سمجھنے کی ضرورت ہے
معاشرے میں بڑھتی ہوئی ہوس زر نے رشتوں میں دراڑیں ڈال دی ہیں
زاہد ایک 35 سالہ نوجوان ہے، ماہانہ آمدنی تقریباً 30 ہزار ہے، ماں باپ، دو بھائی اور ایک بہن پر مشتمل یہ خاندان ایک عجیب مشکل کا شکار ہے، زاہد بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہے، لیکن اب تک اس کی شادی نہیں ہوئی ہے، والد ایک گارمنٹ فیکٹری میں کام کرتے ہیں۔
ایک بھائی اور بہن بھی ملازمت کرتے ہیں یوں اس خاندان کی سفید پوشی بھی برقرار ہے اور عزت نفس بھی، لیکن اس سب کے باوجود زاہد کا رشتہ ابھی تک کہیں نہیں ہو رہا، کہ لڑکی والوں کی ڈیمانڈ بہت زیادہ ہیں، مثلاً لڑکا گورنمنٹ جاب کرتا ہو، ذاتی مکان ہو اور تعلیم یافتہ بھی ہو۔
عموماً یہ مسئلہ لڑکی والوں کا سمجھا جاتا ہے کہ رشتہ نہیں مل رہا، لیکن یقین کیجیے کہ میرے علم میں گزشتہ دنوں ایسے خاندان آئے جن کے لڑکوں کی شادیاں نہیں ہو پا رہیں، ان سب ڈیمانڈ کے ساتھ ایک پخ یہ کہ یا تو لڑکا اکیلا ہو یا پھر کنبہ مختصر ہو، اسی وجہ سے لڑکیاں گھروں میں بیٹھی بالوں میں چاندی کے تار گنتی رہتی ہیں، لیکن والدہ محترمہ کو کوئی رشتہ پسند ہی نہیں آتا، ایک اور خاندان ہے آٹھ افراد پر مشتمل پانچ بیٹیاں ایک بیٹا اور ماں باپ۔ بیٹا سب سے بڑا ہے ایک کالج میں پڑھاتا ہے، لیکن پانچ بہنوں کا سن کر کوئی رشتہ نہیں دیتا، فیاض کی عمر بھی تیس سال سے زائد ہے لیکن اس کا رشتہ بھی اس لیے نہیں ہو پا رہا کہ وہ بیوہ ماں اور تین بہن بھائیوں کا کفیل ہے۔
معاشرے میں بڑھتی ہوئی ہوس زر نے رشتوں میں دراڑیں ڈال دی ہیں، لوگوں کو صرف لڑکی والوں کے مسائل یاد رہتے ہیں، لڑکے کن کن مسائل کا شکار ہیں ان کی طرف کوئی دیکھتا بھی نہیں۔ ہر جگہ یہی سننے کو ملتا ہے '' اللہ بیٹیوں کا نصیب اچھا کرے۔ '' کبھی بھی کوئی یہ نہیں کہتا کہ ''بیٹے کا نصیب اچھا ہو۔'' مرد بے چارہ چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پستا ہے۔
اگر شادی ہوگئی تو وہ ہر دم بیگم کی خوشنودی میں لگا رہتا ہے۔ جوائنٹ فیملی سسٹم بہت عرصہ ہوا ختم ہو گیا، اب میاں بیوی اور بچے، شادی سے پہلے ماں بہنوں کے صدقے واری جاتے ہیں لڑکی والے اور نکاح ہوتے ہی سب رنگ ڈھنگ بدل جاتے ہیں، شادی کے بعد دوسرے ہفتے ہی میں '' الگ گھر '' کی گردان شروع ہو جاتی ہے۔
پھر ساس سسر کو دیس نکالا مل جاتا ہے اور لڑکی کے والدین دھرنا دے کر بیٹھ جاتے ہیں اور داماد کی کمائی پر اپنا ہاتھ صاف کرتے ہیں، لڑکا اگر ہوش مند اور فہمیدہ ہے تو وہ بیوی کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکتااور اپنی بات منوانا جانتا ہے لیکن اگر لڑکا سیدھا اور شریف ہے تو بیوی کا غلام بن جاتا ہے، ماں باپ اور بہن بھائی اس کے لیے اجنبی بن جاتے ہیں۔
ایک اور وجہ بھی رشتے نہ ہونے کی نظر آتی ہے وہ یہ کہ اکثر گھروں میں لڑکیاں جاب کر رہی ہوتی ہیں۔ ماں باپ اور بہن بھائیوں کو پال رہی ہوتی ہیں اس لیے عموماً گھر والے نہیں چاہتے کہ کماؤ لڑکی کا رشتہ ہو، اگر کسی گھر میں رشتہ طے ہو جاتا ہے تو ماں باپ فوراً نوکری چھوڑنے کو کہتے ہیں، گویا جب اس کا اپنا گھر ہو تو وہ اپنی تنخواہ اپنے شوہر اور بچوں پہ خرچ نہیں کرسکتی، یہ دہرا معیار ہے، ایسا ہم نے دیکھا ہے کہ لڑکی نے رشتہ پکا ہوتے ہی جاب چھوڑ دی اور لڑکا بے چارہ اکیلا گھر چلائے، لڑکی والوں کی بے جا ڈیمانڈ کی وجہ سے لڑکیاں گھروں میں بیٹھی ہیں۔
طلاقوں کی شرح بھی تشویش ناک حد تک بڑھتی جا رہی ہے، زیادہ تر قصور وار لڑکی اور اس کے گھر والے ہوتے ہیں۔ البتہ گاؤں گوٹھوں میں بہو کم قصوروار ہوتی ہے اور ساس سسر زیادہ جب کہ شہروں میں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔
لاہور میں میری ایک شناسا کی بہو جب بیاہ کر آئیں تو سارا دن سونے، ٹی وی دیکھنے یا پھر موبائل پر میکے اور سہیلیوں سے بات کرتے گزرتا گیا، ساس نے نہ ٹوکا نہ روکا، بلکہ خود ہی کام کرتی رہیں، کچھ عرصے بعد جب ہوٹلنگ اور شاپنگ سے لڑکا زچ ہو گیا اور اس نے اخراجات کا رونا رویا تو بیگم نے طلاق کا مطالبہ کردیا اور واقعی طلاق لے کر میکے واپس چلی گئیں۔
ایک اور گھرانا ہے آمنہ بیگم کا، تین بیٹیاں اور ایک بیٹا، بڑی بیٹی کے تین سال تک کوئی اولاد نہ ہوئی، لیکن شوہر نے کچھ نہ کہا۔ چوتھے سال اللہ نے بیٹا دیا، اب وہ شیر ہو گئیں اور علیحدہ گھر کا مطالبہ کردیا ، شوہر ماں باپ کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔
سو بیگم ناراض ہوکر بچے کو سسرال میں چھوڑ کر میکے جا بیٹھیں کہ اب شوہر کی عقل ٹھکانے پر آئے گی اور وہ علیحدہ گھر لے کر انھیں منا کر لے جائے گا ، عزیز رشتے داروں نے سمجھایا کہ علیحدہ گھر کی ضد اچھی نہیں ہے لیکن وہ خاتون نہ مانی، پھر شوہر سے طلاق کا مطالبہ یہ سوچ کر کردیا کہ اب تو میری بات ضرور مانے گا، لیکن ہوا اس کے برعکس، پھر آخری بار شوہر نے بیوی کو گھر واپس لانا چاہا لیکن وہ نہ مانی اور پھر طلاق ہوگئی۔
اب ماں بھی پچھتائیں اور بیٹی بھی۔ آمنہ بیگم کی دوسری بیٹی کی شادی جہاں ہوئی وہاں پہلی بیوی کی وفات کے بعد دو بچے تھے آٹھ اور نو سال کے ، شادی میں لڑکی کی رضا مندی شامل تھی، کچھ عرصہ تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک چلتا رہا، بیوہ ساس گھر میں تھیں، لیکن تین چار ماہ بعد ہی آمنہ بیگم کی بیٹی کے اندر چھپی سوتیلی ماں باہر آگئی۔
بچوں کے ساتھ اس کا سلوک بہت خراب ہو گیا اور شوہر نے اس بنا پر طلاق دے دی کہ بچوں کے ساتھ اس کی بیوی کا سلوک بہت ناروا تھا۔ اب آمنہ بیگم کی چھوٹی بیٹی کا کوئی رشتہ نہیں آتا کہ دو بہنیں گھر نہ بسا سکیں تو تیسری کیا نبھائے گی۔
ایک اور خاتون ہیں، پڑھی لکھی، شادی ہوئی تو پتا چلا کہ شوہر نشئی ہے اور کچھ نفسیاتی عارضوں میں بھی مبتلا ہیں، ایک بیٹا ہوا، لڑکی نے حتی الامکان کوشش کی کہ نبھاہ ہو سکے لیکن وہ شخص آئے دن ملازمت چھوڑ کر بیٹھ جاتا تھا، ایم۔بی اے کیا ہوا تھا، لیکن وہ بھی ایک ٹوٹے ہوئے گھر کا بچا تھا۔
باپ نے شادی کے پندرہ سال بعد بیوی کو طلاق دے دی تھی کہ انھیں دوسری شادی کرنی تھی اپنی کولیگ سے۔ بیٹے کو باپ نے اپنے پاس رکھ لیا اور دونوں بیٹیوں کو ماں کے حوالے کردیا۔ اس طرح بیٹیاں باپ سے اور بیٹا ماں سے محروم ہو گیا، دوسری بیوی سے بھی دو بچے ہوئے اور اس طرح بیٹا اور بھی ماں کی محرومی کا شکار ہوگیا، ٹوٹے ہوئے گھروں کے بچے عموماً احساس محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
بچپن میں سنا کرتے تھے کہ شادی کے وقت بیٹیوں کو والدین نصیحت کرتے تھے کہ بیٹی لال جوڑے میں جا رہی ہو، سفید میں نکلنا۔ ویسے کوئی اس جملے سے متفق ہو یا نہ ہو لیکن اس میں ایک دانائی تھی کہ لڑکی کو گھر بسانا ہے اور سرد وگرم حالات کا سمجھداری سے مقابلہ کرنا ہے تو وہ گھر بس جاتے تھے۔
عقل مند لڑکیاں سسرال کی باتیں میکے میں نہیں بتاتی تھیں، اس طرح وہ تمام معاملات کو ہینڈل بھی کرلیتی تھیں، چھوٹی موٹی نوک جھونک یا اختلاف ہر گھر میں ہوتا ہے، اسے مسئلہ نہیں بنانا چاہیے، لیکن اگر بات زیادہ بگڑ جائے تو والدین کو لڑکی کا ساتھ دینا چاہیے۔ اوپر میں نے جس ایم بی اے لڑکے کا ذکر کیاہے اس کی بیوی نے نباہ کرنے کی بہت کوشش کی لیکن بات جب مارپیٹ اور شک و شبے تک پہنچی تو والدین نے خلع دلوا دی۔
آج ایک عام اندازے کے مطابق طلاقوں کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ لڑکی والوں کی ڈیمانڈ کے ساتھ خود لڑکی کی بڑی بڑی ڈیمانڈ میں شاپنگ، تفریح اور ہوٹلنگ سرفہرست ہے۔ جہاں دونوں کما رہے ہوں وہاں تو یہ سب کسی حد تک ممکن ہے لیکن اگر کمانے والا ایک اور کھانے والے زیادہ ہوں تو مشکلات پیش آتی ہیں۔
ہاؤس وائف کا وتیرہ صرف ڈیمانڈ ہوتا ہے، مرد بے چارہ کما کما کر تھک جائے لیکن بیگم کی فرمائشیں ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ پڑوسن سے مقابلہ، رشتے داروں سے مقابلہ، حرص و ہوس بڑھتی جاتی ہے اور پھر گھروں میں جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں، جو بعض اوقات طلاقوں پر منتج ہوتے ہیں۔ بچے دو حصوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔
والدین کو چاہیے کہ لڑکیوں کو گھر بسانے کی تعلیم دیں، ملازمت پیشہ خواتین کو اس بات کا احساس رہتا ہے کہ ان کے بچے بھی نظرانداز نہ ہوں اور گھر بھی چلتا رہے، لیکن بعض جگہ سمجھوتے نہیں ہوتے، بات بے جا خواہشات کی تکمیل ہے۔
چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے والی کہاوت پر اگر عمل کیا جائے اور تھوڑی سی برداشت پیدا کرلی جائے تو طلاقوں کی شرح کافی حد تک کم ہو سکتی ہے۔ بشرطیکہ گھر کے بزرگ بالخصوص مائیں اپنا کردار نبھائیں اور لڑکیوں کو درگزر کرنا سکھانے کے ساتھ ساتھ سمجھوتہ کرنا بھی سکھائیں کہ شادی کا دوسرا نام سمجھوتہ ہے۔