نیوی بلوچستان میں تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہمی کیلیے کوشاں

بحریہ ماڈل اسکول، کیڈٹ کالج، دستکار ی سنٹرز کاقیام، مارہ اسپتال میں سہولتیں کسی اچھے اسپتال سے کم نہیں۔


بحریہ ماڈل اسکول، کیڈٹ کالج، دستکار ی سنٹرز کاقیام، مارہ اسپتال میں سہولتیں کسی اچھے اسپتال سے کم نہیں۔

MULTAN: بلوچستان کا ساحلی علاقہ مکران ان بدقسمت مقامات میں ہے جہاں پر سمندر اپنی بھر پور رعنائی کے ساتھ جلوہ گر ہے، پانی کا رنگ اور شفافیت دیکھ کر انسان عش عش کر اٹھتا ہے، لوگوں کی بات کریں تو سادہ لوح مگر اپنی مٹی سے جڑے ہوئے ہر حال میں مست اور صابر و شاکر کچھ عرصہ سے بلوچستان کے احساس محرومی کے حوالے سے احتجاج کچھ اور شکل اختیار کر چکا ہے۔

حکومتوں پر منحصر تھا کہ وہ بلوچستان میں رہنے والے لوگوں سے انصاف کرتے ان کے وسائل کو نہ صرف بھر پور طریقے سے استعمال میں لاتے بلکہ اس کا بھر پور فائدہ وہاں کی عوام کو پہنچتا، گاہے بگاہے ایسے اقدامات کئے گئے جن سے بلوچستان جو قدرتی حسن اور زیر زمین دولت سے مالا مال ہے اس کی دریافت اور استعمال کی کوشش کی گئی، لیکن اس کافائدہ وہاں کے مقامی لوگوں کو خاطر خواہ حاصل نہیں ہوا۔ اس ہفتہ کے آغاز میں پاکستان نیوی نے کوئٹہ، اسلام آباد اور کراچی کے صحافیوں کو دعوت دی کہ وہ کم از کم بلوچستان کے ساحلی علاقوں کی تازہ ترین صورتحال کا خود آ کر مشاہدہ کریں۔ اس دورے میں اورمارہ، گوادراور جیونی جانے کا موقع ملا تویہ دیکھ کر طمانیت ہوئی کہ پاکستان نیوی نے ایک ایسا سلسلہ شروع کر دیا ہے جو تسلسل بھی رکھتا ہے اور مقامی لوگوں کیلیے بے پناہ فوائد بھی لیے ہوئے ہے۔

اگرچہ پاکستان نیوی کی سٹریٹجک ضروریات اس بات کی متقاضی تھیں کہ اورمارہ اور گوادر رپورٹس کو جدید طرز پر تیار کیا جائے اور اپنے کچھ اثاثہ جات یہاں پر رکھے جائیں تاکہ میری ٹائم سیکیورٹی کے حوالہ سے وہ اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کر سکیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی سے مستقل تعلق جوڑنے کیلیے جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں وہ قابل تحسین ہیں اس میں اسپتالوں کی تعمیر، اسکولوں کا اجرا، دستکاری سینٹرز میں خواتین کی تربیت اور ان کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ اسپتال اور اسکولز میں نیوی کے لوگ ہوں یا سول آبادی سب ایک جیسی توجہ پاتے ہیں۔ مقامی نوجوانوں اور خواتین کو اسپتال، اسکول اور نیوی میں بھرتی کیلیے خصوصی مراعات دی گئی ہیں جس کی وجہ سے 2009 سے لیکر اب تک نیوی کے افسران کی تعداد 3 سے بڑھ کر 35 ہوگئی ہے اور سیلرز کی تعداد 13 سے بڑھ کر 378 ہو گئی ہے۔

یہ مقامی آبادی کے پاکستان اور س کے ایک اہم فوجی ادارے سے محبت اور اعتماد کا اظہار ہے۔ شکوے شکایتیں ابھی بھی بہت ہیں لیکن جس رفتار اور جذبے سے نیوی کے چھوٹے سے لے کر اعلیٰ افسران وہاں کام کر رہے ہیں اور جو منصوبے تیار کیے جا رہے ہیں ساحلی علاقوں کی حد تک یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ عرصہ دراز سے موجودبدگمانی مکمل ختم ہو جائے گی۔ بحریہ ماڈل اسکول اورمارہ کی تعمیر اور ترقی کے ساتھ پاکستان نیوی یہاں کے سرکاری اسکولوں کی سرپرستی بھی کر رہی ہے۔ اورمارہ میں موجود اسپتال اگرچہ 25 بستروں پر مشتمل ہے لیکن سہولتوں کے حوالے سے کسی بھی اچھے اسپتال سے کم نہیں اس کو بہت جلد 100 بستروں کی حد تک بڑھایا جا رہا ہے۔ اورمارہ میں کیڈٹ کالج کے قیام نے وہاں کے بچوں کو نہ صرف تعلیمی معیار کے حوالے سے بلکہ پاکستان نیوی میں ایک بہترین سپاہی یا افسر کے طور پر کام کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔

اورمارہ میں جناح نیول بیس کی تکمیل کے بعد مکران کے ساحلی علاقوں میں آباد لوگوں کیلیے روز گار کے بے شمار مواقع پیدا ہو چکے ہونگے ان کا آغاز ہو چکا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ امید کی جاتی ہے کہ لوگ مختلف علاقوں سے بہتر روز گار کی تلاش میں اس علاقہ کا رخ کریں گے۔گوادر کے قریب جیونی کا علاقہ بھی اورمارہ کی طرز پر بنانے کی کوشش کا آغاز ہوچکا ہے وہاں اگرچہ اسکول اور صحت کی سہولتیں محدود پیمانے پر ہیں لیکن مستقبل کی منصوبہ سازی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگلے چند سالوں میں یہاں پر بھی بہترین اسکول اور اسپتال تیار ہو چکا ہو گا۔پاکستان نیوی کی کوششوں سے نہ صرف یہاں پر معاشی حوالے سے بہتری آ رہی ہے بلکہ معاشرتی تبدیلی بھی واضح دکھائی دیتی ہے۔ یہاں کے لوگ خواتین کو کام کاج کے لیے گھر سے نکالنے کو تیار نہیں ہوتے تھے لیکن اب یہاں کی خواتین سکول، اسپتال اور دستکاری سینٹروں میں ملازمتیں کر رہی ہیں اور اپنی مستقبل کی نسل کے لیے ایک ایسا سماج تشکیل دینے کی کوشش کر رہی ہیں جو نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کے روشن مستقبل کی نویدہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔