سیاسی مفاہمت ممکن کیوں نہیں
ایک دوسرے کو مٹانے کی کوشش نے ملک کا سیاسی منظر نامہ خراب کر دیا ہے
ملک میں سیاسی مفاہمت کے لیے آوازیں آرہی ہیں۔ سیاسی جماعتیں مفاہمتی بات کرنا شروع ہو گئی ہیں۔ پیپلزپارٹی نے سیاسی مفاہمت کے لیے بات کی ہے۔ جماعت اسلامی بھی متحرک نظر آرہی ہے،یوں ملک میں سیاسی مفاہمت کی آوازیں آنا شروع ہو گئی ہیں۔
سراج الحق نے بھی وزیر اعظم شہباز شریف اور عمران خان سے الگ الگ ملاقاتیں تو کر لی ہیں لیکن ان کے پاس بھی دونوں کو اکٹھے بٹھانے کا کوئی فارمولہ نہیں ہے۔ وہ بھی جانتے ہیں جب تک دونوں کو اکٹھے نہیں بٹھایا جا سکتا ، تب تک مفاہمت ممکن نہیں ہے۔ شاید جماعت اسلامی بھی اسی مشکل میں ہے کہ کیسے سب کو اکٹھے بٹھایا جائے۔
ماضی میں تو عمران خان ہی مفاہمت کی راہ میں سب بڑی رکاوٹ رہے ہیں۔ انھوں نے ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کی قیادت کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کیا ہے۔ وہ جب وزیر اعظم تھے تو کبھی اپوزیشن کے کسی بھی رہنما کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہیںتھے۔ وہ سمجھتے ہیں ان کی مقبولیت کی بنیاد یہی ہے کہ وہ اپنے حریفوں کے ساتھ نہیں بیٹھتے۔ یہی نہیں جو سیاسی قیادت اکٹھی بیٹھتی ہے، عمران خان اسے سیاسی مک مکا کا نام دے دیتے ہیں۔ جیسے چارٹر آف ڈیموکریسی کو سیاسی مک مکا کا نام دے دیا گیا۔
بطور وزیر اعظم عمران خان نے نہ تو کبھی اپوزیشن کے کسی رہنما سے ملاقات کی اور نہ ہی قومی اسمبلی میں کبھی جمہوری روایات کے تحت اپوزیشن لیڈر سے مصافحہ کیا۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں سیاسی رواداری اور سیاسی برداشت کا کلچر ختم ہو گیا۔ آج بھی یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ عمران خان خود کسی کے ساتھ بھی بیٹھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
اس وقت مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی (ف) عمران خان کے ساتھ کسی بھی قسم کی سیاسی مفاہمت کے لیے تیار نہیں ہیں۔ میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کا یہ واضح موقف ہے کہ اس وقت عمران خان سے کوئی بھی بات چیت نہیں ہو سکتی، اب فیصلہ ہار اور جیت کا ہی ہو سکتا ہے۔ یہ دونوں حکومتی اتحاد کی دو بڑی جماعتیں ہیں، اس لیے ان کے بغیر سیاسی مفاہمت ممکن نہیں ہے۔
اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ ن لیگ اور جے یو آئی (ف) مفاہمت کے لیے نہ بھی تیا رہوں تب بھی کوئی مفاہمت ممکن ہے۔ کیا پیپلزپارٹی، اے این پی اور جماعت اسلامی مل کر مفاہمت کا کوئی راستہ نکال سکتی ہیں؟میری رائے میں یہ تب ہی ممکن ہے اگر عمران خان مفاہمت کے لیے خود ان تینوں جماعتوں کی لیڈر شپ کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔
اگر آصف زرداری، عمران خان، سراج الحق اور ایمل ولی خان اکٹھے بیٹھ جائیں اور میڈیا کے سامنے سیاسی مفاہمت کا اعلان کریں تو ماحول بدل سکتا ہے۔ پھر باقی جماعتوں پر بھی دبائو بن جائے گا کہ وہ اس مفاہمت میں شامل ہو جائیں۔ لیکن اگر یہ سب بھی اکٹھے نہیں بیٹھ سکتے توباقی سے کیا گلہ کیا جا سکتا ہے۔
کیا مفاہمت کے بغیر انتخابات ممکن ہیں، آج کی صورتحال میں یہ ممکن نہیں ہے۔ عدلیہ نے متعدد فیصلے دے کر دیکھ لیا ہے۔ اب بھی مجھے نہیں لگتا کہ کسی عدالتی فیصلے کی روشنی میں انتخابات ممکن ہیں۔ اس کے لیے سیاسی جماعتوں کو خود ہی راہ ہموار کرنا ہوگی۔ جب تک ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا کلچر نہیں ہوگا تب تک کچھ بھی ممکن نہیں ہے۔ سیاسی اختلاف دشمنی بن گئے ہیں۔ ایک دوسرے کو مٹانے کی کوشش نے ملک کا سیاسی منظر نامہ خراب کر دیا ہے۔
مائنس کرنے کے کھیل نے سب خراب کر دیا ہے۔ پہلے ایک جماعت کے لیڈر کو مائنس کرنے کے چکر میں ملک بحران کا شکار ہوا، اب دوسرے کی باری آگئی ہے تو شور مچ گیا ہے۔ اسی لیے ترازو کے پلڑے برابر کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔ عمران خان کو اپنے طرز سیاست کو تبدیل کرنا ہوگا ، اگر وہ تبدیل نہیں کریں گے تو معاملات ٹھیک نہیں ہوںگے۔سپریم کورٹ بھی انھیں ٹھیک نہیں کر سکتا، یہی حقیقت ہے، باقی سب ڈرامہ ہے۔