پاکستان بایو انجینیئرنگ اور ٹیکنالوجی سے استفادہ کرسکتا ہے یوآئی ٹی یونیورسٹی سیمینار

یوآئی ٹی یونیورسٹی کے ایک روزہ سیمینار میں ممتاز ماہرین نے ابھرتی ہوئی بایوٹیکنالوجی کا تفصیل احوال پیش کیا


سہیل یوسف April 30, 2023
یوآئی ٹی یونیورسٹی میں حیاتیات اور اس میں جدید پہلوؤں پر ایک روزہ سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں ممتاز ماہرین نے ملکی تناظر میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فوٹو: بشکریہ یوآئی ٹی یونیورسٹی

کراچی میں واقع عثمان انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی یونیورسٹی (آئی یو ٹی یو) میں 'اے فیوچروِد بایوانجینیئرنگ' کے نام سے ایک روزہ شاندار سیمینار منعقد ہوا جس میں پاکستان بھر کے ماہرین، سائنسدانوں، اسٹارٹ اپ کمپنیوں کے سی ای نے انتہائی اہم مقالات پیش کئے۔

اس تقریب کا مقصد زراعت، صحت، صنعت اور دیگر شعبوں میں حیاتیات (بائیولوجی) کے اشتراک اور جدید رحجانات پر گفتگو تھا۔ پھر شرکا نے اکیسویں صدی کے تناظر میں بایو انجینیئرنگ، جینیاتی (جینیٹک) ٹیکنالوجی اور صنعتی استعمال پر بھی سیرحاصل گفتگو کی۔

اس سیمینار میں پرویز ہودبھائے، سمیر ہودبھائے، ڈاکٹر اطہر اسامہ، ڈاکٹر زہرہ حسن، ڈاکٹر شہپر مرزا، ڈاکٹر اسٹیفن لائن، ڈاکٹر جوہرعلی، ڈاکٹر صبیح انوراور ڈاکٹر امِ کلثوم نے خطاب کیا۔

یو آئی ٹی یورنیورسٹی کی جانب سے بائیوانجینئرنگ کے مستقبل کے عنوان سے ایک روزہ سمپوزیم کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں ملک بھر سے بڑی تعداد میں بیالوجی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین ومحقیقین، تعلیم و تحقیق سے وابستہ افراد، جامعات کے وائس چانسلرز، انڈسٹریز سے تعلق رکھنے والے افراد، پاکستان بھر کی بڑی جامعات کے طلبہ اوراس مزکورہ شعبہ کے ماہرین نے شرکت کی ۔ سمپوزیم میں ماہرین بیالوجی اور انجینئرنگ کے شعبے میں دنیا بھرمیں ہونے والے تبدیلیوں موجودہ حالات اور مستقبل کے امکانات پر بحث و مباحثہ کیا گیا۔

چانسلر یوآئی ٹی یونیورسٹی حسین ہشام نے کہا کہ دنیا میں بہت تیزی سے تبدیلی رونما ہو رہی ہے اسی تبدیلی کو محسوس کرتے ہوئے یو آئ ٹی یورنیورسٹی نے نئی ابھرتی ہوئی فیلڈزپرتبصرہ کرنے کے لئے ملک بھر سے نامورسائسدانوں کو مدعو کیا ہے۔



یوآئی ٹی یونیورسٹی کے وائس چانسلر، ڈاکٹر جوہر علی نے بتایا کہ جیمز واٹسن اور فرانسس کرک نے ڈی این اے کی شکل اور تفصیلات پر ایک مختصر تحقیقی مقالہ شائع کرایا جس کے بعد گویا جینیات کے شعبے میں انقلاب آگیا اور ڈی این اے ایک کتابِ حیات کے صورت میں ہمارے سامنے کھلنے لگا۔ اس کے بعد انسانی جینوم پڑھا گیا اور ہم کرسپر ٹیکنالوجی تک آپہنچے۔

پاکستانی ترقی کے لیے دو اہم ماڈل

پاکستان انوویشن فاؤنڈیشن کے روحِ رواں اور سائنس پالیسی کے ماہر ڈاکٹر اطہراُسامہ نے خودکفالت، مقامی وسائل اور صنعتی ترقی پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہمیں ٹیکنالوجی کے آلات اور بہتر مصنوعات مقامی سطح پر تیار کرنا چاہیئیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک امریکی کمپنی وال مارٹ چین سے جتنی اشیا خریدتی ہے وہ چین میں 50 لاکھ افراد کو روزگار فراہم کرنے میں مدد دے رہی ہیں۔ دوسری جانب انہوں نے بھارت کی مثال دی کہ 2005 میں انہوں نے ایک مطالعہ (اسٹڈی) کیا تو معلوم ہوا کہ بھارت کی اس وقت 19 ارب ڈالر سافٹ ویئر برآمدات کی پشت پر مشکل سے 8 لاکھ ڈویلپر تھے۔ پاکستان کو ان دونوں ماڈلوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

جینیاتی انجنیئرنگ کے مواقع اور مشکلات

اس کے بعد سینٹر فار اکنامک ریسرچ پاکستان (سی ای آرپی) کے سربراہ معروف سید نے ملک میں بایو انجینیئرنگ میں حائل مشکلات اور ممکنہ مواقع پر گفتگو کی۔ انہوں ںے ملک میں موسمیاتی تبدیلیوں کے زراعت اور مجموعی قومی پیداوار پر منفی اثرات کا جائزہ بھی لیا۔ تاہم جینیاتی انجینیئرنگ سے نہ صرف موسمیاتی شدت کو جھیلنے والی فصلیں اور اجناس بنائی جاسکتی ہیں بلکہ ان میں پروٹین اور دیگر ضروری اجزا بھی شامل کئے جاسکتے ہیں۔

بیماریوں کی سالماتی تشخیص

پہلے تکنیکی سیشن میں سالماتی (مالیکیولر) سطح پر امراض کی تشخیص پر گفتگو کرتے ہوئے آغا خان یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر زہرہ حسن نے کہا کہ جینیاتی علوم سے مرض کی شناخت اور علاج کی نئی راہیں ہموار ہوئی ہیں۔ انہوں نے کووڈ 19 وائرس کی وبا کے تناظر میں بنائی جانے والی ویکسین کا ذکر بھی کیا۔

اس کے بعد لاہوریونیورسٹی آف مینجنمنٹ سائنس (لمز) سے وابستہ ڈاکٹر شہپرمرزا نے عوامی صحت میں خردحیاتیات (مائیکروبائیلوجی) کے اہم تعلق پر اپنی تحقیق پیش کی۔

کمپیوٹنگ، اے آئی اور دوا سازی

فاسٹ یونیورسٹی کی کمپیوٹر سائنس لیبارٹری سے وابستہ ڈاکٹر حماد نوید نے ادویات سازی میں مصنوعی ذہانت اور ڈیٹا پر اپنی تحقیق پیش کی۔ انہوں نے بتایا کہ طبی تصاویر، نمونوں (سیمپل) اورمصنوعی ذہانت (اے آئی) کی بدولت بیماریوں کی تشخیص میں بہت مدد مل رہی ہے۔ دوسری جانب ڈیٹا اس ضمن میں ہمارے لیے بہت مددگار ثابت ہوا ہے۔ یہاں تک کہ اے آئی اور کمپیوٹیشنل ٹیکنالوجی سے نئے مالیکیول، مرکبات اور پروٹین فولڈنگ کے عمل کو سمجھا جارہا ہے۔

انہوں ںے بتایا کہ پاکستان میں بریسٹ کینسر تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کی تشخیص میں اے آئی کی مدد لی جاسکتی ہے جس پر انہوں نے پاکستان میں قابلِ قدر کام بھی کیا ہے۔

دوسرے ٹیکنکل سیشن سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے ممتاز سائنسداں ڈاکٹر پرویز ہودبھائے نے کہا کہ ڈی این اے کے چار سالمات یعنی اے ، جی ، ٹی ، سی کو بطور بائنری اعداد یعنی زیرو اور ون کی بنا پر پرکھ کر ہم ڈی این اے کمپیٹونگ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے ملک میں اعلیٰ تعلیم میں حائل مشکلات اور رکاوٹوں کا بھی ذکر کیا۔

اس کے بعد آغا خان یونیورسٹی میں فیکلٹی آف آرٹس اور سائنس کے ڈین ڈاکٹر اسٹیفن لائن نے کہا ہے کہ تحقیقی اداروں کو اپنی مصنوعات کے ساتھ مارکیٹ اور اس کے تقاضوں کو بھی مدِ نظر رکھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ سائنس آپ کے مسائل ایک حد تک حل کرسکتی ہے لیکن اس کے بہترین حل کے لیے سائنسی طریقہ کار، سماجیات اور اس کے نتائج کا بغور مطالعہ بھی ضروری ہے۔

ڈجیٹل جیاتیات اور ہمارا پرانا نصاب

سوات میں واقع یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں 'درست ترین ادویاتی تجربہ گاہ' کے سربراہ ڈاکٹر فیصل خان نے کہا کہ ڈی این اے کی تفصیلات کو اب ٹیکسٹ فائل کی طرح ایڈٹ، کاپی اور پیسٹ کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے بایوانجینیئرنگ کی عملی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بڑے پیمانے پر انسولین بنانے کے لیے ماضی میں خنزیروں کے لبلبے سے انسولین کشید کی جاتی تھی اور اب یہی کام ایسے بیکٹیریا کررہے ہیں جنہیں جینیاتی عمل سے گزارا گیا ہے۔

انہوں نے اعلیٰ تعلیمی کمیشن (ایچ ای سی) پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ بالخصوص حیاتیاتی علوم کے نصاب پر نظرثانی کرے جو درحقیقت کئی عشروں پرانا ہے۔ ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ وہ دن دور نہیں جب حیاتیاتی الیکٹرانکس کا رواج ہوگا۔ انہوں نے اپنے ادارے کی جانب سے کی گئی تحقیق اور طلبا و طالبات میں اس کی آگہی پر بھی گفتگو کی۔

تعلیم میں نئے طریقہ کار کی ضرورت

خواتین یونیورسٹی ، صوابی سے وابستہ ڈاکٹر امِ کلثوم آفریدی نے اپنے پریزنٹیشن میں کہا ہے کہ طلبا وطالبات کے لیے تدریس کے ایسے نئے طریقہ کار متعارف کرنے کی ضرورت ہے جس میں طلبا و طالبات خود بھی حصہ لے سکیں۔ انہوں ںے وومن یونیورسٹی، صوابی میں کئے گئے ایسے ہی اقدامات کا بھی ذکر کیا۔

پاکستان میں برقی چپ سازی کے امکانات

یوآئی ٹی یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر شعیب زیدی نے خوش آئند خبر دی کہ یوآئی ٹی یو کے طلبا و طالبات نے صرف چند برس میں ہی 'اوپن سورس الیکٹرونک چِپ ڈیزائننگ کے دو مقابلے جیتے اوراس کے بعد جامعہ میں ' گوگل سمر آف کوڈ' کا مقابلہ منعقد کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان خود اپنی سرزمین پر الیکٹرانک آئی سی یا چپ نہیں بناسکتا تو ہمیں کوشش کرنی چاہیئیں کہ ہم بہترین چپ ڈیزائن کرسکیں کیونکہ معاہدے کی رو سے چپ سازی کے منافع میں سے خطیر حصہ یعنی 51 فیصد چپ ڈیزائن کرنے والے ماہرین کو دیا جاتا ہے۔

جامعات اور ٹیکنالوجی سازی

لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنس (لمز) کے ماہرِ طبیعیات، خوارزمی سائنس سوسائٹی سے وابستہ ممتاز ماہر ڈاکٹر صبیح انور نے اپنے پرجوش خطبے میں کہا کہ لمز میں ریاضی کے طالبعلم کو حیاتیات کے چند کورس لازمی پڑھنا ہوتے ہیں۔ اس طرح کثیرالموضوعاتی (ملٹی ڈسپلنری) طریقہ تعلیم کو فروغ دیا گیا ہے۔

اسہ طرح کمپیوٹیشنل اور سسٹم بائیلوجی کی تدریس بھی جاری ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ سائنس کا شعور ہر خاص عام تک پہنچانا ہوگا۔ مدارس کے طلبا و طالبات کا کیا قصور ہے کہ انہیں سائنس سے دور رکھا جائے؟ انہوں نے ملک میں تین کروڑ بچوں کر تشویش کا اظہار کیا جو کسی طرح کے اسکول اور مدراس میں نہیں جارہے اور اتنی بڑی آبادی علم سے لاتعلق ہے۔

انہوں نے لمز کے زیرِ اہتمام سائنسی آلات سازی کی ایک تجربہ گاہ کا ذکر کیا ہے جہاں ہرسطح کے ضروری سائنسی آلات مقامی طور پر تیار کئے گئے ہیں۔ ان میں مارخور نامی تھری ڈی پرنٹر بھی ہے جس کی قیمت صرف 15000 روپے ہے۔

اس کے بعد محمد علی جناح یونیورسٹی کے ڈاکٹر محمد کامران عظیم نے ڈی این اے سیکوینسنگ اور اس کے استعمالات پر تفصیلی گفتگو کیا۔ بعد ازاں ملک میں بایو انجینیئرنگ کے فروغ اور مواقع پر ایک تیسرا سیشن بھی منعقد کیا گیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں