یومِ مئی سندھ سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن
اس وقت کی پولیس نے سرمایہ داروں کی ایماء پر مزدوروں کی اس تحریک کو طاقت کے ذریعہ کچلنے کی کوشش کی
یومِ مئی مزدوروں کا دن پاکستان سمیت دنیا بھر میں منایا جارہا ہے۔ امریکا کے شہر شکاگو کے مزدوروں نے 1866کو یکم مئی کے دن آٹھ گھنٹے کام کے حق کے لیے تاریخی جدوجہد کی۔ اس وقت یورپ اور امریکا میں مزدوروں سے بیس بیس گھنٹے کام لیا جاتا تھا۔
اس وقت کی پولیس نے سرمایہ داروں کی ایماء پر مزدوروں کی اس تحریک کو طاقت کے ذریعہ کچلنے کی کوشش کی۔ پولیس نے ہڑتالی مزدوروں پر اندھادھند گولیاں برسائیں جس سے کئی مزدور شہید ہوئے۔ اوقاتِ کار کے تعین کے حق کی تحریک کے روحِ رواں کئی مزدور رہنماؤں کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ امریکی حکومت کی اس سفاکانہ کارروائی کے باوجود شکاگو کے مزدوروں کا پیغام پوری دنیا میں پھیل گیا۔
شکاگو کی تحریک کے ایک رہنما نے پھانسی کے پھندے پر کہا تھا کہ'' حکمرانوں تم ہمیں ختم کرسکتے ہو مگر مزدوروں کے حقوق کی تحریک کو ختم نہیں کرسکتے'' یوں شکاگو کے مزدوروں کا پیغام پوری دنیا میں پھیل گیا۔ یورپی ممالک میں مزدوروں کے اوقاتِ کار اور ہفتہ وار تعطیل کے حق کو تسلیم کیا گیا ، پھر مزدوروں کو دیگر نوعیت کی مراعات دینے پر غوروخوض شروع ہوا۔
برطانیہ کی حکومت نے دوسری جنگ ِ عظیم کے خاتمہ پر سوشل سیکیورٹی کا قانون نافذ کیا۔ اس قانون کے تحت مزدوروں کی کم از کم تنخواہ کا تعین ہوا۔ مزدوروں کو منافع میں بونس دینے، مزدوروں اور ان کے اہلِ خانہ کے لیے تعلیمی، طبی اور رہائشی سہولتوں کی فراہمی کے حق کو تسلیم کیا گیا۔
برطانیہ کے مزدوروں کی مراعات میں اتنا اضافہ ہوا کہ بہترین تنخواہ، ملازمت کے تحت طبی اور رہائشی سہولتوں کے ساتھ مختلف نوعیت کی تقریباً پانچ کے قریب پنشن ملنے لگی۔ پاکستان میں مزدوروں نے اس معاشی اور سماجی حقوق کے لیے طویل جدوجہد کی۔ حکمرانوں نے مزدور تحریک کو ختم کرنے کے لیے پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کو استعمال کیا مگر ایوب خان کے دورِ حکمرانی میں مزدوروں کو طبی سہولتوں کی فراہمی کے لیے جامع اقدامات ہوئے۔
غیر سرکاری اداروں کے مزدوروں کو طبی سہولتوں کی فراہمی کے لیے سوشل سیکیورٹی کا ادارہ قائم ہوا۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں سوشل سیکیورٹی کو قانون سازی کے ذریعہ جامع انسٹی ٹیوشن کی شکل دی گئی۔ اب سوشل سیکیورٹی اسکیم کے تحت مزدوروں اور ان کے لواحقین کو صحت، بیماری اور موت کی صورت میں معاوضہ ملنے لگا۔ سندھ ایمپلائز سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن (سیسی) گنتی کے ان چند اداروں میں سے ایک ہے جو اپنے قیام سے آج تک ملازمین کے لیے دیے جانے والے فنڈز / کنٹری بیوشن سے چل رہے ہیں۔
یہ ادارہ صوبائی یا وفاقی حکومت سے کوئی فنڈ یا گرانٹ نہیں لے رہا ہے۔ سیسی کا سالانہ بجٹ کا تخمینہ 17.6 ارب روپے ہوتا ہے۔
اس ادارہ کے معاملات چیئرمین سیسی کی سربراہی میں ایک 10 رکنی گورننگ باڈی چلاتی ہے جس میں 4نمایندے محنت کشوں کے اور 4 نمایندے آجروں سے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ صوبائی سیکریٹری محنت اور سیکریٹری فنانس گورننگ باڈی کے رکن ہوتے ہیں۔ گورننگ باڈی کی مدت 3 سال ہوتی ہے۔ سوشل سیکیورٹی میں احمد مقصودی حمیدی جیسے کئی افسران آئے اور اس ادارہ کی کارکردگی بہتر ہوئی۔
سندھ حکومت کے حکم کے تحت قائم کمیشن رپورٹ کے مطابق سندھ میں رجسٹریشن کے حامل مزدوروں کی تعداد کسی طور پر بھی 30 لاکھ سے کم نہیں ہے مگر افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ سوشل سیکیورٹی سیسی کے ادارہ سے منسلک اور رجسٹرڈ مزدوروں کی تعدا د کسی طور پر بھی 5لاکھ سے زیادہ نہیں ہے۔
یوں ایک خام اندازہ کے مطابق سندھ بھر میں 25لاکھ مزدور اور ان کے اہلِ خانہ اور ان کے والدین جائز، قانونی حقوق اور سہولیات سے محروم ہیں اور مزدوروں کی اتنی بڑی تعداد کو سیسی کے R-5 کارڈ نہیں دیے گئے۔ مزدوروں کو سیسی کے دائرہ میں شامل کرنے کی ذمے داری سیسی کے اہلکاروں اور متعلقہ نجی اداروں کی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔
پھر 17200 رجسٹرڈ صنعتی و تجارتی اداروں میں سے صرف 8000 ادارے اپنا ماہانہ کنٹری بیوشن سیسی کو ادا کررہے ہیں اور سندھ بھر کے 9200 کے قریب ادارے اپنا ماہانہ کنٹری بیوشن ادا نہیں کررہے ہیں، یوں آجر حضرات صرف 446,000 مزدوری ادا کررہے ہیں، یوں تقریباً 3 لاکھ سے زائد مزدوروں کا کنٹری بیوشن سیسی کے خزانہ میں جمع نہیں ہورہا ہے۔
سندھ ایمپلائز سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن (سیسی) کے مالیاتی سال 2022-23 میں طے کیے گئے تخمینہ اور اس ادارہ کے اپنے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس مالیاتی سال کے اختتام پر رجسٹرڈ مزدوروں کی تعداد کم از کم 733,000 ہونا چاہیے تھی۔
اسی طرح ماہانہ 6فیصد کنٹری بیوشن (1500 روپے ماہانہ فی مزدور )کم از کم 13 بلین تک پہنچ جانا چاہیے تھا مگر یہ ماہانہ کنٹری بیوشن 650 ملین سے زیادہ نہیں وصول ہوپارہا ہے، یوں اس سال سیسی کو 5 ارب روپے کا خسارہ ہوگا۔ سیسی کے قانون مجریہ 2016ء کی سیکشن 34 کے مطابق اس ادارہ کی سالانہ رپورٹ کا اجراء لازمی ہے جس میں آمدنی، اخراجات اور آڈٹ رپورٹ وغیرہ شامل ہونے چاہئیں مگر گزشتہ 10 برسوں سے یہ رپورٹ جاری نہیں ہورہی ہے۔
مزدوروں کا کہنا ہے کہ ایک زمانہ میں اس ادارہ کے اسپتالوں کی کارکردگی کو بطور مثال پیش کیا جاتا تھا۔ سیسی کے کارڈ رکھنے والے مزدور طبی سہولتوں کے حوالہ سے مطمئن تھے اور ان مزدوروں کو سرکاری اسپتالوں کی خاک چھاننے کی ضرورت نہیں تھی۔
ایک مزدور رہنما کا مشاہدہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ سندھ میں سیسی کے اسپتالوں کا معیار گرنے لگا مگر پنجاب کے سوشل سیکیورٹی کے اسپتالوں کا معیار بلند ہوتا گیا۔
سینئر مزدور رہنما عثمان بلوچ کا کہنا ہے کہ 80ء کی دہائی میں مزدوروں کو معمولی کنٹری بیوشن کے عوض بہترین طبی سہولتیں حاصل تھیں۔ سیسی کے بعض سینئر ملازمین اس خوف کا شکار ہیں کہ سیسی کے کنٹری بیوشن میں اضافہ نہیں ہوتا ہے اور انتظامی اخراجات بڑھ رہے ہیں تو پھر وہ وقت آسکتا ہے کہ یہ ادارہ بھی اسٹیل ملز اور ریلوے کی طرح دیوالیہ قرار نہ پائے۔
سیسی کے انتظامی ڈھانچہ کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ چیئرمین اور گورننگ باڈی کی نگرانی میں انتظامی اختیارات کمشنر کو حاصل ہوتے ہیں۔ عمومی طور پر سی ایس پی افسران کو کمشنر مقرر کیا جاتا ہے مگر گزشتہ کئی برسوں کے ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ کمشنر صاحبان کا جلدی جلدی تبادلہ کیا گیا۔
کچھ کمشنر صاحبان کی فرائض کی مدت 2 سے 3 ماہ کے درمیان جاری رہی۔ اعلیٰ ترین سطح پر اس طرح کے تبادلوں سے ادارہ کی مستقبل کی منصوبہ بندی نہیں ہوسکتی۔
حکومت سندھ نے ایک بلین روپے کے سرمایہ سے بے نظیر مزدور کارڈ کا اجراء کیا مگر اس پروجیکٹ کے قواعد و ضوابط عام نہیں کیے گئے۔ یہ پروجیکٹ یکم جنوری 2021 کو شروع ہوا تھا اور 2 سال میں یہ پروجیکٹ پایہ تکمیل کو پہنچا تھا۔ اس پروجیکٹ کے تحت سیسی کے رجسٹرڈ شدہ 0.65 ملین رجسٹرڈ مزدوروں کو یہ کارڈ جاری ہونے تھے مگر ابھی تک صرف 60ہزار مزدوروں کو یہ کارڈ دیے گئے ہیں۔
اس وقت ایک مزدور رہنما کے صاحبزادہ اور مزدور رہنما سندھ کے لیبر کے وزیر ہیں۔ یومِ مئی کے موقع پر ان سے امید کی جاتی ہے کہ نہ صرف سیسی کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات ہونگے بلکہ رجسٹرڈ مزدوروں کی تعداد میں اضافہ پر بھی توجہ دی جائے گی اور دیہاڑی پر اور چھوٹے موٹے کام کرنے والے مزدوروں کو سیسی کے دائرہ میں لانے کی حکمت عملی بنائی جائے گی۔