کیا ہم بھی چچا اچار ہیں

ہمارے آج کے کالم کا اصل موضوع ( الہ آباد کا غنڈہ) عتیق احمد، اس کا بھائی اشرف ہے


ندیم صدیقی April 28, 2023

آزادی کے بعد وزارت داخلہ (ہند) کی طرف سے ملک کے تمام پولیس تھانوں کو ایک غیر اعلانیہ (زبانی) سرکولر جاری ہوا تھا کہ مسلمانوں کے علاقوں میں اگر غیر قانونی سرگرمیاں ہو رہی ہوں یا کوئی فرد مجرمانہ حرکتیں کر رہا ہو تو اس سے اغماض ( چشم پوشی) برتا جائے۔

یہ باتیں ہم نے اپنے کئی بزرگ دوستوں سے سنی ہیں اور اس پر یقین کرنے میں کوئی تامل بھی نہیں ہوا کہ ہم اپنے بچپن سے دیکھ رہے ہیں کہ ہر شہر کے ہر مسلم محلے اور گلی کوچوں میں مسلمانوں کے شراب خانے، قمار خانے، چرس کے اڈے جیسے نجانے کتنی آماج گاہیں بنتی چلی گئیں اور پھر جب وہ انتظامیہ کے لیے مسئلہ بنیں اور غنڈوں کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی تو ان غنڈوں کی آخری اور محفوظ پناہ گاہ سیاست بن گئی۔

اسی طرح بعض غنڈوں نے دین کو بھی پناہ گاہ بنایا اور خود ساختہ ' مولانا ' کا مقدس سابقہ اپنے نام کے ساتھ اختیار کیا۔ چونکہ عوام کی کثیر تعداد علم و عقل سے عاری ہوتی ہے۔

ان کا اس طرح کے غنڈوں کو اپنا سیاسی لیڈر یا دینی قائد سمجھ لینا عجب نہیں، دراصل قومی حمیت اور حماقت کا فرق ہمارے ہاں نہیں رہا۔

اس وقت بھارت کے مسلمانوں میں الہ آباد کے عتیق احمد اور اس کے بھائی اشرف کا قتل اور اس سے پہلے عتیق کے بیٹے کا (مبینہ) پولیس ان کاؤنٹر موضوع گفتگو بنا ہوا ہے۔

اس سے پہلے یہ ذکر بھی ہوجائے کہ حکمراں پارٹی بھارتی مسلمانوں کی شبیہ کو نہایت '' سلیقے '' سے خراب کرنے پر تلی ہوئی ہے اور افسوس اس کا ہے کہ ہمارا وہ طبقہ جو 'دانش مند' سمجھا جاتا ہے وہ اس 'سلیقے ' کو اپنے ' سلیقے کی ضد ' سے مسلمانوں کے دشمنوں کے منصوبوں کو تقویت پہنچا رہا ہے، کسی کے دل کا حال تو خدا ہی جانے مگر آثار و قرائن سے کسی بھی تصور کے لیے ہم سب آزاد ہیں۔

ہمارے آج کے کالم کا اصل موضوع ( الہ آباد کا غنڈہ) عتیق احمد، اس کا بھائی اشرف ہے۔ عتیق احمد الہ آباد ہی میں نہیں بلکہ پورے اتر پردیش میں اپنی غنڈہ گردی کی کوئی چالیس سال سے زائد مدت کی '' بد نامی کا حامل رہا ہے، ایک عام سا فرد الہ آباد میں کروڑ ہا کروڑ پتی کیسے بن گیا ؟ اس سوال کا جواب ایک طویل مضمون نہیں بلکہ ایک ضخیم کتا ب کا حجم چاہتا ہے، ظاہر ہے اس کالم میں وہ سب کچھ بیان کرنا محال ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ عتیق احمد اور اس کے برادر کے ساتھ جو بہیمانہ عمل ہوا وہ بہر طور ہونا ہی تھا اور اس کی اس '' ہونی'' پر تعجب ہی نہیں افسوس بھی بے معنیٰ ہے چونکہ خود عتیق احمد پر نجانے کتنے قتل کے الزامات تھے، جن میں جگا اور چاند بابا کے قتل کی روداد الٰہ آباد میں زبان زد عام ہیں، کچھ سنجیدہ اشخاص کی روایت کے مطابق جگا کا قتل تو انتہائی سفاکی سے ہوا تھا۔

الہ آباد کے وہ معصوم لوگ جو عتیق احمد کے مظالم کے شکار ہوئے ہیں جن کی تعداد ایک دو نہیں، یقین ہے کہ وہ سب عتیق احمد کے قتل سے خوش ہی نہیں ہوئے ہونگے بلکہ ان کو ایک راحت کا احساس بھی ہوا ہوگا۔ اس وقت اسلام کا یہ قول بھی ہمارے ذہن میں گونج رہا ہے:

(مفہوم) جس نے ایک انسان کا قتل کیا وہ پوری انسانیت کے قتل کا مجرم ہوگا۔

اسی طرح ایک مقروض کی نماز جنازہ پڑھانے سے رسول کریم کا اجتناب بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہے، کیا یہ وضاحت ضروری ہے کہ ' نماز جنازہ ' بھی دعائے مغفرت ہی کی ایک شکل ہے۔

ہم اس وقت بہت حیرت اور شدید غم و غصے میں مبتلا ہوئے جب یو پی ہی کے ایک ' مشہور ' عالم دین کی عتیق کے حق میں اعلانیہ دعائے مغفرت ہی نہیں بلکہ روتے ہوئے۔

اس کے قاتلوں کے حق میں بد دعا کا آڈیو سنا (واضح رہے کہ اب تک مذکورہ عالم دین کی طرف سے اس آڈیو کی تردید بھی سامنے نہیں آئی) ہم کسی کے دل کا حال جاننے کے مدعی نہیں مگر اس عالم دین نے شعوری یا لاشعوری طور پر اعلانیہ ' دعائیہ کلمات' ادا کیے ہیں۔

وہ برادران وطن میں بہر طور ہندوستانی مسلمانوں کی شبیہ کو مزید خراب کرنے کے مترادف ہیں اور اس طرح مسلم دشمن قوتوں کو ایک تقویت پہنچائی ہے بلکہ عجب نہیں، کچھ افراد کے ذہن میں یہ بھی ہو کہ ان 'حضرت' نے مسلم دشمن قوتوں کے لیے 'آلہ کار' کا کام کیا، چونکہ 2024 کا جنرل الیکشن قریب آتا جارہا ہے اور بی جے پی اپنا ' ہندو۔ مسلم' کارڈ وقتاً فوقتاً کھیلتی رہے گی بلکہ کھیل رہی ہے، مگر حیرت ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کا دانش مند طبقہ اس کھیل کو کیوں نہیں سمجھ رہا ہے بلکہ ہو یہی رہا ہے کہ یہ طبقہ بی جے پی کے ' کھیل' میں جانے انجانے حصے دار بن رہا ہے۔

اس وقت ہندوستانی مسلمان ''چچا اچار '' بنا دیے گئے ہیں یا بن گئے ہیں، چچا اچار کی روداد یوں ہے کہ کسی مسلم علاقے یا مسلم محلے میں پڑھے لکھے، ایک سنجیدہ مسلمان تھے جو اپنے کام سے کام رکھتے تھے، کسی نے بتایا کہ'' فلاں چچا کتنے پڑھے لکھے اور سمجھدار، بلکہ دانشور ہیں یہ کسی کے لینے دینے میں نہیں رہتے۔'' سننے والے نے کہا: اماں پڑھا لکھا اور سنجیدہ ہونا اور بات ہے۔

دانش مند کی شہرت اور ہے، دانش مند ثابت ہونا دوسری بات ہے۔ دیکھو دیکھو وہ 'پڑھے لکھے، سنجیدہ، دانش مند چچا ، گلی کے نکڑ پر کسی سے بات کر رہے ہیں۔ لیجیے آپ دیکھیے کہ وہ کتنے دانشمند ہیں۔

مختصراً یہ کہ ایک بچہ ہاتھ میں کٹوری لیے ان کے پاس پہنچایا گیا کہ چچا دو روپے کا اچار دیدو۔ چچا نے بچے کی طرف دیکھا اور کہا کہ بیٹے! یہاں اچار کہاں، بنیے کی دکان پر جاؤ، وہاں اچار... کچھ وقفے کے بعد دوسرے بچے کو بھی اسی طرح' چچا دانش مند' کے پاس اچار کے لیے بھیجا گیا، یہ عمل چار بچوں سے کر وایا گیا۔

تھوڑی دیر میں وہ چاروں بچے گلی میں کچھ فاصلے سے چچا کو مخاطب کرتے ہوئے ' چچا اچار، چچا اچار' کا آوازہ بار بار بلند کرتے رہے اور پھر پورے علاقے میں انھیں '' چچا اچار'' کہا ہی نہیں جانے لگا بلکہ وہ پڑھے لکھے، سنجیدہ شخص واقعتاً ''چچا اچار'' ثابت ہوگئے اب جب بھی وہ گھر سے نکلتے ہیں تو انھیں دوچار مقامات پر '' چچا اچار'' کا آوازہ سننا ہی پڑتا ہے۔

عتیق احمد کی دعائے مغفرت کرنے والے عالم دین کے بارے میں ' ہم ' جیسے نجانے کتنے افراد یہ سوچ رہے ہونگے کہ جب کشمیر میں دہشت گرد نہیں بلکہ معصوم' کشمیری مسلم عوام ' مارے جاتے ہیں تو ان حضرت کے منہ سے دعا، بد دعا کے لفظیات نہیں پھوٹتے۔ سچ ہے کہ ایسے ہی لوگوں نے ہمیں ''چچا اچار'' بنا رکھا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں