رمضان المبارک تو گزر گیا لیکن ۔۔۔۔۔
اگر دیکھنا ہوکہ کسی کی رمضان المبارک کی عبادت قبول ہوئی ہے یا نہیں؟ تو اس کے رمضان کے بعد والے اعمال دیکھو
ماہ مبارک اہل ایمان کے لیے بڑی نعمت تھا، اس پر شُکر ادا کرنا ضروری ہے اور اس کی فکر بھی کہ ہم نے اس ماہ میں روزے، نماز، تلاوت، ذکر و اذکار، حسن سلوک اور صدقہ و خیرات کا مظاہرہ کرکے اپنے پروردگار کی خوش نُودی زیادہ سے زیادہ حاصل کی۔
بڑے ہی خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کو نیکیوں میں اضافہ کرنے کا موقع ملا اس کو انہوں نے ضایع نہیں کیا بلکہ اعمالِ خیر کے جمع کرنے کا ذریعہ بنایا۔ مبارک باد کے مستحق ہیں وہ اﷲ کے بندے جنہوں نے ماہ رمضان کو اعمال صالحہ کے ساتھ رخصت کیا، اور جنہوں نے اس ماہ کو غفلت میں گزار دیا انہیں اﷲ تعالیٰ کے حضور میں توبہ و استغفار کرنی چاہیے۔
جس طرح ہم رمضان المبارک میں نماز با جماعت کا اہتمام کیا جاتا تھا اسی طرح ماہِ مقدس کے گزر جانے کے بعد بھی اس کا اہتمام کیا جائے، اﷲ تعالیٰ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ نمازوں کی حفاظت کرو۔
رمضان المبارک میں تلاوت قرآن کا بڑا اہتمام کیا جاتا ہے اور لوگ کئی مرتبہ قرآن کو مکمل کرنے کے خواہش رکھتے ہیں لیکن رمضان کے بعد اس کو طاق کی زینت بنا دیا جاتا ہے۔
اس کی تلاوت و تدبّر کا کثرت سے اہتمام کرنا چاہیے، کوئی بھی مومن اور مسلم کسی وقت بھی اس کی تلاوت اور تدبر و تفکر سے مستغنی نہیں ہو سکتا، لہذا اپنے اعضاء و جوارح کو جلا بخشنے اور اپنی دنیا و آخرت کو سنوارنے کے لیے پابندی سے اس کی تلاوت ضروری ہے۔
ارشاد باری تعالی کا مفہوم: ''یقیناً یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو بہت ہی سیدھا ہے اور ایمان والوں کو جو نیک اعمال کرتے ہیں اس بات کی خوش خبری دیتا ہے کہ ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔'' (الاسرائ)
حضرت ابُو امامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، مفہوم:
''قرآن مجید پڑھا کرو، یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لیے شفاعت کرنے والا بن کر آئے گا۔'' (مسلم شریف)
اور جس طرح رمضان المبارک میں دعاؤں کے اہتمام کے ساتھ ذکر و اذکار کی پابندی اور اہتمام کیا گیا اسی طرح رمضان کے بعد بھی اس کا اہتمام ضروری ہے، کوئی اس سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔
اﷲ تعالیٰ کے ارشاد کا مفہوم ہے: ''اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے اﷲ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہو۔''
(سورہ النسائ)
جس طرح ماہ مبارک میں صدقہ و خیرات کا اہتمام کیا گیا، غیر رمضان میں بھی اس کا صدق دل سے بھرپور اہتمام کرنا چاہیے۔ رمضان المبارک میں کیے گئے اعمال کی پابندی اور ہمیشہ اس پر قائم رہنے کے لیے اﷲ تعالیٰ کے سامنے ندامت کے آنسو بہاتے رہنا اور توبہ کرتے رہنا بہت ضروری ہے، توبہ گناہوں کی بخشش، دخول جنّت اور کام یابی کا ذریعہ ہے۔
ہمیں اس حقیقت کو ذہن میں راسخ کرلینا چاہیے کہ رمضان المبارک ایک مہینہ کا نام نہیں بلکہ زندگی بھر اﷲ کی اطاعت والی زندگی گزارنے کی تربیت کا نظام ہے۔
مسلمان کی پوری زندگی رمضان کی طرح احتیاط سے سال بھر گزرنی چاہیے۔ ماہِ رمضان میں ہم نے جو نیکیاں کی ہیں ان کے مقبول ہونیکی علامت و پہچان یہ ہے کہ ہم نیکی کے بعد بھی نیکی کرتے رہیں، اور ہماری نیکیوں کے قبول نہ ہونے کی علامت یہ ہے کہ ہم نیکی کے بعد برائی کرنا شروع کردیں، ایک مومن سے اس کے مرتے دم تک نیک عمل کرنا مطلوب ہے، موت تک اعمال خیر پر مداومت مقصود ہے۔
ابن تیمیہ رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: ''اگر دیکھنا ہوکہ کسی کی رمضان المبارک کی عبادت قبول ہوئی ہے یا نہیں؟ تو اس کے رمضان کے بعد والے اعمال دیکھو، اگر رمضان کے بعد بھی نیک اعمال پر اس کی استقامت اسی طرح باقی ہے جیسے ماہ رمضان میں تھی تو سمجھ لو کہ اﷲ تعالیٰ نے اس کی رمضان میں کی جانے والی عبادتوں اور اطاعتوں کو قبول فرما لیا، جس کی وجہ سے اسے ان اعمال کو تسلسل کے ساتھ باقی رکھنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اور جس کو دیکھو کہ رمضان کے بعد اس کے اعمال میں یک لخت فرق آگیا ہے۔
وہ راہ ہدایت سے بھٹک کر پھر اسی راہ کا راہی ہوگیا جس پر کہ وہ ماہ رمضان المبارک سے پہلے گام زن تھا، تو سمجھ لو کہ اس کا شمار بھی انہی لوگوں میں ہے، جن کے متعلق رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں جن کے نصیب میں سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں ہے، کتنے ہی رات میں قیام کرنے والے ایسے ہیں جن کے نصیب میں سوائے رات میں جاگنے کے کچھ نہیں۔'' (ابن ماجہ)
ماہِ رمضان کے بعد ایک مسلمان کا اﷲ کے فرائض واجبات کی پابندی کرنا اور نیکیوں پر گام زن رہنا اور اپنے اقوال و افعال کی اصلاح کرلینا یہ بہت بڑی دلیل ہے کہ اس نے رمضان سے کچھ حاصل کیا اور سیکھا ہے کیوں کہ رمضان پورے ایک مہینہ کا مکمل تربیتی کورس ہے۔
اور یہ اس کے عمال خیر کے مقبول ہونے کی علامت اور پہچان ہے، ایک مومن کا عمل رمضان کے چلے جانے اور دوسرے مہینے کے شروع ہو جانے سے نہ رکتا ہے اور نہ ہی ختم ہوتا ہے، بلکہ مومن کا عمل مرتے دم تک جاری رہتا ہے۔
بڑے ہی خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کو نیکیوں میں اضافہ کرنے کا موقع ملا اس کو انہوں نے ضایع نہیں کیا بلکہ اعمالِ خیر کے جمع کرنے کا ذریعہ بنایا۔ مبارک باد کے مستحق ہیں وہ اﷲ کے بندے جنہوں نے ماہ رمضان کو اعمال صالحہ کے ساتھ رخصت کیا، اور جنہوں نے اس ماہ کو غفلت میں گزار دیا انہیں اﷲ تعالیٰ کے حضور میں توبہ و استغفار کرنی چاہیے۔
جس طرح ہم رمضان المبارک میں نماز با جماعت کا اہتمام کیا جاتا تھا اسی طرح ماہِ مقدس کے گزر جانے کے بعد بھی اس کا اہتمام کیا جائے، اﷲ تعالیٰ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ نمازوں کی حفاظت کرو۔
رمضان المبارک میں تلاوت قرآن کا بڑا اہتمام کیا جاتا ہے اور لوگ کئی مرتبہ قرآن کو مکمل کرنے کے خواہش رکھتے ہیں لیکن رمضان کے بعد اس کو طاق کی زینت بنا دیا جاتا ہے۔
اس کی تلاوت و تدبّر کا کثرت سے اہتمام کرنا چاہیے، کوئی بھی مومن اور مسلم کسی وقت بھی اس کی تلاوت اور تدبر و تفکر سے مستغنی نہیں ہو سکتا، لہذا اپنے اعضاء و جوارح کو جلا بخشنے اور اپنی دنیا و آخرت کو سنوارنے کے لیے پابندی سے اس کی تلاوت ضروری ہے۔
ارشاد باری تعالی کا مفہوم: ''یقیناً یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو بہت ہی سیدھا ہے اور ایمان والوں کو جو نیک اعمال کرتے ہیں اس بات کی خوش خبری دیتا ہے کہ ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔'' (الاسرائ)
حضرت ابُو امامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، مفہوم:
''قرآن مجید پڑھا کرو، یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لیے شفاعت کرنے والا بن کر آئے گا۔'' (مسلم شریف)
اور جس طرح رمضان المبارک میں دعاؤں کے اہتمام کے ساتھ ذکر و اذکار کی پابندی اور اہتمام کیا گیا اسی طرح رمضان کے بعد بھی اس کا اہتمام ضروری ہے، کوئی اس سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔
اﷲ تعالیٰ کے ارشاد کا مفہوم ہے: ''اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے اﷲ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہو۔''
(سورہ النسائ)
جس طرح ماہ مبارک میں صدقہ و خیرات کا اہتمام کیا گیا، غیر رمضان میں بھی اس کا صدق دل سے بھرپور اہتمام کرنا چاہیے۔ رمضان المبارک میں کیے گئے اعمال کی پابندی اور ہمیشہ اس پر قائم رہنے کے لیے اﷲ تعالیٰ کے سامنے ندامت کے آنسو بہاتے رہنا اور توبہ کرتے رہنا بہت ضروری ہے، توبہ گناہوں کی بخشش، دخول جنّت اور کام یابی کا ذریعہ ہے۔
ہمیں اس حقیقت کو ذہن میں راسخ کرلینا چاہیے کہ رمضان المبارک ایک مہینہ کا نام نہیں بلکہ زندگی بھر اﷲ کی اطاعت والی زندگی گزارنے کی تربیت کا نظام ہے۔
مسلمان کی پوری زندگی رمضان کی طرح احتیاط سے سال بھر گزرنی چاہیے۔ ماہِ رمضان میں ہم نے جو نیکیاں کی ہیں ان کے مقبول ہونیکی علامت و پہچان یہ ہے کہ ہم نیکی کے بعد بھی نیکی کرتے رہیں، اور ہماری نیکیوں کے قبول نہ ہونے کی علامت یہ ہے کہ ہم نیکی کے بعد برائی کرنا شروع کردیں، ایک مومن سے اس کے مرتے دم تک نیک عمل کرنا مطلوب ہے، موت تک اعمال خیر پر مداومت مقصود ہے۔
ابن تیمیہ رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: ''اگر دیکھنا ہوکہ کسی کی رمضان المبارک کی عبادت قبول ہوئی ہے یا نہیں؟ تو اس کے رمضان کے بعد والے اعمال دیکھو، اگر رمضان کے بعد بھی نیک اعمال پر اس کی استقامت اسی طرح باقی ہے جیسے ماہ رمضان میں تھی تو سمجھ لو کہ اﷲ تعالیٰ نے اس کی رمضان میں کی جانے والی عبادتوں اور اطاعتوں کو قبول فرما لیا، جس کی وجہ سے اسے ان اعمال کو تسلسل کے ساتھ باقی رکھنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اور جس کو دیکھو کہ رمضان کے بعد اس کے اعمال میں یک لخت فرق آگیا ہے۔
وہ راہ ہدایت سے بھٹک کر پھر اسی راہ کا راہی ہوگیا جس پر کہ وہ ماہ رمضان المبارک سے پہلے گام زن تھا، تو سمجھ لو کہ اس کا شمار بھی انہی لوگوں میں ہے، جن کے متعلق رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں جن کے نصیب میں سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں ہے، کتنے ہی رات میں قیام کرنے والے ایسے ہیں جن کے نصیب میں سوائے رات میں جاگنے کے کچھ نہیں۔'' (ابن ماجہ)
ماہِ رمضان کے بعد ایک مسلمان کا اﷲ کے فرائض واجبات کی پابندی کرنا اور نیکیوں پر گام زن رہنا اور اپنے اقوال و افعال کی اصلاح کرلینا یہ بہت بڑی دلیل ہے کہ اس نے رمضان سے کچھ حاصل کیا اور سیکھا ہے کیوں کہ رمضان پورے ایک مہینہ کا مکمل تربیتی کورس ہے۔
اور یہ اس کے عمال خیر کے مقبول ہونے کی علامت اور پہچان ہے، ایک مومن کا عمل رمضان کے چلے جانے اور دوسرے مہینے کے شروع ہو جانے سے نہ رکتا ہے اور نہ ہی ختم ہوتا ہے، بلکہ مومن کا عمل مرتے دم تک جاری رہتا ہے۔