مذاکرات کی کہانی اور ممکنہ نتائج

مذاکرات کا یہ عمل اگر کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے تو پھر انتخابات اسی برس ہوںگے اور فرار ممکن نہیں ہوگا

salmanabidpk@gmail.com

محاذ آرائی، ٹکراؤ اور عدم برداشت اور سیاسی جنگ میں حتمی نتیجہ مذاکرات کی میز پر سامنے آتا ہے۔

حالیہ دنوں میں حکمران اتحاد اور تحریک انصاف کے درمیان باضابطہ مذاکرات کا عمل شروع ہوا ہے جس کی دو نشستیں مکمل ہوگئی ہی ۔ تیسری اور حتمی نشست منگل کو ہونے کا امکان ہے ۔ان مذاکرات کا یک نکاتی ایجنڈا عام انتخابات کی تاریخ پر اتفاق کرنا ہے ۔ عدالت نے حکومت اور حزب اختلاف کو ایک اور موقع دیا ہے۔

تحریک انصاف نے جو شرائط پیش کی ہیں ، وہ تین نکات پر مبنی ہیں ۔ اول مئی میں بلوچستان , سندھ اور قومی اسمبلی کی تحلیل اور اتفاق رائے کی بنیاد پر نگران حکومتوں کی تشکیل۔ دوئم انتخابات کے حوالے سے آئینی ترمیم میں معاونت، سوئم جولائی یا اگست کے پہلے ہفتے میں عام انتخابات کا اعلان شامل ہیں۔

حکمران اتحاد کا موقف ہے کہ دو صوبائی بشمول قومی اسمبلی کی تحلیل جولائی میں ہوںگی اور انتخابات اکتوبر میں ہی ہوںگے ۔ بنیادی طور پر دیکھیں تو ان شرائط میں کوئی بڑا فرق نہیں ، مسئلہ دو ماہ کے درمیان ہی پھنسا ہوا ہے او ریہ مسائل ایسے نہیں جو حل نہ ہوسکیں ۔ اگر دونوں اطراف سے سیاسی لچک کا مظاہرہ کیا جائے اور کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اتفاق ہو تو سیاسی مفاہمت کا راستہ نکل سکتا ہے ۔

مذاکرات سے قبل ایک اچھی بات یہ سامنے آئی کہ سیاسی فریقین اس نقطہ پر متفق نظر آئے کہ ملک میںایک ہی وقت پر عام انتخابات کا اعلان ہونا چاہیے۔ خود اسٹیبلیشمنٹ کا بھی یہ ہی نقطہ نظر تھا ۔یہ ہی وجہ ہے کہ سب ہی اس نقطہ پر متفق نظر آئے اوراسی کو بیانیہ بنایا گیا کہ عام انتخابات کی طرف ہی پیش رفت ہونی چاہیے۔

اب مذاکرات کے نتائج کو دیکھیں تو مسئلہ جولائی یا اگست کے پہلے ہفتے میں یا اکتوبر میں انتخابات کے درمیان پھنسا ہوا ہے ۔اس لیے یہ امکان موجود ہے کہ جولائی سے لے کر اکتوبر کے درمیان عام انتخابات کا راستہ نکل سکتا ہے ۔اگر تحریک انصاف نے 14مئی کے انتخابات سے دست بردار ہونا ہے تو حکومت کو بھی اکتوبر سے پہلے عام انتخابات پر اتفاق کرنا ہوگا تاکہ معاملات کو حل کیا جاسکے۔

ان مزاکرات سے قبل تحریک انصاف اور عمران خان تواتر سے ان خدشات کا اظہار کرچکے تھے کہ حکومت اس برس اکتوبر2023میں بھی انتخابات سے فرار کا راستہ اختیار کررہی ہے ۔ کچھ وفاقی وزرا سمیت کئی سیاسی پنڈت بھی یہ کہہ چکے تھے کہ حالات کے پیش نظر اکتوبر 2023میں بھی انتخابات ممکن نہیں بلکہ وہ اب بھی قائم ہیں کہ اکتوبر 2023میں انتخابات کا انعقاد مشکل ہوگا۔


مذاکرات کا یہ عمل اگر کامیابی سے ہمکنا ر ہوتا ہے تو پھر انتخابات اسی برس ہوںگے اور فرار ممکن نہیں ہوگا ۔کیونکہ یہ سب چاہیں گے ملک میں غیر یقینی سیاست کا خاتمہ ہو تاکہ سیاسی او رمعاشی استحکام کو یقینی بنایا جاسکے۔

حکمران اتحاد میں آصف زرداری نے بھی مزاکرات کی میز سجانے میں کلیدی کردار ادا کیا ، انھیں اسٹیبلیشمنٹ کی معاونت حاصل تھی تاہم ابھی یہ کہنا کہ مذاکرات کا عمل یقینی طور پر نتیجہ خیز ہوگا، آسان نہیں ہوگا کیونکہ اسٹیبلیشمنٹ ہو یا حکمران اتحاد ان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو مذاکرات کے حق میں نہیں ۔ نواز شریف ، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن پی ٹی آئی سے مذاکرات مخالف ہیں۔

ممکن ہے اسٹیبلیشمنٹ میں بھی ایسے لوگ موجود ہو جو مذاکرات کے حق میں نہیں۔ میڈیا میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں ۔پیپلزپارٹی ہو یا مسلم لیگ ن یا پی ٹی آئی یہ سیاسی حقیقتیں ہیں، اس لیے یہ کہنا کہ ہم کسی جماعت کو نہیں مانتے یا ان کا وجود ختم کرنا ہے ، درست حکمت عملی نہیں ہوگی ۔

اگر مفاہمت نہیں ہوتی توگیند ایک بار پھر عدلیہ کے پاس واپس جائے گی اور پھر عدلیہ ایسا فیصلہ دے گی جو شاید حکومت کے لیے مشکل پیدا کرے ۔ شہباز شریف جو خود مفاہمت کی سیاست کے حامی ہیں وہ بھی نہیں چاہیں گے کہ لڑائی ایسی جگہ پر لے جائی جائے جہاں ان کو بھی نااہلی کا سامنا کرنا پڑے۔اس لیے مفاہمت ہی کو بنیاد بنانا چاہیے۔

لیکن اس کے لیے حالات بھی سازگار بنائے جائیں، پی ٹی آئی کے خلاف مقدمات کی بھرمار ہے اور بالخصوص دہشت گردی کے مقدمات بننا، سیاسی کارکنوں کو چاروں صوبوں کی سیاسی سیر کرانا،گرفتاریاں ، چھاپوں کا خاتمہ ہونا چاہیے ۔ خواجہ سعد رفیق کے بقول ان گرفتاریوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں تو پھر سوال ہے کہ یہ سب کچھ کون کررہا ہے اور کیوں حکومت کو نظرانداز کرکے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔سب کو سمجھنا ہوگا کہ محاذ آرائی اور ٹکراؤ کی سیاست کے نتائج کسی کے حق میں نہیں ہوںگے۔

ایک تاثر یہ بھی ہے کہ عمران خان اقتدار میں آنے کے بعد سیاسی مخالفین کے خلاف ایک بڑی مہم چلائے گا ،اس لیے حکومت میں شامل جماعتیں یہ بھی چاہتی ہیں کہ عمران خان اس تاثر کی نفی کرے کہ وہ کسی سے بدلہ لینا چاہتے ہیں ۔بدلہ کی سیاست نے پاکستان کوسوائے محاذآرائی اور ٹکراو کے کچھ نہیں دیا، کسی کو ٹارگٹ کرکے سیاسی طو رپر دیوار سے لگانے کی پالیسی نہ پہلے درست تھی نہ اب درست ہوگی ۔

اس ملک کو اگر سیاسی او رمعاشی بحران سے نکلنا ہے تو واحد راستہ عام انتخاب پر فریقین کی مفاہمت ہے ۔محاذ آرائی مسائل کا حل نہیں ہوگی بلکہ یہ ہمیں اور زیادہ بحران کی طرف دھکیلے گی ۔پاکستان کی سیاست مزید سیاسی مہم جوئی اور ایڈونچرز کی متحمل نہیں ہوسکتی۔

مذاکرات کے نتیجے میں جہاں عام انتخابات کی تاریخ کا طے ہونا ہے وہیں انتخابی فریم ورک، انتخابی اصلاحات اور شفافیت کو یقینی بنانا، شفاف نگران حکومتوں کی تشکیل، اسٹیبلیشمنٹ کی سیاسی مداخلت, تمام سیاسی جماعتوں کے لیے لیول پلینگ فیلڈ کا ماحول جیسے امور پر اتفاق رائے ہونا درکار ہے کیونکہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ انتخابات بھی ہوں او رانتخابات کے نتائج بھی سب کے لیے قابل قبول ہوں اور شفاف ہوں تو پھر روائتی سیاست ، انتخابات اورسیاسی انجینرنگ پر مبنی نتائج کے کھیل سے باہر نکلنا ہوگا۔
Load Next Story