پاکستان کی پہلی جھوٹی ایف آئی آر
تھانوں میں درج ہونے والی ایف۔آئی۔آرز میں نوے فیصد جھوٹی اور بے بنیاد ایف۔آئی۔آرز ہوتی ہیں
پاکستان بننے کے بعد پہلی ایف آئی آر کب داخل ہوئی۔ سندھی زبان میں چھپنے والی ایک کتاب ''اھی ڈینھن، اھی نینھن'' جو محمد موسی جوکھیو نے لکھی اس میں چھپنے والا ایک سچا واقعہ نظروں سے گذرا جس میں پاکستان بننے کے بعد درج ہونے والی سب سے پہلی ایف آئی آر کے بارے میں تذکرہ کیا گیا۔
یہ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ تپیدار اور شاعر محمد خان ہمدم کا تعلق سندھ کے ایک ٹاؤن ماتلی ضلع بدین سے تھا وہ ایک نیک ، سچا مذہبی پنج وقت نمازی اور تہجد گزار انسان بھی تھا ، محکمہ ریوینیوکراچی میں تپیدار کی حیثیت سے تعینات تھا۔17اگست 1947 پاکستان آزاد ہوچکا تھا، 18 اگست 1947، رمضان کے مہینے میں محمد علی جناح، لیاقت علی خان اور ملک کی اعلیٰ قیادت کو کراچی میں نماز شکرانہ کی ادائیگی کرنی تھی، سرکاری اعلیٰ افسران شاہی کی طرف سے ریوینیو والوں کو مرکزی عید گاہ کی صاف صفائی کا حکم ملا تاکہ مناسب طریقے سے نماز شکرانہ کا انتظام کیا جا سکے۔
محمد خان ہمدم کی سربراہی میں عیدگاہ کی صفائی کا کام کیا گیا، اسی دوران محمد خان ہمدم کو یہ خیال آیا کہ وہ بھی پہلی صف میں محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کے ساتھ نماز ادا کرے گا، یہ اس کی دلی تمنا بن گئی، جب نماز کا وقت قریب آیا تو ڈپٹی کمشنر اور مختار کار آخری جائزہ لینے کے لیے مرکزی عیدگاہ پہنچے سارے اسٹاف کو حکم ہوا کہ پہلی اور دوسری صفیں خالی ہونی چاہئیں، پہلی صف میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان اور سردار عبد الرب نشتر نماز پڑھیں گے اور دوسری صف میں پاکستان کے بیوروکریٹس اور دیگر اعلیٰ افسران ہونگے، باقی پچھلی صفوں میں خلق خدا نماز پڑھے گی۔
یہ اعلان سنتے ہی محمد خان ہمدم نے سوچا کہ اسلام میں ایسا کچھ بھی نہیں کہ حکمران اور عوام کاندھے سے کاندھا ملا کر نماز نہ پڑھ سکیں، اس غریب کی بات بھی صحیح تھی کہ واقعی اسلام میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے اگر حکمران دیر سے آئے اور اگلی صف میں جگہ نہ ہو تو پیچھے بھی نماز پڑھ سکتا ہے، اس میں کوئی حرج بھی نہیں اور نہ کسی کتاب میں لکھا ہوا ہے مگر یہاں تو قصہ ہی دوسرا ہے۔بہر حال جیسے ہی نمازکا وقت ہونے والا تھا، مختار کار نے پھر اگلی صفوں کا جائزہ لیا، پہلی صف میں محمد خان ہمدم تنہا کھڑا تھا جب کہ دوسری صف بھی خالی تھی، مختار کار نے محمد خان سے کہا '' یہاں سے نکلو اور پیچھے کسی بھی صف میں جا کرکھڑے ہو جاؤ، یہاں جناح والی قیادت نماز پڑے گی''۔
محمد خان نے کہا کہ '' اسلام میں یہ فرق نہیں ہے میں جناح کے ساتھ پہلی صف میں ہی نماز پڑھوں گا'' کچھ ہی دیر میں اے سی صاحب آئے اور مختار کار کو حکم دیا کہ پہلی صف میں جو شخص کھڑا ہے اسے وہاں سے فورا ہٹایا جائے ، مگر خان صاحب پر ایک ہی بھوت سوار تھا کہ دین اسلام ایسا کوئی اندھیر نہیں ہے، میں سب سے پہلے پہنچا ہوں اس لیے پہلی صف میں قائد کے ساتھ نماز ادا کروں گا۔ یہاں سے مجھے کوئی بھی نہیں ہٹا سکتا، اسی دوران کمشنر صاحب بھی آ گئے انھیں بھی اس صورتحال سے آگاہ کیا گیا کہ یہ صاحب اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں کہ جناح صاحب کے ساتھ نماز پڑھوں گا۔
کمشنر نے سیکیورٹی کے عملے کو حکم دیا کہ اس کا دماغ خراب ہے اسے مار کر ایسی جگہ پھینک آؤ کہ آج یہ یہاں دوبارہ نظر نہ آئے، حکم کی تعمیل ہوئی سیکیورٹی والے کتوں کی طرح اس پر چڑھ گئے اسے لہو لہان کر دیا پھر کتے پکڑنے والی گاڑی میں ڈال کر اسے منگھوپیر والے علاقے میں جہاں ویرانہ تھا پھینک آئے۔
ہمدم صاحب وہاں بے ہوش پڑے تھے کہ ایک چرواہے کی نظر اس پر پڑی اسے ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مار کر ہوش میں لے کر آیا مختصر حال احوال کے بعد محمد خان نے اسے کہا کہ '' مجھ پر ایک مہربانی کرو، مجھے کسی طرح میرے گھر کراچی پہنچا دو'' اس چرواہے نے اسے کسی گاڑی میں ڈال کر اس کے گھر پہنچا دیا۔ اس کی بیوی نے یہ خون والے کپڑے اور جسم پر تشدد دیکھ کر پوچھا '' کیا ہوا ؟ تمہارے ساتھ یہ کس نے کیا ہے؟''
محمد خان ہمدم نے اپنی بیوی کو بتایا کہ '' مجھے پہلی صف میں قائد اعظم کے ساتھ پاکستان کی آزادی کی نماز شکرانہ پڑھنے کی سزا ملی ہے، قصہ بہت بڑا ہے اب تو میرا حشر اور برا ہونے والا ہے، باقی باتیں بعد میں کریں گے تم پہلی فرصت میں یہاں سے ماتلی چلی جاؤ، ابھی جاسوس سونگھتے سونگھتے یہاں پہنچنے والے ہونگے مجھے نہیں چھوڑیں گے تم نکل جاؤ مجھ پر کئی کیس بنیں گے شاید میری پوری عمر جیل میں گزر جائے گی۔''
اسی رات محمد خان ہمدم کے گھر پر پولیس نے چھاپہ مارا اور اس پر محمد علی جناح اور لیاقت علی خان پر قاتلانہ حملے کی کوشش کرنے کی پاکستان کی پہلی ایف آئی آر کاٹ دی گئی نہ صرف یہ بلکہ اس پر ملک دشمنی اور جاسوسی کی دفعات بھی لگائی گئیں۔ یہ خبر میڈیا میں بھی آئی اور اسے سینٹرل جیل بھیج دیا گیا، چار سال تک کیس چلا اور اسے پھانسی کی سزا سنائی گئی۔
اس کے دوستوں نے سزا کے خلاف اپیل داخل کی، مگر اسی دوران پاکستان کے اندر ملک کی سلامتی کے خلاف ایک مقدمہ دائر ہوا جس میں ملک کے نامور شاعر فیض احمد فیض کو گرفتار کر کے کراچی جیل میں لایا گیا، محمد خان کو جب معلوم ہوا کہ فیض احمد فیض بھی جیل میں ہے تو کسی طریقے سے ان سے رابطہ کیا اور ملاقات کی اور ان سے اپنا تعارف کروایا کہ میں بھی شاعر ہوں اور سارا قصہ بتایا، فیض نے اسے تسلی دی کہ '' گھبراؤ نہیں سب ٹھیک ہو جائے گا '' فیض احمد فیض نے محمد خان ہمدم سے کہا '' یار مجھے سندھی نہیں آتی، مجھے سندھی سکھاؤ'' محمد خان فیض کو سندھی پڑھاتا رہا۔
اس دوران فیض نے محمد خان کو ایک قابل وکیل مقرر کر کے دیا جس پر محمد خان ہمدم کو سارے الزامات سے بری کر دیا گیا، ساتھ میں نوکری بھی بحال ہوئی اور بقایاجات کی بھی ادائیگی بھی ہوئی۔ اس نے فیض احمد فیض کا شکریہ ادا کیا اور جیل سے رہا ہوکر گھر پہنچتے ہی اپنی الماری سے قرآن پاک اور جائے نماز اٹھا کر کسی بچے کو دی کہ جا کر اسے مسجد میں رکھ کر آؤ، پھر اس نے پہلی صف میں نماز پڑھنے کے لیے ہمیشہ کے لیے توبہ کر لی۔
اس تجربے کے بعد محمد خان ہمدم ایک بڑا کمیونسٹ بن گیا اور اپنی نوکری بہت ہی ایمانداری سے کرنے کے بعد ریٹائر ہوا۔یہ واقعہ پڑھ کر میں سوچنے پر مجبور ہوں کہ جس ملک میں نظام انصاف کے حصول کی بنیاد ہی جھوٹ، سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی ہٹ دھرمی اور انا پرستی پر مبنی ہو وہاں پر ایک مکمل منصفانہ نظام کیسے رائج ہو سکتا ہے۔ آج ہمارے اردگرد جو کچھ بھی ہو رہا ہے یہ اسی پہلی جھوٹی اور بے بنیاد ایف آئی آر کا نتیجہ ہے کہ بیوروکریٹس اور سیاستدانوں نے اپنے مخالفین پر جھوٹی اور بے بنیاد ایف آئی آر درج کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
18 اگست، 1947 سے لے کر آج تک وہی سلسلہ چلتا چلا آرہا ہے، اگر اس وقت کسی ایک بھی سیاستدان یا بیوروکریٹ نے حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے محمد خان جیسے شخص کے خلاف ایف آئی آر درج نہ کرنے کی ہمت کی ہوتی تو یہ جھوٹ اور منافقت کا سلسلہ وہیں پر ختم ہو سکتا تھا، لیکن اب یہ ہمارا وطیرہ بن چکا ہے، جو سیاسی پارٹی اپوزیشن میں ہو اس کے لیڈران اورکارکنان کے خلاف انتقامی کاروائی کے طور پر جھوٹی اور بے بنیاد ایف آئی آرز درج کر لی جاتی ہیں اور شاید ہی کسی بیوروکریٹ یا پولیس افسر نے ایسی جھوٹی ایف، آئی، آر درج کروانے کے خلاف کوئی مزاحمت کی ہو کیونکہ خوشامد اور انا پرستی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ پھر اس کے بعد ان مخالفین کو نہ صرف گرفتار کروانے کی جلدی ہوتی ہے بلکہ ان کی ہر طرح سے تذلیل کی جاتی ہے۔
یہ ایک جانب سے ہی نہیں ہوتا بلکہ جب وہی اپوزیشن کسی طرح حکومت میں آجائے تو پھر ان کی طرف سے بھی یہی رویہ برقرار رکھا جاتا ہے۔ یہ لوگ حکومت میں آنے کے بعد نہ صرف اپنے خلاف ہونے والی تمام ایف آئی آرز بیک جنبش قلم ختم کروا دیتے ہیں بلکہ اگر اس کے لیے قانون میں ترامیم کی ضرورت پڑے تو ایسی ترامیم بھی فوری طور پر اسمبلیوں سے منظورکروالی جاتی ہیں اور ہمارا عدالتی نظام انصاف ان کا منہ تکتا رہ جاتا ہے۔ اس پہلی جھوٹی ایف۔ آئی ۔ آر کے نتائج آج تک ہمارے سامنے آ رہے ہیں۔
میں اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ تھانوں میں درج ہونے والی ایف۔آئی۔آرز میں نوے فیصد جھوٹی اور بے بنیاد ایف۔آئی۔آرز ہوتی ہیں۔دس فیصد ڈکیتی ، چوری ، فراڈ اور دیگر فوجداری دفعات کے تحت درج ہونے والی ایف۔آئی۔ آرز میں بھی بیشتر بعد ازاں جھوٹی ہی نکلتی ہیں۔ جو یا تو مدعی مقدمہ جھوٹ بول کر درج کرواتا ہے یا متعلقہ تھانیدار کو رشوت دے کر درج کروائی جاتی ہیں۔
یہ جھوٹ کا سلسلہ چلتا رہے گا،کیونکہ اسی جھوٹ کی بنیاد پر سیاستدانوں کی سیاست اور بیوروکریٹس کی بیوروکریسی کے چلنے کا دارومدار ہے اور جانے ایسے کتنے محمد خان ھمدم اس جھوٹ کی سزا کاٹنے کے بعد کمیونسٹ بن چکے ہوں گے۔
یہ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ تپیدار اور شاعر محمد خان ہمدم کا تعلق سندھ کے ایک ٹاؤن ماتلی ضلع بدین سے تھا وہ ایک نیک ، سچا مذہبی پنج وقت نمازی اور تہجد گزار انسان بھی تھا ، محکمہ ریوینیوکراچی میں تپیدار کی حیثیت سے تعینات تھا۔17اگست 1947 پاکستان آزاد ہوچکا تھا، 18 اگست 1947، رمضان کے مہینے میں محمد علی جناح، لیاقت علی خان اور ملک کی اعلیٰ قیادت کو کراچی میں نماز شکرانہ کی ادائیگی کرنی تھی، سرکاری اعلیٰ افسران شاہی کی طرف سے ریوینیو والوں کو مرکزی عید گاہ کی صاف صفائی کا حکم ملا تاکہ مناسب طریقے سے نماز شکرانہ کا انتظام کیا جا سکے۔
محمد خان ہمدم کی سربراہی میں عیدگاہ کی صفائی کا کام کیا گیا، اسی دوران محمد خان ہمدم کو یہ خیال آیا کہ وہ بھی پہلی صف میں محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کے ساتھ نماز ادا کرے گا، یہ اس کی دلی تمنا بن گئی، جب نماز کا وقت قریب آیا تو ڈپٹی کمشنر اور مختار کار آخری جائزہ لینے کے لیے مرکزی عیدگاہ پہنچے سارے اسٹاف کو حکم ہوا کہ پہلی اور دوسری صفیں خالی ہونی چاہئیں، پہلی صف میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان اور سردار عبد الرب نشتر نماز پڑھیں گے اور دوسری صف میں پاکستان کے بیوروکریٹس اور دیگر اعلیٰ افسران ہونگے، باقی پچھلی صفوں میں خلق خدا نماز پڑھے گی۔
یہ اعلان سنتے ہی محمد خان ہمدم نے سوچا کہ اسلام میں ایسا کچھ بھی نہیں کہ حکمران اور عوام کاندھے سے کاندھا ملا کر نماز نہ پڑھ سکیں، اس غریب کی بات بھی صحیح تھی کہ واقعی اسلام میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے اگر حکمران دیر سے آئے اور اگلی صف میں جگہ نہ ہو تو پیچھے بھی نماز پڑھ سکتا ہے، اس میں کوئی حرج بھی نہیں اور نہ کسی کتاب میں لکھا ہوا ہے مگر یہاں تو قصہ ہی دوسرا ہے۔بہر حال جیسے ہی نمازکا وقت ہونے والا تھا، مختار کار نے پھر اگلی صفوں کا جائزہ لیا، پہلی صف میں محمد خان ہمدم تنہا کھڑا تھا جب کہ دوسری صف بھی خالی تھی، مختار کار نے محمد خان سے کہا '' یہاں سے نکلو اور پیچھے کسی بھی صف میں جا کرکھڑے ہو جاؤ، یہاں جناح والی قیادت نماز پڑے گی''۔
محمد خان نے کہا کہ '' اسلام میں یہ فرق نہیں ہے میں جناح کے ساتھ پہلی صف میں ہی نماز پڑھوں گا'' کچھ ہی دیر میں اے سی صاحب آئے اور مختار کار کو حکم دیا کہ پہلی صف میں جو شخص کھڑا ہے اسے وہاں سے فورا ہٹایا جائے ، مگر خان صاحب پر ایک ہی بھوت سوار تھا کہ دین اسلام ایسا کوئی اندھیر نہیں ہے، میں سب سے پہلے پہنچا ہوں اس لیے پہلی صف میں قائد کے ساتھ نماز ادا کروں گا۔ یہاں سے مجھے کوئی بھی نہیں ہٹا سکتا، اسی دوران کمشنر صاحب بھی آ گئے انھیں بھی اس صورتحال سے آگاہ کیا گیا کہ یہ صاحب اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں کہ جناح صاحب کے ساتھ نماز پڑھوں گا۔
کمشنر نے سیکیورٹی کے عملے کو حکم دیا کہ اس کا دماغ خراب ہے اسے مار کر ایسی جگہ پھینک آؤ کہ آج یہ یہاں دوبارہ نظر نہ آئے، حکم کی تعمیل ہوئی سیکیورٹی والے کتوں کی طرح اس پر چڑھ گئے اسے لہو لہان کر دیا پھر کتے پکڑنے والی گاڑی میں ڈال کر اسے منگھوپیر والے علاقے میں جہاں ویرانہ تھا پھینک آئے۔
ہمدم صاحب وہاں بے ہوش پڑے تھے کہ ایک چرواہے کی نظر اس پر پڑی اسے ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مار کر ہوش میں لے کر آیا مختصر حال احوال کے بعد محمد خان نے اسے کہا کہ '' مجھ پر ایک مہربانی کرو، مجھے کسی طرح میرے گھر کراچی پہنچا دو'' اس چرواہے نے اسے کسی گاڑی میں ڈال کر اس کے گھر پہنچا دیا۔ اس کی بیوی نے یہ خون والے کپڑے اور جسم پر تشدد دیکھ کر پوچھا '' کیا ہوا ؟ تمہارے ساتھ یہ کس نے کیا ہے؟''
محمد خان ہمدم نے اپنی بیوی کو بتایا کہ '' مجھے پہلی صف میں قائد اعظم کے ساتھ پاکستان کی آزادی کی نماز شکرانہ پڑھنے کی سزا ملی ہے، قصہ بہت بڑا ہے اب تو میرا حشر اور برا ہونے والا ہے، باقی باتیں بعد میں کریں گے تم پہلی فرصت میں یہاں سے ماتلی چلی جاؤ، ابھی جاسوس سونگھتے سونگھتے یہاں پہنچنے والے ہونگے مجھے نہیں چھوڑیں گے تم نکل جاؤ مجھ پر کئی کیس بنیں گے شاید میری پوری عمر جیل میں گزر جائے گی۔''
اسی رات محمد خان ہمدم کے گھر پر پولیس نے چھاپہ مارا اور اس پر محمد علی جناح اور لیاقت علی خان پر قاتلانہ حملے کی کوشش کرنے کی پاکستان کی پہلی ایف آئی آر کاٹ دی گئی نہ صرف یہ بلکہ اس پر ملک دشمنی اور جاسوسی کی دفعات بھی لگائی گئیں۔ یہ خبر میڈیا میں بھی آئی اور اسے سینٹرل جیل بھیج دیا گیا، چار سال تک کیس چلا اور اسے پھانسی کی سزا سنائی گئی۔
اس کے دوستوں نے سزا کے خلاف اپیل داخل کی، مگر اسی دوران پاکستان کے اندر ملک کی سلامتی کے خلاف ایک مقدمہ دائر ہوا جس میں ملک کے نامور شاعر فیض احمد فیض کو گرفتار کر کے کراچی جیل میں لایا گیا، محمد خان کو جب معلوم ہوا کہ فیض احمد فیض بھی جیل میں ہے تو کسی طریقے سے ان سے رابطہ کیا اور ملاقات کی اور ان سے اپنا تعارف کروایا کہ میں بھی شاعر ہوں اور سارا قصہ بتایا، فیض نے اسے تسلی دی کہ '' گھبراؤ نہیں سب ٹھیک ہو جائے گا '' فیض احمد فیض نے محمد خان ہمدم سے کہا '' یار مجھے سندھی نہیں آتی، مجھے سندھی سکھاؤ'' محمد خان فیض کو سندھی پڑھاتا رہا۔
اس دوران فیض نے محمد خان کو ایک قابل وکیل مقرر کر کے دیا جس پر محمد خان ہمدم کو سارے الزامات سے بری کر دیا گیا، ساتھ میں نوکری بھی بحال ہوئی اور بقایاجات کی بھی ادائیگی بھی ہوئی۔ اس نے فیض احمد فیض کا شکریہ ادا کیا اور جیل سے رہا ہوکر گھر پہنچتے ہی اپنی الماری سے قرآن پاک اور جائے نماز اٹھا کر کسی بچے کو دی کہ جا کر اسے مسجد میں رکھ کر آؤ، پھر اس نے پہلی صف میں نماز پڑھنے کے لیے ہمیشہ کے لیے توبہ کر لی۔
اس تجربے کے بعد محمد خان ہمدم ایک بڑا کمیونسٹ بن گیا اور اپنی نوکری بہت ہی ایمانداری سے کرنے کے بعد ریٹائر ہوا۔یہ واقعہ پڑھ کر میں سوچنے پر مجبور ہوں کہ جس ملک میں نظام انصاف کے حصول کی بنیاد ہی جھوٹ، سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی ہٹ دھرمی اور انا پرستی پر مبنی ہو وہاں پر ایک مکمل منصفانہ نظام کیسے رائج ہو سکتا ہے۔ آج ہمارے اردگرد جو کچھ بھی ہو رہا ہے یہ اسی پہلی جھوٹی اور بے بنیاد ایف آئی آر کا نتیجہ ہے کہ بیوروکریٹس اور سیاستدانوں نے اپنے مخالفین پر جھوٹی اور بے بنیاد ایف آئی آر درج کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
18 اگست، 1947 سے لے کر آج تک وہی سلسلہ چلتا چلا آرہا ہے، اگر اس وقت کسی ایک بھی سیاستدان یا بیوروکریٹ نے حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے محمد خان جیسے شخص کے خلاف ایف آئی آر درج نہ کرنے کی ہمت کی ہوتی تو یہ جھوٹ اور منافقت کا سلسلہ وہیں پر ختم ہو سکتا تھا، لیکن اب یہ ہمارا وطیرہ بن چکا ہے، جو سیاسی پارٹی اپوزیشن میں ہو اس کے لیڈران اورکارکنان کے خلاف انتقامی کاروائی کے طور پر جھوٹی اور بے بنیاد ایف آئی آرز درج کر لی جاتی ہیں اور شاید ہی کسی بیوروکریٹ یا پولیس افسر نے ایسی جھوٹی ایف، آئی، آر درج کروانے کے خلاف کوئی مزاحمت کی ہو کیونکہ خوشامد اور انا پرستی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ پھر اس کے بعد ان مخالفین کو نہ صرف گرفتار کروانے کی جلدی ہوتی ہے بلکہ ان کی ہر طرح سے تذلیل کی جاتی ہے۔
یہ ایک جانب سے ہی نہیں ہوتا بلکہ جب وہی اپوزیشن کسی طرح حکومت میں آجائے تو پھر ان کی طرف سے بھی یہی رویہ برقرار رکھا جاتا ہے۔ یہ لوگ حکومت میں آنے کے بعد نہ صرف اپنے خلاف ہونے والی تمام ایف آئی آرز بیک جنبش قلم ختم کروا دیتے ہیں بلکہ اگر اس کے لیے قانون میں ترامیم کی ضرورت پڑے تو ایسی ترامیم بھی فوری طور پر اسمبلیوں سے منظورکروالی جاتی ہیں اور ہمارا عدالتی نظام انصاف ان کا منہ تکتا رہ جاتا ہے۔ اس پہلی جھوٹی ایف۔ آئی ۔ آر کے نتائج آج تک ہمارے سامنے آ رہے ہیں۔
میں اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ تھانوں میں درج ہونے والی ایف۔آئی۔آرز میں نوے فیصد جھوٹی اور بے بنیاد ایف۔آئی۔آرز ہوتی ہیں۔دس فیصد ڈکیتی ، چوری ، فراڈ اور دیگر فوجداری دفعات کے تحت درج ہونے والی ایف۔آئی۔ آرز میں بھی بیشتر بعد ازاں جھوٹی ہی نکلتی ہیں۔ جو یا تو مدعی مقدمہ جھوٹ بول کر درج کرواتا ہے یا متعلقہ تھانیدار کو رشوت دے کر درج کروائی جاتی ہیں۔
یہ جھوٹ کا سلسلہ چلتا رہے گا،کیونکہ اسی جھوٹ کی بنیاد پر سیاستدانوں کی سیاست اور بیوروکریٹس کی بیوروکریسی کے چلنے کا دارومدار ہے اور جانے ایسے کتنے محمد خان ھمدم اس جھوٹ کی سزا کاٹنے کے بعد کمیونسٹ بن چکے ہوں گے۔