حقوق کا حصول جدوجہد سے
یہ ہمارے ملک میں محنت کشوں کے لیے سنہری دور بھی کہا جاتا ہے
قبل اس کے کہ ہم یکم مئی 1886 میں امریکا کے شہر شکاگو میں اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے ان محنت کشوں کا تذکرہ کریں جنھوں نے اپنے حقوق کے حصول کی لڑائی لڑتے ہوئے اپنی جانیں نچھاور کیں اور شہادت کا مقام حاصل کیا، مناسب ہوگا کہ ہم اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں کہ شکاگو کے ان محنت کشوں نے عصر حاضر کے محنت کشوں کو کیا پیغام دیا ہے۔
ہم لفظ محنت کش جب استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد وہ تمام لوگ ہوتے ہیں جن کے پاس فروخت کے لیے ماسوائے اس کے کچھ نہیں ہوتا کہ وہ مارکیٹ میں اپنی محنت فروخت کرسکیں اور اپنا اور اپنے کنبے کا جسم و جاں کا رشتہ قائم رکھ سکیں۔
محنت کش یا مزدور وہ لوگ ہی کہلاتے ہیں جوکہ صنعتوں میں، کارخانوں میں، ورکشاپس میں کام کرتے ہیں یا پھر وہ لوگ محنت کش یا مزدور کہلاتے ہیں جوکہ عمارتوں کی تعمیر میں حصہ لیتے ہیں یا ایسے محنت کش جو روزانہ اجرت پر کام کرتے ہیں۔ ایسے محنت کش پورا دن محنت کرکے فقط قلیل سی رقم حاصل کر پاتے ہیں۔ اس کے علاوہ تمام قسم کے حقوق سے محروم ہوتے ہیں یا گھریلو محنت کش ہوتے ہیں۔
گھریلو محنت کش بھی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ اول دوسروں کے گھروں میں کام کرنے والے، دوم وہ محنت کش جوکہ صنعتی اداروں سے مال لے کر اپنے گھروں میں کام کرتے ہیں۔ البتہ سب سے زیادہ باشعور وہ محنت کش ہوتے ہیں جوکہ صنعت سے وابستہ ہوتے ہیں کیونکہ یہ محنت کش اجتماعی حیثیت میں کام کرتے ہیں۔
یہ ایک چھت کے نیچے سیکڑوں و ہزاروں کی تعداد میں بھی ہوتے ہیں، یوں ان محنت کشوں کے درمیان جلد ہی ایک پیداواری رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔ یہی محنت کش ہوتے ہیں جوکہ کسی بھی سماجی تبدیلی کا باعث بنتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ محنت کش قسم، قسم کے جبر و استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔ یہاں ہم ڈھاکا میں رانا پلازہ، کراچی میں سانحہ بلدیہ ٹاؤن و سانحہ مہران ٹاؤن کی مثالیں دیں گے۔
ان حادثات میں بہت سارے محنت کش بد ترین آتشزدگی کے باعث شہید ہوگئے چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ صنعتی ماحول کو محنت کش دوست ماحول بنایا جائے۔ لازم ہے کہ مشینوں کے درمیان اتنا فاصلہ لازمی ہوکہ وہاں کام کرنے والے محنت کش آسانی سے نقل و حرکت کرسکیں۔
(دوم) محنت کشوں کو حفاظتی یونیفارم مہیا کیا جائے، حفاظتی جوتے مہیا کیے جائیں۔ (سوم) آگ بجھانے کے تمام آلات اس ادارے میں لازمی ہوں۔ ان آلات کو اپنے وقت پر لازمی چیک بھی کیا جائے۔ (چہارم) محنت کشوں سے فقط آٹھ گھنٹے ہی کام لیا جائے۔
عصر حاضر میں سرمایہ داروں نے محنت کشوں سے آٹھ گھنٹے سے زائد وقت کام لینے کا ایک نیا طریقہ ایجاد کیا ہے وہ یہ کہ محنت کشوں کو انتہائی قلیل اجرت دی جاتی ہے جس کے باعث وہ مزید کام کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے، ٹھیکیداری نظام کے تحت کام کرنا۔ یہ عمل اس طرح ہوتا ہے کہ کسی بھی صنعتی ادارے میں کام کرنے والے ملازم کو بطور ٹھیکیدار پیش کیا جاتا ہے اور تمام محنت کش اس کے ماتحت کام کرتے ہیں۔
سرمایہ داروں کے اس عمل کے باعث محنت کش تمام قسم کی سہولیات سے محروم ہو جاتا ہے۔ ٹھیکیداری نظام اب تو صنعتی اداروں میں مکمل طور پر نافذ ہو چکا ہے اور اس نظام کے باعث محنت کش عدم تحفظ کا ہمہ وقت شکار رہتا ہے۔ چنانچہ گزشتہ ایک برس سے یہ بھی ہو رہا ہے کہ اچھے خاصے چلتے ہوئے اداروں کو اچانک بند کردیا گیا۔ یہ عمل ہنوز جاری ہے، اس عمل کے باعث لاکھوں محنت کش بے روزگاری کا شکار ہو رہے ہیں۔ (پنجم) مسئلہ یہ ہے کم عمر نوجوانوں سے کام لینا۔
حقیقت یہ ہے کہ لاہور سے مریدکے تک مریدکے سے پسرور تک، لاہور سے قصور تک، لاہور سے رائے ونڈ تک، لاہور سے شیخوپورہ تک بہت ساری فیکٹریاں گمنام ہیں اور ان فیکٹریوں میں کام کرنے والے18 برس سے کم عمر والے نوجوان یہ نوجوان اپنی گھریلو غربت کے باعث ان فیکٹریوں میں کام کرنے پر مجبور ہیں ایسے کم عمر نوجوانوں کو اس لیے بھی ملازم رکھا جاتا ہے کہ یہ محنت کش کم اجرت پر بھی کام کرنے پر رضامند ہو جاتے ہیں اور ایسے نوجوانوں سے شب میں کام لیا جاتا ہے تاکہ کسی قانونی پیچیدگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
البتہ ہمارے ملک میں ایسے ملازمین بھی ہوتے ہیں جن کی ملازمت مستقل ہوتی ہے مگر ایسے ملازمین کی تعداد فقط 12 سے 15 فیصد ہی ہوگی۔ یہ وہ محنت کش ہیں جنھیں قانون نے چند سہولیات دے رکھی ہیں جن میں میرج گرانٹ۔ اکثر یہ سہولت اس وقت حاصل ہوتی ہے جب شادی کو چار چھ برس بیت چکے ہوتے ہیں یہی کیفیت اسکالر شپ کی ہے یہ بھی تب حاصل ہوتی ہے جب ایک اسٹوڈنٹ مایوس ہو کر گھر کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی دوسرے کام میں مشغول ہو جاتا ہے، جب کہ ڈیتھ گرانٹ بھی جب ملتی ہے کہ اس وقت تک محنت کش کی کوئی پانچویں برسی منائی جا رہی ہوتی ہے۔
یہ وہ جبر ہے جس کا سامنا ہمارے ملک کے ساتھ ساتھ دنیا کے اکثر ممالک کے محنت کش دوچار ہیں اور یہ جبر گزشتہ پانچ چھ صدیوں سے جاری ہے کہ جب سے سرمایہ داری نظام کا آغاز ہوا ہے۔ البتہ ہمارے ملک میں کیفیت یہ ہے کہ 1953 میں محنت کشوں نے جدوجہد کی۔ 1958 اور 1959 میں بھی جدوجہد کی۔ 1963 میں تو محنت کشوں نے تحریک کی شکل میں جدوجہد کی۔ 1972 میں محنت کشوں نے کراچی میں زبردست جدوجہد کی۔ اس جدوجہد میں ٹیکسٹائل کے محنت کشوں نے خصوصیت سے شرکت کی اور جانوں کے نذرانے تک پیش کیے۔
اس دور میں فقط کراچی ہی کا ذکر کریں تو ڈاکٹر اعزاز نذیر، نایاب نقوی، کامریڈ بخاری، حاجی عدیل یہ صاحب انقلابی شاعر بھی تھے رحمت شکور، واحد بشیر، جاوید ، تاج بی بی، مولانا سید سلیم رضا، اقبال پیارے، یوسف خان، جہانگیر آزاد، خستہ گل، محمد یاسین، رزاق میکش، عزیز الحسن، زبیر کانپوری، شبر الفت، ٹکا خان و دیگر بے شمار مزدور رہنما محنت کشوں کی رہبری کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہوتے۔ اس دور میں محنت کشوں نے اگر جدوجہد کی تو انھیں اس جدوجہد کے عوض میں بہت سارے حقوق بھی حاصل ہوئے۔
جس دور کا ہم ذکر خیر کررہے ہیں یہ دور تھا 1951 سے 1977 تک کا۔ یہ ہمارے ملک میں محنت کشوں کے لیے سنہری دور بھی کہا جاتا ہے۔ البتہ اس دور کے بعد محنت کش سیاست کا ایندھن بنتے گئے۔ اپنے حقوق کی جدوجہد کے بجائے سیاست دانوں کے لیے کام کرتے رہے اور انھیں سند اقتدار پر بٹھاتے رہے۔ نتیجہ یہ کہ انھی سیاستدانوں کے ہاتھوں اپنے حقوق سے محروم ہوتے گئے، یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
اب ہم ذکر کریں گے شکاگو کے ان محنت کش شہدا کا جنھوں نے آج سے 137 سال قبل اپنے حقوق کے حصول کے لیے اپنی جانیں نچھاورکیں اور تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔ شکاگو کے محنت کشوں کی جدوجہد سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ حقوق کا حصول جدوجہد سے مگر ہم اتنا ضرور عرض کریں گے کہ متحدہ جدوجہد کی ضرورت ہے مگر یہ جدوجہد پر امن پر امن ہو۔