ادبی سفر خوب سے خوب تر
رضوان صدیقی حیدرآباد سے آ کر کراچی میں ہماری محفلوں میں شامل ہوتے
ادبی دنیا میں ایک دور ایسا بھی آیا تھا جب افسانہ نگاری عروج پر تھی اور اس نے ناول نگاری کو پیچھے چھوڑ دیا تھا اور پڑھنے والے ضخیم نالوں کے مطالعے سے گھبرانے لگے تھے اور یہی وجہ تھی کہ اس دور میں شارٹ اسٹوریز کی ضرورت بڑھتی چلی گئی۔
منشی پریم چند، مرزا ادیب، علی عباس حسینی، عصمت چغتائی، خدیجہ مستور، حیات انصاری، ڈاکٹر اسلم جمشید پوری اور خواجہ احمد عباس کے افسانوں نے بڑی دھوم مچائی ہوئی تھی پھر ہندوستان پاکستان میں نوجوان افسانہ نگاروں کی نئی نسل منظر عام پر آئی جن میں احمد صغیر، شوکت حیات، قمر جہاں، ذکیہ مشہدی، ضیا شہزاد اور رضوان صدیقی نے افسانوی ادب میں اپنی جگہ بنانی شروع کی، یہاں میں یہ بات بتاتا چلوں کہ رضوان صدیقی اور میں نے ایک ساتھ لکھنے کا آغاز کیا تھا اور مقامی اخبارات میں ان دنوں بچوں کے صفحات پر ہم دونوں نے لکھنے کا آغاز کیا تھا۔
ہمدو اردو روزناموں میں بچوں کے لیے لکھا کرتے تھے۔ رضوان صدیقی کہانیاں اور میں بچوں کے لیے نظمیں لکھتا تھا اور اس وقت ہمارے ساتھ لکھنے والوں میں انور شعور، یونس شرر، نوشابہ صدیقی، کامل احمر اور ہارون رشید کا بھی نام شامل تھا اور ہم نو عمر رائٹرز بزم امروز کے ممبر اور رسالہ بھائی جان اور بچوں کی دنیا کے لیے لکھتے تھے۔
پھر بچوں کے لیے یہ لکھنے والے تمام رائٹرز بڑی بڑی تحریریں لکھنے لگے اور وہ وقت بھی آگیا کہ یہ کل کے نوعمر لکھاری ادبی حلقوں کے نامور لکھاریوں میں شامل ہوتے چلے گئے، رضوان صدیقی ان دنوں حیدرآباد میں رہتا تھا اور اس کی تحریریں پاکستان کے بڑے بڑے رسالوں کی زینت بنتی تھیں جن میں افکار اور ادب لطیف جیسے ماہنامے بھی شامل تھے۔
میرا اور رضوان صدیقی کا ادبی سفر ساتھ ساتھ آگے بڑھتا رہا تھا یہاں میں ایک اور بات بیان کرتا چلوں کہ میں نے گورنمنٹ ٹیکنیکل ہائی اسکول جیکب لائن سے میٹرک کیا تھا اور اسی اسکول سے بعد کے نامور نغمہ نگار، شاعر اور فلم نویس مسرور انور نے بھی میٹرک کیا تھا۔ مسرور انور اس وقت انور علی تھا اور میں اس وقت سید یونس علی تھا۔ ٹیکنیکل اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد دونوں انجینئر تو نہ بن سکے مگر شاعر اور فلمی نغمہ نگاروں کی صف میں شامل ہوگئے تھے۔
میٹرک کے بعد مسرور انور نے نیشنل کالج کراچی اور میں نے اسلامیہ کالج کراچی میں داخلہ لے لیا تھا جب کہ رضوان صدیقی نے سندھ یونیورسٹی حیدرآباد سے ڈگری حاصل کی تھی، اسلامیہ کالج میں شاعر ضیا شہزاد جہاں ہمارا کلاس فیلو تھا وہاں نذیر بیگ (بعد کا نام ور ہیرو ندیم) بھی کالج فیلو تھا۔
رضوان صدیقی حیدرآباد سے آ کر کراچی میں ہماری محفلوں میں شامل ہوتے۔ رضوان صدیقی، ضیا شہزاد، امیر احمد خان (بعد کا نام ور کلاسیکل سنگر استاد امیر احمد خان) زیادہ تر ہم تین ایک دوسرے کے بہت کلوز رہتے تھے اور جب بھی رضوان صدیقی حیدرآباد سے کراچی آتا تھا کافی ہاؤس، ہوٹل جبیس اور کیفے ٹیریا میں خوب محفلیں جما کرتی تھیں، ایک چائے پر کئی کئی افسانے اور کئی کئی غزلیں پڑھی جاتی تھیں اور دھیمے سروں میں امیر احمد خان اپنی بنائی ہوئی دھنیں سنایا کرتا تھا۔
وہ بھی کیا خوب زمانہ تھا اس وقت ادب اور موسیقی ہی ہماری زندگی کا حصہ بنی ہوئی تھی میں جب کبھی حیدرآباد جاتا تھا تو رضوان صدیقی ہمارے نخرے اٹھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑتا تھا کبھی کسی ہوٹل میں کھانا، کبھی کسی ہوٹل میں، اور کبھی جام شورو جا کر دریا کی تازہ مچھلی کھا کر خوب ذائقہ ملتا تھا۔
حیدرآباد کے کئی نوجوان رائٹرز سے ہماری رضوان صدیقی نے ملاقات کرائی تھی جن میں قدیر غوثی اور قاصر نوری خاص طور پر شامل ہوتے تھے اور یہ ملاقاتیں حیدرآباد کی مشہور سلطان ہوٹل میں ہوتی تھیں ان دنوں سلطان ہوٹل ادیبوں اور شاعروں کی بیٹھک ہوا کرتی تھی ۔ رضوان صدیقی ہی کے ذریعے ہماری پہلی اور ایک بھرپور ملاقات لیجنڈ شاعر حمایت علی شاعر سے ہوئی تھی پھر ایسا بھی ہوا کہ لاہور کی فلم انڈسٹری میں بحیثیت نغمہ نگار میں ان کا ہم عصر بھی ہو گیا تھا۔
رضوان صدیقی اور ہم ایک دوسرے کو کتابوں کے تحفے بھی دیا کرتے تھے وہ جب بھی حیدرآباد سے کراچی آتا کوئی نہ کوئی ادبی کتاب لے کر آتا اور جب وہ واپس حیدرآباد لوٹتا تو میں اس کو کسی نہ کسی مشہور افسانہ نگار کی کتاب دیا کرتا تھا۔ ایک بار رضوان صدیقی نے مجھے منشی پریم چند کے افسانوں کا مجموعہ دیا تو میں نے اسے مشہور ہندوستانی رائٹر کرشن چندر کا ناول پیش کیا تھا اور اس طرح ہم دونوں کا ادبی سفر آگے بڑھتا جا رہا تھا۔
رضوان صدیقی کو افسانہ سنانے کا فن بھی آتا تھا، وہ اپنے افسانے کے کرداروں میں خود کو سمو کر بڑی خوبصورتی سے ان کرداروں کا تذکرہ کیا کرتا تھا اور اس دوران وہ سگریٹ بھی فلمی ہیرو دیو آنند کی طرح پی کر منہ سے دھوئیں کے مرغولے چھوڑتا تھا۔
میں اکثر اس سے کہتا تھا '' یار رضوان صدیقی ! تم سگریٹ بہت پیتے ہو، یہ اچھی بات نہیں ہے'' تو وہ برجستہ جواب دیتا '' تم نہیں جانتے سگریٹ پینے سے لڑکیاں جلدی متاثر ہو جاتی ہیں'' تو میں کہتا '' مجھے تو سگریٹ کا دھواں بھی پسند نہیں تو پھر میں تو کسی بھی لڑکی کو کبھی متاثر نہیں کرسکتا'' تو کہتا '' یار تمہاری شاعری کا جادو انھیں متاثرکرے گا پھر بھی ایک کش لگا کر دیکھو'' وہ اصرار کرکے میرے ہاتھ میں سگریٹ تھما دیتا میں بہ مشکل ایک کش لیتا تو وہ مجھے شاباشی دے کر مسکرانے لگتا تھا۔
پھر رضوان صدیقی حیدرآباد سے کراچی شفٹ ہو گیا اس نے کراچی ہی میں ملازمت اختیار کر لی، کراچی میں اسے ایک لڑکی بہت اچھی لگتی تھی اس کو بھی شعر و ادب کا تھوڑا بہت شوق تھا مگر لڑکی کا گھرانہ غیر خاندان میں شادی سے انکاری تھا اور پھر تھوڑے دنوں تک دل ٹوٹنے کا تاثر رہا اور پھر سگریٹ کے دھوئیں کی طرح ختم ہوتا چلا گیا پھر رضوان صدیقی کی زندگی میں ایک اور لڑکی آگئی جو فیملی پلاننگ کے محکمے میں ملازمت کرتی تھی اور پھر وہی لڑکی ایک دن اس کی فیملی کا ایک اہم فرد بن کر شادی کے بندھن میں بندھ گئی تھی۔
پھر میں کراچی کی چند فلموں کے لیے کہانی، مکالمے اور نغمات لکھنے کے بعد ہفت روزہ نگار کا لاہور میں نمایندہ خاص بن کر چلا گیا ابتدا میں فلمی صحافت سے وابستہ رہا پھر آہستہ آہستہ بحیثیت رائٹر فلمی دنیا سے منسلک ہوتا چلا گیا، ابتدا رنگیلا پروڈکشن سے ہوئی، پھر سنگیتا پروڈکشن سے مکمل طور پر وابستہ ہوگیا تھا۔
اس دوران کئی دوسرے فلم سازوں کی فلموں کے لیے بھی کہانی، مکالمے اور گیت لکھے اور بارہ سال گزرنے کے بعد لاہور سے واپس کراچی لوٹا اور پھر کچھ دنوں کے بعد اپنی فیملی کے ساتھ امریکا آگیا اور ریاست نیوجرسی میں سکونت اختیار کرلی اور گاہے گاہے پاکستان جاتا رہا اس دوران رضوان صدیقی سے بھی مسلسل ملاقاتیں ہوتی رہیں اور اس کی ادبی شہرت بام عروج پر پہنچ گئی تھی۔
رضوان صدیقی ایک ادیب کے ساتھ اب ایک کامیاب نظامت کار بھی ہو گیا تھا۔ کراچی کی ہر تقریب اس کے بغیر نامکمل سمجھی جاتی تھی اس دوران اس کی کئی کتابیں منظر عام پر آچکی تھیں، ایک سفرنامہ یورپ اور امریکا کا بھی مشہور ہو چکا تھا۔
اس کی مشہور کتابوں میں ''آستانے سے پیرس تک'' اور ''روشن اندھیرے'' کو ادبی حلقوں میں بڑی پذیرائی حاصل ہوئی تھی پھر بحیثیت پریس سیکریٹری خاص طور پر کراچی کے کئی گورنرز کے ساتھ کام کرتا رہا اور اس نے اپنی محنت اور کام سے بڑی نیک نامی بھی کمائی اور پھر روحانی محفلوں، نعت خوانی کی محفلوں میں رضوان صدیقی کی نظامت کاری کی بڑی شہرت رہی ہے۔ رضوان صدیقی کو ایک ہشت پہلو ہیرا بھی کہا جاتا ہے اس کی شخصیت میں اب ایک درویشی بھی شامل ہوتی جا رہی ہے۔ یہ یاروں کا یار اور دوستوں کا بڑا وفادار ہے۔
منشی پریم چند، مرزا ادیب، علی عباس حسینی، عصمت چغتائی، خدیجہ مستور، حیات انصاری، ڈاکٹر اسلم جمشید پوری اور خواجہ احمد عباس کے افسانوں نے بڑی دھوم مچائی ہوئی تھی پھر ہندوستان پاکستان میں نوجوان افسانہ نگاروں کی نئی نسل منظر عام پر آئی جن میں احمد صغیر، شوکت حیات، قمر جہاں، ذکیہ مشہدی، ضیا شہزاد اور رضوان صدیقی نے افسانوی ادب میں اپنی جگہ بنانی شروع کی، یہاں میں یہ بات بتاتا چلوں کہ رضوان صدیقی اور میں نے ایک ساتھ لکھنے کا آغاز کیا تھا اور مقامی اخبارات میں ان دنوں بچوں کے صفحات پر ہم دونوں نے لکھنے کا آغاز کیا تھا۔
ہمدو اردو روزناموں میں بچوں کے لیے لکھا کرتے تھے۔ رضوان صدیقی کہانیاں اور میں بچوں کے لیے نظمیں لکھتا تھا اور اس وقت ہمارے ساتھ لکھنے والوں میں انور شعور، یونس شرر، نوشابہ صدیقی، کامل احمر اور ہارون رشید کا بھی نام شامل تھا اور ہم نو عمر رائٹرز بزم امروز کے ممبر اور رسالہ بھائی جان اور بچوں کی دنیا کے لیے لکھتے تھے۔
پھر بچوں کے لیے یہ لکھنے والے تمام رائٹرز بڑی بڑی تحریریں لکھنے لگے اور وہ وقت بھی آگیا کہ یہ کل کے نوعمر لکھاری ادبی حلقوں کے نامور لکھاریوں میں شامل ہوتے چلے گئے، رضوان صدیقی ان دنوں حیدرآباد میں رہتا تھا اور اس کی تحریریں پاکستان کے بڑے بڑے رسالوں کی زینت بنتی تھیں جن میں افکار اور ادب لطیف جیسے ماہنامے بھی شامل تھے۔
میرا اور رضوان صدیقی کا ادبی سفر ساتھ ساتھ آگے بڑھتا رہا تھا یہاں میں ایک اور بات بیان کرتا چلوں کہ میں نے گورنمنٹ ٹیکنیکل ہائی اسکول جیکب لائن سے میٹرک کیا تھا اور اسی اسکول سے بعد کے نامور نغمہ نگار، شاعر اور فلم نویس مسرور انور نے بھی میٹرک کیا تھا۔ مسرور انور اس وقت انور علی تھا اور میں اس وقت سید یونس علی تھا۔ ٹیکنیکل اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد دونوں انجینئر تو نہ بن سکے مگر شاعر اور فلمی نغمہ نگاروں کی صف میں شامل ہوگئے تھے۔
میٹرک کے بعد مسرور انور نے نیشنل کالج کراچی اور میں نے اسلامیہ کالج کراچی میں داخلہ لے لیا تھا جب کہ رضوان صدیقی نے سندھ یونیورسٹی حیدرآباد سے ڈگری حاصل کی تھی، اسلامیہ کالج میں شاعر ضیا شہزاد جہاں ہمارا کلاس فیلو تھا وہاں نذیر بیگ (بعد کا نام ور ہیرو ندیم) بھی کالج فیلو تھا۔
رضوان صدیقی حیدرآباد سے آ کر کراچی میں ہماری محفلوں میں شامل ہوتے۔ رضوان صدیقی، ضیا شہزاد، امیر احمد خان (بعد کا نام ور کلاسیکل سنگر استاد امیر احمد خان) زیادہ تر ہم تین ایک دوسرے کے بہت کلوز رہتے تھے اور جب بھی رضوان صدیقی حیدرآباد سے کراچی آتا تھا کافی ہاؤس، ہوٹل جبیس اور کیفے ٹیریا میں خوب محفلیں جما کرتی تھیں، ایک چائے پر کئی کئی افسانے اور کئی کئی غزلیں پڑھی جاتی تھیں اور دھیمے سروں میں امیر احمد خان اپنی بنائی ہوئی دھنیں سنایا کرتا تھا۔
وہ بھی کیا خوب زمانہ تھا اس وقت ادب اور موسیقی ہی ہماری زندگی کا حصہ بنی ہوئی تھی میں جب کبھی حیدرآباد جاتا تھا تو رضوان صدیقی ہمارے نخرے اٹھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑتا تھا کبھی کسی ہوٹل میں کھانا، کبھی کسی ہوٹل میں، اور کبھی جام شورو جا کر دریا کی تازہ مچھلی کھا کر خوب ذائقہ ملتا تھا۔
حیدرآباد کے کئی نوجوان رائٹرز سے ہماری رضوان صدیقی نے ملاقات کرائی تھی جن میں قدیر غوثی اور قاصر نوری خاص طور پر شامل ہوتے تھے اور یہ ملاقاتیں حیدرآباد کی مشہور سلطان ہوٹل میں ہوتی تھیں ان دنوں سلطان ہوٹل ادیبوں اور شاعروں کی بیٹھک ہوا کرتی تھی ۔ رضوان صدیقی ہی کے ذریعے ہماری پہلی اور ایک بھرپور ملاقات لیجنڈ شاعر حمایت علی شاعر سے ہوئی تھی پھر ایسا بھی ہوا کہ لاہور کی فلم انڈسٹری میں بحیثیت نغمہ نگار میں ان کا ہم عصر بھی ہو گیا تھا۔
رضوان صدیقی اور ہم ایک دوسرے کو کتابوں کے تحفے بھی دیا کرتے تھے وہ جب بھی حیدرآباد سے کراچی آتا کوئی نہ کوئی ادبی کتاب لے کر آتا اور جب وہ واپس حیدرآباد لوٹتا تو میں اس کو کسی نہ کسی مشہور افسانہ نگار کی کتاب دیا کرتا تھا۔ ایک بار رضوان صدیقی نے مجھے منشی پریم چند کے افسانوں کا مجموعہ دیا تو میں نے اسے مشہور ہندوستانی رائٹر کرشن چندر کا ناول پیش کیا تھا اور اس طرح ہم دونوں کا ادبی سفر آگے بڑھتا جا رہا تھا۔
رضوان صدیقی کو افسانہ سنانے کا فن بھی آتا تھا، وہ اپنے افسانے کے کرداروں میں خود کو سمو کر بڑی خوبصورتی سے ان کرداروں کا تذکرہ کیا کرتا تھا اور اس دوران وہ سگریٹ بھی فلمی ہیرو دیو آنند کی طرح پی کر منہ سے دھوئیں کے مرغولے چھوڑتا تھا۔
میں اکثر اس سے کہتا تھا '' یار رضوان صدیقی ! تم سگریٹ بہت پیتے ہو، یہ اچھی بات نہیں ہے'' تو وہ برجستہ جواب دیتا '' تم نہیں جانتے سگریٹ پینے سے لڑکیاں جلدی متاثر ہو جاتی ہیں'' تو میں کہتا '' مجھے تو سگریٹ کا دھواں بھی پسند نہیں تو پھر میں تو کسی بھی لڑکی کو کبھی متاثر نہیں کرسکتا'' تو کہتا '' یار تمہاری شاعری کا جادو انھیں متاثرکرے گا پھر بھی ایک کش لگا کر دیکھو'' وہ اصرار کرکے میرے ہاتھ میں سگریٹ تھما دیتا میں بہ مشکل ایک کش لیتا تو وہ مجھے شاباشی دے کر مسکرانے لگتا تھا۔
پھر رضوان صدیقی حیدرآباد سے کراچی شفٹ ہو گیا اس نے کراچی ہی میں ملازمت اختیار کر لی، کراچی میں اسے ایک لڑکی بہت اچھی لگتی تھی اس کو بھی شعر و ادب کا تھوڑا بہت شوق تھا مگر لڑکی کا گھرانہ غیر خاندان میں شادی سے انکاری تھا اور پھر تھوڑے دنوں تک دل ٹوٹنے کا تاثر رہا اور پھر سگریٹ کے دھوئیں کی طرح ختم ہوتا چلا گیا پھر رضوان صدیقی کی زندگی میں ایک اور لڑکی آگئی جو فیملی پلاننگ کے محکمے میں ملازمت کرتی تھی اور پھر وہی لڑکی ایک دن اس کی فیملی کا ایک اہم فرد بن کر شادی کے بندھن میں بندھ گئی تھی۔
پھر میں کراچی کی چند فلموں کے لیے کہانی، مکالمے اور نغمات لکھنے کے بعد ہفت روزہ نگار کا لاہور میں نمایندہ خاص بن کر چلا گیا ابتدا میں فلمی صحافت سے وابستہ رہا پھر آہستہ آہستہ بحیثیت رائٹر فلمی دنیا سے منسلک ہوتا چلا گیا، ابتدا رنگیلا پروڈکشن سے ہوئی، پھر سنگیتا پروڈکشن سے مکمل طور پر وابستہ ہوگیا تھا۔
اس دوران کئی دوسرے فلم سازوں کی فلموں کے لیے بھی کہانی، مکالمے اور گیت لکھے اور بارہ سال گزرنے کے بعد لاہور سے واپس کراچی لوٹا اور پھر کچھ دنوں کے بعد اپنی فیملی کے ساتھ امریکا آگیا اور ریاست نیوجرسی میں سکونت اختیار کرلی اور گاہے گاہے پاکستان جاتا رہا اس دوران رضوان صدیقی سے بھی مسلسل ملاقاتیں ہوتی رہیں اور اس کی ادبی شہرت بام عروج پر پہنچ گئی تھی۔
رضوان صدیقی ایک ادیب کے ساتھ اب ایک کامیاب نظامت کار بھی ہو گیا تھا۔ کراچی کی ہر تقریب اس کے بغیر نامکمل سمجھی جاتی تھی اس دوران اس کی کئی کتابیں منظر عام پر آچکی تھیں، ایک سفرنامہ یورپ اور امریکا کا بھی مشہور ہو چکا تھا۔
اس کی مشہور کتابوں میں ''آستانے سے پیرس تک'' اور ''روشن اندھیرے'' کو ادبی حلقوں میں بڑی پذیرائی حاصل ہوئی تھی پھر بحیثیت پریس سیکریٹری خاص طور پر کراچی کے کئی گورنرز کے ساتھ کام کرتا رہا اور اس نے اپنی محنت اور کام سے بڑی نیک نامی بھی کمائی اور پھر روحانی محفلوں، نعت خوانی کی محفلوں میں رضوان صدیقی کی نظامت کاری کی بڑی شہرت رہی ہے۔ رضوان صدیقی کو ایک ہشت پہلو ہیرا بھی کہا جاتا ہے اس کی شخصیت میں اب ایک درویشی بھی شامل ہوتی جا رہی ہے۔ یہ یاروں کا یار اور دوستوں کا بڑا وفادار ہے۔