’’آئٹزم‘‘ بچوں کا پیچیدہ ذہنی عارضہ
مرض سے عدم واقفیت مسئلہ کی شدت کو خطرناک حد تک بڑھاوا دے رہی ہے
قدرت نے انسانی جسم کو بہترین ساخت عطا فرمائی تاہم بیماری وہ دیمک ہے، جو اس کو چاٹ کر کھوکھلا کر سکتی ہے، بیماری جسمانی ہو یا نفسیاتی، پیدائشی ہو یا عمر کے چند برس بیتنے کے بعد سامنے آئے، یہ ہر صورت میں انسان کے لئے نہایت تکلیف دہ ہے۔
آج کی میڈیکل سائنس کی روشنی میں جو چیز زیادہ وضاحت کے ساتھ سامنے آئی ہے وہ یہ کہ پیدائشی بیماریاں گزری عمر کے ساتھ لاحق ہونے والی بیماریوں سے زیادہ پیچیدہ ہوتی ہیں۔ ایک انسان کی پیدائش کے وقت اگر اْس میں کوئی خامی رہ گئی تو پھر وہ دنیاوی علاج سے بدرجہ اتم پوری نہ ہو سکے گی، یعنی پیدائشی طور پر اعضاء سے محروم کسی کا بازو لگ سکتا ہے نہ پاؤں، کسی کو بینائی دی جا سکتی ہے نہ زبان۔ اسی طرح جسمانی کے ساتھ بعض افراد میں پیدائشی طور پر کسی نہ کسی سطح کا ذہنی سقم بھی پایا جاتا ہے۔
اور آج کا ہمارا یہاں موضوع جسمانی کے بجائے ذہنی ہے اور وہ بھی بچوں کے ذہنی عوارض۔ عصر حاضر میں بچوں کے بڑھتے ذہنی و نفسیاتی امراض بلاشبہ ایک بڑا لمحہ فکریہ ہے۔ امریکی ادارے سنٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن کے مطابق ہر 6 میں سے ایک بچہ کم سے درمیانی درجے تک کے کسی نہ کسی قسم کے ذہنی یا نفسیاتی عارضہ میں مبتلا ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ذہنی امراض میں مبتلا بچوں کی 90 فیصد آبادی کم یا درمیانی آمدنی والے ممالک میں رہائش پذیر ہے اور بدقسمتی سے پاکستان ان میں سے ایک ہے۔ لیکن یہ شرح دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی کم نہیں، 2022ء کی ایک امریکی ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکا میں ذہنی و نفسیاتی عوارض میں مبتلا بچوں کی شرح 22 فیصد کے قریب ہے۔ یوں اس صورت حال میں تمام والدین کا اپنے بچوں کی ذہنی صحت، نشوونما اور بہتری کے لئے فکرمند ہونا لازمی امر ہے۔
یہ فکر مختلف افعال کی وجہ سے ہو سکتی ہے جیسے کہ بچہ ذہنی و جذباتی طور پر کیسا ہے، بچے کا رویہ، سوچنے اور بات کرنے کا طریقہ، دوسروں کے ساتھ میل جول؟ وغیرہ وغیرہ، کیوں کہ یہی وہ علامات ہوتی ہیں، جن سے بظاہر جسمانی طور پر تندرست بچے کی ذہنی و جذباتی کیفیت صحت کے متعلق معلوم کیا جا سکتا ہے۔ بچوں میں مختلف اقسام کے ذہنی و جذباتی عوارض ہوتے ہیں تاہم یہاں آج ہم ماہِ اپریل کی مناسبت سے آئٹزم (Autism Spectrum Disorder (ASD)) سے متعلق بات کرنے جا رہے ہیں۔
دنیا بھر میں ہر سال 2 اپریل کو یہ دن منانے کا مقصد اس بڑھتی ہوئی ذہنی بیماری سے آگاہی پیدا کرنا ہے تاکہ اس کا شکار بچوں کی مدد کی جا سکے۔ اگرچہ پاکستان میں آئٹزم کا شکار بچوں کی شرح کے حوالے سے کوئی مستند اعدادو شمار موجود نہیں تاہم پاکستان آئٹزم سوسائٹی کے مطابق ملک میں ساڑھے تین لاکھ بچے اس مرض کا شکار ہیں۔
آئٹزم یونانی لفظ Auto سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے بے خود،یعنی آئٹزم کے معنی خود فکری،خیال پرستی اور تنہائی میں اپنے تصورات میں ڈوبے رہنے کے ہیں۔ یہ ایک پیدائشی ذہنی عارضہ ہے، جس میں مبتلا بچے کو بولنے،الفاظ کو یاد رکھنے، خوداعتمادی اور سماجی رابطے قائم کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک ایسا عارضہ ہے، جس کی وجہ سے بچے کی دماغی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔
جب بچہ تقریبا دو سال کا ہوتا ہے تو والدین کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کا بچہ عام بچوں سے مختلف ہے۔ یہ ایک ایسا عارضہ ہے جو کہ دنیا کے ہر رنگ ونسل اور طبقے میں بلا امتیاز پایا جاتا ہے۔ ایسے بچوں کو آئٹسٹک کہا جاتا ہے یہ دنیا کو مختلف انداز سے دیکھتے،سنتے اور محسوس کرتے ہیں۔ جب بچہ تین سال کا ہوجاتا ہے تو آئٹزم کی علامات واضح نظر آنا شروع ہوجاتی ہیں، جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔
آئٹزم کی چیدہ علامات
٭ متاثرہ بچہ کسی سے نظر نہیں ملا سکتا
٭ بولنے میں دْشواری اور بے ربط گفتگو
٭ بے ہنگم حرکات وسکنات
٭ غیرضروری طور پر بات کو دہراتے جانا
٭ کھلونوں میں عدم دلچسپی ماسوائے گھومنے والے کھلونے جیسے گھومتی کار، پنکھا وغیرہ
٭ اپنی دنیا میں مگن
٭ اجنبیوں سے بات کرنے کا اعتماد نہ ہونا
٭ رش والی جگہوں سے دور بھاگنا
٭ خوف وخطرہ اورگرمی سردی کے احساس سے مبرا ہوتے ہیں
٭ اپنے ہاتھوں اور انگلیوں سے کھیلتے رہتے ہیں
٭ طبعیت بے پرواہی
٭ بے مقصد رونا
یہ بات ضرور ذہن میں رکھیں کہ ہر آئٹسٹک بچے کی علامات ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتی ہیں۔ اگر والدین اپنے بچوں میں ایسی علامات دیکھیں تو فوری طور پر اس معاملہ پر توجہ دیں۔
آئٹزم کی وجوہات
آئٹزم دماغی نشوونما کی بے ترتیب حالت کو کہتے ہیں، یہ کیوں لاحق ہوتا ہے؟ اس کی ابھی تک کوئی خاص وجہ پتہ نہیں چل سکی، تاہم مختلف ماہرین نے آئٹزم کی بہت سی وجوہات بیان کی ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ دوران حمل کسی بھی قسم کی منشیات کے استعمال سے ہوتا ہے۔
بعض تحقیق میں ویکسین (حفاظتی ٹیکوں) ایم ایم آر کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے، اکثر اوقات ماں کی دوران حمل کسی صدمہ یا مسلسل پریشانی یا افسردگی کو بھی وجہ بتایا جاتا ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ کچھ وراثتی،معاشرتی اور نفسیاتی عوامل ہیں جوکہ اس عارضے کے ہونے کے چانسز کو بڑھا دیتے ہیں۔یہ ایسا عارضہ ہے جس کا علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوسکا۔
علاج
اگرچہ تاحال آٹزم کا کوئی مستند علاج دریافت نہیں ہو سکا لیکن بر وقت توجہ آٹزم کے شکار بچے کی نشوونما میں نمایاں بہتری لا سکتی ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کا بچہ آٹزم کی علامات ظاہر کرتا ہے تو فوری متعلقہ ماہر طب سے رجوع کریں کیوں کہ یہ ضروری نہیں کہ جو طریقہ یا علاج ایک شخص کے لیے کام کرتا ہے وہ دوسرے کے لیے بھی صحیح ثابت ہو۔ آپ کے معالج کو ہی آپ کے یا آپ کے بچے کے لیے موزوں طریقہ علاج اپنانا چاہیے۔ مرض کے علاج میں سب سے پہلے (Applied Behavioral Analysis) ہے، یہ مثبت رویوں کو فروغ دیتا ہے جکہ منفی رویوں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔
پیشہ وارانہ تھراپی انسان کی صلاحیتوں جیسے لباس کا سلیقہ، کھانے اور لوگوں سے تعلق رکھنے جیسے معاملات میں مدد کر سکتی ہے۔ حسی انضمام کی تھراپی کسی ایسے شخص کی مدد کر سکتی ہے جسے چھونے یا نظروں یا آوازوں میں دشواری ہو۔ اسپیچ تھراپی سے بات چیت کی مہارت بہتر ہوتی ہے۔ آئٹزم کی علامات مثلاً توجہ کے مسائل، ہائپر ایکٹیویٹی، یا اضطراب جیسی کیفیات میں معاونت کے لیے ادویات کا استعمال کرنا بہتر ہے۔ اپنے بچے کی خوراک میں تبدیلی کے بارے میں محتاط رہیں، کیوں کہ اس بات کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں کہ خصوصی غذائیں آئٹزم والے بچوں کی مدد کرتی ہیں۔
بچے والدین کی کل کائنات ہوتے ہیں، جو کسی بھی قسم کے پیچیدہ ذہنی و جسمانی عوارض کا شکار ہو جائیں تو ان کے ساتھ والدین کی زندگی میں جیسے اندھیرا چھا جاتا ہے اور آئٹزم تاحال ایک ایسی ہی بیماری ہے، جس کا کوئی علاج تو نہیں لیکن ہم اس سے متاثرہ اپنے بچوں کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے تو ایسے میں والدین، ماہر نفسیات اور استاد کی مدد سے ان کی زندگی کو بہتر طریقے سے گزارنے میں ان کی مدد کر سکتے ہیں۔
سب سے پہلے تو والدین کو اس بیماری کے بارے میں مکمل آگاہی ہونی چاہیے تاکہ ان کو اندازہ ہوکہ ان کے بچے کی کیا ضروریات ہیں اور اس میں کیا خصوصیات ہیں؟کیوں کہ یہ ایسا عارضہ ہے جس میں بچوں کی سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اس لیے ان بچوں کو سکھانے کا عمل قدرے مختلف اور دشوار ہوتا ہے۔
والدین کا گرم جوش اور محبت بھرا رویہ ان کو روز مرہ کاموں (باتھ روم، صفائی،لباس،کھانا،پینا وغیرہ)کی صلاحیتیں سکھانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ ایسے بچوں کی تعلیم کے لیے خصوصی سکول بھی قائم ہیں جو ان کی خصوصی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی جسمانی،ذہنی،سمعی اور بولنے کی تربیت کا پروگرام تر تیب دیتے ہیں۔ آئٹزم ایک پیچیدہ ذہنی عارضہ ہے تاہم والدین کے غیرمتزلزل عزم کے ساتھ اچھے معالج کے ذریعے اس کو کافی حد تک شکست دی جا سکتی ہے۔
آج کی میڈیکل سائنس کی روشنی میں جو چیز زیادہ وضاحت کے ساتھ سامنے آئی ہے وہ یہ کہ پیدائشی بیماریاں گزری عمر کے ساتھ لاحق ہونے والی بیماریوں سے زیادہ پیچیدہ ہوتی ہیں۔ ایک انسان کی پیدائش کے وقت اگر اْس میں کوئی خامی رہ گئی تو پھر وہ دنیاوی علاج سے بدرجہ اتم پوری نہ ہو سکے گی، یعنی پیدائشی طور پر اعضاء سے محروم کسی کا بازو لگ سکتا ہے نہ پاؤں، کسی کو بینائی دی جا سکتی ہے نہ زبان۔ اسی طرح جسمانی کے ساتھ بعض افراد میں پیدائشی طور پر کسی نہ کسی سطح کا ذہنی سقم بھی پایا جاتا ہے۔
اور آج کا ہمارا یہاں موضوع جسمانی کے بجائے ذہنی ہے اور وہ بھی بچوں کے ذہنی عوارض۔ عصر حاضر میں بچوں کے بڑھتے ذہنی و نفسیاتی امراض بلاشبہ ایک بڑا لمحہ فکریہ ہے۔ امریکی ادارے سنٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن کے مطابق ہر 6 میں سے ایک بچہ کم سے درمیانی درجے تک کے کسی نہ کسی قسم کے ذہنی یا نفسیاتی عارضہ میں مبتلا ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ذہنی امراض میں مبتلا بچوں کی 90 فیصد آبادی کم یا درمیانی آمدنی والے ممالک میں رہائش پذیر ہے اور بدقسمتی سے پاکستان ان میں سے ایک ہے۔ لیکن یہ شرح دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی کم نہیں، 2022ء کی ایک امریکی ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکا میں ذہنی و نفسیاتی عوارض میں مبتلا بچوں کی شرح 22 فیصد کے قریب ہے۔ یوں اس صورت حال میں تمام والدین کا اپنے بچوں کی ذہنی صحت، نشوونما اور بہتری کے لئے فکرمند ہونا لازمی امر ہے۔
یہ فکر مختلف افعال کی وجہ سے ہو سکتی ہے جیسے کہ بچہ ذہنی و جذباتی طور پر کیسا ہے، بچے کا رویہ، سوچنے اور بات کرنے کا طریقہ، دوسروں کے ساتھ میل جول؟ وغیرہ وغیرہ، کیوں کہ یہی وہ علامات ہوتی ہیں، جن سے بظاہر جسمانی طور پر تندرست بچے کی ذہنی و جذباتی کیفیت صحت کے متعلق معلوم کیا جا سکتا ہے۔ بچوں میں مختلف اقسام کے ذہنی و جذباتی عوارض ہوتے ہیں تاہم یہاں آج ہم ماہِ اپریل کی مناسبت سے آئٹزم (Autism Spectrum Disorder (ASD)) سے متعلق بات کرنے جا رہے ہیں۔
دنیا بھر میں ہر سال 2 اپریل کو یہ دن منانے کا مقصد اس بڑھتی ہوئی ذہنی بیماری سے آگاہی پیدا کرنا ہے تاکہ اس کا شکار بچوں کی مدد کی جا سکے۔ اگرچہ پاکستان میں آئٹزم کا شکار بچوں کی شرح کے حوالے سے کوئی مستند اعدادو شمار موجود نہیں تاہم پاکستان آئٹزم سوسائٹی کے مطابق ملک میں ساڑھے تین لاکھ بچے اس مرض کا شکار ہیں۔
آئٹزم یونانی لفظ Auto سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے بے خود،یعنی آئٹزم کے معنی خود فکری،خیال پرستی اور تنہائی میں اپنے تصورات میں ڈوبے رہنے کے ہیں۔ یہ ایک پیدائشی ذہنی عارضہ ہے، جس میں مبتلا بچے کو بولنے،الفاظ کو یاد رکھنے، خوداعتمادی اور سماجی رابطے قائم کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک ایسا عارضہ ہے، جس کی وجہ سے بچے کی دماغی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔
جب بچہ تقریبا دو سال کا ہوتا ہے تو والدین کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کا بچہ عام بچوں سے مختلف ہے۔ یہ ایک ایسا عارضہ ہے جو کہ دنیا کے ہر رنگ ونسل اور طبقے میں بلا امتیاز پایا جاتا ہے۔ ایسے بچوں کو آئٹسٹک کہا جاتا ہے یہ دنیا کو مختلف انداز سے دیکھتے،سنتے اور محسوس کرتے ہیں۔ جب بچہ تین سال کا ہوجاتا ہے تو آئٹزم کی علامات واضح نظر آنا شروع ہوجاتی ہیں، جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔
آئٹزم کی چیدہ علامات
٭ متاثرہ بچہ کسی سے نظر نہیں ملا سکتا
٭ بولنے میں دْشواری اور بے ربط گفتگو
٭ بے ہنگم حرکات وسکنات
٭ غیرضروری طور پر بات کو دہراتے جانا
٭ کھلونوں میں عدم دلچسپی ماسوائے گھومنے والے کھلونے جیسے گھومتی کار، پنکھا وغیرہ
٭ اپنی دنیا میں مگن
٭ اجنبیوں سے بات کرنے کا اعتماد نہ ہونا
٭ رش والی جگہوں سے دور بھاگنا
٭ خوف وخطرہ اورگرمی سردی کے احساس سے مبرا ہوتے ہیں
٭ اپنے ہاتھوں اور انگلیوں سے کھیلتے رہتے ہیں
٭ طبعیت بے پرواہی
٭ بے مقصد رونا
یہ بات ضرور ذہن میں رکھیں کہ ہر آئٹسٹک بچے کی علامات ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتی ہیں۔ اگر والدین اپنے بچوں میں ایسی علامات دیکھیں تو فوری طور پر اس معاملہ پر توجہ دیں۔
آئٹزم کی وجوہات
آئٹزم دماغی نشوونما کی بے ترتیب حالت کو کہتے ہیں، یہ کیوں لاحق ہوتا ہے؟ اس کی ابھی تک کوئی خاص وجہ پتہ نہیں چل سکی، تاہم مختلف ماہرین نے آئٹزم کی بہت سی وجوہات بیان کی ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ دوران حمل کسی بھی قسم کی منشیات کے استعمال سے ہوتا ہے۔
بعض تحقیق میں ویکسین (حفاظتی ٹیکوں) ایم ایم آر کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے، اکثر اوقات ماں کی دوران حمل کسی صدمہ یا مسلسل پریشانی یا افسردگی کو بھی وجہ بتایا جاتا ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ کچھ وراثتی،معاشرتی اور نفسیاتی عوامل ہیں جوکہ اس عارضے کے ہونے کے چانسز کو بڑھا دیتے ہیں۔یہ ایسا عارضہ ہے جس کا علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوسکا۔
علاج
اگرچہ تاحال آٹزم کا کوئی مستند علاج دریافت نہیں ہو سکا لیکن بر وقت توجہ آٹزم کے شکار بچے کی نشوونما میں نمایاں بہتری لا سکتی ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کا بچہ آٹزم کی علامات ظاہر کرتا ہے تو فوری متعلقہ ماہر طب سے رجوع کریں کیوں کہ یہ ضروری نہیں کہ جو طریقہ یا علاج ایک شخص کے لیے کام کرتا ہے وہ دوسرے کے لیے بھی صحیح ثابت ہو۔ آپ کے معالج کو ہی آپ کے یا آپ کے بچے کے لیے موزوں طریقہ علاج اپنانا چاہیے۔ مرض کے علاج میں سب سے پہلے (Applied Behavioral Analysis) ہے، یہ مثبت رویوں کو فروغ دیتا ہے جکہ منفی رویوں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔
پیشہ وارانہ تھراپی انسان کی صلاحیتوں جیسے لباس کا سلیقہ، کھانے اور لوگوں سے تعلق رکھنے جیسے معاملات میں مدد کر سکتی ہے۔ حسی انضمام کی تھراپی کسی ایسے شخص کی مدد کر سکتی ہے جسے چھونے یا نظروں یا آوازوں میں دشواری ہو۔ اسپیچ تھراپی سے بات چیت کی مہارت بہتر ہوتی ہے۔ آئٹزم کی علامات مثلاً توجہ کے مسائل، ہائپر ایکٹیویٹی، یا اضطراب جیسی کیفیات میں معاونت کے لیے ادویات کا استعمال کرنا بہتر ہے۔ اپنے بچے کی خوراک میں تبدیلی کے بارے میں محتاط رہیں، کیوں کہ اس بات کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں کہ خصوصی غذائیں آئٹزم والے بچوں کی مدد کرتی ہیں۔
بچے والدین کی کل کائنات ہوتے ہیں، جو کسی بھی قسم کے پیچیدہ ذہنی و جسمانی عوارض کا شکار ہو جائیں تو ان کے ساتھ والدین کی زندگی میں جیسے اندھیرا چھا جاتا ہے اور آئٹزم تاحال ایک ایسی ہی بیماری ہے، جس کا کوئی علاج تو نہیں لیکن ہم اس سے متاثرہ اپنے بچوں کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے تو ایسے میں والدین، ماہر نفسیات اور استاد کی مدد سے ان کی زندگی کو بہتر طریقے سے گزارنے میں ان کی مدد کر سکتے ہیں۔
سب سے پہلے تو والدین کو اس بیماری کے بارے میں مکمل آگاہی ہونی چاہیے تاکہ ان کو اندازہ ہوکہ ان کے بچے کی کیا ضروریات ہیں اور اس میں کیا خصوصیات ہیں؟کیوں کہ یہ ایسا عارضہ ہے جس میں بچوں کی سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اس لیے ان بچوں کو سکھانے کا عمل قدرے مختلف اور دشوار ہوتا ہے۔
والدین کا گرم جوش اور محبت بھرا رویہ ان کو روز مرہ کاموں (باتھ روم، صفائی،لباس،کھانا،پینا وغیرہ)کی صلاحیتیں سکھانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ ایسے بچوں کی تعلیم کے لیے خصوصی سکول بھی قائم ہیں جو ان کی خصوصی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی جسمانی،ذہنی،سمعی اور بولنے کی تربیت کا پروگرام تر تیب دیتے ہیں۔ آئٹزم ایک پیچیدہ ذہنی عارضہ ہے تاہم والدین کے غیرمتزلزل عزم کے ساتھ اچھے معالج کے ذریعے اس کو کافی حد تک شکست دی جا سکتی ہے۔