھے سے اچھے اشعار لکھنا جس میں کہیں مبارک باد ہوتی، تو کہیں بین السطور نہ ملنے کی شکایت کا تیکھا انداز، کہیں پر مذاق اور طنز اور کہیں اور کوئی ایسی بات جو دنوں تک یاد رکھی جاتی اور اس طرح گویا عید کی مسرتیں دوچند ہو جایا کرتیں، بس یوں سمجھ لیجیے کہ ہم بچے اپنی دوستی کا سارا خلوص انھی اشعار میں انڈیلنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے تھے یہ بہت سچے اور بے غرض تعلق ہوا کرتے تھے، تبھی تو عید، عید ہوا کرتی تھی۔ بعد میں ان عید کارڈوں کے اندر صرف نام لکھنے کی گنجائش باقی رہی، باقاعدہ 'پیغام تہنیت' اور اشعار وغیرہ کی جگہ ختم کر دی گئی بس عید مبارک لکھا ہوا ہوتا۔
اب آج کے بچے تو باقاعدہ عید کارڈینے اورلینے کے اس لطف کو شاید محسوس ہی نہیں کر سکتے، ہماری نسل نے تو اس کی حلاوت کو محسوس کیا اور اس کے جوش وخروش کے شاہد ہوئے، عید کے بازاروں میں ایک بڑے سارے تختے پر ایک سے بڑھ کر ایک سجے ہوئے عید کارڈ ایک الگ ہی رونق دکھا رہے ہوتے تھے اور اکثر یہ 'موسمی دکان داری' بھی لڑکے بالے ہی کرتے تھے، جو لگ بھگ رمضان کے پہلے عشرے کے بعد ہی سے عروج پر پہنچ جاتی اور پھر چاند رات تک خوب جاری رہتی ہم یہاں اصل اپنی جس سرگرمی کا تذکرہ کرنا چاہ رہے تھے، وہ عادت ہمیں اسکول کے زمانے کی فرصتوں میں لگی کہ ہم بازار سے 'چارٹ پیپر' لاکر خود اپنے ہاتھ سے طرح طرح کے عید کارڈ بنایا کرتے تھے مختلف عید کارڈوں کے ڈیزائن، پھول پتیاں اور دیگر مناظر کو پوری دل جمعی سے رنگ برنگی پینسلوں اور مارکرز سے خوب سجاتے سنوارتے بالخصوص رمضان کے آخری عشرے میں ہمارا یہی کام ہوتا اور ہمیں گھر میں ڈانٹ پڑتی کہ رمضان کی جاگنے کی راتیں ہیں اور تم لوگ اس قیمتی وقت میں یہ کیا شغل لے کر بیٹھ گئے ہو لیکن ہمیں ہر سال ایک لگن ہوتی تھی اور ہم بڑے اہتمام سے یہ سب کیا کرتے تھے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مشغولیت بھی قصۂ پارینہ بن گئی، تو ایسے میں یہ میٹھی عید کیوں کر پھیکی نہ ہو کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ آج اپنا بچپن گزارنے والے کل نہ جانے ان عیدوں کو کیسے یاد کریں گے کل اور نہ جانے کون سے بدلاﺅ آجائیں گے، اور آج کے بچوں کو یہ عیدیں بھی غنیمت لگنے لگیں گی۔
کہتے ہیں کہ وقت تو بدلتا رہتا ہے، اور انسان کو اپنے بچپن کی بے فکری تاعمر یاد رہتی ہے، شاید یہ کچھ اس وقت کی سوغات بھی ہوتی ہے اور پھر زمانہ تو نئی انگڑائی لیتا ہے، رِیتی رواج بھی بدلاﺅ لاتے ہیں اس وقت بے فکری سے اچھل کود کرنا، بادشاہوں کی طرح زندگی بسر کرنا اپنی جگہ، فرصت سے گھومنا پھرنا اور بھاگ دوڑ کرنے کا دوبارہ کبھی نہ ملنے والے لطف کے سوا بھی تو چیزیں وقت کے ساتھ ساتھ کتنی بدل جاتی ہیں۔
ہم اپنی زندگی کی تلخیوں اور فکروں کا کیا ذکر کریں، وقت گزرنے کے ساتھ لوگ بھی تو وہ نہیں رہتے، پھر کتنے ہی بزرگ ہم سے چھوٹ کر جا چکے ہوتے ہیں کتنے ہی گھرانے سُونے ہو چکے ہوتے ہیں اور کتنے ہی لوگوں کے رویوں میں بھی بوجوہ وقت کی گرد پڑ چکی ہوتی ہے! اب کس کے ہاں شیرینی دینے کے بہانے 'عید مبارک' کہنے جائیں، اب کون رشتے دار ہمارے ہاں آ کر بے فکری سے بہت سارا وقت گزاریں اب کہاں کی ہم جولیاں، اور وہ کہاں کے ہم عمر، سب اپنی اپنی دِشاﺅں میں کہیں نکل گئے، پاس پڑوس کے سارے پرانے گھر بکھر گئے، اپنا محلہ سچ پوچھیے تو اب اپنا رہا ہی نہیں پرانے رشتے داروں میں وہ بات نہیں رہی، تو وہ ہر وقت دیوار سے لگے ہوئے ہم سائے بھی تِتّر بِتر ہو گئے اب ان میٹھے تیوہاروں کو تو پھیکا ہونا ہی تھا ناں
بقول ممتاز شاعر عرفان مرتضیٰ کے کہ
"اب بھی ایسا ہوتا ہوگا اور عید سے پہلے کی راتوں میں مہندی اب بھی لگتی ہو گی چوڑی والے اب بھی آ کر اپنے تخت سجاتے ہوں گے کچھ یاروں کو لاتے ہوں گے چوڑی بھی پہناتے ہوں گے ہاتھ میں لے کر ہاتھ کسی کا جملے کستے جاتے ہوں گے اور عید جو آتی ہو گی یارو کچھ مہماں آ جاتے ہوں گے لوگ ہمارے گھر پر یارو میٹھا کھانے آتے ہوں گے دھوبی بھی آ جاتا ہو گا سقہ بھی آ جاتا ہو گا عیدی لینے والوں کا اک میلہ سا لگ جاتا ہو گا اب بھی ایسا ہوتا ہو گا؟"
اپنے گزرے وقت کے تہواروں کی بُہتیری یادیں تو ہم پہلے ہی لکھ چکے، آج ہمیں عید کی مناسبت سے اپنی ایک سرگرمی یاد آرہی ہے، جو عید کارڈوں سے متعلق تھی، اب پہلے تو اس تبدیلی کا بھی 'رونا' کہ کس طرح پندرہ، بیس سال پہلے تک رمضان کے بازار میں بچوں کی توجہ کا محور یہ انواع اقسام کے عید کارڈ ہوا کرتے تھے ایک سے بڑھ کر ایک خوب صورت اور دیدہ زیب، مہنگے سے مہنگے عید کارڈ آپ کے پیغام تہنیت کے بھرپور اور آپ کے اہم ہونے کی خبر دیتے تھے ابتداً تو بہت سادہ ہی سے کارڈ آتے رہے، پھر اس میں وقت گزرنے کے ساتھ ایک سے بڑھ کر ایک تخلیقی گُر آزمائے جانے لگے، جس میں کارڈ کھولیے تو اندر ایک اور ہی جہاں برآمد ہوتا تھا۔ اور سب سے مہنگا کارڈ اپنے سب سے اچھے دوست کی نذر کیا جاتا تھا اور اس کے بعد جس سے جیسا تعلق ہوتا اُسے اس کے حساب سے عید کارڈ پیش کر دیا جاتا تھا اور پھر اس کے اندر باقاعدہ یہ لکھنا کہ "میرے اور میرے تمام گھر والوں کی طرف سے آپ کو اور آپ کے تمام گھر والوں کو دلی عید مبارک قبول ہو! مِن جانب: فلاں فلاں" اور اس کے سامنے والے ورقے پر بڑے اہتمام سے مصرع آڑھے ترچھے، بہت خوب صورت کر کے 'عید کے نئے سے نئے اور اچھے سے اچھے اشعار لکھنا جس میں کہیں مبارک باد ہوتی، تو کہیں بین السطور نہ ملنے کی شکایت کا تیکھا انداز، کہیں پر مذاق اور طنز اور کہیں اور کوئی ایسی بات جو دنوں تک یاد رکھی جاتی اور اس طرح گویا عید کی مسرتیں دوچند ہو جایا کرتیں، بس یوں سمجھ لیجیے کہ ہم بچے اپنی دوستی کا سارا خلوص انھی اشعار میں انڈیلنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے تھے یہ بہت سچے اور بے غرض تعلق ہوا کرتے تھے، تبھی تو عید، عید ہوا کرتی تھی۔ بعد میں ان عید کارڈوں کے اندر صرف نام لکھنے کی گنجائش باقی رہی، باقاعدہ 'پیغام تہنیت' اور اشعار وغیرہ کی جگہ ختم کر دی گئی بس عید مبارک لکھا ہوا ہوتا۔
اب آج کے بچے تو باقاعدہ عید کارڈینے اورلینے کے اس لطف کو شاید محسوس ہی نہیں کر سکتے، ہماری نسل نے تو اس کی حلاوت کو محسوس کیا اور اس کے جوش وخروش کے شاہد ہوئے، عید کے بازاروں میں ایک بڑے سارے تختے پر ایک سے بڑھ کر ایک سجے ہوئے عید کارڈ ایک الگ ہی رونق دکھا رہے ہوتے تھے اور اکثر یہ 'موسمی دکان داری' بھی لڑکے بالے ہی کرتے تھے، جو لگ بھگ رمضان کے پہلے عشرے کے بعد ہی سے عروج پر پہنچ جاتی اور پھر چاند رات تک خوب جاری رہتی ہم یہاں اصل اپنی جس سرگرمی کا تذکرہ کرنا چاہ رہے تھے، وہ عادت ہمیں اسکول کے زمانے کی فرصتوں میں لگی کہ ہم بازار سے 'چارٹ پیپر' لاکر خود اپنے ہاتھ سے طرح طرح کے عید کارڈ بنایا کرتے تھے مختلف عید کارڈوں کے ڈیزائن، پھول پتیاں اور دیگر مناظر کو پوری دل جمعی سے رنگ برنگی پینسلوں اور مارکرز سے خوب سجاتے سنوارتے بالخصوص رمضان کے آخری عشرے میں ہمارا یہی کام ہوتا اور ہمیں گھر میں ڈانٹ پڑتی کہ رمضان کی جاگنے کی راتیں ہیں اور تم لوگ اس قیمتی وقت میں یہ کیا شغل لے کر بیٹھ گئے ہو لیکن ہمیں ہر سال ایک لگن ہوتی تھی اور ہم بڑے اہتمام سے یہ سب کیا کرتے تھے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مشغولیت بھی قصۂ پارینہ بن گئی، تو ایسے میں یہ میٹھی عید کیوں کر پھیکی نہ ہو کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ آج اپنا بچپن گزارنے والے کل نہ جانے ان عیدوں کو کیسے یاد کریں گے کل اور نہ جانے کون سے بدلاﺅ آجائیں گے، اور آج کے بچوں کو یہ عیدیں بھی غنیمت لگنے لگیں گی۔