گندھارا آرٹ اور خیبرپختون خوا
خیبر پختون خوا کی زمین پر 20 لاکھ سال قبل مسیح سے لے کر برطانوی دور حکومت تک کئی ثقافتوں اور تہدیبوں نے جنم لیا ہے
گندھارا آرٹ اور خیبرپختون خوا کے بارے میں لکھی گئی تاریخ اور یہاں کے مختلف علاقوں سے برآمد ہونے والے بے شمار قدیم آثار و نوادرات کی روشنی میں ماہرآثارقدیمہ کے مطابق خیبر پختون خوا کی زمین پر 20 لاکھ سال قبل از مسیح سے لے کر برطانوی دور حکومت تک کئی اقوام کی ثقافتوں اور تہذیبوں نے جنم لیا ہے۔
جن میں سب سے زیادہ مشہور گندھاری قوم اور اس کی تہذیب و ثقافت ہے، جس کے برآمد ہونے والے بے شمار نمونے آج بھی ملک کے اندر بالخصوص پشاور کے عجائب گھر میں موجود ہیں۔ گندھارا وادی پشاور کا قدیم نام ہے، جس کی تہذیب دریائے سندھ کے مغرب اور دریائے کابل کے شمال میں پشاور سے لے کر سوات، دیر اور بامیان (افغانستان) تک پھیلی ہوئی تھی۔
بعد میں ٹیکسلا کا علاقہ بھی اس کے زیراثر رہا۔ آریاؤں کی مقدس کتاب ''رگ وید '' اور چھٹی صدی قبل از مسیح میں لکھے گئے دارا اول کے سنگی کتبوں میں بھی وادی گندھارا اور اخمینی حکومت کا ذکر موجود ہے۔ پشکلاوتی (بالاحصار چارسدہ) چھٹی صدی قبل از مسیح سے پہلی صدی تک گندھارا کا پہلا دارالحکومت رہا ہے جس پر 327 قبل از مسیح میں سکندر یونانی نے حملہ کیا تھا۔
اخمینی، موریا، یونانی، کشان اور ساسانیوں نے بھی گندھارا پر حکومت کی تھی۔ کشان خاندان نے پہلی صدی عیسوی میں پشاور یا پرش پورہ کو دارالخلافہ بنایا۔ بعد میں شاہی خاندان نے ''ہنڈ'' کو جو دریائے سندھ کے دائیں کنارے تربیلا ڈیم اور اٹک کے درمیان ضلع صوابی میں واقع ہے، اپنا دارالخلافہ قرار دیا۔ 998 عیسوی میں غزنوی خاندان نے ہنڈ پر قبضہ کرکے گندھارا تہذیب کا خاتمہ کردیا۔
پہلی صدی عیسوی میں منظرعام پر آنے والا گندھارا آرٹ مقامی تھا جو کسی حد تک یونانی اور رومی فنون لطیفہ سے متاثر ہوا۔ یہ فن پہلی سے پانچویں صدی عیسوی تک پھلتا پھولتا رہا اور تقریباً آٹھویں صدی عیسوی میں ختم ہو گیا۔ اس فن کا مقصد خطے میں بدھ مت کا پرچار تھا اور اس مقصد کے لیے پتھر، چونے، مٹی اور کانسی کے بے شمار مجسمے بناکر عبادت گاہوں (اسٹوپا) اور خانقاہوں میں رکھے گیے تھے۔
چینی زائر اور سیاح ہیون سانگ نے ساتویں صدی کے اوائل میں اپنے سفر نامے میں ہزاروں ایسی عبادت گاہوں اور خانقاہوں کا ذکر کیا ہے جن میں سے اب تک صرف چند کی کھدائی کی گئی ہے۔
گندھارا آرٹ میں گوتم بدھ کے انفرادی مجسمے، مکمل سوانح حیات اور پچھلے جنموں سے متعلق کندہ کی گئی کہانیاں شامل ہیں۔ فن کاروں نے گوتم بدھ کے مجسموں کے لیے مقامی اور یونانی فنون سے استفادہ کیا اور مہاتما بدھ کے مجسمے کو ابدی زندگی عطا کی۔
راجا کنشک کے دورحکومت میں گوتم بدھ کی سوانح حیات سے متعلق مسجمے بدھ مت کی ایک شاخ جسے ''مہایانہ'' کہا جاتا ہے، کی اہم دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ زائرین، سیاحوں اور تاجروں کے ذریعے شاہ راہ ریشم کے راستے چین، کوریا اور جاپان تک بدھ مت کا پرچار ہوا۔ پتھر اور چونے کے مجسمے اور تختیاں عبادت گاہوں (اسٹوپا) اور خانقاہوں میں اس خوب صورتی سے سجائی گئی ہیں کہ بدھ مذہب کی تفصیل اور مہاتما بدھ کی زندگی کے مختلف پہلو، دیکھنے والے پر واضح ہو جاتے ہیں۔
گوتم بدھ کی باقیات بھی صندوقچے میں پوجا کے لیے اسٹوپا میں رکھی جاتی تھیں۔ کشانوں کے زیرسایہ پرورش پانے والا یہ فن ہم عصر متھرا آرٹ سے کہیں زیادہ دل آویز ہے۔ گندھارا آرٹ بدھ مت کے فروغ کے ساتھ پروان چڑھا اور اس کا عروج بدھ مت کے عروج سے وابستہ رہا۔ اشوک پہلا بادشاہ تھا جس نے نہ صرف بدھ مت قبول کی بل کہ اس کا پرچارک بن گیا اور اسے پھیلانے میں اپنی سلطنت کی توانائیاں صرف کیں۔
اشوک کے بعد دوسرا بڑا بادشاہ جس نے اشوک کے نقش قدم پر چل کر بدھ مت کے فروغ کے لیے کام کیا، وہ مہاراجا کنشک تھا۔ 135 قبل از مسیح میں وسط ایشیا کے پانچ قبائل ایک ڈھیلے ڈھالے اتحاد کے ذریعے آپس میں متحد ہوئے، ان میں باختر کے یونانی بھی تھے ان کا اگواں قبیلہ ''کشان'' تھا۔
کشان کی قیادت نے افغان علاقہ فتح کرلیا۔ اس خاندان کا انتہائی نقطہ عروج دوسری عیسوی میں نظر آیا۔ یہ مہاراجا کنشک (78ء تا 144ئ) کا عہد تھا۔ کنشک نے اپنی قابلیت سے اپنی حدود سلطنت کو بہت وسعت دے دی تھی۔ اس کی سلطنت شمالی وسطی ہند میں متھرا سے لے کر باختر سے آگے چین کی سرحدوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ کنشک مذہب اور آرٹ کا سرپرست تھا، شاہ راہ ریشم کے راستے چین، ہندوستان اور روم آپس میں مربوط ہوتے تھے۔
ہر وقت تجارتی قافلے اپنے خیالات اور اپنا سامان تجارت ادھر سے ادھر لے جانے میں سرگرم رہتے تھے، انہیں افغانستان سے گزرنا ہوتا تھا، یہاں بلخ ایک بہت بڑا تجارتی مرکز تھا جہاں یہ قافلے اپنا سامان تجارت بدلتے تھے۔ ہندوستانی سیاح اور نقل مکانی کرنے والے لوگ شاہ راہ ریشم کے ذریعے چین جاتے اور اہل چین کو بدھ مت سے روشناس کراتے۔ بدھ مت کے ساتھ گندھارا آرٹ بھی متعارف ہوتا رہا۔
دنیا میں بدھا کے سب سے بڑے مجسمے جو 175 فٹ اور 120 فٹ اونچے تھے بامیان کی پہاڑی پر پتھر کاٹ کر بنائے گئے تھے، یہ وسطی افغانستان میں تھے۔ کشان بادشاہوں کی گرمائی رہائش گاہیں کابل سے شمال میں بگرام میں تھیں، وہاں سے سکندریہ، روم، ہندوستان اور چین کی اشیائے استعمال بکثرت ملی ہیں، جس کا مطلب ہے کہ اس وقت ان تمام ملکوں کی اشیائے تجارت وسیع پیمانے پر اسی راستے سے ایک دوسرے کو منتقل ہوتی تھیں۔
بلخ کے شمال میں دلبرجن اور بلخ کے مغرب شبرغان کے مقامات سے بھی اس وقت زرمبادلہ کے طور پر استعمال ہونے والے سونے کے سکے ملے ہیں جو متذکرہ ممالک میں استعمال ہوتے تھے۔ بدھ آرٹ آج کے شمال مغربی پاکستان اور مشرقی افغانستان کے علاقوں میں فروغ پاتا رہا۔ اس آرٹ میں یونانی اور رومی اثرات نمایاں ہیں۔ یہی کشان آرٹ تھا اور ان علاقوں کے ساتھ اتر پردیش کے علاقہ متھرا میں بھی اس کے مراکز تھے۔
گندھارا آرٹ میں کلاسیکل رومن آرٹ کے واضح اثرات بھی ملتے ہیں اسی طرح بدھ کا چہرہ، ناک آنکھیں وغیرہ یونانیوں کی سی ہیں۔ مجسمہ سازی میں استعمال ہونے والے مسالے اور مجسمہ پر جو پالش کی تہہ چڑھائی جاتی تھی یہ بھی یونانیوں کی عطا کردہ چیزیں تھیں۔ مہاراجا کنشک امن پسند بادشاہ تھا، وہ اپنے لوگوں کو خوش حال اور پرسکون دیکھنا چاہتا تھا اور پڑوسی ملکوں کے ساتھ صلح صفائی سے رہتا تھا، اس طرح ملکوں کے کلچر ایک دوسرے سے مشارکت کر رہے تھے۔
گندھارا آرٹ اس کے عہد میں ترقی کر رہا تھا۔ یونانی، رومی اور ایرانی آرٹ کا گندھارا آرٹ سے تال میل ہو رہا تھا، اس سے پہلے اشوک کے عہد میں بھی یہ کچھ ہوا تھا۔ یہ آرٹ مذہب کے سائے میں پرورش پا رہا تھا اس میں زیادہ محنت بدھ کے مجسموں یا پتھر میں کھدی ہوئی تصویروں پر ہوتی رہی۔ بدھ کے یادگاری مجسموں کے ساتھ بدھ اسٹوپے بھی فن تعمیر میں ارتقاء کا سراغ دے رہے تھے۔
گندھارا آرٹ کا اسٹوپا زیادہ اونچا بنایا جاتا تھا، چوٹی پر مربع شکل کی ریلنگ بھی زیادہ ہو رہی تھی سب سے بڑی بات جو گندھارا اسٹوپا کو پہلے کے اسٹوپاز سے ممتاز و ممیز کرتی ہے وہ چوٹی پر بنائی ہوئی بڑی چھتری ہے یہ بلاشبہہ فن تعمیر کا شاہ کار ہے اور اس کی مضبوطی اور استحکام اور زیادہ حیران کن ہے۔ تمام گندھارا اسٹوپاز میں سب سے بڑا اسٹوپا کنشک نے اس جگہ بنوایا تھا جو آج شاہ جی کی ڈھیری کے نام سے مشہور ہے اور پشاور کے نواح میں ہے۔
کہا جاتا ہے کہ کنشک کا دارالحکومت بھی ادھر ہی تھا، اس بڑے اسٹوپا کے ساتھ اور بھی کئی نسبتاً چھوٹے اسٹوپاز تھے۔ آج ان کے صرف کھنڈرات مل سکتے ہیں۔ گندھارا آرٹ کی مجسمہ سازی موریا خاندان کے عہد کی مجسمہ سازی سے مختلف ہے اس پر غیرملکی اثرات واضح ہیں اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں مختلف تمدنوں کا ملاپ ہوا ہے۔ کشان خاندان کا زوال ساسانیوں کے حملوں سے شروع ہوا، ان کے ساتھ وسط ایشیا کے ''سفیدین'' بھی جارحیت کرنے لگے۔
اب گندھارا آرٹ کشمیر اور افغانستان میں سمٹنے لگا، تاہم ٹیکسلا اور باختر کی درمیانی سرسبز وادی میں بدھ پیشوا اپنے کام میں مصروف رہے۔ انہوں نے کوہ ہندو کش کی چٹانوں پر اپنے مسکن بنالیے اور بدھ کے مجسموں پر کام کرتے رہے۔ بدھ کے مجسموں کو لباس دیا گیا اور مالا اور زیورات بھی پہنائے جاتے رہے۔ افغانستان ہر دور میں بدھوں کے ماضی کی بہت بڑی امانت گاہ تھی۔
بامیان میں ہی گوتم بدھ کے سب سے بڑے مجسمے تھے۔ منگول اور مغلوں میں سے متعصب بادشاہوں نے بتوں کو توڑنا اپنا فریضہ سمجھا اور کئی یادگاریں ختم ہوگئیں۔ کنشک نے ایک پہاڑی پر کشان خاندان کے بادشاہوں کی تصویریں کھدوائی تھیں جن کو اردگرد کے دیہاتی لوگوں نے تباہ کردیا۔ پتھر کاٹ کاٹ کر لے گیے۔ یہاں اور بھی بہت کچھ ایسا ہے جو زمانے کی دست برد سے بچ گیا ہے، بہت کچھ برباد ہوگیا لیکن سب کچھ برباد نہیں ہوا، بقول شاعر
کچھ نقش تیری یاد کے باقی ہیں ابھی تک
دل بے سروساماں سہی ویراں تو نہیں ہے
گندھارا آرٹ کے مثالی شاہ کار آج بھی خیبرپختون خوا کے کئی علاقوں میں مدفن ہیں۔ خصوصاً ضلع مردان، سوات کے علاوہ ضلع صوابی کے مشہور تاریخی گاؤں لاہور جو اب ضلع صوابی کی تحصیل بھی ہے اور جہاں سنسکرت زبان کے پہلے قواعد دان ''پانینی'' بھی پیدا ہوئے تھے۔
یہاں ان کے نام سے ایک جگہ ''پنے ونڈ'' اور بدھ مت کے نام سے ''بدھوونڈ'' آج بھی موجود ہیں۔ اس گاؤں کے کئی عمررسیدہ بزرگوں کا خیال ہے کہ اگر ''پنے ونڈ'' اور ''بدھو ونڈ'' میں کھدائی کا کام شروع کیا گیا تو نہ صرف بدھ مت بل کہ گندھارا آرٹ کے بے شمار نادر نمونے بھی ہاتھ آسکتے ہیں۔ اسی طرح لاہور سے دو چار کلومیٹر کے فاصلے پر گاؤں ''مانکئی، '' جلبئی'' اور ''جلسئی'' کے مقام پر بھی ''سولئی ڈھیری''، ''مالادر''، ''بھاگو''''میرالو'' اور''رتہ پنڈ ڈھیری'' ایسے مقامات ہیں جہاں سے قدیم تاریخی آثار کے علاوہ گندھارا تہذیب کے نادر نمونے دریافت ہوسکتے ہیں۔ اگر کوئی گندھارا آرٹ کے شاہ کار نمونے دیکھنے کا آرزومند ہو تو آج بھی پشاور کے عجائب گھر میں اس تہذیب کے بے شمار نادر ونایاب نمونے دعوت نظارہ دیتے ہیں۔
پشاور عجائب گھر انگریز حکومت نے 1906ء میں وکٹوریہ میموریل ہال میں قائم کیا اس کے پہلے کیوریٹر آرل اسٹائین تھے۔ عجائب گھر کی عمارت پشاور شہر اور صدر کے ریلوے اسٹیشن کے درمیان گورنر ہاؤس کے قریب واقع ہے۔ یہ عمارت ایک بڑے ہال اور اطراف کی راہ داریوں پر مشتمل تھی جس میں 1975-74 اور 1978-79ء میں دو منزلہ گیلریوں کا اضافہ کیا گیا۔
پشاور عجائب گھر میں گندھارا تہذیب و ثقافت کے نوادارت، قدیم قبائلی ثقافت کے آثار، سکہ جات اور اسلامی تہذیب کے شعبے نمایاں ہیں جن میں گندھارا نوادرات کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ گندھارا کے اکثر نوادرات پشاور سے 54 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ''تخت بہاہی'' اور ''سہری بہلول'' کے آثار قدیمہ سے حاصل کیے گئے ہیں۔
قبائلی ثقافت کے ذخیرے میں دوسری اشیاء کے ساتھ ساتھ وادی چترال کے ''کیلاش'' تہذیب کے لکڑی کے مجسمے بھی شامل ہیں، اسلامی گیلری میں تصاویر، خطاطی کے نمونے مخطوطات اور اس زمانے کے آلات واوزار کے علاوہ اسلحہ بھی رکھا گیا ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
جن میں سب سے زیادہ مشہور گندھاری قوم اور اس کی تہذیب و ثقافت ہے، جس کے برآمد ہونے والے بے شمار نمونے آج بھی ملک کے اندر بالخصوص پشاور کے عجائب گھر میں موجود ہیں۔ گندھارا وادی پشاور کا قدیم نام ہے، جس کی تہذیب دریائے سندھ کے مغرب اور دریائے کابل کے شمال میں پشاور سے لے کر سوات، دیر اور بامیان (افغانستان) تک پھیلی ہوئی تھی۔
بعد میں ٹیکسلا کا علاقہ بھی اس کے زیراثر رہا۔ آریاؤں کی مقدس کتاب ''رگ وید '' اور چھٹی صدی قبل از مسیح میں لکھے گئے دارا اول کے سنگی کتبوں میں بھی وادی گندھارا اور اخمینی حکومت کا ذکر موجود ہے۔ پشکلاوتی (بالاحصار چارسدہ) چھٹی صدی قبل از مسیح سے پہلی صدی تک گندھارا کا پہلا دارالحکومت رہا ہے جس پر 327 قبل از مسیح میں سکندر یونانی نے حملہ کیا تھا۔
اخمینی، موریا، یونانی، کشان اور ساسانیوں نے بھی گندھارا پر حکومت کی تھی۔ کشان خاندان نے پہلی صدی عیسوی میں پشاور یا پرش پورہ کو دارالخلافہ بنایا۔ بعد میں شاہی خاندان نے ''ہنڈ'' کو جو دریائے سندھ کے دائیں کنارے تربیلا ڈیم اور اٹک کے درمیان ضلع صوابی میں واقع ہے، اپنا دارالخلافہ قرار دیا۔ 998 عیسوی میں غزنوی خاندان نے ہنڈ پر قبضہ کرکے گندھارا تہذیب کا خاتمہ کردیا۔
پہلی صدی عیسوی میں منظرعام پر آنے والا گندھارا آرٹ مقامی تھا جو کسی حد تک یونانی اور رومی فنون لطیفہ سے متاثر ہوا۔ یہ فن پہلی سے پانچویں صدی عیسوی تک پھلتا پھولتا رہا اور تقریباً آٹھویں صدی عیسوی میں ختم ہو گیا۔ اس فن کا مقصد خطے میں بدھ مت کا پرچار تھا اور اس مقصد کے لیے پتھر، چونے، مٹی اور کانسی کے بے شمار مجسمے بناکر عبادت گاہوں (اسٹوپا) اور خانقاہوں میں رکھے گیے تھے۔
چینی زائر اور سیاح ہیون سانگ نے ساتویں صدی کے اوائل میں اپنے سفر نامے میں ہزاروں ایسی عبادت گاہوں اور خانقاہوں کا ذکر کیا ہے جن میں سے اب تک صرف چند کی کھدائی کی گئی ہے۔
گندھارا آرٹ میں گوتم بدھ کے انفرادی مجسمے، مکمل سوانح حیات اور پچھلے جنموں سے متعلق کندہ کی گئی کہانیاں شامل ہیں۔ فن کاروں نے گوتم بدھ کے مجسموں کے لیے مقامی اور یونانی فنون سے استفادہ کیا اور مہاتما بدھ کے مجسمے کو ابدی زندگی عطا کی۔
راجا کنشک کے دورحکومت میں گوتم بدھ کی سوانح حیات سے متعلق مسجمے بدھ مت کی ایک شاخ جسے ''مہایانہ'' کہا جاتا ہے، کی اہم دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ زائرین، سیاحوں اور تاجروں کے ذریعے شاہ راہ ریشم کے راستے چین، کوریا اور جاپان تک بدھ مت کا پرچار ہوا۔ پتھر اور چونے کے مجسمے اور تختیاں عبادت گاہوں (اسٹوپا) اور خانقاہوں میں اس خوب صورتی سے سجائی گئی ہیں کہ بدھ مذہب کی تفصیل اور مہاتما بدھ کی زندگی کے مختلف پہلو، دیکھنے والے پر واضح ہو جاتے ہیں۔
گوتم بدھ کی باقیات بھی صندوقچے میں پوجا کے لیے اسٹوپا میں رکھی جاتی تھیں۔ کشانوں کے زیرسایہ پرورش پانے والا یہ فن ہم عصر متھرا آرٹ سے کہیں زیادہ دل آویز ہے۔ گندھارا آرٹ بدھ مت کے فروغ کے ساتھ پروان چڑھا اور اس کا عروج بدھ مت کے عروج سے وابستہ رہا۔ اشوک پہلا بادشاہ تھا جس نے نہ صرف بدھ مت قبول کی بل کہ اس کا پرچارک بن گیا اور اسے پھیلانے میں اپنی سلطنت کی توانائیاں صرف کیں۔
اشوک کے بعد دوسرا بڑا بادشاہ جس نے اشوک کے نقش قدم پر چل کر بدھ مت کے فروغ کے لیے کام کیا، وہ مہاراجا کنشک تھا۔ 135 قبل از مسیح میں وسط ایشیا کے پانچ قبائل ایک ڈھیلے ڈھالے اتحاد کے ذریعے آپس میں متحد ہوئے، ان میں باختر کے یونانی بھی تھے ان کا اگواں قبیلہ ''کشان'' تھا۔
کشان کی قیادت نے افغان علاقہ فتح کرلیا۔ اس خاندان کا انتہائی نقطہ عروج دوسری عیسوی میں نظر آیا۔ یہ مہاراجا کنشک (78ء تا 144ئ) کا عہد تھا۔ کنشک نے اپنی قابلیت سے اپنی حدود سلطنت کو بہت وسعت دے دی تھی۔ اس کی سلطنت شمالی وسطی ہند میں متھرا سے لے کر باختر سے آگے چین کی سرحدوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ کنشک مذہب اور آرٹ کا سرپرست تھا، شاہ راہ ریشم کے راستے چین، ہندوستان اور روم آپس میں مربوط ہوتے تھے۔
ہر وقت تجارتی قافلے اپنے خیالات اور اپنا سامان تجارت ادھر سے ادھر لے جانے میں سرگرم رہتے تھے، انہیں افغانستان سے گزرنا ہوتا تھا، یہاں بلخ ایک بہت بڑا تجارتی مرکز تھا جہاں یہ قافلے اپنا سامان تجارت بدلتے تھے۔ ہندوستانی سیاح اور نقل مکانی کرنے والے لوگ شاہ راہ ریشم کے ذریعے چین جاتے اور اہل چین کو بدھ مت سے روشناس کراتے۔ بدھ مت کے ساتھ گندھارا آرٹ بھی متعارف ہوتا رہا۔
دنیا میں بدھا کے سب سے بڑے مجسمے جو 175 فٹ اور 120 فٹ اونچے تھے بامیان کی پہاڑی پر پتھر کاٹ کر بنائے گئے تھے، یہ وسطی افغانستان میں تھے۔ کشان بادشاہوں کی گرمائی رہائش گاہیں کابل سے شمال میں بگرام میں تھیں، وہاں سے سکندریہ، روم، ہندوستان اور چین کی اشیائے استعمال بکثرت ملی ہیں، جس کا مطلب ہے کہ اس وقت ان تمام ملکوں کی اشیائے تجارت وسیع پیمانے پر اسی راستے سے ایک دوسرے کو منتقل ہوتی تھیں۔
بلخ کے شمال میں دلبرجن اور بلخ کے مغرب شبرغان کے مقامات سے بھی اس وقت زرمبادلہ کے طور پر استعمال ہونے والے سونے کے سکے ملے ہیں جو متذکرہ ممالک میں استعمال ہوتے تھے۔ بدھ آرٹ آج کے شمال مغربی پاکستان اور مشرقی افغانستان کے علاقوں میں فروغ پاتا رہا۔ اس آرٹ میں یونانی اور رومی اثرات نمایاں ہیں۔ یہی کشان آرٹ تھا اور ان علاقوں کے ساتھ اتر پردیش کے علاقہ متھرا میں بھی اس کے مراکز تھے۔
گندھارا آرٹ میں کلاسیکل رومن آرٹ کے واضح اثرات بھی ملتے ہیں اسی طرح بدھ کا چہرہ، ناک آنکھیں وغیرہ یونانیوں کی سی ہیں۔ مجسمہ سازی میں استعمال ہونے والے مسالے اور مجسمہ پر جو پالش کی تہہ چڑھائی جاتی تھی یہ بھی یونانیوں کی عطا کردہ چیزیں تھیں۔ مہاراجا کنشک امن پسند بادشاہ تھا، وہ اپنے لوگوں کو خوش حال اور پرسکون دیکھنا چاہتا تھا اور پڑوسی ملکوں کے ساتھ صلح صفائی سے رہتا تھا، اس طرح ملکوں کے کلچر ایک دوسرے سے مشارکت کر رہے تھے۔
گندھارا آرٹ اس کے عہد میں ترقی کر رہا تھا۔ یونانی، رومی اور ایرانی آرٹ کا گندھارا آرٹ سے تال میل ہو رہا تھا، اس سے پہلے اشوک کے عہد میں بھی یہ کچھ ہوا تھا۔ یہ آرٹ مذہب کے سائے میں پرورش پا رہا تھا اس میں زیادہ محنت بدھ کے مجسموں یا پتھر میں کھدی ہوئی تصویروں پر ہوتی رہی۔ بدھ کے یادگاری مجسموں کے ساتھ بدھ اسٹوپے بھی فن تعمیر میں ارتقاء کا سراغ دے رہے تھے۔
گندھارا آرٹ کا اسٹوپا زیادہ اونچا بنایا جاتا تھا، چوٹی پر مربع شکل کی ریلنگ بھی زیادہ ہو رہی تھی سب سے بڑی بات جو گندھارا اسٹوپا کو پہلے کے اسٹوپاز سے ممتاز و ممیز کرتی ہے وہ چوٹی پر بنائی ہوئی بڑی چھتری ہے یہ بلاشبہہ فن تعمیر کا شاہ کار ہے اور اس کی مضبوطی اور استحکام اور زیادہ حیران کن ہے۔ تمام گندھارا اسٹوپاز میں سب سے بڑا اسٹوپا کنشک نے اس جگہ بنوایا تھا جو آج شاہ جی کی ڈھیری کے نام سے مشہور ہے اور پشاور کے نواح میں ہے۔
کہا جاتا ہے کہ کنشک کا دارالحکومت بھی ادھر ہی تھا، اس بڑے اسٹوپا کے ساتھ اور بھی کئی نسبتاً چھوٹے اسٹوپاز تھے۔ آج ان کے صرف کھنڈرات مل سکتے ہیں۔ گندھارا آرٹ کی مجسمہ سازی موریا خاندان کے عہد کی مجسمہ سازی سے مختلف ہے اس پر غیرملکی اثرات واضح ہیں اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں مختلف تمدنوں کا ملاپ ہوا ہے۔ کشان خاندان کا زوال ساسانیوں کے حملوں سے شروع ہوا، ان کے ساتھ وسط ایشیا کے ''سفیدین'' بھی جارحیت کرنے لگے۔
اب گندھارا آرٹ کشمیر اور افغانستان میں سمٹنے لگا، تاہم ٹیکسلا اور باختر کی درمیانی سرسبز وادی میں بدھ پیشوا اپنے کام میں مصروف رہے۔ انہوں نے کوہ ہندو کش کی چٹانوں پر اپنے مسکن بنالیے اور بدھ کے مجسموں پر کام کرتے رہے۔ بدھ کے مجسموں کو لباس دیا گیا اور مالا اور زیورات بھی پہنائے جاتے رہے۔ افغانستان ہر دور میں بدھوں کے ماضی کی بہت بڑی امانت گاہ تھی۔
بامیان میں ہی گوتم بدھ کے سب سے بڑے مجسمے تھے۔ منگول اور مغلوں میں سے متعصب بادشاہوں نے بتوں کو توڑنا اپنا فریضہ سمجھا اور کئی یادگاریں ختم ہوگئیں۔ کنشک نے ایک پہاڑی پر کشان خاندان کے بادشاہوں کی تصویریں کھدوائی تھیں جن کو اردگرد کے دیہاتی لوگوں نے تباہ کردیا۔ پتھر کاٹ کاٹ کر لے گیے۔ یہاں اور بھی بہت کچھ ایسا ہے جو زمانے کی دست برد سے بچ گیا ہے، بہت کچھ برباد ہوگیا لیکن سب کچھ برباد نہیں ہوا، بقول شاعر
کچھ نقش تیری یاد کے باقی ہیں ابھی تک
دل بے سروساماں سہی ویراں تو نہیں ہے
گندھارا آرٹ کے مثالی شاہ کار آج بھی خیبرپختون خوا کے کئی علاقوں میں مدفن ہیں۔ خصوصاً ضلع مردان، سوات کے علاوہ ضلع صوابی کے مشہور تاریخی گاؤں لاہور جو اب ضلع صوابی کی تحصیل بھی ہے اور جہاں سنسکرت زبان کے پہلے قواعد دان ''پانینی'' بھی پیدا ہوئے تھے۔
یہاں ان کے نام سے ایک جگہ ''پنے ونڈ'' اور بدھ مت کے نام سے ''بدھوونڈ'' آج بھی موجود ہیں۔ اس گاؤں کے کئی عمررسیدہ بزرگوں کا خیال ہے کہ اگر ''پنے ونڈ'' اور ''بدھو ونڈ'' میں کھدائی کا کام شروع کیا گیا تو نہ صرف بدھ مت بل کہ گندھارا آرٹ کے بے شمار نادر نمونے بھی ہاتھ آسکتے ہیں۔ اسی طرح لاہور سے دو چار کلومیٹر کے فاصلے پر گاؤں ''مانکئی، '' جلبئی'' اور ''جلسئی'' کے مقام پر بھی ''سولئی ڈھیری''، ''مالادر''، ''بھاگو''''میرالو'' اور''رتہ پنڈ ڈھیری'' ایسے مقامات ہیں جہاں سے قدیم تاریخی آثار کے علاوہ گندھارا تہذیب کے نادر نمونے دریافت ہوسکتے ہیں۔ اگر کوئی گندھارا آرٹ کے شاہ کار نمونے دیکھنے کا آرزومند ہو تو آج بھی پشاور کے عجائب گھر میں اس تہذیب کے بے شمار نادر ونایاب نمونے دعوت نظارہ دیتے ہیں۔
پشاور عجائب گھر انگریز حکومت نے 1906ء میں وکٹوریہ میموریل ہال میں قائم کیا اس کے پہلے کیوریٹر آرل اسٹائین تھے۔ عجائب گھر کی عمارت پشاور شہر اور صدر کے ریلوے اسٹیشن کے درمیان گورنر ہاؤس کے قریب واقع ہے۔ یہ عمارت ایک بڑے ہال اور اطراف کی راہ داریوں پر مشتمل تھی جس میں 1975-74 اور 1978-79ء میں دو منزلہ گیلریوں کا اضافہ کیا گیا۔
پشاور عجائب گھر میں گندھارا تہذیب و ثقافت کے نوادارت، قدیم قبائلی ثقافت کے آثار، سکہ جات اور اسلامی تہذیب کے شعبے نمایاں ہیں جن میں گندھارا نوادرات کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ گندھارا کے اکثر نوادرات پشاور سے 54 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ''تخت بہاہی'' اور ''سہری بہلول'' کے آثار قدیمہ سے حاصل کیے گئے ہیں۔
قبائلی ثقافت کے ذخیرے میں دوسری اشیاء کے ساتھ ساتھ وادی چترال کے ''کیلاش'' تہذیب کے لکڑی کے مجسمے بھی شامل ہیں، اسلامی گیلری میں تصاویر، خطاطی کے نمونے مخطوطات اور اس زمانے کے آلات واوزار کے علاوہ اسلحہ بھی رکھا گیا ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔