دادی اماں کی واپسی

جو چہرے اوجھل ہو گئے وہ اب کہاں نظر آئیں گے،اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

rmvsyndlcate@gmail.com

انھیں دنوں ایک اخباری رپورٹ نظر سے گزری، لندن میں بیٹھے بیٹھے کسی بی بی کا دھیان گزرے دنوں کی طرف گیا۔

اسے کراچی کے وہ دن یاد آئے جب ابھی اس کی دادی اماں زندہ تھیں۔ کیا خوب دن تھے۔ دلان میں بیٹھے بیٹھے وہ سیب کترتی رہتی تھی مگر کان دادی اماں کی طرف لگے رہتے تھے۔ انھیں کب کب کے قصے قضیے آتے چلے جاتے اور وہ اپنے خیالوں میں مگن وہ قصے قضیے دہراتی چلی جاتیں۔ پھر انھیں اپنی دادی اماں یاد آ جاتیں۔ اور پھر دادی اماں کی دادی اماں بس اسی طرح گڑے مردے اکھاڑتی چلی جاتیں۔ مگر پھر انھیں بھول کا مرض ہو گیا۔ یادداشت جواب دے گئی۔ اسی عالم میں وہ دنیا سے گزرگئیں۔

یہ سوچتے ہوئے اس بی بی کو خیال آیا کہ دادی اماں خاندان کے بارے میں اپنی ساری یادیں اپنے ساتھ لے گئیں۔ ان کے بعد کون ایسا ہے کہ تقسیم کے وقت تتر بتر ہونے والے خاندان کو بھولے بسرے افراد کے متعلق معلومات فراہم کر سکے۔ اس نے سوچا کہ کیوں نہ ایک ایسا ویب سائٹ قائم کیا جائے جو دادی اماں کا متبادل بن جائے۔ بچھڑے ہوئے اعزا اور اقربا اپنی اپنی یادیں اس میں انڈیلیں اور بچھڑ جانے والوں کے نام بتائیں۔ اس طرح یہ ویب سائٹ خاندانی حافظہ کا بدل بلکہ نعم البدل بن جائے گی۔ 1947میں خاندان اس طرح سے بٹے تھے کہ بھائی پاکستان چلا آیا۔

بہن ہندوستان میں رہ گئی۔ دوسرا بھائی ہندوستان پاکستان دونوں سے کنارہ کر کے لندن میں جا بسا۔ جب یہ اکھڑے ہوئے لوگ بہت دھکے کھانے کے بعد اپنے نئے وطن میں رچ بس گئے تو کچھ انھیں بچھڑے ہوئے عزیز رشتے دار یاد آئے۔ ان کی باتیں سن کر ان کے بیٹوں بیٹیوں پوتے پوتیوں نواسوں نواسیوں کو اپنے خاندانی ماضی کے بارے میں تجسس ہوا اور انھوں نے اپنے بڑوں سے سوال کرنے شروع کیے کہ ہم کون ہیں، کہاں سے آئے ہیں۔ ہمارے جو چچا ماموں تھے، خالائیں پھوپھیاں ممانیاں تھیں وہ کدھر ہیں۔

اس تجسس بھری فضا میں اس ویب سائٹ کو کامیاب ہونا ہی تھا۔ ادھر ہم سوچ رہے ہیں کہ یہ انقلابات ہیں زمانے کے۔ نئے زمانے نے ہی دادی اماں کو رخصت کیا تھا، سوچ کر کہ یہ مخلوق اپنی میعاد پوری کر چکی اور اب وہی نیا زمانہ دادی اماں کو واپس لانے کے جتن کر رہا ہے۔ اور نئی ٹیکنالوجی کے لیے ایسا کمالات دکھانا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ روبوٹ کے تجربے کے بعد ایک مشینی دادی اماں کی ایجاد میں کتنی ہلدی پھٹکری لگتی ہے۔

ہم ایسوں پر مت جائیے کہ ہم ایسے تو میں نہ مانوں کی رٹ لگاتے رہیں گے۔ جو چلے گئے وہ چلے گئے۔


جو چہرے اوجھل ہو گئے وہ اب کہاں نظر آئیں گے
اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

وہ تہذیب ہی رخصت ہو گئی جو مشترکہ خاندانوں کی گہما گہمی کے بل پر پھل پھول رہی تھی۔ چچا تایا پھوپھی جان، تائی اماں، چھوٹی چچی، جٹھانی، دورانی، سب ایک چھت تلے۔ اور ان کے بیچ دادی اماں خاندانی حافظہ کی محافظ بنی بیٹھی ہیں۔

جہاں دادی اماں نہیں ہیں وہاں نانی اماں اسی شان کے ساتھ براجمان ہیں۔ اور ان کے اردگرد ماموں، خالہ، خالو، خلیری آپا، ممیری باجی۔

ایسے خاندانوں کو انگریزی میں کیسے بیان کیا جائے۔ جو تہذیب انسانی رشوں کی قدر نہیں کرتی اس کی زبان میں ان رشتوں کے لیے لفظ کہاں سے آئیں گے۔ کتنے رنگا رنگ رشتوں کو یہ زبان ایک 'انکل' نام کی لاٹھی سے ہانک دیتی ہے۔ نانی اور دادی کے بیچ جو فرق ہے اسے نہیں پہچانتی۔ وہ بھی گرینڈ مدر۔ یہ بھی گرینڈ مدر۔ اگر ایک زبان انسانی رشتوں کے پیچ در پیچ سلسلہ کو اس کی نزاکتوں نفاستوں کو سمجھنے سے قاصر ہے تو پھر وہ آسمان سے ستارے بھی توڑ کر لے آئے تو پھر کیا۔

خیر یہ تو اور ذکر چھڑ گیا۔ مطلب یہ ہے کہ اب زمانہ اور ہے۔ دادیاں نانیاں اب معاشرے میں وہ مقام و مرتبہ نہیں رکھتیں جو کسی زمانے میں انھیں حاصل تھا۔ وہ زمانہ اور تھا۔ جب مشترکہ خاندان مشترک رہنے میں خوش تھے اور پھیلتے رہنے کے عمل کے ساتھ ایک چھت تلے ہنسی خوشی بسر کرتے تھے۔ اور اس زمانے میں ایک شے اور بھی تھی جسے خاندانی حافظہ کہنا چاہیے۔ خاندان کے بیچ بیٹھی ہوئی دادی اماں اپنے خاندانی حافظہ کی محافظ بنی بیٹھی تھیں۔ قریب و دور کا کونسا رشتہ دار کتنا جیا کب مرا۔ مرتے وقت کس نے کیا وصیت کی۔ اس وصیت کے ساتھ بیٹوں پوتوں نے کیا سلوک کیا۔ کون ٹکڑی سے بچھڑ کر پردیس میں جا بسا۔ کس کی شادی کب ہوئی تھی۔ کب اور کیسے طلاق کی نوبت آئی۔ دادی اماں نے کسی تفصیل کو بیان کرنے میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔

خاندان سے ہٹ کر زمین و آسمان کے کتنے رازوں کی وہ امین تھیں۔ پوتوں پوتیوں کو ایسے راز بتانے میں انھوں نے کبھی کوتاہی نہیں کی۔ تصور کرو کہ گرمیوں کا موسم ہے۔ چھت پر پلنگ بچھے ہیں۔ بچے کچے دادی اماں کے ارد گرد جمع ہیں اور شوق سے کہانی سن رہے ہیں۔ اس پری کی جو چاند کی رات میں اڑن کھٹولے میں بیٹھی بلندیوں میں اڑی چلی جا رہی ہے۔ نیچے نظر جاتی ہے تو ایک محل کی بلند و بالا چھت پر سجی بنی مسہری پر ایک نوخیز شہزادہ محو خواب ہے۔ پہلی نظر میں اس پر عاشق ہو جاتی ہے۔ اڑن کھٹولے کو اس چھت پر اتار کر نیند میں مست شہزادے کو کھٹولے میں لٹاتی ہے اور پرستان کی طرف روانہ ہو جاتی ہے۔ ایک کہانی، دوسری کہانی، تیسری کہانی ہوش ربا۔ ایسی کہ ننھے سامعین کے تخیل کو پر لگ جاتے تھے۔ مگر نئے زمانے نے ایسی کہانیوں کو خرافات کے خانے میں ڈالا اور کہانی سنانے والی دادی اماں کو بھی خرافات میں شمار کر کے رد کر دیا۔

مگر اب اسی نئے زمانے نے پھر کروٹ بدلی ہے۔ عقل سے ماورا ہوش ربا کہانیوں میں اہل مغرب کو معنی نظر آنے لگے۔ ان کے اثر میں آ کر ہم بھی اپنی گمشدہ کہانیوں کی تجدید پر مائل ہیں۔ اور خاندان جب بکھر گئے اس طرح کہ اب کوئی پورب میں ہے کوئی پچھم میں تو اب دل حزیں کو پرانی کہانیاں یاد آ رہی ہیں اور گمشدہ خاندانی زندگی کے بھولے بسرے نقشے تصور میں ابھر رہے ہیں۔ اب جڑوں کی تلاش ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ مگر وہ تو ایک تہذیب تھی جس کے سیاق و سباق میں ان ساری باتوں کے معنی و مطلب تھے۔ اب ٹیکنالوجی کے ذریعے ہم وہ کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں جو گم کر چکے ہیں۔ چلو یہ تجربہ بھی دیکھیں۔ مگر دادی اماں کیسے واپس آئیں گی۔
Load Next Story