دوزخ سے نجات
رات کے اندھیرے میں اب دن کے اجالے میں قوم کو پیٹرول 282 روپے 77 پیسے دیا جا رہا ہے
حکومت پاکستان نے رواں مالی سال میں7 ارب 76 کروڑ ڈالر سے زیادہ کا قرضہ لیا ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ اپنی عبادات میں دن دگنا اور رات چو گنا اضافہ کردیں، کیونکہ بعد انتقال جو قرض دار مرے گا اس سے سختی سے حساب لیا جائے گا مانا کہ اپنے مسلمان بھائیوں سے کم گوروں سے زیادہ قرضہ لیا ہے بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ مسلمان ممالک ہم پر رحم کرتے ہوئے ہمارے قرضے معاف کردیں تاکہ 50 فیصد تو اوپر قرضے سے نجات مل جائے گی۔
اب رہا معاملہ 50 فیصد کا تو وہ تو گوروں کا قرضہ ہے اس کے لیے بعد انتقال معاف ہوگا یا نہیں اس حوالے سے کسی مولوی سے فتویٰ لے لیں کہ ہمارا بنے گا کیا؟ مرنے کے بعد دفن کرنے سے قبل قبر پر اعلان ہوتا ہے کہ مرحوم نے اگر کسی سے کچھ قرض لیا ہو تو ابھی بتا دیں۔
تاکہ ان کا قرض اتار دیا جائے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قوم برسر اقتدار سابق حکومت کے لوگ ان تمام افراد کو ایک خط لکھا جائے جو ''دوزخ سے نجات'' تنظیم کے حوالے سے لکھا جائے کہ حکومتی ادارے قوم کو ایک این او سی جاری کریں اس قرض کے ہم ذمے دار ہیں قوم کا کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ اس قرض سے قوم کو کیا مراعات دی گئی ہیں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے تب ہی یہاں اور اوپر آپ کا قرضہ معاف ہوگا۔
جہاں قرض کی بات نہ ہو وہاں رعایت کی بات کی جاتی ہے کہ روس پاکستان کو رعایتی تیل دے گا ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ قرض پر مراعات لیتے ہیں رعایتیں تیل پر خوب مراعاتیں لیتے ہیں کتنے شاہ خرچ ہیں ہم لوگ، بادام بہت مہنگے ہوگئے ہیں کہ سیاسی طور پر کچھ سیاست دان دماغی کمزوری کا شکار ہوگئے ہیں وہ اب تک منوں ٹنوں بادام کھا چکے مگر دماغ ہے کہ کام ہی نہیں کرتا ۔خان صاحب کی حکومت میں جو یہ کہتے تھے کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا ہے۔
رات کے اندھیرے میں اب دن کے اجالے میں قوم کو پٹرول 282 روپے 77 پیسے دیا جا رہا ہے، رات کو تو آپ کو اندھیرے میں پٹرول کی قیمتیں نظر آگئیں مگر دن کے اجالے میں نہ آسکیں اور اس معیشت دان کو سلام جو پیسوں کا اضافہ ضرور کرتے ہیں پٹرول پمپ والے 282 کے حساب سے قوم کو پٹرول دے رہے ہیں77 پیسے پٹرول والے اپنے پاس رکھ لیتے ہیں کبھی کسی ذمے دار نے یہ سوچا ہے کہ یہ 23 پیسے کیوں لیے جا رہے ہیں اربوں روپے کا پٹرول خریدا جاتا ہے۔
ان میں 23 پیسے اگر آپ جمع کرلیں تو کیا جواب آئے گا کیلکولیٹر نے بھی جواب دے دیا ہے کہ کتنی رقم اس مد میں قوم کی جا رہی ہے اب تو یوٹیوب پر پی ڈی ایم سے وابستہ سلجھے ہوئے سیاستدان اپنی ہی حکومت پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں ۔ یہ کھیل آخر کب تک ہوگا 16 جنوری 2022 میں 3 روپے فی لیٹر پٹرول پر بڑھانے پر اسے معاشی قتل قرار دیا گیا تھا کیا انھیں احساس نہیں کہ ہم ماضی میں کیا بیانات دیتے رہے ہیں مگر صاحب، اقتدار کا نشہ بہت ظالم ہے یہ بن پیسے بھی لہراتا ہے مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے۔
سیاسی طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ قوم کے وسیع تر مفاد کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا ہے وہ وسیع تر مفاد اندھیرے مٹکے میں قید ہے جو آج تک نظر ہی نہیں آیا کچھ سیاستدانوں نے بیانات کی طوفان بدتمیزی کی پتنگ اڑا دی ہے ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور قوم یہ تماشا شب و روز دیکھتی ہے ایک دوسرے کو دہشت گرد کے لقب دیے جاتے ہیں، ہے ناں عجیب سی بات، قوم تو بے چاری تہی دامن ہے ، تنقید کو اصلاح کے طور پر لیا جائے آج کی سیاست 25 سال پہلے والی سیاست نہیں ہے قوم سوشل میڈیا کے توسط سے باخبر ہے ،ایک شاعر نے خوب کہا ہے۔
اپنی تحریر میں اپنا خون جگر دے دو
اپنی سوچ و فکر میں نیا رنگ دے دو
شاعر سے راقم کو تھوڑا اختلاف ہے کہ اب تو خون جگر ہی نہیں ہے تو احساس کا خون کہاں سے دیں عدالتیں وہ ادارہ ہیں جو قوم کی آواز پر لبیک کہتی ہیں اگر یہ معزز عدالتیں نہ ہوتیں تو نہ جانے اس قوم کا کیا بنتا سیاسی طور پر عدالتوں پر بھی تنقید کی جاتی ہے جو زیادتی کے زمرے میں ہے۔
کچھ سیاسی حضرات ہیں جو بیانات دیتے ہیں یہ بات مناسب نہیں عدالتوں کا احترام لازمی ہے اقتدار تو آنی جانی چیز ہے مگر عدالتیں معزز طریقے سے قوم کے لیے بہتر فیصلے کرتی ہیں اس کا اندازہ ابھی کچھ سیاسی لوگوں کو نہیں ہے انھیں چاہیے جو عدالتیں فیصلہ کرتی ہیں ان کا احترام کریں ۔ عدالتوں کے بہتر فیصلوں سے ہمیںامید کی کرن نظر آتی ہے، ہر آدمی اس ملک میں اپنا فرض ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ماہرین نے کہا تھا کہ شہری عید پر کھانے میں اعتدال سے کام لیں۔ اب نہ جانے انھوں نے مراعات یافتہ طبقے کے لیے یہ کہا تھا یا عام آدمی کے لیے، غریب تو مہنگائی تلے دب کے رہ گیا ہے وہ اعتدال سے کیا خاک عمل کرے گا اس کے پاس تو کھانے کو نہیں ہے شاید انھوں نے مراعات یافتہ طبقے کو یہ بیان دیا ۔
عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، آئی ایم ایف، سعودی عرب، کمرشل بینکوں سمیت پاکستان کو 90 کروڑ ڈالر کا قرض ملا ہمارے سیاسی افراد کو چاہیے کہ قوم کو بتائیں کہ اس قرض کو کس مد میں خرچ کیا جائے گا کیونکہ قوم کے مسائل تو جوں کے توں ہیں یہ لسٹ اخبارات میں پرنٹ ہوئی ہے۔
ان سیاسی حضرات کو تیکھے موضوعات کو خیرباد کہنا ہوگا کہ ان کے ماضی کے بیانات سوشل میڈیا پر آن ایئر ہوتے رہے ہیں ، ان کو سیاسی بیانات پر ثابت قدمی کا ثبوت دینا ہوگا اگر یہ سیاسی لوگ ایسا نہ کرسکے تو یقین کریں آنے والے الیکشن ووٹ کے حوالے سے ان سیاسی حضرات کے گلے میں ہڈی کی طرح اٹک جائیں گے قابل مذمت بات تو یہ ہے کسی کی کارکردگی پر توجہ نہیں دی جاتی۔
ابھی ایک سال پہلے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو آن ایئر ہوئی اس میں ایک نوجوان نے گاڑی میں پٹرول کے بجائے پانی ڈالا اور نہ جانے کیا حربہ استعمال کیا کہ گاڑی پٹرول کے بجائے پانی پر چلا کر دکھائی اب اس بچے کا ماتھا چوم کر اس کی صلاحیت سے فائدہ اٹھانا چاہیے تھا اور پھر اس بچے کی صلاحیت کو نظرانداز کردیا گیا اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا ۔
بس ان سیاسی لوگوں کو الیکشن اور اپنی عزت و بقا کا خیال ہے یہ سیاسی لوگ اور ان کے لوگ مثبت باتوں پر اس لیے توجہ نہیں دیتے کہ یہ سلسلہ جوں کا توں چلتا رہے اور ان کی بقا و سلامتی بھی برقرار رہے اور قوم خاموشی کی بانسری بجاتی رہے۔
تیرے لکھے کو جو نہ سمجھے اس سے نہ الجھو
بس اپنی سانسوں کی کاغذ کو مہک دے دو
اب رہا معاملہ 50 فیصد کا تو وہ تو گوروں کا قرضہ ہے اس کے لیے بعد انتقال معاف ہوگا یا نہیں اس حوالے سے کسی مولوی سے فتویٰ لے لیں کہ ہمارا بنے گا کیا؟ مرنے کے بعد دفن کرنے سے قبل قبر پر اعلان ہوتا ہے کہ مرحوم نے اگر کسی سے کچھ قرض لیا ہو تو ابھی بتا دیں۔
تاکہ ان کا قرض اتار دیا جائے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قوم برسر اقتدار سابق حکومت کے لوگ ان تمام افراد کو ایک خط لکھا جائے جو ''دوزخ سے نجات'' تنظیم کے حوالے سے لکھا جائے کہ حکومتی ادارے قوم کو ایک این او سی جاری کریں اس قرض کے ہم ذمے دار ہیں قوم کا کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ اس قرض سے قوم کو کیا مراعات دی گئی ہیں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے تب ہی یہاں اور اوپر آپ کا قرضہ معاف ہوگا۔
جہاں قرض کی بات نہ ہو وہاں رعایت کی بات کی جاتی ہے کہ روس پاکستان کو رعایتی تیل دے گا ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ قرض پر مراعات لیتے ہیں رعایتیں تیل پر خوب مراعاتیں لیتے ہیں کتنے شاہ خرچ ہیں ہم لوگ، بادام بہت مہنگے ہوگئے ہیں کہ سیاسی طور پر کچھ سیاست دان دماغی کمزوری کا شکار ہوگئے ہیں وہ اب تک منوں ٹنوں بادام کھا چکے مگر دماغ ہے کہ کام ہی نہیں کرتا ۔خان صاحب کی حکومت میں جو یہ کہتے تھے کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا ہے۔
رات کے اندھیرے میں اب دن کے اجالے میں قوم کو پٹرول 282 روپے 77 پیسے دیا جا رہا ہے، رات کو تو آپ کو اندھیرے میں پٹرول کی قیمتیں نظر آگئیں مگر دن کے اجالے میں نہ آسکیں اور اس معیشت دان کو سلام جو پیسوں کا اضافہ ضرور کرتے ہیں پٹرول پمپ والے 282 کے حساب سے قوم کو پٹرول دے رہے ہیں77 پیسے پٹرول والے اپنے پاس رکھ لیتے ہیں کبھی کسی ذمے دار نے یہ سوچا ہے کہ یہ 23 پیسے کیوں لیے جا رہے ہیں اربوں روپے کا پٹرول خریدا جاتا ہے۔
ان میں 23 پیسے اگر آپ جمع کرلیں تو کیا جواب آئے گا کیلکولیٹر نے بھی جواب دے دیا ہے کہ کتنی رقم اس مد میں قوم کی جا رہی ہے اب تو یوٹیوب پر پی ڈی ایم سے وابستہ سلجھے ہوئے سیاستدان اپنی ہی حکومت پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں ۔ یہ کھیل آخر کب تک ہوگا 16 جنوری 2022 میں 3 روپے فی لیٹر پٹرول پر بڑھانے پر اسے معاشی قتل قرار دیا گیا تھا کیا انھیں احساس نہیں کہ ہم ماضی میں کیا بیانات دیتے رہے ہیں مگر صاحب، اقتدار کا نشہ بہت ظالم ہے یہ بن پیسے بھی لہراتا ہے مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے۔
سیاسی طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ قوم کے وسیع تر مفاد کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا ہے وہ وسیع تر مفاد اندھیرے مٹکے میں قید ہے جو آج تک نظر ہی نہیں آیا کچھ سیاستدانوں نے بیانات کی طوفان بدتمیزی کی پتنگ اڑا دی ہے ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور قوم یہ تماشا شب و روز دیکھتی ہے ایک دوسرے کو دہشت گرد کے لقب دیے جاتے ہیں، ہے ناں عجیب سی بات، قوم تو بے چاری تہی دامن ہے ، تنقید کو اصلاح کے طور پر لیا جائے آج کی سیاست 25 سال پہلے والی سیاست نہیں ہے قوم سوشل میڈیا کے توسط سے باخبر ہے ،ایک شاعر نے خوب کہا ہے۔
اپنی تحریر میں اپنا خون جگر دے دو
اپنی سوچ و فکر میں نیا رنگ دے دو
شاعر سے راقم کو تھوڑا اختلاف ہے کہ اب تو خون جگر ہی نہیں ہے تو احساس کا خون کہاں سے دیں عدالتیں وہ ادارہ ہیں جو قوم کی آواز پر لبیک کہتی ہیں اگر یہ معزز عدالتیں نہ ہوتیں تو نہ جانے اس قوم کا کیا بنتا سیاسی طور پر عدالتوں پر بھی تنقید کی جاتی ہے جو زیادتی کے زمرے میں ہے۔
کچھ سیاسی حضرات ہیں جو بیانات دیتے ہیں یہ بات مناسب نہیں عدالتوں کا احترام لازمی ہے اقتدار تو آنی جانی چیز ہے مگر عدالتیں معزز طریقے سے قوم کے لیے بہتر فیصلے کرتی ہیں اس کا اندازہ ابھی کچھ سیاسی لوگوں کو نہیں ہے انھیں چاہیے جو عدالتیں فیصلہ کرتی ہیں ان کا احترام کریں ۔ عدالتوں کے بہتر فیصلوں سے ہمیںامید کی کرن نظر آتی ہے، ہر آدمی اس ملک میں اپنا فرض ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ماہرین نے کہا تھا کہ شہری عید پر کھانے میں اعتدال سے کام لیں۔ اب نہ جانے انھوں نے مراعات یافتہ طبقے کے لیے یہ کہا تھا یا عام آدمی کے لیے، غریب تو مہنگائی تلے دب کے رہ گیا ہے وہ اعتدال سے کیا خاک عمل کرے گا اس کے پاس تو کھانے کو نہیں ہے شاید انھوں نے مراعات یافتہ طبقے کو یہ بیان دیا ۔
عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، آئی ایم ایف، سعودی عرب، کمرشل بینکوں سمیت پاکستان کو 90 کروڑ ڈالر کا قرض ملا ہمارے سیاسی افراد کو چاہیے کہ قوم کو بتائیں کہ اس قرض کو کس مد میں خرچ کیا جائے گا کیونکہ قوم کے مسائل تو جوں کے توں ہیں یہ لسٹ اخبارات میں پرنٹ ہوئی ہے۔
ان سیاسی حضرات کو تیکھے موضوعات کو خیرباد کہنا ہوگا کہ ان کے ماضی کے بیانات سوشل میڈیا پر آن ایئر ہوتے رہے ہیں ، ان کو سیاسی بیانات پر ثابت قدمی کا ثبوت دینا ہوگا اگر یہ سیاسی لوگ ایسا نہ کرسکے تو یقین کریں آنے والے الیکشن ووٹ کے حوالے سے ان سیاسی حضرات کے گلے میں ہڈی کی طرح اٹک جائیں گے قابل مذمت بات تو یہ ہے کسی کی کارکردگی پر توجہ نہیں دی جاتی۔
ابھی ایک سال پہلے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو آن ایئر ہوئی اس میں ایک نوجوان نے گاڑی میں پٹرول کے بجائے پانی ڈالا اور نہ جانے کیا حربہ استعمال کیا کہ گاڑی پٹرول کے بجائے پانی پر چلا کر دکھائی اب اس بچے کا ماتھا چوم کر اس کی صلاحیت سے فائدہ اٹھانا چاہیے تھا اور پھر اس بچے کی صلاحیت کو نظرانداز کردیا گیا اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا ۔
بس ان سیاسی لوگوں کو الیکشن اور اپنی عزت و بقا کا خیال ہے یہ سیاسی لوگ اور ان کے لوگ مثبت باتوں پر اس لیے توجہ نہیں دیتے کہ یہ سلسلہ جوں کا توں چلتا رہے اور ان کی بقا و سلامتی بھی برقرار رہے اور قوم خاموشی کی بانسری بجاتی رہے۔
تیرے لکھے کو جو نہ سمجھے اس سے نہ الجھو
بس اپنی سانسوں کی کاغذ کو مہک دے دو