میری آواز سنو
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم کھلے دل کے ساتھ سچائی کا اعتراف نہیں کرتے
میں ایک عام آدمی ہوں، جب صبح نیند سے بیدار ہوتا ہوں تو بھوک کی صورت میں معیشت میرے سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔ مجھے بھوک مٹانے کے لیے روٹی چاہیے اور روٹی پیسے سے ملتی ہے۔ پیسے نہ ہوں تو خوراک میری دسترس سے باہر ہوتی ہے۔ خوراک کا حصول میرے مادی وجود کے لیے ضروری ہے۔
خدا تعالیٰ نے مجھے اولاد کی نعمت سے نوازا ہے ان کی خوراک کے ساتھ تعلیم ، علاج معالجہ اور لباس کی ذمے داری مجھ پر عائد ہوتی ہے۔ مہینے کے آخر میں مجھے مکان کے کرائے کے ساتھ بجلی،گیس اور ٹیلی فون کے واجبات کی ادائیگی بھی کرنی ہوتی ہے، دیگر اخراجات اس کے علاوہ ہیں، جو پیسے کے بغیر ممکن نہیں۔
میری زندگی میں مرکزی حیثیت میری معیشت کو حاصل ہے۔ میں اپنے شب و روز میں معیشت سے خود کو آزاد نہ کرسکا۔ اس پر میرے وجود کا انحصار ہے۔ جب مادی وجود کی بقا کا مسئلہ درپیش ہو تو اخلاقی وجود بے معنی ہو جاتا ہے۔ بقول شاعر:
مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھلتی
بد قسمتی سے جب میں سوشل میڈیا پر جاری سرگرمیوں کا جائزہ لیتا ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ عام آدمی کا اولین مسئلہ اس کی معیشت نہیں بلکہ اس کا مسلک اور اس کا فرقہ اور اس کی سیاسی وابستگی ہے۔ آپ کو مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے ان گنت ارسطو اور بقراط ایسے موضوعات پر بحث و مباحثہ، مناظرے اور مقالات پیش کرتے نظر آئیں گے، جن کا عوامی مسائل اور ان کے حل سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔
ایسے حالات میں سیاسی عناصر کس طرح لاتعلق رہ سکتے ہیں۔ وہ بھی '' ہم کسی سے کم نہیں '' کا نعرہ لگا کر اس طرز عمل کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ بیشتر سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے سوشل میڈیا کے شعبے بنا رکھے ہیں وہ اپنے رہنماؤں کے حق میں اور مخالفین کی کردار کشی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں اور ان کی جانب سے مخالفین کے لیے جو زبان استعمال کی جاتی ہے اسے تحریر میں نہیں لایا جاسکتا۔ ان میڈیا سیل کی جانب سے عوامی مسائل کے حل تو دور کی بات ہے عوامی مسائل پر بات ہی نہیں کی جاتی۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
میری ذاتی رائے میں ہمارے ہاں سوشل میڈیا کو ہائیڈ پارک سمجھ کر استعمال کیا جا رہا ہے۔ عام زندگی میں جس انسان کو کسی کے سامنے کھڑا ہونے کی ہمت نہیں ہوتی وہ سوشل میڈیا پر اس کو آسانی سے گالیاں دے سکتا ہے۔ بقول ایک دانشور کے جس معاشرے میں جہالت عام ہوتی ہے وہاں ٹیکنالوجی کا استعمال جہالت کو کمپیوٹرائزڈ کردیتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس کی اصلاح کیسے ممکن ہے؟ میری رائے میں اگر ہم فلسفہ، ادب اور تاریخ کو مطالعے کا حصہ بنا لیں تو اس انتہا پسندی کے رویے کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔فلسفہ ہمیں بتاتا ہے کہ نقطہ نظر کیسے وجود میں آتا ہے، اس کی مدد سے ہمیں دوسروں کی بات سمجھنے اور اپنی بات سمجھانے میں مدد ملتی ہے۔ ادب احساس کی قوت کو جگاتا ہے، اس سے مزاج میں نرمی پیدا ہوتی ہے اور انسانی رویے میں اعتدال آتا ہے۔
تاریخ کے مطالعے سے ہمیں تاریخی شعور حاصل ہوتا ہے جس کی مدد سے ہم بحرانوں کا تجزیہ کرنے اور مسائل کی اصل تہہ تک پہنچنے اور اس کے حل کی صلاحیت حاصل کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ بشرطیکہ ہم نے تاریخ کا مطالعہ غیر جانب داری اور سائنسی انداز فکر کی بنیاد پر کیا ہو۔سوشل میڈیا پر ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخ کے حوالے سے واقعات نگاری بالخصوص اسلامی دنیا کے قدیم واقعات ہمارے بعض مذہبی عناصر کی خاص دلچسپی کا موضوع ہیں۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ تاریخی واقعات کے رونما ہونے میں کئی عوامل مثلاً مذہب، سماج، معیشت، نفسیات، جغرافیہ اور سیاست کے عوامل کارفرما ہوسکتے ہیں۔بدقسمتی سے ہم تاریخ کو جذبات کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم تاریخ کو اپنی خواہشات کے مطابق موڑ دیتے ہیں۔ نتیجہ ہم تاریخی شعور سے محروم ہوجاتے ہیں۔تاریخ کے حوالے سے ہم ایک غلطی اور بھی کرتے ہیں وہ یہ کہ ہم سیاسی تاریخ بالخصوص اسلامی تاریخ کو ہی تاریخ سمجھتے ہیں۔
ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ تہذیب و تمدن کسی ایک قوم کی کوششوں سے پروان نہیں چڑھی بلکہ اقوام عالم کی مجموعی کوششوں کا ثمر ہے۔ لہٰذا کسی بھی قوم کو صرف اپنے علمی اور تاریخی سرمایہ پر انحصار نہیں کرلینا چاہیے بلکہ عالمی تاریخ ( قدیم وجدید ) کو اپنے مطالعے کا حصہ بنانا چاہیے۔ عوام کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ شخصیات ہی حالات تبدیل کرتی ہیں حالات کی تبدیلی میں عوام الناس کا کوئی کردار نہیں ہوتا ، اس تصور نے معاشرے میں شخصیت پرستی کو فروغ دیا ہے ، حالانکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ شخصیات خود کچھ نہیں ہوتیں حالات و واقعات ہوتے ہیں جو شخصیات کا روپ دھار لیتے ہیں۔
اس لیے عوام الناس بالخصوص سیاسی کارکنان کو حالات کی تبدیلی کے لیے شخصیات پر انحصارکرنے کے بجائے اپنی قوت اور توانائی پر انحصار کرنا چاہیے۔سیاسی کارکنان کو اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے سیاسی جماعتیں کسی فوجی ادارے کی طرح ایک کمان کے تحت کام نہیں کرتیں ان کے درمیان نظریاتی اور فکری بنیادوں پر فرق ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ اپنا الگ الگ منشور اور لائحہ عمل رکھتی ہیں اس بنیاد پر ان کے مابین فکری اختلاف اور تصادم فطری ہے لیکن جب یہ نظریاتی مخالفت شخصی تصادم میں تبدیل ہو جائے تو ہمیں اس سیاسی رویے پر غور ضرور کرنا چاہیے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم کھلے دل کے ساتھ سچائی کا اعتراف نہیں کرتے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری سوچ اور عمل دونوں ہمارے مفادات اور جذبات کے تابع ہوتے ہیں اگر ہم اپنی سوچ اور عمل کو اپنے جذبات اور مفادات سے بالاتر کرلیں تو ہمیں سچائی قبول کرنے میں کبھی مشکل پیش نہیں آئے گی۔
خدا تعالیٰ نے مجھے اولاد کی نعمت سے نوازا ہے ان کی خوراک کے ساتھ تعلیم ، علاج معالجہ اور لباس کی ذمے داری مجھ پر عائد ہوتی ہے۔ مہینے کے آخر میں مجھے مکان کے کرائے کے ساتھ بجلی،گیس اور ٹیلی فون کے واجبات کی ادائیگی بھی کرنی ہوتی ہے، دیگر اخراجات اس کے علاوہ ہیں، جو پیسے کے بغیر ممکن نہیں۔
میری زندگی میں مرکزی حیثیت میری معیشت کو حاصل ہے۔ میں اپنے شب و روز میں معیشت سے خود کو آزاد نہ کرسکا۔ اس پر میرے وجود کا انحصار ہے۔ جب مادی وجود کی بقا کا مسئلہ درپیش ہو تو اخلاقی وجود بے معنی ہو جاتا ہے۔ بقول شاعر:
مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھلتی
بد قسمتی سے جب میں سوشل میڈیا پر جاری سرگرمیوں کا جائزہ لیتا ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ عام آدمی کا اولین مسئلہ اس کی معیشت نہیں بلکہ اس کا مسلک اور اس کا فرقہ اور اس کی سیاسی وابستگی ہے۔ آپ کو مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے ان گنت ارسطو اور بقراط ایسے موضوعات پر بحث و مباحثہ، مناظرے اور مقالات پیش کرتے نظر آئیں گے، جن کا عوامی مسائل اور ان کے حل سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔
ایسے حالات میں سیاسی عناصر کس طرح لاتعلق رہ سکتے ہیں۔ وہ بھی '' ہم کسی سے کم نہیں '' کا نعرہ لگا کر اس طرز عمل کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ بیشتر سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے سوشل میڈیا کے شعبے بنا رکھے ہیں وہ اپنے رہنماؤں کے حق میں اور مخالفین کی کردار کشی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں اور ان کی جانب سے مخالفین کے لیے جو زبان استعمال کی جاتی ہے اسے تحریر میں نہیں لایا جاسکتا۔ ان میڈیا سیل کی جانب سے عوامی مسائل کے حل تو دور کی بات ہے عوامی مسائل پر بات ہی نہیں کی جاتی۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
میری ذاتی رائے میں ہمارے ہاں سوشل میڈیا کو ہائیڈ پارک سمجھ کر استعمال کیا جا رہا ہے۔ عام زندگی میں جس انسان کو کسی کے سامنے کھڑا ہونے کی ہمت نہیں ہوتی وہ سوشل میڈیا پر اس کو آسانی سے گالیاں دے سکتا ہے۔ بقول ایک دانشور کے جس معاشرے میں جہالت عام ہوتی ہے وہاں ٹیکنالوجی کا استعمال جہالت کو کمپیوٹرائزڈ کردیتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس کی اصلاح کیسے ممکن ہے؟ میری رائے میں اگر ہم فلسفہ، ادب اور تاریخ کو مطالعے کا حصہ بنا لیں تو اس انتہا پسندی کے رویے کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔فلسفہ ہمیں بتاتا ہے کہ نقطہ نظر کیسے وجود میں آتا ہے، اس کی مدد سے ہمیں دوسروں کی بات سمجھنے اور اپنی بات سمجھانے میں مدد ملتی ہے۔ ادب احساس کی قوت کو جگاتا ہے، اس سے مزاج میں نرمی پیدا ہوتی ہے اور انسانی رویے میں اعتدال آتا ہے۔
تاریخ کے مطالعے سے ہمیں تاریخی شعور حاصل ہوتا ہے جس کی مدد سے ہم بحرانوں کا تجزیہ کرنے اور مسائل کی اصل تہہ تک پہنچنے اور اس کے حل کی صلاحیت حاصل کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ بشرطیکہ ہم نے تاریخ کا مطالعہ غیر جانب داری اور سائنسی انداز فکر کی بنیاد پر کیا ہو۔سوشل میڈیا پر ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخ کے حوالے سے واقعات نگاری بالخصوص اسلامی دنیا کے قدیم واقعات ہمارے بعض مذہبی عناصر کی خاص دلچسپی کا موضوع ہیں۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ تاریخی واقعات کے رونما ہونے میں کئی عوامل مثلاً مذہب، سماج، معیشت، نفسیات، جغرافیہ اور سیاست کے عوامل کارفرما ہوسکتے ہیں۔بدقسمتی سے ہم تاریخ کو جذبات کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم تاریخ کو اپنی خواہشات کے مطابق موڑ دیتے ہیں۔ نتیجہ ہم تاریخی شعور سے محروم ہوجاتے ہیں۔تاریخ کے حوالے سے ہم ایک غلطی اور بھی کرتے ہیں وہ یہ کہ ہم سیاسی تاریخ بالخصوص اسلامی تاریخ کو ہی تاریخ سمجھتے ہیں۔
ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ تہذیب و تمدن کسی ایک قوم کی کوششوں سے پروان نہیں چڑھی بلکہ اقوام عالم کی مجموعی کوششوں کا ثمر ہے۔ لہٰذا کسی بھی قوم کو صرف اپنے علمی اور تاریخی سرمایہ پر انحصار نہیں کرلینا چاہیے بلکہ عالمی تاریخ ( قدیم وجدید ) کو اپنے مطالعے کا حصہ بنانا چاہیے۔ عوام کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ شخصیات ہی حالات تبدیل کرتی ہیں حالات کی تبدیلی میں عوام الناس کا کوئی کردار نہیں ہوتا ، اس تصور نے معاشرے میں شخصیت پرستی کو فروغ دیا ہے ، حالانکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ شخصیات خود کچھ نہیں ہوتیں حالات و واقعات ہوتے ہیں جو شخصیات کا روپ دھار لیتے ہیں۔
اس لیے عوام الناس بالخصوص سیاسی کارکنان کو حالات کی تبدیلی کے لیے شخصیات پر انحصارکرنے کے بجائے اپنی قوت اور توانائی پر انحصار کرنا چاہیے۔سیاسی کارکنان کو اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے سیاسی جماعتیں کسی فوجی ادارے کی طرح ایک کمان کے تحت کام نہیں کرتیں ان کے درمیان نظریاتی اور فکری بنیادوں پر فرق ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ اپنا الگ الگ منشور اور لائحہ عمل رکھتی ہیں اس بنیاد پر ان کے مابین فکری اختلاف اور تصادم فطری ہے لیکن جب یہ نظریاتی مخالفت شخصی تصادم میں تبدیل ہو جائے تو ہمیں اس سیاسی رویے پر غور ضرور کرنا چاہیے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم کھلے دل کے ساتھ سچائی کا اعتراف نہیں کرتے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری سوچ اور عمل دونوں ہمارے مفادات اور جذبات کے تابع ہوتے ہیں اگر ہم اپنی سوچ اور عمل کو اپنے جذبات اور مفادات سے بالاتر کرلیں تو ہمیں سچائی قبول کرنے میں کبھی مشکل پیش نہیں آئے گی۔