آمنہ خودسوزی کیس سپریم کورٹ کا ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو جوڈیشل انکوائری کا حکم دیا
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملتان 6 ہفتوں میں مکمل رپورٹ سپریم کورٹ جمع کرائیں، چیف جسٹس
سپریم کورٹ نے مظفر گڑھ پولیس کی جانب سے خودسوزی کرنے والی طالبہ کے معاملے کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملتان کو تحقیقات کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے مظفر گڑھ میں زیادتی کا شکار طالبہ کی خود سوزی کے واقعے کے از خود نوٹس کی سماعت کی، سماعت کے دوران ایڈیشنل آئی جی پنجاب خالق داد ملک نے پولیس کی جانب سے رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا کہ آمنہ کے آصف کے ساتھ مبینہ تعلقات تھے۔ آمنہ بی بی کے ساتھ زیادتی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ اس نے اپنے مخالفین کوپھنسانے کے لئے سارا واقعہ گھڑا اور فرضی کہانی بنا کر خود سوزی کی۔
پولیس کی رپورٹ پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کیا کوئی لڑکی خود کو آگ لگا سکتی ہے؟۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دئیے کہ پولیس کارکردگی دکھانے کے لئے ایسے واقعات میں ملزموں کو بے گناہ قرار دے دیتی ہے، پولیس یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ آمنہ نام کی کوئی لڑکی تھی اور نہ ہی کوئی ایسا واقعہ پیش آیا۔ چیف جسٹس نے آمنہ کی والدہ نظام بی بی کو روسٹرم پر بلا کر اس سے سرائیکی زبان میں واقعے پر دلی افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ بچی کے ساتھ ظلم کرنے والے قانون کی گرفت سے نہیں بچیں گے۔ چیف جسٹس نے پولیس رپورٹ مسترد کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج مظفر گڑھ کو جوڈیشل انکوائری کا حکم دیا، نظام بی بی نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ وہ اتنی دور نہیں جاسکتے اس کے علاوہ انہیں ان پر اعتماد بھی نہیں جس پر چیف جسٹس نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملتان کو 6 ہفتوں میں مکمل رپورٹ سپریم کورٹ جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے مظفر گڑھ میں زیادتی کا شکار طالبہ کی خود سوزی کے واقعے کے از خود نوٹس کی سماعت کی، سماعت کے دوران ایڈیشنل آئی جی پنجاب خالق داد ملک نے پولیس کی جانب سے رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا کہ آمنہ کے آصف کے ساتھ مبینہ تعلقات تھے۔ آمنہ بی بی کے ساتھ زیادتی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ اس نے اپنے مخالفین کوپھنسانے کے لئے سارا واقعہ گھڑا اور فرضی کہانی بنا کر خود سوزی کی۔
پولیس کی رپورٹ پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کیا کوئی لڑکی خود کو آگ لگا سکتی ہے؟۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دئیے کہ پولیس کارکردگی دکھانے کے لئے ایسے واقعات میں ملزموں کو بے گناہ قرار دے دیتی ہے، پولیس یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ آمنہ نام کی کوئی لڑکی تھی اور نہ ہی کوئی ایسا واقعہ پیش آیا۔ چیف جسٹس نے آمنہ کی والدہ نظام بی بی کو روسٹرم پر بلا کر اس سے سرائیکی زبان میں واقعے پر دلی افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ بچی کے ساتھ ظلم کرنے والے قانون کی گرفت سے نہیں بچیں گے۔ چیف جسٹس نے پولیس رپورٹ مسترد کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج مظفر گڑھ کو جوڈیشل انکوائری کا حکم دیا، نظام بی بی نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ وہ اتنی دور نہیں جاسکتے اس کے علاوہ انہیں ان پر اعتماد بھی نہیں جس پر چیف جسٹس نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملتان کو 6 ہفتوں میں مکمل رپورٹ سپریم کورٹ جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔