افواج پاکستان اور عوام میں محبت کا اٹوٹ رشتہ

سپہ سالار سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ دشمن عوام اور مسلح افواج کے درمیان دراڑ ڈالنے کی سازشوں میں سرگرم ہے

سپہ سالار سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ دشمن عوام اور مسلح افواج کے درمیان دراڑ ڈالنے کی سازشوں میں سرگرم ہے۔ فوٹو: فائل

پاک فوج کے سپہ سالار سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ دشمن عوام اور مسلح افواج کے درمیان دراڑ ڈالنے کی سازشوں میں سرگرم ہے، ظاہری و چھپے دشمن کو پہچاننا، حقیقت اور ابہام میں واضح فرق رکھنا ہوگا۔

دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کی ملک میں کوئی جگہ نہیں، مسئلہ کشمیر کے منصفانہ اور پرامن حل کے بغیر علاقائی امن مبہم رہے گا، افغانستان میں استحکام ہماری سلامتی کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے پی ایم اے کاکول میں پاسنگ آؤٹ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

بلاشبہ سپہ سالار پاک فوج نے جن صائب خیالات کا اظہار کیا ہے، وہ مدلل، واضح ، دوٹوک ، مدبرانہ سوچ اور فہم و فراست کے حامل ہیں۔

درحقیقت اپنا آج ملک و قوم کے کل کے لیے قربان کرنے والے پاک فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے افسراور اہلکار پوری قوم کے ہیرو ہیں اور قوم کو شہداء کی لازوال قربانیوں پر ناز ہے،بلکہ دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جانے والے تمام سویلین بھی پاکستان کے ہیرو ہیں، ان تمام شہداء کی عظیم قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے لازوال قربانیاں دے کر اقوام عالم میں ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔

دوران خطاب سپہ سالار سید عاصم منیر نے مزید کہا کہ عوام اور فوج کے باہمی رشتے کو قائم و دائم رکھا جائے گا۔ بلاشبہ افواج پاکستان سے محبت دراصل پاکستان سے محبت ہے اور چونکہ پاکستان اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بہت بڑی نعمت ہے، اس لیے اس کی سرحدوں کی حفاظت صرف پیشہ ورانہ تقاضا ہی نہیں بلکہ دینی اور قومی فریضہ بھی ہے۔

پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے جاگنا، نقل و حرکت کرنا اور تربیت حاصل کرنا ایسے افعال عبادت میں شمار ہوتے ہیں۔ جب بھی ملک پر کوئی قدرتی آفت آتی ہے خواہ وہ زلزلے کی شکل میں ہو یا شدید طوفانی بارشیں یا سیلاب ہو، افواجِ پاکستان کے جوان اور افسران عوام کی مدد کو آتے ہیں اور ان کی جان و مال کی حفاظت کرتے ہیں ۔ ملک کے مختلف علاقوں میں امن و امان کی بحالی، بھتہ خوروں، دہشت گردوں اور دیگر ملک دشمن عناصر سے نمٹنے کے لیے افواج پاکستان ملک کے دیگر سول اداروں کے ساتھ مل کر شاندار خدمات سر انجام دے رہی ہیں ۔

پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے افسروں اور اہلکاروں نے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ مافیا کے خلاف اہم ترین کردار ادا کیا ہے اور یہ کردار دہشت گردوں کے سہولت کاروں، ہنڈلرز اور فنانسر کی آنکھوں میں خار بن کر کھٹک رہا ہے۔

افواج پاکستان اپنے ملک کے علاوہ دُنیا کے متعدد ممالک میں امن کے قیام کے لیے بھی شاندار خدمات سر انجام دے چکی ہیں اور اب بھی دے رہی ہیں۔ بوسنیا کے عوام افواج پاکستان کی خدمات کو کبھی بھی نہیں بھول سکتے۔

سری لنکا میں دہشت گردی کا خاتمہ اس لیے ممکن ہوا کہ سری لنکن افواج نے پاک فوج سے تربیت حاصل کی تھی جس نے سری لنکن افواج کو دہشت گردوں کی بیخ کنی کے قابل بنایا۔

پاکستانی افواج کے تربیتی اداروں میں اس وقت دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے کیڈٹ اور افسران زیرِ تربیت ہیں اور ہزاروں ایسے ہیں جو تربیت پاکر اپنے وطن میں شاندار خدمات انجام دے رہے ہیں۔

یہ کیڈٹ پاکستانی افواج کی اعلیٰ پیشہ ورانہ مہارت، قابلیت، صلاحیت، ہمت اور جوانمردی کے کھلے دل سے معترف ہیں اور انھیں اس بات پر فخر ہے کہ وہ پاکستانی افواج سے تربیت حاصل کر رہے ہیں۔اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ دہشت گرد اور ان کے سہولت کار پاک دھرتی کا ناسور ہیں تاہم پاکستان کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے سب نے مل کر اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہے جب کہ پاکستان کی بہادر مسلح افواج ہر قسم کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔


پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی کی فورسز کی کارکردگی مزید بہتر بنانے کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ تدارک دہشت گردی کے ادارے نہ تو اچھی طرح سے مسلح ہیں اور نہ ہی جدید تربیت یافتہ ہیں، خصوصاً خیبر پختونخوا میں صوبائی سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی زیادہ بہتر نہیں ہے ۔ یہاں پولیس کی ٹریننگ کا معیار انتہائی پست ہے،خصوصاً انسداد دہشت گردی فورس کی ٹریننگ و ایجوکیشن کا معیار انتہائی ناقص ہے۔

فورسز کے جوان دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے سے گھبراتے ہیں،جدید اسلحہ اور ٹریننگ ساتھ ساتھ فورسز کے جوانوں کو ذہنی طور پر مضبوط ہونا انتہائی ضروری ہے، اگرفورسزکے جوان ذہنی کمزوری، ذہنی خلفشارکا شکار ہوں تو انھیں جتنی مرضی تنخواہ دے دیں،جدید ترین اسلحہ سے لیس کردیںاورجدید سے جدید ٹریننگ دے دیں، وہ کبھی دہشت گردوں سے لڑ سکتے ہیں اور نہ ایک پروفیشنل فورس میں ڈھل سکتے ہیں۔

دہشت گردانہ حملے اس وجہ سے بھی بڑھ گئے ہیں کہ افغان طالبان، پاکستانی طالبان کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں اور انھوں نے ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے بھی سخت موقف اپنایا ہوا ہے۔

پاکستان کو باڑ لگانے کا عمل مکمل کرنا چاہیے، اس سے دہشت گردی کی روک تھام بھی ہوگی اور افغانستان کے عوام کو فائدہ بھی ہوگا ۔ شمال مغربی سرحدوں پر نگرانی کا عمل کمزور ہونے کی وجہ سے بھی پاکستان کے لیے مسائل پیدا ہوئے اور ابھی ہورہے ہیں۔پاکستان کے شمال مغربی علاقے آئینی و قانونی ضابطوں کی وجہ سے ریاست کے سویلین اداروں کی رٹ سے باہر رہے ہیں،اس لیے ان علاقوں میں سماجی ارتقاء کا عمل رکا ہوا ہے۔

ان علاقوں کے مراعات یافتہ طبقے اپنے علاقوں میں خود قانون سے بالاتر ہیں جب کہ غریبوں پراپنی مرضی کا قانون نافذ کرتے ہیں،اب چونکہ فاٹا ریاستی قوانین کے تحت آگیا ہے تو طاقت ور طبقے اپنے اوپر قانون نافذ ہونے کے ظلم و زیادتی سمجھتے ہیں۔ ان علاقوں میں پولیس اور پیرا ملٹری فورس پر حملوں سے دہشت گردوں، علیحدگی پسندوں اور انتہا پسندوں کو با آسانی کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔

پاکستان میں پولیس فورس سیکیورٹی برقرار رکھنے کے حوالے سے شدید تنقید کا موضوع رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پولیس تدارک دہشت گردی اور انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حالیہ فیصلے پرانے وعدوں کو تازہ کرتے ہیں اور مختلف نتائج کی امید میں ماضی کے طریقوں کو نئے پیرائے میں بیان کرتے ہیں۔

کسی نئی ادارہ جاتی ترمیم یا قانونی فریم ورک کو اختیار نہیں کیا گیا اور نہ ہی عمل میں نہیں لایا گیا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔ تاہم مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو معلومات (اِن پُٹ) کی کمی کا سامنا ہے۔پاکستان کو تدارکِ دہشت گردی کے لیے شمال مغرب کے پاکستانی علاقوں میں سول اداروں کی رٹ قائم کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں اور فنانسرز کے خلاف کارروائی کرنا ضروری ہے۔

یہ کام اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک پاک افغان سرحد اور پاک ایران سرحدکو فول پروف نہیں بنایا جاتا۔اس طرح پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں میں آسانی و تیزی آئے گی اور اہداف بھی سو فیصد تک حاصل ہوں گے۔ دہشت گردوں، علیحدگی پسندوں، کالعدم تنظیموں اور جرائم پیشہ عناصر کے درمیان گٹھ جوڑ کو توڑنا تدارکِ دہشت گردی کا ایجنڈا ہے۔

اگر حالیہ دہشت گردی کی سرگرمیوں کے جواب میں ماضی جیسی حکمت عملی استعمال کی گئی تو اس پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ نیکٹا کا مقصد جامع پالیسی نقطہ نظر اور اسٹرٹیجک مواصلات کے ذریعے پیش بندی کر کے دہشت گردی کی بنیادی وجوہات کو ختم کرنا ہے۔ دہشت گردوں کو پاکستان کی سماجی، معاشی اور سیاسی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے سے روکنے کے لیے پیشگی وارننگ میکانزم تیار کرنے اور معقول ادارہ جاتی ہم آہنگی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

دہشت گردوں اور مجرموں کے درمیان فرق کرنا ایک ایسا پہلو ہے جسے انسدادِ دہشت گردی کی پالیسیوں کے نفاذ کے طریقہ کار کو وضع کرنے میں مسلسل نظر انداز کیا جاتا ہے۔ گھناؤنے جرائم اور فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث ملزمان، دہشت گرد سرگرمیوں کے باعث گرفتار مجرموں سے مختلف ہوتے ہیں، لیکن انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی دفعات، جو دہشت گردوں کو سزا دینے سے متعلق ہے۔

اکثر غیر دہشت گرد مجرموں کے لیے بھی استعمال کی جاتی رہی ہے۔ اس طرح کے اقدامات کے خلاف قانونی کارروائیوں میں اس سے نہ صرف عدالتی کار گزاری پر بوجھ بڑھ جاتا ہے، بلکہ ریاستی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی ایسی تحقیقات کے طوفان کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کا نتیجہ اکثر شواہد کی عدم دستیابی کی وجہ سے بریت میں نکلتا ہے یا پھر وہ انسدادِ دہشت گردی کی حکمت عملیوں کی حقیقی کامیابی پر اجارہ داری قائم کر لیتی ہیں۔ آج وطنِ عزیز چاروں اطراف سے خطرات میں گھرا ہوا ہے، وطنِ عزیز کے پڑوس میں انتہا پسند قیادت کے برسرِ اقتدار آنے سے خطرات میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔

دہشت گردی اور بھتہ خوری کی لعنت نے پاکستانی معیشت کی کمر توڑ دی ہے، سرمایہ کار پاکستان آنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ پاکستان بہترین انسانی اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود قرضوں کے جال میں پھنسا ہوا ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پوری قوم یکسو اور یک جان ہو کر پاک افواج کے ساتھ کھڑی ہو۔
Load Next Story