شاعر علی شاعرکی حمدیہ و نعتیہ شاعری کا تحقیقی جائزہ
اِس مقالہ کے باب اوّل میں فصلِ سوم میں اُن کی حمدیہ و نعتیہ تصانیف کا تعارف بڑی عرق ریزی سے بیان کیا گیا ہے
اُردو ادب میں ہم حمد اُس نظم کو کہتے ہیں جس میں ربِ کائنات کی تعریف بیان کی جاتی ہے۔ اسی طرح نعتِ رسولِ پاک ﷺ ثنا و توصیف کی ایک ایسی پاکیزہ ، نازک اور ارفع شعری شکل ہے جس میں ہر لفظ کو لکھتے ہوئے قلم کو احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔
شاعر علی شاعر کا شمار بھی ایسے ہی حمد و نعت کہنے والے شعراء میں ہوتا ہے جو '' با وضو '' ہوکر حمدکے اشعار میں اپنی عقیدت و ایمان کے گل ہائے معطر حمدیہ اشعار کی لڑیوں میں پرو کر باری تعالیٰ کے اوصافِ حمیدہ اور اسمائے حسنیٰ کے گل ہائے معطر سجاتے ہیں۔
اُن کے حمدیہ کلام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُنہوں نے قرآن وحدیث کا گہرا مطالعہ کیا ہے، اِس لیے تو اُن کے کلام میں قرآن و سنت کے پاکیزہ اُصولوں کے موتی دل و نظرکوآگہیِ خداوندی سے سرفراز کرتے ہیں۔
اُن کی حمدیہ شاعری کا خوب صورت اور روحانیت سے بھرپور اوّلین شعری مجموعہ '' ارمغانِ حمد'' 2005 میں شائع ہُوا۔ اِس کتاب کی خاص انفرادیت یہ ہے کہ اِس میں لفظ اللہ کے اعداد 66 کی مناسبت سے 66 حمدیں اور ربِ کائنات کے 99 ناموں کی مناسبت سے99 حمدیہ ہائیکو احاطۂ تحریر میں لائی گئی ہیں۔
حمدیہ ہائیکو میں اُن کا منفرد لب و لہجہ دیکھنے کو ملتا ہے، کیونکہ اُردو ادب کی دیگر اصناف کی طرح حمدیہ ادب بھی مسلسل ارتقاء پذیر ہے اور نت نئی جہتوں کی روشنی میں ارتقا کی منازل طے کر رہا ہے اور ہر نیا آنے والا حمدیہ کلام سامعین کی توجہ کا مرکز بنتا ہے۔ شاعر علی شاعر کا حمدیہ مجموعہ '' ارمغانِ حمد '' اپنے ظاہری اور باطنی حسن و دل کشی کی بدولت حمدیہ ادب میں نئی روشنی لے کر آیا ہوگا اور اُس نے ارتقائی سفر میں مشعلِ راہ کے طور پر اپنا اہم کردار ادا کیا ہوگا۔
''ارمغانِ حمد'' سے ایک شعر دیکھیے:
ہر سانس پہ لکھوں میں حمدِ جنابِ باری
رحمت سے اپنی مجھ کو ایسی سخن وری دے
حمدیہ کلام کی طرح اُنہوں نے اپنی نعت میں سیرتِ مصطفی ﷺ کے بہت سے پہلوؤں کو خوب صورت الفاظ میں بیان کیا ہے۔ '' صاحب خیرکثیرصلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم'' شاعر علی شاعر کا نعت کے حوالے سے نقشِ اوّلین ہے جو خوب صورت نعتوں اور نعتیہ ہائیکو پر مشتمل ہے، جس میں دلی کیفیات اور احساسات و جذبات کے ساتھ ساتھ نبیِ رحمتِ دوجہاں حضرت محمدﷺ کی مدحت بڑے عمدہ انداز میں کرتے ہیں، جس میں اُن کی نعتوں میں درِ مصطفی ﷺ کی خوشبوئیں ،گنبدِ خضریٰ کے نور سے مزین یہ روشن نعتیں، حرا کی چاندنی ہمارے دلوں کو خوشیوں اور خوشبوؤں سے پُرنور کرتی ہیں۔
اُن کے نعتیہ کلام کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ اُن کی شاعرانہ خوبی آسان، سادہ، سلیس اور قابلِ فہم الفاظ کا چناؤ ہے۔ یوں زبان کی سادگی اور سلاست و روانی اُن کے کلام کو چار چاند لگا دیتی ہے۔ وہ نہایت سادہ ،قابلِ فہم، چھوٹی اور مترنم بحروں میں نعتیں لکھتے ہیں۔ اُن کی نعت کا ایک مطلع دیکھیے:
پیکرِ انوار کی مدحت کے چُن چُن کر گلاب
مغفرت کے واسطے میں لکھ رہا ہوں یہ کتاب
شاعر علی شاعر ایک کہنہ مشق اور بالخصوص حمدونعت گو شاعر ہیں، وہ تواتر کے ساتھ اور نئے انداز و آہنگ سے حمدو نعت کہتے ہیں۔ اُن کا دوسرا نعتیہ مجموعہ '' الہام کی بارش '' ہے۔ اِس مجموعے میں طویل ردیفوں کا استعمال بڑی عمدگی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ بعض ردیفوں کی تکرار سے ترنم پیدا کیا گیا ہے جو سننے والوں کو اپنے سحر میں لے کر سرور و آگہی کا سامان میسر کرتی ہیں۔
شاعری میں اُن کے اُستاد '' مہر سعید ملتانی'' ہیں اور یکے بعد دیگرے شفیع بسمل، منصور ملتانی اور آخر میں سہیل غازی پوری سے اصلاح لیتے رہے ہیں۔
اُن کا باقاعدہ شاعری کا آغاز 26 سال کی عمرمیں ہُوا۔ ان کی غزلوں کا مجموعہ '' بہارو اب تو آ جاؤ'' 2004 میں منظرِ عام پر آیا۔ اس مجموعے کے بعد اُن کی حمدیہ و نعتیہ شاعری کے مجموعے اور دیگر کتب شائع ہوئیں، جس میں عالمی سطح کا اوّلین مجموعہ ''تروینیاں'' بھی شامل ہے جسے اوّلین کا اعزاز حاصل ہے۔
اُن کی تمام شعری اصناف کا تحقیقی جائزہ ہمیں شاہد عمران کے تحقیقی مقالے میں ملتا ہے، جنہوں نے ایم فل اُردو کی سند حاصل کرنے کے لیے '' شاعر علی شاعرکی حمدیہ و نعتیہ شاعری کا فکری و فنی تجزیہ '' بڑی ہنر مندی سے کیا ہے۔ یہ مقالہ ڈاکٹر عرفان توحید وٹو کی نگرانی میں مکمل کیا گیا ہے۔
یہ مقالہ چار ابواب پر مشتمل ہے ،اِس مقالے میں خاص پہلو اُن کی حمدیہ و نعتیہ شاعری ہے، جس پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ پہلا باب شاعر علی شاعر کے احوال و آثار سے متعلق ہے جس میں اُن کی پیدائش، تعلیم و تربیت، خاندانی پس منظر، پیشہ، ازدواجی و ادبی زندگی اور ادبی تخلیقات کا مطالعہ کیا گیا ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ شاعر علی شاعر کے آباؤ اجداد بھارت کے مشہور شہر دہلی کے رہنے والے تھے، جو تقسیمِ ہند کے وقت ہجرت کر کے پاکستان کے مشہور شہر ملتان میں سکونت پذیر ہوئے۔
اُن کے دادا حافظ انور دہلوی شہرِ دہلی کی ایک علمی اور روحانی شخصیت کے حامل تھے جنھیں سب ادب و احترام کی نظر سے دیکھتے تھے ۔
اُن کے والدین اِس قدر مستقبل شناس تھے کہ اُنہوں نے اپنے اِس بیٹے کا نام شاعر علی رکھا، جس میں اُنہوں نے بہ طور تخلص شاعر کا اضافہ کر لیا اور اِسی نام سے آج ہر عام و خاص میں مقبولیت کی سند رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے جس وقت ملتان کو خیر آباد کہا اُس وقت اُن کی عمر 19 برس تھی اور غلام فرید جیسے پیارے دوستوں کی صعوبتیں میسر تھیں۔ اُن کا پہلا شعر کچھ یوں ہے کہ:
جب جب تجھ سے بچھڑا دل
مثلِ دلّی اُجڑا دل
اِس مقالہ کے باب اوّل میں فصلِ سوم میں اُن کی حمدیہ و نعتیہ تصانیف کا تعارف بڑی عرق ریزی سے بیان کیا گیا ہے۔ دوسرا باب شاعر علی شاعر کی نظم نگاری اور غزل گوئی کے موضوعاتی جائزے سے متعلق ہے۔ تیسرا باب ان کی نثری خدمات سے متعلق ہے۔ چوتھے باب میں اُن کی حمدیہ و نعتیہ شاعری کا فکری و فنی مطالعہ شامل ہے۔
اس کے علاوہ ''محاکمہ'' بھی درج کیا گیا ہے اور محاکمے میں تمام نتائج جامعیت کے ساتھ پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ آخر میں جن کتب سے استعفادہ کیا گیا ہے، اُن کی فہرست دی گئی ہے۔
اس پورے مقالے کے مطالعے کے دوران ہمیں کسی قسم کا چربہ، سرقہ کوئی شہادت نہیں ملتی، جس سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ یہ مقالہ عمران شاہد کی ذاتی تحقیقی کاوش ہے، جس کے لیے وہ بے پناہ تحسین وستائش کے سزا وار ہیں۔ اُن کا یہ مقالہ اُردو ادب اور نسلِ نو کے لیے ایک خوبصورت اضافہ ہے۔
شاعر علی شاعرکی حمدیہ و نعتیہ شعری مجموعوں کے علاوہ اُن کی غزلوں میں بعض اشعار حمدونعت کے پڑھنے کو ملتے ہیں اِن اشعار میں اللہ تعالیٰ اور اُس کے محبوب امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ سے محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔
اُن کے زیادہ تر اشعار میں خانہ کعبہ اور روضہ رسول ﷺ پر حاضری دینے کے لیے اپنے دل کی بے چین کیفیت ایک ایسی تڑپ بن کر ظاہر ہوتی ہے جو صرف عاشقِ رسول ﷺ کو ہی نصیب ہوتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
مدینے کی جانب اُڑا لے چلے جو
خدایا میں تجھ سے وہ پر مانگتا ہوں
شاعرعلی شاعر ایک با شعور، خوش فکر اور آدابِ توحید و رسالت سے آشنائی رکھنے والے شاعر ہیں۔ اُن کے حمدیہ و نعتیہ افکار فروغ حمدونعت کے حوالے سے ہمارے تقدیسی ادب کا روشن باب کہلائیں گے۔