بلاول بھٹو کا بھارت جانا مناسب نہیں
بلاول بھٹو کے خلاف کئی بھارتی شہروں کی دیواروں پر پوسٹرز بھی چسپاں کیے گئے ہیں
اِس مئی میں پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے چند اہم ترین معاملات وقوع پذیر ہونے والے ہیں۔ رواں مئی کے آخری ایام کے دوران بھارت ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مقبوضہ کشمیر کے گرمائی دارالحکومت، سری نگر، میں جی20عالمی کانفرنس منعقد کرنے جا رہا ہے۔
اِسی مئی کے پہلے ہفتے پاکستان کے نوجوان وزیر خارجہ، جناب بلاول بھٹو زرداری،بھارت میں منعقد ہونے والی SCO ( شنگھائی تعاون تنظیم) کے وزرائے خارجہ کانفرنس میں شرکت کے لیے بھارت جا رہے ہیں۔ یہ کانفرنس 4 اور 5 مئی 2023کو بھارت کی مغربی ساحلی ریاست، گوا، میں ہو رہی ہے۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ، ممتاز زہرہ بلوچ، نے گزشتہ روز اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں اِس امر کی تصدیق کی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اپنے وفد کے ساتھ گوا (بھارت)جا رہے ہیں۔ بلاول بھٹو نے بھی کہا ہے کہ ''مَیں 4مئی کو بھارت پہنچوں گا اور گزشتہ روز واپس وطن آ جاؤں گا۔''
پاکستانSCO ایسی عالمی تنظیم ، جس کے 5ارکان ہیں،کا ایک ممتاز رکن ہے ۔اِس بار اِس عالمی تنظیم کانفرنس کے انعقاد کی ذمے داری بھارت کے ذمے ہے کہ SCOکے وزرائے خارجہ (CFM) کے چیئرمین بھارتی وزیر خارجہ، ڈاکٹرایس جے شنکر، ہیں۔ پاکستان اور بلاول بھٹو زرداری کو اِس کانفرنس میں شرکت کی دعوت اسلام آباد میں بروئے کار بھارتی ہائی کمیشن کے وساطت سے دی گئی ۔
ممتاز زہرہ بلوچ صاحبہ کا کہنا تھا کہ ''پاکستان کے وزیر خارجہ اِس کانفرنس میں شرکت کرنے جائیں گے کہ پاکستان SCOکا ایک ذمے دار رکن بھی ہے اور پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کے چارٹر اور پروسیس کو دل سے قبول بھی کرتا ہے ۔''یوں جناب بلاول بھٹو زرداری پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ ہوں گے جو12برس کے طویل عرصے بعد بھارت جا رہے ہیں ؛ چنانچہ اُن کی یہ شرکت بھارتی میڈیا کا مرکزِ نگاہ بن چکی ہے ۔ اُن کی بھارت یاترا پر بحثیں ہو رہی ہیں ۔
بلاول بھٹو سے تقریباً 11برس قبل محترمہ حنا ربانی کھر وہ آخری پاکستانی وزیر خارجہ تھیں جو بھارتی دَورے پر گئی تھیں ۔ تقریباً9سال قبل جب نریندر مودی پہلی بار بھارتی وزیر اعظم کا حلف اُٹھا رہے تھے، تب جناب نواز شریف پاکستانی وزیر اعظم کی حیثیت میں ، مودی کی خاص الخاص دعوت پر، دہلی پہنچے تھے۔
بلاول بھٹو زرداری صاحب اپنے چنیدہ وفد کے ساتھ ایسے ایام میں بھارت جا رہے ہیں جب پاک ، بھارت تعلقات خاصے کشیدہ ہیں۔ سفارتی سطح پر پاک بھارت کی بول چال تک بند ہے۔
یوں بلاول بھٹو کی بھارت یاترا پر بیک وقت کئی سوال بھی اُٹھ رہے ہیں اور بھنویں بھی۔ خصوصی طور پر پاک بھارت تعلقات پچھلے ساڑھے تین برسوں سے زیادہ کشیدہ اور خراب ہیں۔ اگست2019 میں ( جب جناب عمران خان وزیر اعظم تھے) اچانک نریندر مودی کی بھارتی حکومت نے بھارتی آئین میں شامل مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر ڈالی۔ کشمیریوں کے خصوصی اور منفرد حقوق بھی بحقِ سرکار غصب اور ضبط کرلیے گئے۔
یہ ظالمانہ بھارتی اقدام عالمی قوانین کے منافی بھی تھا۔ غصے اور احتجاج میں پاکستان نے بھارت سے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے۔ یہ پاکستان کا اپنا فیصلہ تھا۔ سفارتی تعلقات منقطع ہُوئے تو پاک بھارت تجارت بھی ختم ہو گئی۔ عمران خان حکومت نے اِس ضمن میں فیصلہ کیا کہ (1) جب تک بھارت اگست2019 کا فیصلہ واپس نہیں لیتا، اس کے ساتھ تعلقات بحال نہیں ہوں گے(2) اسلام آباد میں ہر جمعہ کو چند منٹ کے لیے خاموش احتجاج ہُوا کرے گا (3) اسلام آباد کی کشمیر ہائی وے کا نیا نام ''سری نگر ہائی وے '' رکھ دیا گیا۔
اِس کے علاوہ عمران خان حکومت اور خان صاحب کے سرپرست دوسراکوئی ایسا فیصلہ اور اقدام نہ کر سکے جو قابلِ ذکر ہو اور جس سے بھارت کو کوئی مالی، تجارتی اور سفارتی زک پہنچائی جا سکتی ۔
ردِ عمل اور ضد میں بھارتی سفارتی رویہ بھی سخت ہو گیا۔ عمران خان صاحب نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو اُن کے کئی سفاک اقدامات کے پس منظر میں ''ہٹلر'' بھی قرار دیا، لیکن ساتھ ہی خان صاحب کی طرف سے یہ شکوہ بھی سامنے آتا رہا کہ نریندر مودی اُن کا فون نہیں سنتے۔ اِس دوران مبینہ طور پر سابق آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ ، نے بھارت سے تجارتی تعلقات بحال کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو سہی لیکن عمران خان نے بطور وزیر اعظم اِس خواہش کو عملی جامہ پہننے نہ دیا۔
دیکھا جائے تواگر عمران خان نے مودی کو ''ہٹلر'' سے موسوم کیا تو وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی کم سخت باتیں نہیں کہی ہیں ۔ وزیر خارجہ بننے کے بعد جب بلاول بھٹو یو این او کے سالانہ سلامتی کونسل اجلاس میں شرکت کرنے نیویارک گئے تو انھوں نے بھارتی وزیر اعظم کے بعض مسلم دشمن اقدامات کی اساس پر مودی کو آڑے ہاتھوں لیا۔
یو این او کی سلامتی کونسل اجلاس کے دوران جب بھارتی وزیر خارجہ ، جے شنکر، نے پاکستان پر تبرا کرتے ہُوئے یہ دریدہ دہنی کی کہ ''پاکستان دہشت گردی کا مرکز اور القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی مہمان نوازی کرتا رہا ہے '' تو بلاول بھٹو زرداری نے ترنت جواب یوں دیا:''اسامہ بن لادن مر چکا ہے لیکن گجرات کا قصائی آج انڈیا کا وزیر اعظم ہے جس پر وزیر اعظم بننے سے قبل امریکا میں داخلے پر پابندی تھی ۔''
بلاول بھٹو کے اِس (حقیقی) بیان پر بھارت آگ بگولہ ہو گیا، جب کہ پاکستان میں اُن کی تعریف و توصیف کی گئی ۔ واقعہ یہ ہے کہ بلاول بھٹو کا یہ ترنت جواب ناگزیر بھی تھا۔ اب وزیر خارجہ، بلاول بھٹو زرداری، بھارت (گوا) جانے کی تیاریاں کررہے ہیں تو بھارتی میڈیا بلاول بھٹو صاحب کا یہ بیان پھر سے شایع اور نشر کرکے بھارتی حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور عوام کو پاکستان کے خلاف مشتعل کرنے کی دانستہ کوشش کررہا ہے ۔
بلاول بھٹو کے خلاف کئی بھارتی شہروں کی دیواروں پر پوسٹرز بھی چسپاں کیے گئے ہیں۔ کیا اس کا یہ معنی اخذ کیا جائے کہ مودی کا'' گودی میڈیا'' بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر یہ شرارتیں اس لیے کررہا ہے کہ بلاول بھٹو زرداریSCOکے اجلاس میں شریک نہ ہو سکیں؟ پاکستان میں بھی کہیں نہ کہیں یہ احساس و خیال پایا جاتا ہے کہ بھارت نے ( پاکستانی مطالبے پر) اگست 2019کے بہیمانہ اقدام سے ابھی تک سرِ مُو انحراف نہیں کیا ہے۔
تو کیا اِس پس منظر میں بلاول بھٹو زرداری بھارت جا کر کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی نہیں کریں گے؟ ساتھ ہی مگر احساس اور اُمید کا یہ عنصر بھی پایا جاتا ہے کہ ممکن ہے بلاول بھٹو کی بھارت یاترا سے پاک بھارت تعلقات کشیدگی اور دشمنی میں کچھ کمی آ سکے ۔
ہمارے ہاں یہ احساس بھی کہیں نہ کہیں پایا جاتا ہے کہ اگر بلاول بھٹوSCOکانفرنس میں شرکت کے لیے بھارت نہیں جاتے تو پاکستان تنہا نہ رہ جائے ۔ بلاول بھٹو زرداری ایسے حساس ایام میں بھارت جا رہے ہیں جب مقبوضہ کشمیر کے ایک علاقے ( پونچھ ) میں چند دن پہلے ہی ایک پر اسرار واقعہ میں 5بھارتی فوجی مارے گئے ہیں۔
بھارتی فسادی میڈیا اس کا ملبہ بھی (پلوامہ سانحہ کی طرح)پاکستان پر ڈالنے کی ناکام کوشش اور سازش کررہا ہے ۔ بلاول بھٹو صاحب نے بھارتی میڈیا کی شر انگیزی کا جواب دیتے ہُوئے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ بھارت (گوا) جا تو رہے ہیں لیکن وہ نریندر مودی سے ملیں گے نہ جے شنکر سے اور نہ ہی اُن سے ملنے کی درخواست کی ہے ۔
اِسی مئی کے پہلے ہفتے پاکستان کے نوجوان وزیر خارجہ، جناب بلاول بھٹو زرداری،بھارت میں منعقد ہونے والی SCO ( شنگھائی تعاون تنظیم) کے وزرائے خارجہ کانفرنس میں شرکت کے لیے بھارت جا رہے ہیں۔ یہ کانفرنس 4 اور 5 مئی 2023کو بھارت کی مغربی ساحلی ریاست، گوا، میں ہو رہی ہے۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ، ممتاز زہرہ بلوچ، نے گزشتہ روز اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں اِس امر کی تصدیق کی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اپنے وفد کے ساتھ گوا (بھارت)جا رہے ہیں۔ بلاول بھٹو نے بھی کہا ہے کہ ''مَیں 4مئی کو بھارت پہنچوں گا اور گزشتہ روز واپس وطن آ جاؤں گا۔''
پاکستانSCO ایسی عالمی تنظیم ، جس کے 5ارکان ہیں،کا ایک ممتاز رکن ہے ۔اِس بار اِس عالمی تنظیم کانفرنس کے انعقاد کی ذمے داری بھارت کے ذمے ہے کہ SCOکے وزرائے خارجہ (CFM) کے چیئرمین بھارتی وزیر خارجہ، ڈاکٹرایس جے شنکر، ہیں۔ پاکستان اور بلاول بھٹو زرداری کو اِس کانفرنس میں شرکت کی دعوت اسلام آباد میں بروئے کار بھارتی ہائی کمیشن کے وساطت سے دی گئی ۔
ممتاز زہرہ بلوچ صاحبہ کا کہنا تھا کہ ''پاکستان کے وزیر خارجہ اِس کانفرنس میں شرکت کرنے جائیں گے کہ پاکستان SCOکا ایک ذمے دار رکن بھی ہے اور پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کے چارٹر اور پروسیس کو دل سے قبول بھی کرتا ہے ۔''یوں جناب بلاول بھٹو زرداری پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ ہوں گے جو12برس کے طویل عرصے بعد بھارت جا رہے ہیں ؛ چنانچہ اُن کی یہ شرکت بھارتی میڈیا کا مرکزِ نگاہ بن چکی ہے ۔ اُن کی بھارت یاترا پر بحثیں ہو رہی ہیں ۔
بلاول بھٹو سے تقریباً 11برس قبل محترمہ حنا ربانی کھر وہ آخری پاکستانی وزیر خارجہ تھیں جو بھارتی دَورے پر گئی تھیں ۔ تقریباً9سال قبل جب نریندر مودی پہلی بار بھارتی وزیر اعظم کا حلف اُٹھا رہے تھے، تب جناب نواز شریف پاکستانی وزیر اعظم کی حیثیت میں ، مودی کی خاص الخاص دعوت پر، دہلی پہنچے تھے۔
بلاول بھٹو زرداری صاحب اپنے چنیدہ وفد کے ساتھ ایسے ایام میں بھارت جا رہے ہیں جب پاک ، بھارت تعلقات خاصے کشیدہ ہیں۔ سفارتی سطح پر پاک بھارت کی بول چال تک بند ہے۔
یوں بلاول بھٹو کی بھارت یاترا پر بیک وقت کئی سوال بھی اُٹھ رہے ہیں اور بھنویں بھی۔ خصوصی طور پر پاک بھارت تعلقات پچھلے ساڑھے تین برسوں سے زیادہ کشیدہ اور خراب ہیں۔ اگست2019 میں ( جب جناب عمران خان وزیر اعظم تھے) اچانک نریندر مودی کی بھارتی حکومت نے بھارتی آئین میں شامل مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر ڈالی۔ کشمیریوں کے خصوصی اور منفرد حقوق بھی بحقِ سرکار غصب اور ضبط کرلیے گئے۔
یہ ظالمانہ بھارتی اقدام عالمی قوانین کے منافی بھی تھا۔ غصے اور احتجاج میں پاکستان نے بھارت سے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے۔ یہ پاکستان کا اپنا فیصلہ تھا۔ سفارتی تعلقات منقطع ہُوئے تو پاک بھارت تجارت بھی ختم ہو گئی۔ عمران خان حکومت نے اِس ضمن میں فیصلہ کیا کہ (1) جب تک بھارت اگست2019 کا فیصلہ واپس نہیں لیتا، اس کے ساتھ تعلقات بحال نہیں ہوں گے(2) اسلام آباد میں ہر جمعہ کو چند منٹ کے لیے خاموش احتجاج ہُوا کرے گا (3) اسلام آباد کی کشمیر ہائی وے کا نیا نام ''سری نگر ہائی وے '' رکھ دیا گیا۔
اِس کے علاوہ عمران خان حکومت اور خان صاحب کے سرپرست دوسراکوئی ایسا فیصلہ اور اقدام نہ کر سکے جو قابلِ ذکر ہو اور جس سے بھارت کو کوئی مالی، تجارتی اور سفارتی زک پہنچائی جا سکتی ۔
ردِ عمل اور ضد میں بھارتی سفارتی رویہ بھی سخت ہو گیا۔ عمران خان صاحب نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو اُن کے کئی سفاک اقدامات کے پس منظر میں ''ہٹلر'' بھی قرار دیا، لیکن ساتھ ہی خان صاحب کی طرف سے یہ شکوہ بھی سامنے آتا رہا کہ نریندر مودی اُن کا فون نہیں سنتے۔ اِس دوران مبینہ طور پر سابق آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ ، نے بھارت سے تجارتی تعلقات بحال کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو سہی لیکن عمران خان نے بطور وزیر اعظم اِس خواہش کو عملی جامہ پہننے نہ دیا۔
دیکھا جائے تواگر عمران خان نے مودی کو ''ہٹلر'' سے موسوم کیا تو وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی کم سخت باتیں نہیں کہی ہیں ۔ وزیر خارجہ بننے کے بعد جب بلاول بھٹو یو این او کے سالانہ سلامتی کونسل اجلاس میں شرکت کرنے نیویارک گئے تو انھوں نے بھارتی وزیر اعظم کے بعض مسلم دشمن اقدامات کی اساس پر مودی کو آڑے ہاتھوں لیا۔
یو این او کی سلامتی کونسل اجلاس کے دوران جب بھارتی وزیر خارجہ ، جے شنکر، نے پاکستان پر تبرا کرتے ہُوئے یہ دریدہ دہنی کی کہ ''پاکستان دہشت گردی کا مرکز اور القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی مہمان نوازی کرتا رہا ہے '' تو بلاول بھٹو زرداری نے ترنت جواب یوں دیا:''اسامہ بن لادن مر چکا ہے لیکن گجرات کا قصائی آج انڈیا کا وزیر اعظم ہے جس پر وزیر اعظم بننے سے قبل امریکا میں داخلے پر پابندی تھی ۔''
بلاول بھٹو کے اِس (حقیقی) بیان پر بھارت آگ بگولہ ہو گیا، جب کہ پاکستان میں اُن کی تعریف و توصیف کی گئی ۔ واقعہ یہ ہے کہ بلاول بھٹو کا یہ ترنت جواب ناگزیر بھی تھا۔ اب وزیر خارجہ، بلاول بھٹو زرداری، بھارت (گوا) جانے کی تیاریاں کررہے ہیں تو بھارتی میڈیا بلاول بھٹو صاحب کا یہ بیان پھر سے شایع اور نشر کرکے بھارتی حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور عوام کو پاکستان کے خلاف مشتعل کرنے کی دانستہ کوشش کررہا ہے ۔
بلاول بھٹو کے خلاف کئی بھارتی شہروں کی دیواروں پر پوسٹرز بھی چسپاں کیے گئے ہیں۔ کیا اس کا یہ معنی اخذ کیا جائے کہ مودی کا'' گودی میڈیا'' بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر یہ شرارتیں اس لیے کررہا ہے کہ بلاول بھٹو زرداریSCOکے اجلاس میں شریک نہ ہو سکیں؟ پاکستان میں بھی کہیں نہ کہیں یہ احساس و خیال پایا جاتا ہے کہ بھارت نے ( پاکستانی مطالبے پر) اگست 2019کے بہیمانہ اقدام سے ابھی تک سرِ مُو انحراف نہیں کیا ہے۔
تو کیا اِس پس منظر میں بلاول بھٹو زرداری بھارت جا کر کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی نہیں کریں گے؟ ساتھ ہی مگر احساس اور اُمید کا یہ عنصر بھی پایا جاتا ہے کہ ممکن ہے بلاول بھٹو کی بھارت یاترا سے پاک بھارت تعلقات کشیدگی اور دشمنی میں کچھ کمی آ سکے ۔
ہمارے ہاں یہ احساس بھی کہیں نہ کہیں پایا جاتا ہے کہ اگر بلاول بھٹوSCOکانفرنس میں شرکت کے لیے بھارت نہیں جاتے تو پاکستان تنہا نہ رہ جائے ۔ بلاول بھٹو زرداری ایسے حساس ایام میں بھارت جا رہے ہیں جب مقبوضہ کشمیر کے ایک علاقے ( پونچھ ) میں چند دن پہلے ہی ایک پر اسرار واقعہ میں 5بھارتی فوجی مارے گئے ہیں۔
بھارتی فسادی میڈیا اس کا ملبہ بھی (پلوامہ سانحہ کی طرح)پاکستان پر ڈالنے کی ناکام کوشش اور سازش کررہا ہے ۔ بلاول بھٹو صاحب نے بھارتی میڈیا کی شر انگیزی کا جواب دیتے ہُوئے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ بھارت (گوا) جا تو رہے ہیں لیکن وہ نریندر مودی سے ملیں گے نہ جے شنکر سے اور نہ ہی اُن سے ملنے کی درخواست کی ہے ۔