معاشی سیاسی اور آئینی بحران
اب صورت حال یہ ہے کہ پاکستان مکمل طور پر ہر قسم کے بحران کا شکار ہو چکا ہے
پاکستان میں ٹاپ لیول پرجو کچھ ہو رہا ہے' اس کے بارے میں عام شہری بھی باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ ڈیڑھ دو برس سے سیاسی اور معاشی بحران ساتھ ساتھ چل رہے ہیں' اعلیٰ عدلیہ میں آئینی پٹیشنیں دائر ہونا شروع ہوئیں اور ان پر فیصلے آئے تو آئینی پیچیدگیاں بھی سیاسی اور معاشی بحران کے ساتھ شامل ہو گئیں۔
اب صورت حال یہ ہے کہ پاکستان مکمل طور پر ہر قسم کے بحران کا شکار ہو چکا ہے۔ اب سیاست سے زیادہ آئینی الجھنوں اور پیچیدگیوں نے ایسے مسائل کھڑے کر دیے ہیں ' جن کے بوجھ تلے ریاستی ادارے کرا ہ ر ہے ہیں۔یوں ملک میں سیاسی عدم استحکام بھی ہے ' معاشی بحران بھی ہے اور اب آئینی بحران بھی شامل ہو گیا ہے۔
اس صورت حال نے ملک میں سب سے زیادہ کاروباری طبقے 'تنخواہ دار طبقے اور محنت کش طبقے کو متاثر کیا ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ کاروبار چلیں گے تو محنت کشوں کو بھی کام ملے گا ' زراعت چلے گی تو اناج میں خود کفالت ہو گی ' تنخواہ دار طبقے کے مسائل بھی کم ہو جائیں گے لیکن پاکستان میں کاروبار بڑھنے کی بجائے کم ہو گئے ہیں' محنت کشوں کو بھی کام نہیں مل رہا ' نتیجتاً تنخواہ دار طبقہ بھی متاثر ہو رہا ہے۔
اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن اس سارے بحران کا حل نظر نہیں آ رہا ' بنیادی طورپر پاکستان میں پیدا شدہ مختلف بحران اپنی اصل میں ایک ہی نوعیت رکھتے ہیں۔ اگر سیاسی بحران حل ہو جائے تو معاشی اور آئینی بحران بھی حل ہو جائے گا ' اسی طرح اگر آئینی بحران حل ہو جائے تو سیاسی بحران خود بخود حل ہو جائے گا اور معیشت معاشی بحران بھی ختم ہو جائے گا۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ بحران ختم نہیں ہو سکتا ' ملک کی تمام سیاسی قیادت 'عدلیہ اور پارلیمنٹیرینز اور دیگر سٹیک ہولڈرز اپنے اپنے مفادات کم سے کم رکھ کر کسی ایک میکنزم پر متفق ہوجائیں تو ریاست کا کاروبار چلنا شروع ہو جائے گا۔
جہاں تک معاشی بحران کا تعلق ہے تو اس میں آئی ایم ایف فیکٹر بھی موجود ہے۔ حکومت کہتی تو ہے کہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کر دی گئی ہیں اور حتمی معاہدہ جلد طے پا جائے گا لیکن ان سطور کے لکھے جانے تک ایسا نہیں ہوا تھا۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ دنوں بھی اپنے بیان میں کہا تھا کہ ہمیںآئی ایم ایف کے بغیر رہنا سیکھنا ہوگا، پاکستان ڈیفالٹ کرنے کے لیے نہیں بنا، انھوں نے یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ غیرملکی قرضہ چار ارب ڈالر کم ہوا، خسارے پر قابو پائیں گے۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ آئی ایم ایف پروگرام جلد سائن ہوجائے گا اور بورڈ میٹنگ بھی ہوجائے گی۔
اب بھی یہی بات کہی جا رہی ہے 'بظاہر اشارے تو خاصے حوصلہ افزا ہیں' وزراء کے بیانات بھی خوش کن ہیں۔ان اشاروں کو درست سمجھا جائے تو لگتا ہے کہ پاکستان کے اکنامک منیجرزکی سمت ٹھیک ہے اور پاکستان کو اب کم از کم دیوالیہ ہونے کا خطرہ موجود نہیں ہے تاہم ملک میں معاشی بحران ابھی تک موجود ہے۔
پاکستان میں معاشی و اقتصادی بحران کی سنگینی میں اضافہ کیوں ہوا، اس کی وجوہات سب کو معلوم ہیں۔ ادھر ایک اخباری خبر میں سرکاری ایک رپورٹ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے آیندہ مالی سال کے لیے معاشی ترقی کا ہدف 3.5 اور مہنگائی کی شرح 20 فیصد تک رکھنے کا امکان ہے،یوں دیکھا جائے تواگلے مالی سال میں معاشی ترقی کی رفتار سست رہے گی اور مہنگائی کا گراف بھی بدستور بڑھتا رہے گا۔
تاہم یہ اہداف حقیقت پسندانہ نظر آتے ہیں ۔ملک کا سیاسی عدم استحکام اور اداروں کی کمزوریوں اور اآئینی و قانونی مسائل کی وجہ سے معیشت کو خطرات کا سامنا رہے گا، مجوزہ شرح تین بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے اندازوں کے مطابق ہے لیکن پاکستان میں بے روزگاری اور غربت کو کم کرنے کے لیے درکار رفتار کا نصف ہے۔
خبر میں حکومتی ذرائع کا حوالہ دے کر مزید بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2023-24 سے 2025-26 کے وسط مدتی اقتصادی فریم ورک کو اگلے مالی سال کے بجٹ کے حصے کے طور پر تیار کیا جا رہا ہے، پی ڈی ایم حکومت 10 جون کو اس کا اعلان کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے، مذکورہ رپورٹ جسے تاحال اگلے مہینے کے دوران متعدد ایگزیکٹو منظوریوں کے عمل سے گزرنا ہے،میں تسلیم کیا گیا ہے کہ موجودہ مہنگائی کے دباؤ کو کم کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔
پہلی بار وزارت خزانہ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ رواں مالی سال کے دوران اقتصادی ترقی کی شرح 0.8 فیصد کے آس پاس رہ سکتی ہے، جو چار سال میں سب سے کم ہے۔بلاشبہ معاشی اور اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہے لیکن اطمینان بخش بات یہ ہے کہ معیشت حرکت میں ہے' اب یہ کوئی نہیں کہتا کہ پاکستان دیوالیہ ہو جائے گا۔ موجودہ حالات میں ملک کو سب سے پہلے سیاسی بحران سے نکالنے کی تدبیر کی جائے کیونکہ ایسا کیے بغیر معاشی استحکام نہیں آسکتا۔
بجٹ میں توازن لانے، ٹیکس ریونیو ہر صورت میں بڑھانے کے ساتھ ساتھ سبسڈیز ختم کی جائیں۔ لوگوں کو تربیت دے کر ملکی معیشت میں کردار ادا کرنے کا موقعہ دیا جائے اور ''ویلیو ایڈڈ ایکسپورٹس'' کی حوصلہ افزائی کی جائے، اگر ایسا ہوا تو اقتصادی بحران کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا وگرنہ بیرونی قرضے پہلے سے لیے گئے قرضوں کی ادائیگی میں خرچ ہو جائیں گے اور کچھ عرصے کے بعد پھر معاشی بحران آن کھڑا ہو گا۔
ادھر پاکستان کے پالیسی سازوں کو یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ معیشت کو پرانے طریقے سے نہیں چلایا جا سکتا۔سرد جنگ کے دور میںامریکہ اور دیگر امیر ممالک پاکستان کی دل کھول کر مدد کرتے رہے'پاکستان کے ماضی میں جو بھی ترقیاتی پروجیکٹس مکمل ہوئے ہیں۔
وہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی مالی اور تکنیکی مدد کی وجہ سے ہوئے ہیں۔سرد جنگ کے طویل دور میں پاکستان کے پالیسی سازوں نے مواقع سے فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ مقامی صنعتوں کو زوال پذیر کیا' بھارت کے ساتھ پانی کے تنازعات کو حل کرنے پر توجہ نہ دی اور نہ ہی ڈیم تعمیر کرنے کی سنجیدہ کوشش کی۔اس کوتاہی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان کا زرعی شعبہ بھی زمین بوس ہو چکا ہے۔مقامی صنعتیں سرکاری مدد کے ساتھ چل رہی ہیں۔
ٹیکنالوجی میں پاکستان کی انویسٹمنٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔اس کے ساتھ ساتھ انتظامی سطح پر بھی کمزوری اور سستی کا دور دورہ رہا ہے۔خیبرپختونخوا اور بلوچستان قیام پاکستان کے وقت بھی پسماندہ 'غریب اور قبائلی معاشرت کی گرفت میں تھے اور آج بھی یہی صورت حال ہے۔
چھوٹے صوبوں میں ریاستی عمل داری قائم کرنے کی طرف کبھی توجہ نہیں دی تھی' ملک کے ٹیکس ریونیو میں چھوٹے صوبوں کا حصہ بہت کم ہے اور وہ صرف مرکز کی طرف دیکھتے ہیں۔ خصوصاً خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو اس حوالے سے اپنی ذمے داریوں کا ادراک کرنا ہو گا۔ قوم پرستی' روایت پرستی' لسانیت اور صوبائیت کو سیاسی ایجنڈا بنا کر اپنا سارا مالی بوجھ وفاق پر ڈالنے کی سیاست اور روایت ترک کرنے کی ضرورت ہے۔اب یہ سیاسی حربے قابل استعمال نہیں رہے ہیں۔
قوم پرستی اور لسانیت مثبت خطوط پر استوار ہونی چاہئیں نہ کہ کسی دوسری ثقافتی اور لسانی قومیت کے خلاف نفرت اور عناد پر استوار کی جائے۔ معیشت کو دستاویزی بنانے پر پوری توجہ دینی چاہیے۔ چھوٹے صوبوں کے پاس ماضی کے مقابلے میں آج بہت زیادہ اختیارات ہیں۔ ہر قسم کا صوبائی محکمہ اور ملازمین موجود ہیں' ان کی تنخواہوں اور دیگر مراعات پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں لیکن عملاً صورت حال یہ نظر آتی ہے کہ چھوٹے صوبوں کا محکمہ ایکسائز اور ٹیکسیشن پوری طرح فعال نہیں ہے۔
خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ہر قسم کی ٹرانسپورٹ چلتی ہے لیکن 80فیصد بغیر نمبر پلیٹ کے ہوتی ہیں اور ان کی محکمہ ایکسائز میں رجسٹریشن بھی نہیں ہوتی۔ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا کاروبار دھڑلے سے ہو رہا ہے' اس معاملے میں وفاق کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ پاک افغان سرحد سے پاکستان میں داخل ہونے والی ہر قسم کی موٹر وہیکلز' الیکٹرانکس کا سامان' اور کباڑ کے نام پر مختلف قسم کی مشینری پر کسٹمز ٹیکس وصول کرے' پاک افغان سرحد کراس کر کے جو موٹر وہیکلز' الیکٹرانک کا سامان اور کباڑ کی مشینری پاکستانی علاقے میں آئے' کسٹم ادا کرے اور اس کے بعد رجسٹریشن کا کام متعلقہ صوبہ کرے اور قانون کے مطابق صوبہ اپنا ٹیکس وصول کرے' اس طرح چھوٹے صوبوں کے ریونیو میں بھی اضافہ ہو گا اور وفاقی حکومت کو بھی ریونیو ملے گا۔
پاکستان کو اب جدید تقاضوں کے ساتھ چلنا ہو گا' معیشت کو جدید بنانے سے پہلے تعلیمی نظام اور نصاب کو بھی جدید بنانا ضروری ہے' ملک کی شمال مغربی سرحد کو اب کھلا نہیں چھوڑا جا سکتا۔ سیاست میں بھی جدید نظریات کی ضرورت ہے۔پرانے اور فرسودہ بیانیے اب ریاست کے ساتھ نہیں چل سکتے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ پاکستان مکمل طور پر ہر قسم کے بحران کا شکار ہو چکا ہے۔ اب سیاست سے زیادہ آئینی الجھنوں اور پیچیدگیوں نے ایسے مسائل کھڑے کر دیے ہیں ' جن کے بوجھ تلے ریاستی ادارے کرا ہ ر ہے ہیں۔یوں ملک میں سیاسی عدم استحکام بھی ہے ' معاشی بحران بھی ہے اور اب آئینی بحران بھی شامل ہو گیا ہے۔
اس صورت حال نے ملک میں سب سے زیادہ کاروباری طبقے 'تنخواہ دار طبقے اور محنت کش طبقے کو متاثر کیا ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ کاروبار چلیں گے تو محنت کشوں کو بھی کام ملے گا ' زراعت چلے گی تو اناج میں خود کفالت ہو گی ' تنخواہ دار طبقے کے مسائل بھی کم ہو جائیں گے لیکن پاکستان میں کاروبار بڑھنے کی بجائے کم ہو گئے ہیں' محنت کشوں کو بھی کام نہیں مل رہا ' نتیجتاً تنخواہ دار طبقہ بھی متاثر ہو رہا ہے۔
اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن اس سارے بحران کا حل نظر نہیں آ رہا ' بنیادی طورپر پاکستان میں پیدا شدہ مختلف بحران اپنی اصل میں ایک ہی نوعیت رکھتے ہیں۔ اگر سیاسی بحران حل ہو جائے تو معاشی اور آئینی بحران بھی حل ہو جائے گا ' اسی طرح اگر آئینی بحران حل ہو جائے تو سیاسی بحران خود بخود حل ہو جائے گا اور معیشت معاشی بحران بھی ختم ہو جائے گا۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ بحران ختم نہیں ہو سکتا ' ملک کی تمام سیاسی قیادت 'عدلیہ اور پارلیمنٹیرینز اور دیگر سٹیک ہولڈرز اپنے اپنے مفادات کم سے کم رکھ کر کسی ایک میکنزم پر متفق ہوجائیں تو ریاست کا کاروبار چلنا شروع ہو جائے گا۔
جہاں تک معاشی بحران کا تعلق ہے تو اس میں آئی ایم ایف فیکٹر بھی موجود ہے۔ حکومت کہتی تو ہے کہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کر دی گئی ہیں اور حتمی معاہدہ جلد طے پا جائے گا لیکن ان سطور کے لکھے جانے تک ایسا نہیں ہوا تھا۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ دنوں بھی اپنے بیان میں کہا تھا کہ ہمیںآئی ایم ایف کے بغیر رہنا سیکھنا ہوگا، پاکستان ڈیفالٹ کرنے کے لیے نہیں بنا، انھوں نے یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ غیرملکی قرضہ چار ارب ڈالر کم ہوا، خسارے پر قابو پائیں گے۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ آئی ایم ایف پروگرام جلد سائن ہوجائے گا اور بورڈ میٹنگ بھی ہوجائے گی۔
اب بھی یہی بات کہی جا رہی ہے 'بظاہر اشارے تو خاصے حوصلہ افزا ہیں' وزراء کے بیانات بھی خوش کن ہیں۔ان اشاروں کو درست سمجھا جائے تو لگتا ہے کہ پاکستان کے اکنامک منیجرزکی سمت ٹھیک ہے اور پاکستان کو اب کم از کم دیوالیہ ہونے کا خطرہ موجود نہیں ہے تاہم ملک میں معاشی بحران ابھی تک موجود ہے۔
پاکستان میں معاشی و اقتصادی بحران کی سنگینی میں اضافہ کیوں ہوا، اس کی وجوہات سب کو معلوم ہیں۔ ادھر ایک اخباری خبر میں سرکاری ایک رپورٹ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے آیندہ مالی سال کے لیے معاشی ترقی کا ہدف 3.5 اور مہنگائی کی شرح 20 فیصد تک رکھنے کا امکان ہے،یوں دیکھا جائے تواگلے مالی سال میں معاشی ترقی کی رفتار سست رہے گی اور مہنگائی کا گراف بھی بدستور بڑھتا رہے گا۔
تاہم یہ اہداف حقیقت پسندانہ نظر آتے ہیں ۔ملک کا سیاسی عدم استحکام اور اداروں کی کمزوریوں اور اآئینی و قانونی مسائل کی وجہ سے معیشت کو خطرات کا سامنا رہے گا، مجوزہ شرح تین بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے اندازوں کے مطابق ہے لیکن پاکستان میں بے روزگاری اور غربت کو کم کرنے کے لیے درکار رفتار کا نصف ہے۔
خبر میں حکومتی ذرائع کا حوالہ دے کر مزید بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2023-24 سے 2025-26 کے وسط مدتی اقتصادی فریم ورک کو اگلے مالی سال کے بجٹ کے حصے کے طور پر تیار کیا جا رہا ہے، پی ڈی ایم حکومت 10 جون کو اس کا اعلان کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے، مذکورہ رپورٹ جسے تاحال اگلے مہینے کے دوران متعدد ایگزیکٹو منظوریوں کے عمل سے گزرنا ہے،میں تسلیم کیا گیا ہے کہ موجودہ مہنگائی کے دباؤ کو کم کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔
پہلی بار وزارت خزانہ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ رواں مالی سال کے دوران اقتصادی ترقی کی شرح 0.8 فیصد کے آس پاس رہ سکتی ہے، جو چار سال میں سب سے کم ہے۔بلاشبہ معاشی اور اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہے لیکن اطمینان بخش بات یہ ہے کہ معیشت حرکت میں ہے' اب یہ کوئی نہیں کہتا کہ پاکستان دیوالیہ ہو جائے گا۔ موجودہ حالات میں ملک کو سب سے پہلے سیاسی بحران سے نکالنے کی تدبیر کی جائے کیونکہ ایسا کیے بغیر معاشی استحکام نہیں آسکتا۔
بجٹ میں توازن لانے، ٹیکس ریونیو ہر صورت میں بڑھانے کے ساتھ ساتھ سبسڈیز ختم کی جائیں۔ لوگوں کو تربیت دے کر ملکی معیشت میں کردار ادا کرنے کا موقعہ دیا جائے اور ''ویلیو ایڈڈ ایکسپورٹس'' کی حوصلہ افزائی کی جائے، اگر ایسا ہوا تو اقتصادی بحران کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا وگرنہ بیرونی قرضے پہلے سے لیے گئے قرضوں کی ادائیگی میں خرچ ہو جائیں گے اور کچھ عرصے کے بعد پھر معاشی بحران آن کھڑا ہو گا۔
ادھر پاکستان کے پالیسی سازوں کو یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ معیشت کو پرانے طریقے سے نہیں چلایا جا سکتا۔سرد جنگ کے دور میںامریکہ اور دیگر امیر ممالک پاکستان کی دل کھول کر مدد کرتے رہے'پاکستان کے ماضی میں جو بھی ترقیاتی پروجیکٹس مکمل ہوئے ہیں۔
وہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی مالی اور تکنیکی مدد کی وجہ سے ہوئے ہیں۔سرد جنگ کے طویل دور میں پاکستان کے پالیسی سازوں نے مواقع سے فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ مقامی صنعتوں کو زوال پذیر کیا' بھارت کے ساتھ پانی کے تنازعات کو حل کرنے پر توجہ نہ دی اور نہ ہی ڈیم تعمیر کرنے کی سنجیدہ کوشش کی۔اس کوتاہی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان کا زرعی شعبہ بھی زمین بوس ہو چکا ہے۔مقامی صنعتیں سرکاری مدد کے ساتھ چل رہی ہیں۔
ٹیکنالوجی میں پاکستان کی انویسٹمنٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔اس کے ساتھ ساتھ انتظامی سطح پر بھی کمزوری اور سستی کا دور دورہ رہا ہے۔خیبرپختونخوا اور بلوچستان قیام پاکستان کے وقت بھی پسماندہ 'غریب اور قبائلی معاشرت کی گرفت میں تھے اور آج بھی یہی صورت حال ہے۔
چھوٹے صوبوں میں ریاستی عمل داری قائم کرنے کی طرف کبھی توجہ نہیں دی تھی' ملک کے ٹیکس ریونیو میں چھوٹے صوبوں کا حصہ بہت کم ہے اور وہ صرف مرکز کی طرف دیکھتے ہیں۔ خصوصاً خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو اس حوالے سے اپنی ذمے داریوں کا ادراک کرنا ہو گا۔ قوم پرستی' روایت پرستی' لسانیت اور صوبائیت کو سیاسی ایجنڈا بنا کر اپنا سارا مالی بوجھ وفاق پر ڈالنے کی سیاست اور روایت ترک کرنے کی ضرورت ہے۔اب یہ سیاسی حربے قابل استعمال نہیں رہے ہیں۔
قوم پرستی اور لسانیت مثبت خطوط پر استوار ہونی چاہئیں نہ کہ کسی دوسری ثقافتی اور لسانی قومیت کے خلاف نفرت اور عناد پر استوار کی جائے۔ معیشت کو دستاویزی بنانے پر پوری توجہ دینی چاہیے۔ چھوٹے صوبوں کے پاس ماضی کے مقابلے میں آج بہت زیادہ اختیارات ہیں۔ ہر قسم کا صوبائی محکمہ اور ملازمین موجود ہیں' ان کی تنخواہوں اور دیگر مراعات پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں لیکن عملاً صورت حال یہ نظر آتی ہے کہ چھوٹے صوبوں کا محکمہ ایکسائز اور ٹیکسیشن پوری طرح فعال نہیں ہے۔
خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ہر قسم کی ٹرانسپورٹ چلتی ہے لیکن 80فیصد بغیر نمبر پلیٹ کے ہوتی ہیں اور ان کی محکمہ ایکسائز میں رجسٹریشن بھی نہیں ہوتی۔ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا کاروبار دھڑلے سے ہو رہا ہے' اس معاملے میں وفاق کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ پاک افغان سرحد سے پاکستان میں داخل ہونے والی ہر قسم کی موٹر وہیکلز' الیکٹرانکس کا سامان' اور کباڑ کے نام پر مختلف قسم کی مشینری پر کسٹمز ٹیکس وصول کرے' پاک افغان سرحد کراس کر کے جو موٹر وہیکلز' الیکٹرانک کا سامان اور کباڑ کی مشینری پاکستانی علاقے میں آئے' کسٹم ادا کرے اور اس کے بعد رجسٹریشن کا کام متعلقہ صوبہ کرے اور قانون کے مطابق صوبہ اپنا ٹیکس وصول کرے' اس طرح چھوٹے صوبوں کے ریونیو میں بھی اضافہ ہو گا اور وفاقی حکومت کو بھی ریونیو ملے گا۔
پاکستان کو اب جدید تقاضوں کے ساتھ چلنا ہو گا' معیشت کو جدید بنانے سے پہلے تعلیمی نظام اور نصاب کو بھی جدید بنانا ضروری ہے' ملک کی شمال مغربی سرحد کو اب کھلا نہیں چھوڑا جا سکتا۔ سیاست میں بھی جدید نظریات کی ضرورت ہے۔پرانے اور فرسودہ بیانیے اب ریاست کے ساتھ نہیں چل سکتے۔