کراچی سرکاری کالجوں کو فنڈز کی تقسیم میں بے قاعدگیوں کا انکشاف
برائے نام طلبا کے حامل کالجوں کو ہزاروں انرولمنٹ والے کالجوں سے کئی گنا زیادہ فنڈ دیا گیا ہے
سرکاری کالجوں میں 90 ملین کا اسپورٹس فنڈ ٹھکانے لگانے کے منصوبے کا انکشاف ہوا ہے، برائے نام انرولمنٹ والے اور شام کے کالجوں کو لاکھوں روپے جاری جبکہ ہزاروں انرولمنٹ والے کالجوں کو چند ہزار دے کر بہلانے کی کوشش کی گئی ہے۔
حکومت سندھ کے کالج ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے تحت کراچی سمیت پورے سندھ کے سرکاری کالجوں کو جاری کیے گئے 90 ملین روپے کے اسپورٹس فنڈز میں بڑے پیمانے پر بے قاعدگیوں کی اطلاعات سامنے آئی ہیں، فنڈز مختص کرنے اور اس کا اجرا انرولمنٹ کی بنیاد پر کرنے کے بجائے پسند ناپسند کی بنیاد پر کردیا گیا ہے۔
فنڈز ٹھکانے لگانے کے لیے کراچی میں شام میں چلنے والے کئی ایسے سرکاری کالجوں کو لاکھوں روپے اسپورٹس فنڈ کی مد میں جاری کردیے گئے ہیں جہاں پڑھنے کے لیے طلبہ آتے ہیں اور نہ ہی پڑھانے کے لیے اساتذہ۔
ایوننگ شفٹ میں چلنے والے کالجوں کو کئی کئی لاکھ روپے جاری تو کردیے گئے ہیں جبکہ ایوننگ کالجوں میں انرولمنٹ نہ ہونے کے برابر ہے، جو طلبہ ان کالجوں میں داخلہ لیتے ہیں وہ کالجوں کا رخ نہیں کرتے، ان کالجوں میں تدریس سرگرمیاں ہی برائے نام ہوتی ہیں چہ جائیکہ ان کالجوں میں کھیلوں کی سرگرمیاں کرائی جائیں۔
اس طرح محکمہ کالج ایجوکیشن کے تحت اسپورٹس فنڈز کے اجرا کا سارا معاملہ ہی مشکوک ہوگیا ہے اور اسپورٹس فنڈز مختص کرنے والی کمیٹی پر سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں کہ اس کمیٹی نے آخر کس معیار کو سامنے رکھتے ہوئے کالجوں میں اس فنڈ کی تقسیم کی ہے ۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہزاروں انرولمنٹ کے حامل جن کالجوں کو چند ہزار روپے دیے گئے ہیں ان کالجوں کو دیے جانے والے فنڈز میں سائنسی آلات کا حصہ بھی رکھا گیا ہے اور کالج کو پابند کیا گیا گیا ہے کہ وہ حاصل کردہ چند ہزار کے فنڈ سے اسپورٹس سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اسی رقم سے سائنسی آلات بھی خریدے۔
"ایکسپریس" کو اس سلسلے میں ملنے والی تفصیلات کے مطابق شام کے اوقات میں چلنے والے گورنمنٹ سٹی کالج نمبر 2 کو 3 لاکھ 70 ہزار روپے جاری کیے گئے ہیں، اسی طرح گورنمنٹ کالج کامرس اینڈ اکنامکس نمبر 2 کو 7 لاکھ 45 ہزار روپے، گورنمنٹ سپیریئر کامرس کالج ایوننگ کو 6 لاکھ 5 ہزار روپے دیے گئے ہیں۔
اسی طرح گورنمنٹ ڈگری بوائز کالج گلستان جوہر ایوننگ کو بھی 6 لاکھ 5 ہزار روپے اور شام ہی کے ایک اور کالج قائد ملت گورنمنٹ کالج کو 3 لاکھ 80 ہزار روپے جاری ہوئے ہیں جس سے فنڈز کو ٹھکانے لگانے کا تاثر ابھر رہا ہے۔
دوسری جانب گورنمنٹ کالج مراد میمن گوٹھ جہاں داخلے دینے کے لیے کیپ پالیسی کے بعد میرٹ اوپن کردینے کے باوجود داخلے زیادہ نہیں ہوتے اس کالج کو 7 لاکھ 30 ہزار روپے دیے گئے ہیں، گورنمنٹ ڈگری گرلز کالج پی آئی بی کی انرولمنٹ چند سو میں ہے اس کالج کو 4 لاکھ 10 ہزار روپے دیے گئے ہیں، دختر مشرق گورنمنٹ گرلز کالج کو تقریباً 8 لاکھ روپے دیے گئے ہیں،محتاط اندازے کے مطابق یہاں کی انرولمنٹ بھی چند سو میں ہے۔
سلطان آباد میں قائم چند سو کی انرولمنٹ کے حامل گورنمنٹ ڈگری گرلز کالج ہجرت کالونی کو 6 لاکھ 40 ہزار روپے اور ابراہیم حیدری کے گورنمنٹ ڈگری کالج برائے خواتین کو 7 لاکھ 70 ہزار روپے دے دیے گئے ہیں، اس کے برعکس انرولمنٹ کی بنیاد پر کراچی کے بڑے اور معروف تعلیمی ادارے سرسید گرلز کالج کو صرف 2 لاکھ روپے دیے گئے ہیں۔ کالج کے ایک ٹیچر کا کہنا ہے کہ یہ رقم تو ہمارے ایک ایونٹ کے اخراجات بھی پورے نہیں کرسکتی۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ 3 ہزار سے زائد انرولمنٹ والے گورنمنٹ پریمیئر کالج برائے خواتین کو صرف 70 ہزار اور آدم جی کالج کو صرف ڈھائی لاکھ روپے دیے گئے ہیں، ہزاروں انرولمنٹ کے ایک اور تعلیمی ادارے گورنمنٹ نیشنل کالج کو صرف ڈیڑھ لاکھ روپے ، ڈھائی ہزار سے زائد انرولمنٹ والے گورنمنٹ بوائز کالج سیکٹر 42 کورنگی کو 80 ہزار روپے، علامہ اقبال سائنس کالج کو صرف 97 ہزار روپے، اور گورنمنٹ پریمیئر بوائز کالج کو صرف 70 ہزار روپے جاری ہوئے ہیں۔اس کالج کی انرولمنٹ بھی ہزاروں میں ہے۔
"ایکسپریس" نے کالجوں میں اسپورٹس فنڈز کی اس غیر منصفانہ تقسیم کا معیار جاننے کے لیے جب ریجنل ڈائریکٹر کالجز سلیمان سیال سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ میں نے ابھی جوائن کیا ہے معاملہ میرے آنے سے پہلے کا ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا ، مجھے بھی لوگوں نے شکایات کی ہیں اس پر تحقیقات ہوسکتی ہیں۔
ڈائریکٹر جنرل کالجز سندھ پروفیسر شاداب حسین سے جب اس معاملے کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ " میرے علم میں بھی یہ بات آئی ہے تاہم اب تک کسی پرنسپل نے تحریری شکایت نہیں کی، اگر تحریری شکایت آئے تو اسے دیکھ سکتے ہیں۔'' ان کا کہنا تھا کہ فنڈ سیکریٹری کالج ایجوکیشن جاری کرتے ہیں اور receiving end پر ریجنل ڈائریکٹر ہوتے ہیں ، ویسے بھی یہ معاملہ میری جوائننگ سے پہلے کا ہے۔
بتایا جارہا ہے کہ فنڈز ملتے ہی ایک مخصوص وینڈر نے کالجوں کے پرنسپل پر اس کی کمپنی کے بل جمع کرانے کے لیے سفارش اورں دبائو ڈالنا شروع کردیا ہے جس سے کراچی کے سرکاری کالجوں کے پرنسپل ذہنی تنائو کا شکار ہیں۔
حکومت سندھ کے کالج ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے تحت کراچی سمیت پورے سندھ کے سرکاری کالجوں کو جاری کیے گئے 90 ملین روپے کے اسپورٹس فنڈز میں بڑے پیمانے پر بے قاعدگیوں کی اطلاعات سامنے آئی ہیں، فنڈز مختص کرنے اور اس کا اجرا انرولمنٹ کی بنیاد پر کرنے کے بجائے پسند ناپسند کی بنیاد پر کردیا گیا ہے۔
فنڈز ٹھکانے لگانے کے لیے کراچی میں شام میں چلنے والے کئی ایسے سرکاری کالجوں کو لاکھوں روپے اسپورٹس فنڈ کی مد میں جاری کردیے گئے ہیں جہاں پڑھنے کے لیے طلبہ آتے ہیں اور نہ ہی پڑھانے کے لیے اساتذہ۔
ایوننگ شفٹ میں چلنے والے کالجوں کو کئی کئی لاکھ روپے جاری تو کردیے گئے ہیں جبکہ ایوننگ کالجوں میں انرولمنٹ نہ ہونے کے برابر ہے، جو طلبہ ان کالجوں میں داخلہ لیتے ہیں وہ کالجوں کا رخ نہیں کرتے، ان کالجوں میں تدریس سرگرمیاں ہی برائے نام ہوتی ہیں چہ جائیکہ ان کالجوں میں کھیلوں کی سرگرمیاں کرائی جائیں۔
اس طرح محکمہ کالج ایجوکیشن کے تحت اسپورٹس فنڈز کے اجرا کا سارا معاملہ ہی مشکوک ہوگیا ہے اور اسپورٹس فنڈز مختص کرنے والی کمیٹی پر سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں کہ اس کمیٹی نے آخر کس معیار کو سامنے رکھتے ہوئے کالجوں میں اس فنڈ کی تقسیم کی ہے ۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہزاروں انرولمنٹ کے حامل جن کالجوں کو چند ہزار روپے دیے گئے ہیں ان کالجوں کو دیے جانے والے فنڈز میں سائنسی آلات کا حصہ بھی رکھا گیا ہے اور کالج کو پابند کیا گیا گیا ہے کہ وہ حاصل کردہ چند ہزار کے فنڈ سے اسپورٹس سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اسی رقم سے سائنسی آلات بھی خریدے۔
"ایکسپریس" کو اس سلسلے میں ملنے والی تفصیلات کے مطابق شام کے اوقات میں چلنے والے گورنمنٹ سٹی کالج نمبر 2 کو 3 لاکھ 70 ہزار روپے جاری کیے گئے ہیں، اسی طرح گورنمنٹ کالج کامرس اینڈ اکنامکس نمبر 2 کو 7 لاکھ 45 ہزار روپے، گورنمنٹ سپیریئر کامرس کالج ایوننگ کو 6 لاکھ 5 ہزار روپے دیے گئے ہیں۔
اسی طرح گورنمنٹ ڈگری بوائز کالج گلستان جوہر ایوننگ کو بھی 6 لاکھ 5 ہزار روپے اور شام ہی کے ایک اور کالج قائد ملت گورنمنٹ کالج کو 3 لاکھ 80 ہزار روپے جاری ہوئے ہیں جس سے فنڈز کو ٹھکانے لگانے کا تاثر ابھر رہا ہے۔
دوسری جانب گورنمنٹ کالج مراد میمن گوٹھ جہاں داخلے دینے کے لیے کیپ پالیسی کے بعد میرٹ اوپن کردینے کے باوجود داخلے زیادہ نہیں ہوتے اس کالج کو 7 لاکھ 30 ہزار روپے دیے گئے ہیں، گورنمنٹ ڈگری گرلز کالج پی آئی بی کی انرولمنٹ چند سو میں ہے اس کالج کو 4 لاکھ 10 ہزار روپے دیے گئے ہیں، دختر مشرق گورنمنٹ گرلز کالج کو تقریباً 8 لاکھ روپے دیے گئے ہیں،محتاط اندازے کے مطابق یہاں کی انرولمنٹ بھی چند سو میں ہے۔
سلطان آباد میں قائم چند سو کی انرولمنٹ کے حامل گورنمنٹ ڈگری گرلز کالج ہجرت کالونی کو 6 لاکھ 40 ہزار روپے اور ابراہیم حیدری کے گورنمنٹ ڈگری کالج برائے خواتین کو 7 لاکھ 70 ہزار روپے دے دیے گئے ہیں، اس کے برعکس انرولمنٹ کی بنیاد پر کراچی کے بڑے اور معروف تعلیمی ادارے سرسید گرلز کالج کو صرف 2 لاکھ روپے دیے گئے ہیں۔ کالج کے ایک ٹیچر کا کہنا ہے کہ یہ رقم تو ہمارے ایک ایونٹ کے اخراجات بھی پورے نہیں کرسکتی۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ 3 ہزار سے زائد انرولمنٹ والے گورنمنٹ پریمیئر کالج برائے خواتین کو صرف 70 ہزار اور آدم جی کالج کو صرف ڈھائی لاکھ روپے دیے گئے ہیں، ہزاروں انرولمنٹ کے ایک اور تعلیمی ادارے گورنمنٹ نیشنل کالج کو صرف ڈیڑھ لاکھ روپے ، ڈھائی ہزار سے زائد انرولمنٹ والے گورنمنٹ بوائز کالج سیکٹر 42 کورنگی کو 80 ہزار روپے، علامہ اقبال سائنس کالج کو صرف 97 ہزار روپے، اور گورنمنٹ پریمیئر بوائز کالج کو صرف 70 ہزار روپے جاری ہوئے ہیں۔اس کالج کی انرولمنٹ بھی ہزاروں میں ہے۔
"ایکسپریس" نے کالجوں میں اسپورٹس فنڈز کی اس غیر منصفانہ تقسیم کا معیار جاننے کے لیے جب ریجنل ڈائریکٹر کالجز سلیمان سیال سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ میں نے ابھی جوائن کیا ہے معاملہ میرے آنے سے پہلے کا ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا ، مجھے بھی لوگوں نے شکایات کی ہیں اس پر تحقیقات ہوسکتی ہیں۔
ڈائریکٹر جنرل کالجز سندھ پروفیسر شاداب حسین سے جب اس معاملے کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ " میرے علم میں بھی یہ بات آئی ہے تاہم اب تک کسی پرنسپل نے تحریری شکایت نہیں کی، اگر تحریری شکایت آئے تو اسے دیکھ سکتے ہیں۔'' ان کا کہنا تھا کہ فنڈ سیکریٹری کالج ایجوکیشن جاری کرتے ہیں اور receiving end پر ریجنل ڈائریکٹر ہوتے ہیں ، ویسے بھی یہ معاملہ میری جوائننگ سے پہلے کا ہے۔
بتایا جارہا ہے کہ فنڈز ملتے ہی ایک مخصوص وینڈر نے کالجوں کے پرنسپل پر اس کی کمپنی کے بل جمع کرانے کے لیے سفارش اورں دبائو ڈالنا شروع کردیا ہے جس سے کراچی کے سرکاری کالجوں کے پرنسپل ذہنی تنائو کا شکار ہیں۔