سوڈان کی گھمبیر صورتحال لمحہ فکریہ

سوڈان میں متحارب فریقین کے درمیان سویلین حکومت کو اقتدار منتقل کرنے کے طریقہ کار پر اختلافات پائے جاتے ہیں

سوڈان میں متحارب فریقین کے درمیان سویلین حکومت کو اقتدار منتقل کرنے کے طریقہ کار پر اختلافات پائے جاتے ہیں (فوٹو فائل)

سوڈان میں جاری خانہ جنگی گیارہ صوبوں تک پھیل گئی ہے، خرطوم میں فوج کی پیراملٹری فورسز کے ٹھکانوں پر بمباری سے ہلاکتیں پانچ سو بارہ ہوگئیں، جب کہ سعودی عرب نے کہا ہے کہ جنگ بندی کے لیے متحارب فریقوں سے رابطے میں ہیں، دوسری جانب اقوام متحدہ سوڈان میں عسکری طاقت سے حصول اقتدار کی لڑائی کو فوری ختم کرنے کی اپیل کر رہا ہے۔

سوڈان میں متحارب فریقین کے درمیان سویلین حکومت کو اقتدار منتقل کرنے کے طریقہ کار پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ بیشتر لڑائی دارالحکومت خرطوم میں ہوتی رہی ہے جہاں شہری کئی روز سے اپنے گھروں میں محصور ہیں۔

درحقیقت سوڈان کے حالیہ بحران کے پیچھے کسی اصولی اور نظریاتی اختلافات کے بجائے ذاتی مفادات کا کارفرما ہونا ہے ، موجودہ لڑائی فوج اور RSF (ریپڈ سپورٹ فورسز یعنی پیرا ملٹری فورسز)کے درمیان سویلین حکمرانی کی مطلوبہ بحالی سے قبل دونوں افواج کے انضمام پر مذاکرات کے ٹوٹنے کے نتیجے میں شروع ہوئی ہے۔

دراصل ان دونوں جرنیلوں کے درمیان اس بات پر اختلاف پیدا ہو گیا تھا کہ اقتدار سویلین حکومت کو منتقلی کے بعد ان دونوں جنرلز میں سے کون سا جنرل کس کے ماتحت ہو گا اور RSF کو کتنی جلدی اور کن شرائط کے ساتھ سوڈان کی قومی فوج میں ضم کیا جائے گا۔

کچھ عرصہ پہلے تک دونوں افواج کے رہنما نہ صرف اتحادی تھے بلکہ انھوں نے 2019 میں سوڈان کے صدر عمر البشیر کا تختہ الٹنے کے لیے مل کر کام کیا تھا۔ اس کامیاب بغاوت کے بعد سویلین اور فوجی گروپوں پر مشتمل اقتدار میں شریک حکومت قائم ہوئی تھی جس کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ سوڈان کو چند سالوں کے اندر مکمل طور پر سویلین اقتدار کے زیر انتظام حکومت میں منتقلی کی نگرانی کرے گی۔

جنرل عبدالفتاح البرہان اور جنرل محمد حمدان دگالو کے درمیان حالیہ خانہ جنگی کی بنیاد دراصل 2021 میں جنرل البرہان جو پاور شیئرنگ کونسل کے سربراہ بنے تھے کی جانب سے اس کونسل کی یک طرفہ تحلیل اور 2023 میں انتخابات کرانے کے اعلان سے پڑی تھی۔تشدد اب ملک کے دیگر حصوں تک پھیلنے کی اطلاعات بھی آ رہی ہیں جس سے وسیع تر تنازعے کا خدشہ پیدا ہو رہا ہے جو اس پورے خطے کو غیر مستحکم کر سکتا ہے۔

جب سے اس تنازعے نے جنم لیا ہے تب سے اس کی زد میں سب سے زیادہ عام آبادی آئی ہے، جاری شدید گولہ باری سے لوگ گھروں میں محصور ہیں، بجلی اور پانی کا نظام درہم برہم ہے، اسپتال بند پڑے ہیں بازاروں میں اشیائے خور و نوش کی قلت کی اطلاعات موصول ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی متاثرہ مقامات سے محفوظ مقامات کی جانب نقل مکانی کی خبریں بھی آ رہی ہیں۔

مشرقی افریقا کے ملک سوڈان کی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب 97 فیصد ہے۔ سوڈانیوں کو اپنی کالی رنگت پر ہمیشہ سے فخر رہا ہے۔ اس خطے کا نام پہلے بلادالسودان یا سیاہ فاموں کی سرزمین تھا۔ خلافت راشدہ کے دور ہی میں سوڈان نورِہدایت سے جگمگا اٹھا تھا جب مصر سے آنے والے مبلغین نے یہاں کے لوگوں کو دین حق سے روشناس کیا۔ عثمانی ترکوں نے 1821 میں سوڈان کے بڑے حصے کو ولایاتِ مصر کا حصہ بنالیا۔

آٹھ دہائیوں بعد 1899 میں سوڈان اور مصر کے پورے علاقے پر برطانیہ کا قبضہ ہوگیا۔ یکم جنوری 1956 کو سوڈان کو آزادی دے دی گئی۔ علما پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے قائد اسماعیل الازھری سوڈان کے پہلے وزیراعظم منتخب ہوئے۔

ریاست کے قیام کے ساتھ ہی جنوبی سوڈان کے مسیحی علاقے میں آزادی کی تحریک شروع ہوگئی۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوجی طالع آزماؤں نے مداخلت شروع کردی۔آزادی کے ساتھ ہی سوڈان بڑی آمدنی سے محروم ہوگیا کہ تیل اور گیس کے سارے میدان جنوبی سوڈان میں جب کہ تیل صاف کرنے کے کارخانے خرطوم اور اس کے مضافات میں ہیں۔

خام تیل کی ترسیل رکنے سے جہاں آمدنی ختم ہوگئی وہیں یہ عظیم الشان کارخانے ملک پر بوجھ بن گئے اور لاکھوں کارکنوں کو ملازمتوں سے فارغ کرنا پڑا۔ جنوبی سوڈان میں ڈیم اور چھوٹے بڑے بندوں کی تعمیر سے دریائے نیل میں پانی کا حجم متاثر ہوا اور سوڈان کے لیے اپنے عوام کو غلہ و سبزی فراہم کرنا بھی مشکل ہوگیا۔ان مشکلات کے باوجود فوجی جنتا کی لوٹ مار جاری رہی، تین سال پہلے سوڈانی عوام نے فوجی اقتدار کے خاتمے کے لیے زبردست تحریک چلائی۔


عوامی تحریک کے نتیجے میں جنرل عمرالبشیر کو فوجی جنتا نے معزول تو کردیالیکن ملک کی باگ ڈور سویلین کے حوالے کرنے کے بجائے ایک انقلابی عبوری کونسل تشکیل دے دی گئی جس کی سربراہی جنرل عبدالفتاح البرہان نے سنبھال لی اور ماہرِ معاشیات ڈاکٹر عبداللہ حمدوک کو وزیر اعظم بنادیا گیا۔

ساتھ ہی 2022 میں انتخابات کی نوید بھی سنادی گئی۔عبوری کونسل نے مغرب سے سند قبولیت کے لیے اسرائیل کوتسلیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب صدر ٹرمپ عرب ممالک پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔

امریکی صدر کی کوششوں سے متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا جب کہ سعودی عرب نے اپنی فضائی حدود اسرائیلی کمرشل طیاروں کے لیے کھول دیں۔سوڈان کو ترغیب دی گئی کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی صورت میں اسے دہشت گرد ملکوں کی فہرست سے نکال دیا جائے گا۔

سابق امریکی ڈونلڈ ٹرمپ نے سوڈان سے چالیس کروڑ ڈالر بھی وصول کیے۔ یہ رقم دہشت گرد واقعے کے متاثرین کو سوڈانی حکومت کی جانب سے بطور تاوان اداکی جائے گی۔ جنرل صاحب نے یہ شرط قبول کرکے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کردیا، یا یوں کہیے کہ تسلسل اقتدار کو یقینی بنالیا۔اسی کے ساتھ وزیراعظم نے شرعی قوانین منسوخ کرکے سوڈان کو ایک سیکولر ملک قراردے دیا، یہ گویا جنرل برہان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے نہلے پر حمدوک صاحب کا دہلا تھا۔

2011 میں جمہوریہ سوڈان کے دولخت ہونے اور جنوبی سوڈان کے وجود میں آنے سے قبل رقبے کے لحاظ سے سوڈان کا شمار عالم اسلام کے سب سے بڑے ملک کی حیثیت سے ہوتا تھا لیکن اب جب جنوبی سوڈان امریکا، فرانس اور برطانیہ جیسے مغربی ممالک کی سرپرستی اور اقوام متحدہ کی چھتری تلے ایک نام نہاد ریفرنڈم کے نتیجے میں سوڈان سے علیحدہ ہو کر ایک الگ اور خودمختار ملک بن چکا ہے تب سے سوڈان اسلامی ممالک میں رقبے کے لحاظ سے پہلے نمبر سے نویں پوزیشن پر چلا گیا ہے۔

سوڈان کو ماضی میں جہاں اس کی مستحکم اسلامی شناخت اور اس کے وسیع و عریض رقبے نیز نو ممالک کی ہمسائیگی اور ایشیا و افریقہ کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے اہمیت حاصل رہی ہے وہاں تیل اور سونے کے وسیع ذخائر بھی اس کی اہمیت کی ایک اہم وجہ رہے ہیں۔

اسی طرح یہاں بعض دیگر عرب اور افریقی ممالک کی طرح جنرل عمر البشیر کی قیادت میں تیس سال تک کا طویل دور اور اسی دور میں طویل خانہ جنگی اور ایک موقع پر یہاں القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کی سکونت اور امریکی کروز میزائلوں کے ذریعے خرطوم میں ادویات کی ایک فیکٹری کو کیمیاوی ہتھیار بنانے کے خود ساختہ الزام کے تحت نشانہ بنانے کی وجہ سے بھی پچھلی تین دہائیوں کے دوران سوڈان کا عالمی سیاست میں چرچا ہوتا رہا ہے۔

اس پس منظر کے ساتھ سوڈان حالیہ دنوں میں ایک بار پھر دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے جس کی وجہ سے دارالحکومت خرطوم سمیت ملک کے اکثر شہروں میں ملک کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح البرہان کی قیادت میں سوڈانی مسلح افواج اور جنرل محمد حمدان دگالو کی قیادت میں ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کے نیم فوجی دستوں کے درمیان جاری خون ریز جھڑپیں ہیں جن میں عالمی ادارہ صحت کے مطابق اب تک 500 سے زائد اموات واقع ہو چکی ہیں جن میں زیادہ تر تعداد سویلین آبادی کی ہے جب کہ زخمیوں کی تعداد پانچ ہزار سے متجاوز بیان کی جاتی ہے۔

فریقین جنگ بندی پر آمادہ نہ ہوئے اور اگر یہ جنگ طول پکڑتی ہے تو اس سے سوڈان کے علاوہ پڑوسی ممالک کے بھی متاثر ہونے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ سوڈان سمیت یہ سارا خطہ پچھلی تین دہائیوں کے دوران بدترین خانہ جنگیوں اور قتل و غارت کا شکار رہا ہے حتیٰ کہ ان دنوں بھی لیبیا، صومالیہ، ایریٹریا اور ایتھوپیا بدامنی سے دوچار ہیں۔

افریقی یونین اور پڑوسی ممالک کی جانب سے بیرونی طاقتوں کو سوڈان کی خانہ جنگی سے دور رہنے کے انتباہ کے باوجود مصر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، روس، امریکا، برطانیہ اور چین جیسی بین الاقوامی قوتوں کی سوڈان کی توانائی، دفاع، کان کنی اور زراعت جیسے شعبوں میں دلچسپی بھی کوئی راز کی بات نہیں ہے۔

اب تک اس بحران کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ یا پھر افریقی یونین کا کچھ زیادہ فعالیت نہ دکھانا نیز دو مسلمان گروہوں کے درمیان جنگ یا خونریزی کے مدمقابل امن اور صلح کے واضح قرآنی احکامات کے باوجود او آئی سی اور عرب لیگ جیسی مسلمان تنظیموں اور اسلامی ممالک کا سوڈان کے جاری بحران سے چشم پوشی کے نتیجے میں یہ مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید گھمبیر صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے جو عالم اسلام کے لیے یقیناً لمحہ فکریہ ہے۔
Load Next Story