مریم نواز شریف کا مقبول ہوتا بیانیہ

محترمہ مریم نواز کا دیا گیا یہ بیانیہ آج پوری نون لیگ کی مشترکہ آواز اور مطالبہ بن چکا ہے


Tanveer Qaisar Shahid April 28, 2023
[email protected]

میاں نواز شریف صاحب عمرہ ادائیگی کا شرف حاصل کرنے کے بعد لندن واپس جا چکے ہیں اور محترمہ مریم نواز شریف عمرہ کی سعادت کے بعد گذشتہ روز پاکستان پہنچ گئی ہیں ۔

21اپریل کو سعودی عرب میں عید الفطر تھی اور اُسی روز جناب محمد نواز شریف نے سعودی وزیر اعظم اور ولی عہد، شہزادہ محمد بن سلمان، سے جدہ میں ملاقات کی۔ نواز شریف کے ساتھ اُن کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز شریف،بھی تھیں ۔

وفاقی وزیر اطلاعات، محترمہ مریم اورنگزیب، نے ٹویٹ کرکے اِس اہم ملاقات کی تصدیق کر دی اور بتایا کہ ''یہ ملاقات مثبت رہی اور اِس ملاقات میں پاکستان کو درپیش مسائل کے حل بارے گفتگو بھی ہُوئی ۔''لاریب اِس ملاقات نے سعودی عرب، پاکستان اور شریف خاندان کو مزید قریب کیا ہے ۔

یہ ملاقات ایسے ماحول میں ہُوئی ہے جب پاکستان میں اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں اور پی ٹی آئی کے مابین ملاقات کیے جانے کا غلغلہ ہے تاکہ کشیدگی ختم ہو سکے ۔مریم نواز شریف صاحبہ کا بیانیہ مگر عمران خان سے کسی مجوزہ ملاقات کی مخالفت میں ہیں ۔یہی نکتہ نظر شائد جناب نواز شریف کا بھی ہے ۔

محترمہ مریم نواز شریف، نے مسلسل محنت، کمٹمنٹ اور لگن سے بیانیہ(Narrative) بنایا ہے۔مریم نواز صاحبہ جب جوش و جذبے کی شدت کے ساتھ اپنے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو فضا میں یکساں طور پر لہراتے ہُوئے سامعین سے کہتی ہیں:'' ترازو کے دونوں پلڑے برابر کیے جائیں'' تو اُن کے یہ الفاظ مضبوط بیانیہ اور واضح پیغام بن کر متعلقہ افراد تک پہنچ جاتا ہے ۔

محترمہ مریم نواز کا دیا گیا یہ بیانیہ آج پوری نون لیگ کی مشترکہ آواز اور مطالبہ بن چکا ہے۔ اِس مطالبے کو اب وزیر اعظم جناب شہباز شریف بھی غیر مبہم الفاظ میں دہرا رہے ہیں اور دیگر نون لیگی رہنما اور قائدین بھی۔ نون لیگی مرکزی قائدین بیک زبان مطالبہ کرتے سنائی دے رہے ہیں کہ '' ترازُو کے دونوں پلڑے برابر کیے جائیں ، وگرنہ بحران مزید بڑھے اور پھیلے گا۔'' خاص طور پر پچھلے چار، پانچ برسوں کے دوران نون لیگ اور نون لیگی قائدین سے جو ناانصافیاں اور زیادتیاں دیکھنے میں آئی ہیں، اِس پس منظر میں مریم نواز شریف کا مذکورہ بیانیہ بے حقیقت نہیں ہے ۔ یکم اپریل2023ء کو سامنے آنے والی نواز شریف کی 15منٹی پریس کانفرنس بھی دراصل اِسی بیانئے کی بازگشت ہے ۔

اِس مطالبے اور بیانئے کے مخاطبین ایک نہیں، کئی ہیں ۔ اِس بیانئے نے محترمہ مریم نواز کے کئی نئے مخالفین بھی پیدا کر ڈالے ہیں۔ مثلاً دو معروف فنکار۔ مجھے سوشل میڈیا کے ہوتے ہوئے اِن دونوںکا نام لینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کے نام سب کو معلوم ہیں۔

اِن میں ایک صاحب ہیں اور دوسری خاتون ہیں۔ اگلے روز ایک ٹی وی شو میں میزبان خاتون کے رُوبرو تھے ۔خاتون فنکارہ کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں صاحب نے محترمہ مریم نواز شریف پر دل فگار طنز کیا۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پر شرمندہ ہونے کی بجائے خاتون میزبان نے قہقہے بھی لگائے اور تالیاں بھی بجائیں ۔ محترمہ مریم نواز تو خاموش ہیں لیکن سوشل میڈیا پر سخت ردِ عمل دیکھنے میں آیا ہے ۔ ہم اس تازہ مثال ہی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ محترمہ مریم نواز شریف پر حملے کس کس جانب سے کیے جارہے ہیں۔

20مارچ2023کو ایک آڈیو ٹیپ ملک بھر میں سُنی گئی اور گردش کرتی رہی ۔ اِس آڈیو ٹیپ کی خبر تقریباً سبھی اخبارات نے اپنے صفحہ اوّل پر شائع کی۔ یہ مبینہ آڈیوٹیپ وطنِ عزیز کے ایک سابق چیف جسٹس اور ہمارے ملک کے ایک ممتاز قانون دان ( جو پی ٹی آئی کے وکیل بھی ہیں) کے درمیان ہونے والی گفتگو پر مشتمل ہے۔

اس گفتگو کے الفاظ یہاں نقل نہیں کیے جاسکتے۔اگلے روز کھڈیاں( قصور) میں اپنے ایک زبردست جلسے میں محترمہ مریم نواز نے جرأت کرکے اِس آڈیو ٹیپ کے حساس اور پُر خطر الفاظ پبلک میں دہرا بھی دیئے۔ دونوں شخصیات کی مبینہ گفتگو کا چند لفظی خلاصہ یہی ہے کہ مریم نواز کی سیاست کو مسدود و محدود کرنے کے طریقے سوچے جا رہے ہیں۔

شہباز شریف نے سماجی رابطے کے ویب سائیٹ پر اِس ضمن میں یوں کہا ہے : '' بیٹی مریم نواز کے بارے میں یہ گفتگو گھٹیا اور انتہائی قابلِ مذمت ہے''۔ وزیر اعظم صاحب کے یہ الفاظ مگر ناکافی سمجھے گئے ہیں۔ اِس آڈیو ٹیپ کا صاف مطلب یہ ہے کہ مریم نواز کی جان کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ اگر ایسے خطرناک الفاظ عمران خان بارے کوئی کہتا تو پی ٹی آئی اپنی پروپیگنڈہ مشینری سے اب تک آسمان سر پر اُٹھا چکی ہوتی ۔نون لیگ مگر حسبِ سابق خاموش ہے ۔

محترمہ مریم نواز شریف، عمران خان اورکئی مخالفین کی آنکھ میں صرف آج ہی کھٹک نہیں رہی ہیں۔ اِس کا شائد آغاز اُس وقت ہُوا تھا جب نواز شریف کی تیسری وزارتِ عظمیٰ کے آخری برس'' ڈان لیکس'' کا طوفان اُٹھایا گیا تھا ۔ اس لیک کا دوسرا بڑا ہدف مریم نواز شریف تھیں اور اب پاکستان کی ایک سابق طاقتور شخصیت نے اپنے مبینہ انٹرویو میں کہا ہے کہ''ڈان لیکس میں تو کچھ بھی نہیں تھا۔'' اِس اعتراف کے باوجود اِس ان صاحب کے غصے کا نزلہ محترمہ مریم نواز پر گرا ہے ۔

اِس شخصیت نے مذکورہ مبینہ انٹرویو کی تیسری قسط میں دوبار جناب نواز شریف کی صاحبزادی کا نام لے کر الزام عائد کیا ہے کہ مریم نواز کے فیصلوں کی وجہ سے نواز شریف مشکلات میں پھنسے ۔ اِس غصے کی اصل وجہ شائد یہ ہے کہ مریم نواز کا بیانیہ بعض سابقین کو بھی متاثر کررہا ہے ۔

مریم نواز صاحبہ کی حریف قوتیں سمجھتی ہیں کہ میدان مارنا ہے تو محترمہ مریم نواز شریف کو سیاست میں ڈِس کریڈٹ کرنا ہوگا؛ چنانچہ مریم نواز کے خلاف متنوع ہتھکنڈے بروئے کار لائے جا رہے ہیں ۔ اِن پر پہلے بھی عمل کیا جاتا رہا ہے ۔ مثال کے طور پر عمران خان کے دَورِ وزارتِ عظمیٰ میں (19اکتوبر2020 کو) کراچی کے ایک ہوٹل میں محترمہ مریم نواز شریف کے کمرے کا دروازہ توڑنے کا اقدام ۔اب تقریباً تین سال بعد اِس واقعہ سے بھی باقاعدہ پردہ اُٹھ گیا ہے ۔

یہ پردہ ایک صحافی نے ایک سابق طاقتور شخص کا تین اقساط میں مبینہ انٹرویو کرکے اُٹھایا ہے ۔اس مبینہ انٹرویو میں ایک سوال محترمہ مریم نواز شریف پر کراچی ہوٹل میں حملہ بارے بھی تھا۔ یہ انکشافی مبینہ انٹرویو واضح کر گیا ہے کہ مریم نواز شریف کو کیسے کیسے طاقتوروں کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔ مریم نواز شریف نے مگر میدان چھوڑا نہ دل برداشتہ ہُوئیں۔وہ میدانِ سیاست میں ڈٹی رہیں۔نتیجتاًآج وہ نون لیگ کی مضبوط ڈھال اور ڈھارس بن چکی ہیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں