میرا زمانہ میری کہانی
یہ خبر تو سن ہی لی ہوگی آپ نے، بھٹو کی پھانسی کی خبر پڑھ لیں گی آپ؟
'' میرا زمانہ میری کہانی'' ایک ایسی خاتون کی خود نوشت ہے جو پنجاب کے چھوٹے سے شہر سرگودھا میں پیدا ہوئی، اس خاندان میں صرف لڑکیاں اور ایک والد تھے مگر سماجی زنجیروں کو پامال کرتے ہوئے انگریزی زبان میں پوسٹ گریجویشن کیا۔ ریڈیو پاکستان سے خبریں پڑھیں۔
اسلام آباد میں ریڈیو پاکستان کے قومی بلیٹن پیش کیے، پاکستان ٹیلی وژن کی نیوز ریڈر بنیں اور دنیا بھر میں ریڈیو کے سب سے بڑے ادارہ برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن (B.B.C) کی اردو سروس میں شامل ہوئی۔ ماہ پارہ کی یہ کتاب 465 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے کئی سیاسی حقائق کے پس منظر اور ان حقائق کی خبروں کے نشر ہوتے وقت پیدا ہونے والی ہنگامی صورتحال سے قاری کو وہ معلومات ملتی ہیں جو یقیناً پہلے دستیاب نہیں تھیں۔
ماہ پارہ نے '' میں نے کتاب کیوں لکھی'' کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یادیں تاریخ ہوتی ہیں جو سینہ بہ سینہ چلتی ہیں اور اپنے ملک اپنی زمین سے رشتہ کو ٹوٹنے نہیں دیتی۔ کبھی رلاتی ہیں اور کبھی ہنساتی ہیں۔ کوئی دس بارہ دن ہی گزرتے ہوں گے کہ کوئی نہ کوئی برسوں بعد بھی یہ یاد دلا دیتا ہے۔ '' ارے اچھا تو آپ وہی ہیں، ہم تو آپ کو بچپن سے دیکھ رہے ہیں '' گویا ایک پوری نسل ایسی ہے جس کی بچپن کی یادوں میں، میں زندہ ہوں۔
ماہ پارہ نے '' ہم نے سونا دے کر یہ مٹی پائی ہے'' کے عنوان سے لکھا ہے کہ ہمارے والدین کا سرگودھا شہر آنا باقاعدہ منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا۔ شہر کی آبادی کچھ زیادہ نہیں تھی۔ پورے شہر میں ایک بازار تھا جو کچہری بازار کے نام سے جانا جاتا تھا۔ والد سید حسن عباس زیدی 1951 میں اپنے کسی عزیز کے ہاں انڈیا کے شہر برسٹسے پاکستان آگئے تھے۔
انھوں نے لاہور کے قدیم سینٹرل ماڈل اسکول سے انگریزی کے استاد کی حیثیت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا ، وہ سرگودھا کے اس وقت کے ماحول کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ '' ایک مرتبہ کا واقعہ معلوم نہیں ہے پر صورت تصویر پر میری یادوں میں نقش ہے۔ میں بازار میں دکانیں دیکھتی ہوئی خراماں خراماں چلی جا رہی تھی کہ ہمارے دودھ والے نے دیکھ لیا۔میں دو سیڑھیاں چڑھی، دکان کا سیمنٹ کا فرش تھا۔ سامنے تھڑے پر دودھ کا بڑا سا کڑھاؤ چڑھا ہوا تھا۔ مجھے ان کی آواز آئی۔ یہ تو ماسٹر صاحب کی بچی ہے۔ وہ نیچے اترے اور مجھے گود میں اٹھا کر دکان میں اپنے ساتھ بٹھا لیا۔
ہمارے ہاں باقاعدہ مجالس منعقد ہوتی تھیں۔ ہمارے گھر کے بائیں جانب اہلحدیث کی مسجد تھی۔ مولوی محمد صدیق مسجد کے پیش امام تھے ۔ رواداری کا یہ حال تھا کہ 60ء کے عشرہ میں اس علاقہ میں ٹیلی فون لائنز نہیں پڑی تھیں۔ جب لائنز بچھ گئیں تو سب سے پہلے مسجد میں ٹیلی فون لگا۔ ہمارے والدین نے مولانا صاحب کی اجازت سے بوقت ضرورت مسجد کا فون نمبر دے رکھا تھا۔ فون آنے پر مولانا صاحب مسجد کے کسی بچہ کو بھیج کر گھر سے کسی کو بلوایا کرتے تھے اور کبھی کبھی خود بلانے آجاتے تھے۔''
وہ فرسودہ روایات کے نقصانات بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ '' میری سب سے چھوٹی بہن جو اب ماہر نسواں ہے کی پیدائش پر ایک خاتون جن کا تعلق قریبی گاؤں جلال پور جٹاں سے تھا ہمارے گھر آئیں اور نومولود بچی کے جھولے کے پاس بیٹھ کر ہاتھ ملنے شروع کر دیے اور امی کا ہاتھ پکڑ کر بچی پیدا ہونے پر باقاعدہ اظہارِ افسوس کرنے لگیں۔ میری ماں کس کرب سے گزری ہوں گی ، میرے لیے یہ سوچنا بھی محال ہے۔''
ماہ پارہ لکھتی ہیں کہ '' میری ماں نے اپنی کمی اور اپنی محرومی کو مشعلِ راہ بناتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ میری بیٹیاں مروجہ رواجوں کی صلیب نہیں اٹھائیں گی وہ تعلیم حاصل کریں گی ۔
اس کتاب کے حصہ دوئم جس کا عنوان '' جیسے ہواؤں میں اڑ رہی ہوں'' میں بھی اپنی یونیورسٹی کی داستانیں خوب بیان کی ہیں۔ آل انڈیا ریڈیو لاہور کے عنوان سے لکھا ہے کہ '' یہ بھی کسی اعزاز سے کم نہیں ہے کہ میں نے نشریات کی دنیا میں سفر کا آغاز ایک تاریخی اہمیت کے حامل ریڈیو اسٹیشن لاہور سے کیا۔ 'کرن کرن اجالا' ریڈیو پر صبح کے وقت نشر ہونے والا اپنی طرز کا نیا اور مقبول پروگرام تھا۔ پروگرام براہِ راست نشر ہوتا تھا۔ اس میں غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے منجھے ہوئے صدا کاروں سے میزبانی کروائی جاتی تھی۔''
مصنفہ نے لکھا ہے کہ '' جب میں نے اپنی والدہ سے پوچھا کہ ٹیلی وژن کے پروگراموں میں کام کرنا چاہتی ہوں۔ ٹی وی میں کام کی خواہش پر مجھے یوں لگا کہ جیسے وہ دل میں کہہ رہی ہوں کہ لڑکی تیرا دماغ تو نہیں چل گیا۔والدہ کی شرائط کی روشنی میں خبروں کے شعبہ میں قسمت آزمانے کے لیے ایک روز لاہور ٹیلی وژن اسٹیشن کے نیوز روم میں ایڈیٹر خالد محمود ربانی سے ملنے گئی۔ نیوز روم پہلی منزل پر تھا۔
نیوز ایڈیٹر خالد محمود ربانی حالاتِ حاضرہ سے میری دلچسپی سے قدر مطمئن ہونے کے بعد کہنے لگے '' بی بی شعبہ نیوز کاسٹرکے انتخاب کے لیے ہر مہینہ آڈیشن ہوتے ہیں۔ مگر کوئی معیار پر پورا نہیں اترتا '' اور میں نیوز آڈیشن کے معیار پر پورا اترنے کا عزم لیے ٹی وی اسٹیشن سے باہر نکلی۔ جس دن ٹی وی کی شام کی خبریں پڑھنے والوں کی فہرست میں میرا نام شامل ہوا میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ بالآخر وہ دن آن پہنچا جس دن مجھے خبریں پڑھنی تھیں۔
مصنفہ نے پیپلزپارٹی حکومت کے کچھ اہم واقعات کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے ''5 جولائی میں جب جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی '' کے عنوان کے تحت لکھا ہے کہ ریڈیو پاکستان سے 5 جولائی کی صبح 6 بجے جو پہلا نیوز بلیٹن نشر ہوا اس میں بہت تفصیل سے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور قومی اتحاد کے درمیان معاہدہ کی خبر شایع ہوئی تھیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ شام کو خبرنامہ پڑھنے ٹیلی وژن لاہور کے نیوز روم پہنچیں تو بلیٹن کی تیار ہورہی تھی۔ ماحول افسردہ اور خوفزدہ تھا۔
جنرل ضیاء الحق کے میڈیا مشیر کرنل صدیق سالک کے احکامات تھے کہ وزیر اعظم بھٹو کے لیے گرفتار یا معزول ہونے کا لفظ استعمال نہ کیا جائے۔ خبرنامہ میں جو خبر نشر ہوئی تھی وہ یہ تھی کہ فوج نے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی حفاظتی تحویل میں لے لیا۔'' ماہ پارہ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ''گزشتہ روز لاہور کے سینئر ایڈیٹر خالد محمود ربانی کو اس نا کردہ جرم پر معطل کردیا گیاکہ جنرل ضیاء الحق کی پریس کانفرنس چلنے میں تاخیر کیوں ہوئی۔
اس کتاب کا ایک اہم باب '' بھٹو کی پھانسی کی خبر پڑھ لیں گی آپ'' ہے۔ ماہ پارہ نے اس خبر کا پورا قصہ یوں بیان کیا ہے کہ '' ایک لمبے سفر کے بعد گھر پہنچ کر ٹی وی جانے کی تیاری کر رہی تھی کہ ایسے میں پی ٹی وی نیوز روم سے نیوز پروڈیوسر کا فون آگیا۔ خاصی گھبراہٹ زدہ آواز میں '' یہ خبر تو سن ہی لی ہوگی آپ نے، بھٹو کی پھانسی کی خبر پڑھ لیں گی آپ؟ '' میرے اطمینان دلانے پر ان کو تسلی نہیں ہوئی، فون کی گھنٹی پھر بجی۔ اس مرتبہ خود نیوز کنٹرولر حبیب اﷲ فاروقی لائن پر تھے۔
بولے '' دیکھیں بی بی بھٹو کی پھانسی کی خبر پڑھ لیں گی؟ کہیں رو تو نہیں پڑیں گی؟ '' وہ اتنے خوفزدہ تھے کہ میں خبر سن کر تو روپڑی تھی مگر پڑھتے ہوئے نہیں۔ 9 بجے کے خبرنامہ میں میرے ساتھ خالد حمید تھے۔ خبرنامہ شروع ہوا۔ سرخیاں میں نے پڑھیں۔ خبر کی تفصیل خالد حمید نے پڑھنی شروع کی۔ بہرحال جیسے تیسے خبرنامہ ختم ہوا۔ سب کی جان میں جان آئی۔ خالد کہنے لگے ''میں تو بمشکل خبر پڑھ پایا '' ٹی وی والوں کی گھبراہٹ سمجھ میں آئی تھی۔ میں یا خالد خبر پڑھتے رو پڑے تو ان کی نوکری جاسکتی تھی۔ ہمارے ساتھ نہ جانے کیا ہوتا۔''