یہ انداز حکمرانی
تمام سویلین وزرائے اعظم کا کہنا رہا ہے کہ وہ عوام کے ووٹوں سے وزیر اعظم بنے ہیں
عوام کے نام پر عوامی حکومت قائم کرنے کے دعوے اب تک سب ہی نام نہاد جمہوری وزرائے اعظم نے کیے مگر سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو خود عوامی وزیر اعظم کہلائے ان کی حکومت کو عوامی حکومت کہا جاتا تھا اور وہ سرکاری پروٹوکول توڑ کر مخصوص اور وی آئی پیز کو چھوڑ کر عوام میں اچانک پہنچ جانے کے لیے مشہور تھے اور عوامی انداز بھی اپناتے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ بھی بے شمار سویلین وزیر اعظم آئے اور عوام سے دور رہے۔ فوجی صدور میں جنرل ضیا الحق عوام میں گھل مل جانے کے لیے مشہور اور واحد فوجی سربراہ تھے جب کہ جنرل پرویز مشرف عوام سے تو کیا خواص سے بھی دور رہتے تھے اور میڈیا تک کو ان کے قریب نہیں بٹھایا جاتا تھا جب کہ جنرل ضیا الحق عوام سے ملنے کا کوئی موقعہ نہیں جانے دیتے تھے بلکہ میڈیا کو اپنے قریب رکھتے اور صحافیوں کے ساتھ تصاویر بنوانے سے گریز نہیں کرتے تھے بلکہ شکارپور کے دورے میں انھوں نے صحافیوں کو بلا کر گروپ فوٹو بنایا تھا۔
بھٹو صاحب کے دور میں ملک میں دہشت گردی نہیں تھی، اس لیے وزیر اعظم بھٹو مخصوص اجتماع چھوڑ کر بغیر پروگرام عوام میں پہنچ کر لوگوں سے خطاب کرتے تھے۔ ملک میں دہشت گردی جنرل ضیا دور میں شروع ہوئی تھی اور 1987 میں ان کے خلاف تحریک بھی چل رہی تھی مگر جنرل ضیا عوامی اجتماعات یا سرکاری تقاریب میں نماز کا وقت ہو جانے پر خود نماز پڑھائے جانے کی جگہ پہنچ جاتے تھے اور نماز ادا کر کے نمازیوں میں گھل مل جاتے تھے۔
جنرل ضیا دور میں وزیر اعظم جونیجو بھی عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے تھے، مگر بے نظیر بھٹو سے عمران خان تک کوئی وزیر اعظم عوامی ثابت نہیں ہوا۔ سب عوام کا نام لیتے تھے اور پروٹوکول کے حصار میں عوام سے دور رہا کرتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد 1951 میں ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں شہید کیا گیا تھا جو ایک سازش کے تحت ہوا تھا جن کے بعد بے شمار وزیر اعظم آئے مگر کسی پر کسی عوامی اجتماع میں کبھی کوئی حملہ نہیں ہوا تمام ہی محفوظ رہے مگر عوام سے دور رہنے میں ہی خود کو محفوظ سمجھا کرتے تھے۔
وزیر اعظم عمران خان کے سوا تمام وزرائے اعظم قریبی علاقوں میں سڑک کے ذریعے سفر کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے جب کہ عمران خان اسلام آباد میں رہتے ہوئے اسلام آباد ہی میں وزیر اعظم ہاؤس بذریعہ سڑک نہیں آتے تھے اور ہمیشہ بنی گالا سے پرائم منسٹر ہاؤس آنے جانے کے لیے سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال کرتے تھے جس کے لیے فواد چوہدری نے جھوٹ بولا تھا کہ '' وزیر اعظم ہیلی کاپٹر اس لیے آتے ہیں کہ ہیلی کاپٹر سفر سستا صرف 55 روپے فی کلو میٹر پڑتا ہے۔''
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ٹرین سے بھی سفر کرلیتے تھے مگر عمران خان اپنے پونے چار سالہ دور میں ایک رات بھی کراچی میں نہیں رہے بلکہ دورہ مکمل کر کے بنی گالا ہی میں رات گزارتے تھے۔
عمران خان اپنے گھر بنی گالا میں رہتے تھے مگر ان کے مقرر کردہ وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ وزیر اعظم آزاد کشمیر کے تھے اور وزیر اعظم ہاؤس مظفر آباد میں رہنے کے بجائے اپنے گھر اسلام آباد میں زیادہ رہتے تھے اور مظفر آباد جانے کے لیے وہ سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال کرتے تھے۔
سردار تنویر الیاس پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے سینیٹر نہیں بن سکے تھے مگر عمران خان سے وزیر اعظم آزاد کشمیر کا عہدہ لینے میں کامیاب رہے تھے مگر اپنی پالیسیوں کے باعث ایک سال بھی وزیر اعظم نہ رہ سکے اور عدالت سے نااہل ہوکر اپنی وزارت عظمیٰ سے محروم ہوگئے۔
نواز شریف کے لیے بھی مشہور ہے کہ وہ بھی گیارہ بارہ بجے اسلام آباد پی ایم ہاؤس میں رہتے ہوئے پی ایم سیکریٹریٹ آتے تھے اور شام 6 بجے اپنے گھر واپس لوٹ جاتے تھے۔
عمران خان واحد وزیر اعظم تھے جن کے گھر لاہور اور اسلام آباد میں تھے اور وہ اسلام آباد ہی میں زیادہ رہتے تھے مگر اقتدار کے خاتمے کے بعد جب چوہدری پرویز الٰہی کی حکومت آئی انھوں نے لاہور زمان پارک میں رہنا شروع کیا جب کہ وہ پشاور میں بھی کافی روز رہے اور پنجاب اسمبلی توڑے جانے کے بعد بھی وہ زمان پارک لاہور میں مسلسل رہ رہے ہیں اور عدالتی حاضریوں پر اسلام آباد جا کر بھی وہاں نہیں ٹھہرتے اور لاہور آجاتے ہیں۔
صدر آصف زرداری نے بے نظیر حکومت میں ہی کراچی میں بلاول ہاؤس بنایا تھا اور اپنے دور میں لاہور میں بلاول ہاؤس بنوایا تھا اور صدر بننے کے بعد وہ ایوان صدر ہی میں رہے جہاں ان کے پیر بھی رہتے تھے اور آصف زرداری ان کی ہدایت پر ایوان صدر سے باہر بھی رہتے تھے۔
تمام سویلین وزرائے اعظم کا کہنا رہا ہے کہ وہ عوام کے ووٹوں سے وزیر اعظم بنے ہیں جب کہ حقیقت میں عوام کے براہ راست ووٹوں سے آج تک کوئی وزیر اعظم منتخب نہیں ہوا بلکہ انھیں عوام سے براہ راست منتخب ارکان قومی اسمبلی نے ہی ہمیشہ منتخب کیا اور منتخب ہو کر ہر وزیر اعظم عوام کو تو کیا اپنی پارٹی کے ان ارکان اسمبلی سے بھی دور ہو جاتا ہے اور انھیں مہینوں ملاقات کا وقت نہیں دیتا۔ اس سلسلے میں نواز شریف کا ریکارڈ سب سے زیادہ خراب ہے۔
قومی اسمبلی اجلاس میں کم آتے اور وہ ایک سال سینیٹ کے اجلاس میں نہیں آئے تھے۔ اکثر سویلین وزرائے اعظم کا انداز حکمرانی شاہانہ رہا ہے وہ عوام کیا اپنے منتخب کرنے والوں کو بھی بھول جاتے ہیں خوشامدیوں میں گھرے رہتے ہیں اور پھر عوام انھیں عام انتخابات کے وقت ہی یاد آتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ بھی بے شمار سویلین وزیر اعظم آئے اور عوام سے دور رہے۔ فوجی صدور میں جنرل ضیا الحق عوام میں گھل مل جانے کے لیے مشہور اور واحد فوجی سربراہ تھے جب کہ جنرل پرویز مشرف عوام سے تو کیا خواص سے بھی دور رہتے تھے اور میڈیا تک کو ان کے قریب نہیں بٹھایا جاتا تھا جب کہ جنرل ضیا الحق عوام سے ملنے کا کوئی موقعہ نہیں جانے دیتے تھے بلکہ میڈیا کو اپنے قریب رکھتے اور صحافیوں کے ساتھ تصاویر بنوانے سے گریز نہیں کرتے تھے بلکہ شکارپور کے دورے میں انھوں نے صحافیوں کو بلا کر گروپ فوٹو بنایا تھا۔
بھٹو صاحب کے دور میں ملک میں دہشت گردی نہیں تھی، اس لیے وزیر اعظم بھٹو مخصوص اجتماع چھوڑ کر بغیر پروگرام عوام میں پہنچ کر لوگوں سے خطاب کرتے تھے۔ ملک میں دہشت گردی جنرل ضیا دور میں شروع ہوئی تھی اور 1987 میں ان کے خلاف تحریک بھی چل رہی تھی مگر جنرل ضیا عوامی اجتماعات یا سرکاری تقاریب میں نماز کا وقت ہو جانے پر خود نماز پڑھائے جانے کی جگہ پہنچ جاتے تھے اور نماز ادا کر کے نمازیوں میں گھل مل جاتے تھے۔
جنرل ضیا دور میں وزیر اعظم جونیجو بھی عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے تھے، مگر بے نظیر بھٹو سے عمران خان تک کوئی وزیر اعظم عوامی ثابت نہیں ہوا۔ سب عوام کا نام لیتے تھے اور پروٹوکول کے حصار میں عوام سے دور رہا کرتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد 1951 میں ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں شہید کیا گیا تھا جو ایک سازش کے تحت ہوا تھا جن کے بعد بے شمار وزیر اعظم آئے مگر کسی پر کسی عوامی اجتماع میں کبھی کوئی حملہ نہیں ہوا تمام ہی محفوظ رہے مگر عوام سے دور رہنے میں ہی خود کو محفوظ سمجھا کرتے تھے۔
وزیر اعظم عمران خان کے سوا تمام وزرائے اعظم قریبی علاقوں میں سڑک کے ذریعے سفر کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے جب کہ عمران خان اسلام آباد میں رہتے ہوئے اسلام آباد ہی میں وزیر اعظم ہاؤس بذریعہ سڑک نہیں آتے تھے اور ہمیشہ بنی گالا سے پرائم منسٹر ہاؤس آنے جانے کے لیے سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال کرتے تھے جس کے لیے فواد چوہدری نے جھوٹ بولا تھا کہ '' وزیر اعظم ہیلی کاپٹر اس لیے آتے ہیں کہ ہیلی کاپٹر سفر سستا صرف 55 روپے فی کلو میٹر پڑتا ہے۔''
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ٹرین سے بھی سفر کرلیتے تھے مگر عمران خان اپنے پونے چار سالہ دور میں ایک رات بھی کراچی میں نہیں رہے بلکہ دورہ مکمل کر کے بنی گالا ہی میں رات گزارتے تھے۔
عمران خان اپنے گھر بنی گالا میں رہتے تھے مگر ان کے مقرر کردہ وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ وزیر اعظم آزاد کشمیر کے تھے اور وزیر اعظم ہاؤس مظفر آباد میں رہنے کے بجائے اپنے گھر اسلام آباد میں زیادہ رہتے تھے اور مظفر آباد جانے کے لیے وہ سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال کرتے تھے۔
سردار تنویر الیاس پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے سینیٹر نہیں بن سکے تھے مگر عمران خان سے وزیر اعظم آزاد کشمیر کا عہدہ لینے میں کامیاب رہے تھے مگر اپنی پالیسیوں کے باعث ایک سال بھی وزیر اعظم نہ رہ سکے اور عدالت سے نااہل ہوکر اپنی وزارت عظمیٰ سے محروم ہوگئے۔
نواز شریف کے لیے بھی مشہور ہے کہ وہ بھی گیارہ بارہ بجے اسلام آباد پی ایم ہاؤس میں رہتے ہوئے پی ایم سیکریٹریٹ آتے تھے اور شام 6 بجے اپنے گھر واپس لوٹ جاتے تھے۔
عمران خان واحد وزیر اعظم تھے جن کے گھر لاہور اور اسلام آباد میں تھے اور وہ اسلام آباد ہی میں زیادہ رہتے تھے مگر اقتدار کے خاتمے کے بعد جب چوہدری پرویز الٰہی کی حکومت آئی انھوں نے لاہور زمان پارک میں رہنا شروع کیا جب کہ وہ پشاور میں بھی کافی روز رہے اور پنجاب اسمبلی توڑے جانے کے بعد بھی وہ زمان پارک لاہور میں مسلسل رہ رہے ہیں اور عدالتی حاضریوں پر اسلام آباد جا کر بھی وہاں نہیں ٹھہرتے اور لاہور آجاتے ہیں۔
صدر آصف زرداری نے بے نظیر حکومت میں ہی کراچی میں بلاول ہاؤس بنایا تھا اور اپنے دور میں لاہور میں بلاول ہاؤس بنوایا تھا اور صدر بننے کے بعد وہ ایوان صدر ہی میں رہے جہاں ان کے پیر بھی رہتے تھے اور آصف زرداری ان کی ہدایت پر ایوان صدر سے باہر بھی رہتے تھے۔
تمام سویلین وزرائے اعظم کا کہنا رہا ہے کہ وہ عوام کے ووٹوں سے وزیر اعظم بنے ہیں جب کہ حقیقت میں عوام کے براہ راست ووٹوں سے آج تک کوئی وزیر اعظم منتخب نہیں ہوا بلکہ انھیں عوام سے براہ راست منتخب ارکان قومی اسمبلی نے ہی ہمیشہ منتخب کیا اور منتخب ہو کر ہر وزیر اعظم عوام کو تو کیا اپنی پارٹی کے ان ارکان اسمبلی سے بھی دور ہو جاتا ہے اور انھیں مہینوں ملاقات کا وقت نہیں دیتا۔ اس سلسلے میں نواز شریف کا ریکارڈ سب سے زیادہ خراب ہے۔
قومی اسمبلی اجلاس میں کم آتے اور وہ ایک سال سینیٹ کے اجلاس میں نہیں آئے تھے۔ اکثر سویلین وزرائے اعظم کا انداز حکمرانی شاہانہ رہا ہے وہ عوام کیا اپنے منتخب کرنے والوں کو بھی بھول جاتے ہیں خوشامدیوں میں گھرے رہتے ہیں اور پھر عوام انھیں عام انتخابات کے وقت ہی یاد آتے ہیں۔