پاکستان کا911
دو فیکٹریوں میں آگ لگ جانے سے سیکڑوں محنت کش لقمہ اجل ہوگئے
ایسالگتا ہے ،جیسے حادثات،سانحات اوراموات نے اس ملک میں گھرکرلیاہو۔دہشت گردی،خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ سے بچنے والوں کو ناگہانی آفات اپنے نرغے میں لے کرراہی عدم بنادیتی ہیں۔
گزشتہ منگل کو اہل پاکستان اپنے قائد محمد علی جناح کی64ویں برسی منارہے تھے، جب کہ دنیابھر میںلوگ نیویارک کے ورلڈ ٹریڈسینٹر پرحملے اور معصوم جانوں کے زیاں کی11ویںبرسی میں مصروف تھے کہ لاہور اور کراچی میں دو فیکٹریوں میں آگ لگ جانے سے سیکڑوں محنت کش لقمہ اجل ہوگئے۔لاہور میں25افراد لقمہ اجل ہوئے۔مگرکراچی میں تو گویا قیامت صغریٰ ٹوٹ پڑی۔
گارمنٹس فیکٹری میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں آخری اطلاعات آنے تک 289گھروں میں صف ماتم بچھ چکی ہے۔جب سیکڑوں کی تعداد میں سوختہ لاشیں اس عمارت سے برآمد ہوئیں،تواس بدنصیب شہر کے باسیوںنے زمین پر جہنم کامنظردیکھا ۔یہ واقعہ اس ملک کی تاریخ کا سب سے بھیانک اورعظیم سانحہ ہے،بلکہ اسے پاکستان کا9/11 کہا جائے توبے جا نہ ہوگا۔
بے شک لاہور اور کراچی میںہونے والے واقعات ایک ناگہانی حادثہ تھے، لیکن ان کے پس پشت اسباب عوامل کا تعین کے علاوہ ان غفلتوں کو منظر عام پر لاناضروری ہے ،جو اس سانحے کا سبب بنے۔انتظامی سطح پران خامیوں، کوتاہیوں اور کمزوریوںکی بھی نشاندہی کی جانی چاہیے،جو پاکستان میںعام شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی کا باعث ہیں۔ا س سانحے سے تین باتیںکھل کر سامنے آئی ہیں، جن پر گفتگو ضروری ہے۔اول،نئے قوانین کی تیاری اورپہلے سے موجود لیبر قوانین پر عملدرآمد کا فقدان۔ دوئم،فرسودہ انتظامی ڈھانچہ اور سوئم،صنعتکاروں کا غیر انسانی رویہ۔
اول، پاکستان میں انگریز دور کے لیبر قوانین نافذالعمل ہیں،جو1929 سے1934 کے درمیان تیار کیے گئے ۔ یہ قوانین 1956،1962اور پھر 1973 کے آئین کا حصہ بنے۔مگر نہ تو ان قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنایاگیا اور نہ ہی ملک کی صنعتی ضروریات کا احاطہ کرتی ہوئی نئی قانون سازی کی جانب توجہ دی گئی۔بلکہ وقت گذرنے کے ساتھ صنعتی تعلقات کے ایسے ضوابط تیار کیے گئے ،جن کا فائدہ آجروں کو پہنچا اور اجیر مزید مشکلات کا شکار ہوئے۔مثال کے طورپرکراچی کی متاثرہ گارمنٹس فیکٹری میں ڈھائی ہزار کے قریب مزدور کام کرتے تھے، جن میں سے صرف 200سوشل سیکیورٹی میں رجسٹرڈ تھے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ صرف اتنی تعداد ہی میں مزدوروں کو تقرری نامہ جاری ہواتھا، جب کہ باقی سوادوہزر غیر رسمی یاکنٹرکٹ ملازمین تھے۔جن کے لواحقین کوسوشل سیکیورٹی سمیت کسی بھی سرکاری ادارے سے ایک پائی کی امداد بھی ملنے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔دراصل 1980 کے بعد عالمی سطح پرصنعتوںکے مختلف شعبہ جات کی Outsourcingکے بڑھتے ہوئے رجحان کے نتیجے میں کنٹریکٹ پرمزدوررکھنے کا عمل شروع تیزی سے ہوا۔جو پاکستان جیسے قانون شکن معاشرے میں آجروں اور انتظامیہ کی ملی بھگت کے نتیجے میںبھیانک استحصال کی شکل اختیار کرگیا۔اس طرح آجرمحنت کشوں کو مختلف مراعات اورحکومت کی طرف سے وقتاًفوقتاًاعلان کردہ کم سے کم اجرت دینے کی پابندی سے آزاد ہوگئے ہیں۔
ساتھ ہی ہفتہ وار، اتفاقی اور تہواروں پر تنخواہ کے ساتھ چھٹی کا تصور بھی ختم ہوگیاہے۔ دوسرے متعین اوقات کار کی پابندی اور اس کے بعد اوور ٹائم کی ادائیگی سے بھی آجروں کو چھٹکارا مل گیا ہے۔ تیسرے غیر رسمی مزدوروں کی اکثریت کی وجہ سے انھیںتمام محنت کشوں کے لیے سوشل سیکیورٹی کی مد میںخطیر رقم کی ادائیگی بھی نہیں کرنا پڑرہی۔
اس صورتحال نے محنت کشوں کی حالت زار کو مزید ابتر بنادیاہے۔آج ان کے سر پرکسی بھی وقت ملازمت سے علیحدہ کیے جانے کی تلوار مسلسل لٹکتی رہتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ انجمن سازی، اجرتوں میں اضافے ،حکومت کی جانب سے اعلان کردہ کم سے کم اجرتوں کے علاوہ تہواروں،اتفاقی اور ہفتہ وار چھٹی سے محروم ہوچکے ہیں۔ تقرری نامہ نہ ہونے کی وجہ سے ایک طرف غیر رسمی مزدور سوشل سیکیورٹی کی سہولت سے محروم ہوئے ہیں،تو دوسری طرف اپنے ساتھ ہونے والی کسی زیادتی پر لیبر کورٹ سے بھی رجوع کرنے کے حق سے محروم کردیے گئے ہیں۔
ان زیادتیوںکا سبب عالمی سرمایہ داری نظام میں تبدیلی کے علاوہ حکومت کے مختلف انتظامی محکموں میں پائی جانے والی کرپشن ہے۔لیبر ڈپارٹمنٹ کے اہلکار آجروں سے بھاری رشوت کے عوض ان کے کارخانوں میں رجسٹرڈ مزدوروں کی تعداد کم ظاہر کرتے ہیں۔اس کے علاوہ طبی امداداور بیت الخلاء سمیت دیگر سہولیات کابھی اکثر فیکٹریوں میں فقدان ہے۔ حد یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے ILOکے کئی کنونشنزپر دستخط کیے ہیں، مگرحکومت کی اپنی نااہلی کی وجہ سے کسی ایک کنونشن پربھی عمل نہیں ہورہا۔جس کی وجہ سے آجروں کو من مانی کرنے کا پورا موقع مل گیاہے۔
اس سلسلے میں تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ پورے ملک میں صوبائی وزارت صنعت، مقامی انتظامیہ اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی جیسے ادارے اپنا کام صحیح طورسے کرنے کے بجائے کرپشن اور بدعنوانی کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔وزارت صنعت کسی قسم کی جانچ پڑتال کیے بغیر لائسنس جاری کردیتی ہے، جب کہ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی فیکٹری، اسکول یا اسپتال کی تعمیر کے وقت عمارت کا معائنہ کرتی ہے اور نہ قانون کے مطابق وقتاًفوقتاً معائنہ کرتی ہے۔ جس کی وجہ سے بیشتر فیکٹریاں، تعلیمی ادارے اور اسپتال انتہائی ناگفتہ بہ حالت میں ہیں۔کیونکہ NOCکا اجراء رشوت سے مشروط ہوچکاہے۔
دوئم،پاکستان میں انتظامی مرکزیت، غریب اور محنت کش طبقات کے مسائل کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔جب عام آدمی کی بہترشہری سہولیات تک رسائی کے لیے مقامی حکومتی نظام کی سفارش کی جاتی ہے تو فیوڈلmindsetکی سیاسی قیادتیں اور ان کی ایجنٹ قوم پرست جماعتیں مخالفت پر آمادہ ہوجاتی ہیں۔ نوآبادیاتی دور کا کمشنری نظام اور بے پناہ اختیارات کی حامل ضلعی بیوروکریسی فیوڈل ازم کے علاوہ صنعتکاروں کوغیر قانونی تحفظ فراہم کرنے اور عام شہریوں کے مفادات کو کچلنے میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔
ویسے بھی دنیا بھر میں بڑے شہروں(Mega cities)کے لیے علیحدہ انتظامی ڈھانچہ ہوتا ہے، جس میں پولیس بھی مقامی حکومت کے تابع ہوتی ہے۔مگر پاکستان میں اس اہم مسئلہ کو بھی متعصبانہ سیاست کا شکار کرکے صرف مراعات یافتہ طبقہ کو فائدہ پہنچایاجارہاہے۔یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر اس وقت شہر میں بااختیار شہری حکومت ہوتی تو ہونے والے جانی اور مالی نقصان کو خاصی حد تک کم کیا جاسکتاتھا۔
چاہے میرے قوم پرست دوست مجھ سے کتنا ہی ناراض کیوں نہ ہوں، میںیہ کہنے پر مجبورہوں کہ پاکستان میں اس وقت ایک انتہائی فعال اوربااختیار مقامی حکومتی نظام کی ضرورت ہے۔ جس میں ضلع کی سطح پر سیاسی، انتظامی اور مالیاتی بااختیاریت کویقینی بنایاگیاہو۔خاص طورپر کراچی، لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، ملتان، حیدرآباد،سکھراوررحیم یار خان جیسے شہروں میں جہاں بڑی صنعتیں لگی ہوئی ہیں،ایک علیحدہ انتظامی ڈھانچے کی اشد ضرورت ہے۔
ان شہروں میں پولیس، تعلیم، صنعت، لینڈ،بلڈنگ کنٹرول اورسماجی ترقی کے تمام شعبے ضلعی حکومت کے تابع ہونا چاہئیں۔ اس طرح ایسے بہت سے شہری مسائل جو فوری حل کے طلب گار ہوتے ہیں،ان کے حل تک پہنچناآسان ہوجاتا ہے۔کراچی کے سانحہ نے حکمرانوں، سیاستدانوں اور اہل دانش کے لیے سوچ کے نئے زاویے کھولے ہیںکہ وہ تمام سیاسی وطبقاتی مفادات سے بلند ہوکر حقیقی معنی میں ایک بااختیار مقامی حکومتی نظام کے بارے سنجیدگی سے غور کریں اور اس کے نفاذ کو یقینی بنائیں۔
سوئم، صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں کا رویہ انتہائی سفاکانہ ہے۔ HRCPکے عبدالحئی اور سابق ٹریڈیونین رہنماء عمر عباس کے مطابق جب اس فیکٹری میں آگ لگی،تو مالکان نے فیکٹری کے الیکٹرونک دروازے اس خوف سے بند کرادیے کہ افراتفری میں لوگ سامان لے کر فرار نہ ہوجائیں۔لیکن آگ کی شدت کی وجہ سے الیکٹرونک دروازے کھل نہیں پائے ،جس کی وجہ سے یہ خوفناک سانحہ رونماء ہوا۔ ان دونوں اشخاص کا یہ بھی کہناہے کہ فیکٹری SITEکے علاقے میں ہے، مگر حکومت دانستہ اسے بلدیہ ٹائون میں ظاہر کرکے سائیٹ ایسوسی ایشن کو اس سانحے کی ذمے داری سے بچانا چاہتی ہے۔
لہٰذااب اس بات میں دورائے نہیں ہیںکہ جب تک انتظامی مرکزیت ختم نہیںکی جاتی ،کرپٹ بیوروکریسی کے اختیارات محدود نہیں کیے جاتے اور نچلی سطح پر عوام کو منصوبہ سازی میں شریک نہیں کیا جاتا، غریب اسی طرح کبھی فیکٹریوںمیں جل کر،کبھی سرراہ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن کر اور کبھی سرکاری اسپتالوں میں ادویات کی عدم دستیابی کا شکار ہوکر مرتا رہے گا۔اس کے بچے اسی طرح تعلیم سے محروم رہیں گے اور وہ غلاظت میں زندگی گذارتا رہے گا۔