زرعی درآمدات و برآمدات
جب جیب میں ڈالر ہی نہ ہو تو خوراکی اشیا سے بھرے ہوئے کنٹینرز بھی روک لیے جاتے ہیں
''دانے مُک گئے'' یعنی دانے ختم ہوگئے، اصل بات یہ بتانا مقصود ہے کہ خوراک ختم ہو رہی ہے اس کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے، لہٰذا بھوک افلاس غذائی قلت بڑھ جانی ہے ان کے نتیجے میں مہنگائی شدید بڑھ جانی ہے، کاروبار میں مندی کساد بازاری چھا جاتی ہے۔
کارخانوں کا پہیہ رک جاتا ہے، صنعتی پیداوار میں کمی واقع ہو جاتی ہے، زرعی پیداوار اتنی کم ہو جاتی ہے کہ خوراک کی درآمدات پر انحصار بڑھ جاتا ہے اور پھر جب جیب میں ڈالر ہی نہ ہو تو خوراکی اشیا سے بھرے ہوئے کنٹینرز بھی روک لیے جاتے ہیں اور مختلف خوراکی اشیا جیسے دال، گندم، پام آئل، چائے بہت سی اقسام کی غذائی اشیا کی سپلائی رک جاتی ہے کیوں کہ ان کی درآمد کے لیے ڈالرز کی شدید قلت پیدا ہو جاتی ہے۔
پاکستان میں گزشتہ جولائی 2022 سے اس قسم کی شدید مالی دشواری کی صورت حال پیدا ہو چکی ہے۔ ڈالرز کی زبردست قلت کی کئی وجوہات ہیں، اول ہماری برآمدات کا انحصار زرعی پیداوار اور زرعی پیداوار پر مبنی مصنوعات اور جانوروں کی کھالوں سے بنی چمڑے کی مصنوعات و دیگر پر کچھ ایسی منصوبہ بندی کی ابتدا کی گئی جو صنعتی پیداوار کے لحاظ سے بہتر تھا۔
اس صنعتی ترقی کے نتیجے میں لوگوں کو بڑی تعداد میں روزگار میسر آیا۔ اس کے ساتھ ایک مخصوص اور مختصر طبقہ امیر سے امیر تر ہوتا چلا گیا۔ یہ منصوبہ بندی زراعت پر کم توجہ پر مبنی تھا اور زراعت کی بھرپور ترقی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام نہ ہو سکا۔ تربیلا بند کی تعمیر کے بعد کوئی بڑا ڈیم تعمیر نہ ہو سکا۔
زرعی شعبہ گوناگوں مسائل کا شکار رہا، اگرچہ اس دوران کئی زرعی اشیا کی بہتر پیداوار کے سبب برآمدات بھی ہوتی رہیں۔ مثلاً گندم کی برآمد ہوئی اور کپاس کی بھی برآمد ہوتی رہی۔ ملک میں گنے کی بھرپور پیداوار حاصل کرنے کے بعد چینی کی بڑی مقدار برآمد کی جاتی رہی۔
اسی طرح بڑے پیمانے پر سبزیاں پھل وغیرہ بھی برآمد کیے جاتے رہے ہیں لیکن پھر کبھی کاشتکار کو پیاز کی صحیح قیمت نہ مل سکی تو اس نے پیاز کے پیداواری رقبے کو گھٹا دیا، کبھی ٹماٹر کی پیداوار اس طرح سے متاثر ہوئی کہ ان کی درآمد کی جانے لگی ظاہر ہے درآمدی قیمت کے حساب سے پیاز 260 روپے فی کلو تک جا پہنچا۔ گندم کی درآمد شروع ہوئی آٹے کی قیمت نے چھلانگیں لگانا شروع کردیں۔
کپاس کی پیداوار شدید متاثر ہوئی کپاس کی بڑی مقدار درآمد کی جانے لگی تو ٹیکسٹائل ملز والوں کی برآمدات کو نقصان پہنچنا شروع ہوگیا۔ پاکستان کے پاس صرف چاول ہے جوکہ بڑی مقدار میں حسب معمول برآمد کیا جا رہا ہے۔ دیگر خوراکی اشیا کی پیداوار میں زبردست کمی نے ملکی خوراک کی درآمدات میں بہت زیادہ اضافہ کردیا ہے۔ پھر ان اشیا کی درآمد بروقت ملک میں ترسیل کی راہ میں رکاوٹ ڈالر نے ڈال دی۔
حکومت نے درآمدات کو کنٹرول کرنا شروع کر دیا، اب اس کنٹرول میں بہت سی اشیا متاثر ہوئیں، ٹیکسٹائل مل والوں کے لیے خام مال اور استعمال ہونے والے میٹریلز کی درآمد متاثر ہونے کے علاوہ ان کی قیمت میں بھی دگنا کہیں تگنا اضافہ ہو چکا تھا۔
بہرحال اس ساری تگ و دو کے نتیجے میں کئی ملکوں سے درآمدات میں کمی واقع ہوئی ، موجودہ معاشی صورت حال میں جو ابتری پیدا ہوئی ہے یہاں پر پھر درآمدات کو کنٹرول کرتے ہوئے اس قسم کی غلطی دہرائے جانے کا امکان ہے جوکہ پچاس کی آخری نصف دہائی اور ساٹھ کی دہائی میں کی گئی تھی یعنی جی ڈی پی میں اضافہ ہوا۔
قومی آمدن میں اضافہ ہوا اور فی کس آمدن بھی بڑھی، لیکن ایک مخصوص طبقے کو زیادہ فائدہ ہوا، ان کی آمدن میں لاکھوں کا اضافہ ہوا۔ پھر ملک میں ایک طبقہ ایسا وجود میں آگیا جس کی آمدن لاکھوں میں چلی گئی انھوں نے پاکستان کی درآمدات کو اس طرح سے بڑھاوا دیا کہ بڑی مقدار میں گاڑیاں درآمد کی گئیں، فرنیچر کا سامان، گھر، بنگلوں کے لیے آرائشی سامان، سینیٹری کا سامان، بجلی کا سامان اور بنگلوں کی تعمیر کے لیے درآمدی اشیا کا استعمال قابل فخر ہونے لگا اوریوں غیر ضروری اشیائے تعیشات کی درآمدات بھرپور طریقے سے ہونے لگی۔
دوسری طرف منصوبہ بندی کرتے وقت زرعی زمینوں کے مسائل کاشتکاروں کے مسائل نہری پانی کے مسائل دو نمبر کھاد جعلی ادویات جعلی اسپرے اور دیگر بہت سی باتوں کے علاوہ اس بات کی کوئی ایسی منصوبہ بندی نہ کی جاسکی کہ سیلاب آنے کی صورت میں یا بارش نہ ہونے کی صورت میں صورتحال سے کس طرح نمٹا جائے گا لہٰذا اچانک سیلاب وارد ہوتا اور سیکڑوں گاؤں ڈوب جاتے، ہزاروں افراد ہلاک ہو جاتے۔
اس کے علاوہ فی ایکڑ پیداوار میں اضافے پر بھی توجہ نہ دینے کے باعث ملک میں غذائی پیداوار میں کمی پیدا ہوتی رہی اور ہمیں غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کرکے خوراک کی درآمدات کپاس درآمدات اور دیگر اشیا کی درآمدات میں کمی لاکر ہر سال اربوں ڈالر کا زرمبادلہ بچا سکتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں اتنی بھرپور اور خودکفالت اور قابل برانڈ والی پیداوار حاصل کی جائے کہ گندم، دالیں، کپاس اور دیگر اشیا بڑی مقدار میں برآمد کرسکیں۔ جب کہیں جا کر زرمبادلہ کے ذخائر بھی بڑھیں گے۔