ورلڈ لیبر ڈے مزدور کو ریاست سیاست اور معیشت میں شناخت دینا ہوگی
حکومت و مزدور نمائندوں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال
یکم مئی کو دنیا بھر میں مزدوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
ا س اہم دن کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور مزدور رہنماؤں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔
اسد اللہ فیض
(سیکرٹری محکمہ لیبر پنجاب)
'آئی ایل او '، اقوام متحدہ کا سب سے پرانا ادارہ ہے جس کے 190کنونشنز ہیں جن میں سے 36 کنونشنز کی پاکستان نے توثیق کر رکھی ہے۔ مزدوروں کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے سب سے پہلے شکاگو کے مزدوروں نے جدوجہد کی، جس میں ان پر بدترین مظالم ڈھائے گئے مگر یہ جدوجہد بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئی اور آج تک مزدوروں کے حوالے سے دنیا بھر میں جو کام ہوا ہے، اس کا کریڈٹ شکاگو کے ان مزدوروں کو ہی جاتا ہے۔
ایک بات قابل ذکر ہے کہ آج بھی انڈسٹریز ایکٹ، شاپ ایکٹ و دیگر قوانین پرانے ہی چل رہے ہیں، یہ قوانین آج بھی موثر ہیں۔ سنہ 2000ء کے بعد سے نئے معاملات نظر آتے ہیں، دنیا میں ایک لیبر و دیگر معاملات کے حوالے سے نئی چیزیں سامنے آئی۔
ورکرز کی بحالی، ان کی بہبود، کام کی جگہ کا ماحول، پیشہ وارانہ تحفظ، چائلڈ لیبر کا خاتمہ، ڈومیسٹ لیبر و ہوم بیسڈ ورکرز سمیت دیگر کے حوالے سے قانون سازی وغیرہ سے نئے باب کا آغاز ہوا ہے۔ اب دنیا ڈیجیٹلائزیشن کی جانب بڑھ رہی ہے لہٰذا سائبر سیف سپیس، فری لانسنگ، ورک فرام ہوم و دیگر معاملات کو بھی دیکھا جا رہا ہے کہ کس طرح آئی ٹی و اس سے منسلک شعبوں میں کام کرنے والوں کے حقوق کو تحفظ دیا جا سکتا ہے۔
ایک بات تو واضح ہے کہ جتنی بھی قانون سازی ہوئی ہے یا ہورہی ہے یا کی جائے گی، جتنے بھی اقدامات اٹھائے گئے ہیں یا اٹھائے جائیں گا ان سب کا مقصد مزدوروں کی 'سوشل پروٹیکشن' ہے۔کرونا وباء کے دوران یہ فیصلہ ہوا کہ سب سے کمزور طبقات کو 200 ملین دیے جائیں مگر معلوم ہوا کہ ڈیٹا ہی نہیں ہے۔
سوشل پروٹیکشن کیلئے ڈائریکٹری ہونی چاہیے جس میں تمام مزدوروں کا ریکارڈ موجود ہو۔ چائلڈ لیبر کی بات کریں تو اس میں ہمارا سکور12سے 13 فیصد ہے، 60 فیصد لیبر زرعی شعبے سے وابستہ ہے، اس میں اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ تمام بچے 'ولنرایبل' نہیں ہیں، ا ن میں سے بیشتر تو اپنے ہی والدین کے ساتھ کام کرتے ہیں، یہ ہماری روایات میں شامل ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں مزدوروں کے حوالے سے بہت کام ہوا ہے۔
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم پہ جی ایس پی پلس کی تلوار تھی، ایکسپورٹس بند ہو رہی تھی لہٰذا اچھی قانون سازی ہوئی اور اس پر عملدرآمد بھی ہوا۔ 'آئی ایل او ' کے ساتھ اصلاحات پر جتنا بھی کام ہوا وہ سہ فریقی ہوا ہے۔ میرے نزدیک سب سے اہم چیز ڈیٹا ہے، ہمارے پاس مزدوروں کا ریئل ٹائم ڈیٹا ہونا چاہیے۔
ورکرز خود کو رجسٹر نہیں کرواتے ، ہم اس پر توجہ دے رہے ہیں۔ ہم پریوینشن اینڈ پروٹیکشن سٹرٹیجی پر کام کر رہے ہیں، ایسی جامع پالیسی بنائی جا رہی ہے جس سے مزدوروں کی فلاح و بہبود ہوسکے۔اس وقت مزدوروں کے بچوں کو ٹیلنٹ سکالرشپ، ڈیتھ گرانٹ، شادی گرانٹ و غیرہ دی جا رہی ہے۔
14 ہزار کے قریب بچوں کو سکالر شپ دی گئی ہے، 1.5 بلین کی ڈیتھ گرانٹ دی گئی، التوا کا شکار کیسز کو بھی نمٹا دیا گیا ہے۔آن لائن ادائیگی کے نظام سے مزدوروں کو سہولت ملے گی، ای اوبی آئی اور پیسی کارڈ ہولڈرز کو آن لائن سسٹم سے لنک کیا جائے گا۔ اسی طرح فیئر پرائس شاپس جو فیکٹریوں میں موجود ہیں، وہاں بھی ورکرز کی سہولت یقینی بنائی جارہی ہے۔
ہمارے ورکرز ویلفیئر فنڈ کا 10 بلین وفاق کے پاس ہے، وہ مل جائے تو بہت بہتری ہوسکتی ہے۔ پنجاب نے لیبر کے حوالے سے اپنا قانون بنا لیا ہے، اس کے رولز فائنل ہوچکے ہیں، جلد منظوری کیلئے پیش کیا جائے گا۔ اس وقت اہم یہ ہے کہ مالک اور مزدور، دونوں حالات کی وجہ سے اکٹھے ہوگئے ہیں، امید ہے معاملات میں ضرور بہتری آئے گی۔
آئمہ محمود
(صدر ورکنگ ویمن آرگنائزیشن جنر ل سیکرٹری آل پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن)
پاکستان میں 7 کروڑ 69 لاکھ ورکرز ہیں۔ اس لیبر فورس میں خواتین کی شمولیت تقریباََ 25 فیصد ہے اور ان کی شمولیت کے حوالے سے دنیا میں ہمارا نمبر 144 واں ہے۔
10 فیصد خواتین ہوم بیسڈ ورکرز کے طور پر کام کر رہیں ہے۔ افسوس ہے کہ ہماری انڈسٹری سکڑ رہی ہے، غیر رسمی شعبے کو فروغ مل رہا ہے جو الارمنگ ہے۔ اس وقت 3 فیصد مزدور ٹریڈ یونینز کی صورت میں منظم ہیں جبکہ باقی اپنے اس بنیادی حق سے بھی محروم ہیں لہٰذا مزدوروں کیلئے تنظیم سازی کے حق کو آسان بنایا جائے۔ مزدوروں کی بحالی کیلئے ورکرز ویلفیئر فنڈ موجود ہے، انہیں سوشل سکیورٹی بھی دی گئی ہے۔
اس وقت پنجاب میں 11لاکھ مزدور سوشل سکیورٹی میں رجسٹرڈ ہیں جن میں سے صرف 6 لاکھ کے پاس کارڈ ہیں۔ مالک فارم نہیں دیتا جس کی وجہ سے مزدور اپنے حقوق سے محروم ہے، اگر ادارہ اس حوالے سے کام کرے تو بہتری لائی جاسکتی ہے۔ گزشتہ حکومت نے مزدور کارڈ جاری کیا، موجودہ حکومت نے اسے روک دیا،سیاسی معاملات کا شکار مزدور ہو رہا ہے جو افسوسناک ہے۔
پنجاب نے مزدور کی کم از کم تنخواہ 32 ہزار کرنے کا اعلان کیا، مزدور کو سرکاری مقرر کردہ کم از کم تنخواہ بھی نہیں ملتی، اگر مزدور کو اس کی اجرت بذریعہ بینک ملے تو فائدہ ہوسکتا ہے۔گزشتہ حکومت نے سیلف اسسیسمنٹ سکیم دی کہ فیکٹری مالکان خود رضاکارانہ طور پر اپنے ورکرز کی رجسٹریشن کروائیں، اس کا نقصان یہ ہوا کہ اگر فیکٹری میں ایک ہزار ملازمین ہیں تو صرف 300 بتا کر حکومت سے دھوکا کیا جاتا ہے، یہاں مانیٹرنگ کا مسئلہ ہے، جسے حل کرنا ہوگا۔
افسوس ہے کہ جہاں مالک کا فائدہ ہے، اس پر کام ہورہا ہے لیکن جہاں مزدور کا فائدہ ہونا ہوتا ہے وہاں خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ پہلے کسی بھی کام کی جگہ پر 5 یا اس سے زیادہ ورکرز پر سوشل سکیورٹی لازمی ہوتی تھی، اب اسے کم از کم 10 ورکرز کر دیا گیا ہے، جس سے لاکھوں مزدور علاج معالجے جیسی سہولت سے محروم ہوگئے ہیں۔صرف فیصل آباد میں متاثرین کی تعداد 6 لاکھ ہے۔
ملکی سیاسی، معاشی مسائل کی وجہ سے انڈسٹری بند ہورہی ہے، صورتحال بہت خراب ہے۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ ورکرز اور تمام سٹیک ہولڈرز پر مشتمل سہہ فریقی کانفرنس بلائی جائے۔ یہ ہمارا حق ہے اور حکومت اس کی پابند ہے، مگر کئی برسوں سے یہ کانفرنس نہیں ہوئی، مزدور کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے مزدوروں کا نعرہ یہ بن گیا ہے' 'انڈسٹری بچاؤ۔۔۔ مزدور بچاؤ''۔ پاکستان زرعی ملک ہے اور یہاں کی 44فیصد لیبر اسی شعبے سے وابستہ ہے مگر ان پر لیبر لاء کا اطلاق نہیں ہوتا، زرعی ملک میں آٹا نہیں مل رہا، افسوس ہے کہ مزدور آٹے کی لائنوں میں زندگی گنوا رہے ہیں۔
اس حوالے سے میری تجویز یہ ہے کہ فیکٹریوں میں جو فیئر پرائس شاپس قائم ہیں وہاں پر سستا آٹا فراہم کیا جائے، اس طرح مزدور کی عزت برقرار رہے گی اور اسے سہولت بھی ملے گی۔
مہنگائی اور موجودہ حالات کے پیش نظر مزدوروں، مالکان اور لیبر ڈیپارٹمنٹ کو مل کر معاملات کا سنجیدگی سے جائزہ لینا ہوگا اور اس کی روشنی میں موثر حکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔ ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لیبر کا ڈیٹا نہیں ہے۔ لیبر میں خواتین کی شمولیت کے اعداد و شمار اسی لیے کم ہیں لہٰذا سب سے اہم یہ ہے کہ مزدوروں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جائے تاکہ ان کی فلاح و بہبود کیلئے کام کیا جاسکے۔
ہمارے ہاں آج بھی 1954ء کا فیکٹری ایکٹ چل رہا ہے، ہمیں لیبر قوانین کو 'اپ گریڈ' کرنا ہوگا۔ ہوم بیسڈ ورکرز، ڈومیسٹک ورکرز و دیگر کے حوالے قانون سازی کا جائزہ لیا جا رہا ہے، قوانین کو یکجا کیا جا رہا ہے، آئی ایل او کی ریزولوشنز کو مدنظر رکھا گیا ہے، مزدوروں کے حوالے سے بہتر قانون سازی اور ان پر صحیح معنوں میں عملدرآمد سے ان کے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں، ان کی زندگی کو بدلا جا سکتا ہے، یقینا اس کے اچھے اثرات ملکی معیشت اور حالات پر ہوں گے۔
ڈومیسٹک ورکرز کو سہولت دینے کیلئے سوشل سکیورٹی نے رولز اینڈ ریگولیشنز بنا لیے ہیں، یہ ورکرز ماہانہ 300 روپے ادارے کو دیں گے، اس کے بدلے انہیں اور ان کے خاندان کو علاج معالجے کی سہولت دی جائے گی، سوشل سکیورٹی نے محنت کشوں کو تاحیات صحت کی سہولیات دینے کا قانون بنا لیا ہے، کابینہ سے منظوری و دیگر کام باقی ہیں، یہ عمل جلد مکمل ہوجائے گا۔ ورکرز ویلفیئر بورڈ انتہائی اہم ہے، شادی گرانٹ کو 2 لاکھ سے بڑھا کر 4 لاکھ کر دیا گیا ہے جبکہ ڈیتھ گرانٹ 6 سے بڑھا کر 8 لاکھ کر دی گئی ہے، واجبات کی ادائیگی میں تاخیر کو ختم کیا جا رہا ہے۔
بشریٰ خالق
(نمائندہ سول سوسائٹی)
عالمی یوم مزدور کے موقع پر ہر اس شخص کو سلام جو محنت مزدوری کرتا ہے۔ یہ مزدوری ہاتھ سے ہو یا قلم سے، نالج بیسڈ ہو یا گھریلو ملازمت، معاشرے کی تشکیل اور تعمیرو ترقی میں ا س کا اہم کردار ہوتا ہے جو قابل ستائش ہے۔ میرے نزدیک وہ مزدور توجہ طلب ہیں جو کام زیادہ کرتے ہیں مگر خود ان کی زندگی خوشحال نہیں ہے۔ اس وقت کروڑوں مزدور بے چین ہیں جن کی عزت نفس مجروح ہو رہی ہے، ان کی اجرت اتنی نہیں ہے کہ ان کی زندگی میں خوشحالی آسکے، وہ اپنے خاندان کی کفالت بہتر انداز میں کرسکیں۔
افسوس ہے کہ مزدور کو اس کی محنت کا پھل نہیں مل رہا، اس میں نظام کی خرابیاں ہیں، ریاست کی کمزوریاں ہیں اور پھر ہمارا اپنا کردار بھی ہے، ہم نے مزدور کے استحصال کی روش اپنا لی ہے اور اسے وہ بنیادی حقوق بھی نہیں دے رہے جس کی گارنٹی آئین پاکستان دیتا ہے۔ اس سب کے باجود یہ خوش آئند ہے کہ مزدور ہمیشہ اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھاتے رہے ہیں اور آج بھی اٹھا رہے ہیں۔
وہ مزدور جو سسٹم کے خلاف اور اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پر نکلے، خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ اس کا آغاز اور سہرا شکاگو کے مزدوروں کو جاتا ہے جن کی یاد میں مزدوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور جن کی بدولت آج مزدوروں کو ان کے حقوق مل رہے ہیں، اگرچہ بہت سارے مسائل ہیں جن کا حل ہونا باقی ہے۔
ان کی نشاندہی ہورہی ہے اور پرزور مطالبات بھی سامنے آرہے ہیں۔ہمارے ہاں صنعتی مزدوروں کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر پھر بھی پاکستان صنعتی ملک نہیں بن سکا، ہم نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی، دیگر شعبوں کی طرح یہ بھی نظر انداز رہا اور غلط پالیسیوں کا شکار ہوتا رہا۔ ہماری خواتین کی ایک بڑی تعداد صنعتوں سے وابستہ ہے مگر ان کے لیے ماحول سازگار نہیں ہے، حالات خراب ہیں، حفاظتی انتظامات نہیں ہیں، ان کی جان اور صحت کو خطرہ ہے جو افسوسناک ہے۔
حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ مزدور مشین نہیں انسان ہے جسے سکون بھی چاہیے لہٰذا 8 گھنٹے کام، 8 گھنٹے آرام اور 8 گھنٹے گھر و زندگی کے دیگر معاملات مگر افسوس ہے کہ مزدوروں سے بہت زیادہ وقت کام لیا جاتا ہے جس سے ان کی زندگی متاثر ہورہی ہے۔ہم نے ریاست، سیاست اور معیشت میں مزدور کی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا، اسے پہچان نہیں دی، اسے تحفظ نہیں دیا، ایک خلاء ہے جو ریاست اور مزدور کے درمیان ہے، اسے پر کرنا ہوگا۔
ہمارے ہاں چائلڈ لیبر ہو رہی ہے، مہنگائی کے دور میں اس میں مزید اضافہ ہوا ہے، اس کی روک تھام کیلئے قانون ساز اداروں کو متحرک ہونے کی ضرورت ہے،ا س حوالے سے ریاست لوگوں کو آگاہی پیغام دے۔ ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019ء میں بنا مگر آج تک اس کے رولز آف بزنس نہیں بن سکے، 4 برس سے زائد ہوگئے، ورکرز کے مسائل زیادہ ہوگئے مگر ان کو تحفظ نہ مل سکا، اس پر تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ اس میں بہتری کی گنجاش موجود ہے تاہم اس پر کام کرکے لوگوں کو آگاہی دی جائے اور ورکرز کو تحفظ دیا جائے۔
ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ کے باوجود یہ غیر محفوظ لیبر ہے، اسے سوشل سکیورٹی و دیگر حقوق بھی حاصل نہیں، اس پر توجہ دینا ہوگی۔ ڈومیسٹک ورکرز ویلفیئر فنڈ، ڈسپیوٹ ریزولوشن قابل ستائش ہیں مگر یہ سب اس ایکٹ کے قانون بننے کے بعد ہوگا۔ ڈومیسٹک ورکز نے خود کو منظم کرنا شروع کر دیا ہے۔
یہ ایکٹ ان کے لیے حوصلہ افزا ہے، اگر ڈومیسٹک وکرز کی فلاح و بحالی کیلئے کام کریں تو اس سے یقینا ملک کا فائدہ ہوگا، ان کی بہت بڑی تعداد ہے جو ملک میں کام کر رہی ہے مگر لیبر فورس کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے اپنے حقوق سے محروم ہے اور ملکی معیشت میں اس طرح کرداد ادا نہیں کر پارہی جس طرح ہونا چاہیے۔
ا س اہم دن کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور مزدور رہنماؤں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔
اسد اللہ فیض
(سیکرٹری محکمہ لیبر پنجاب)
'آئی ایل او '، اقوام متحدہ کا سب سے پرانا ادارہ ہے جس کے 190کنونشنز ہیں جن میں سے 36 کنونشنز کی پاکستان نے توثیق کر رکھی ہے۔ مزدوروں کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے سب سے پہلے شکاگو کے مزدوروں نے جدوجہد کی، جس میں ان پر بدترین مظالم ڈھائے گئے مگر یہ جدوجہد بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئی اور آج تک مزدوروں کے حوالے سے دنیا بھر میں جو کام ہوا ہے، اس کا کریڈٹ شکاگو کے ان مزدوروں کو ہی جاتا ہے۔
ایک بات قابل ذکر ہے کہ آج بھی انڈسٹریز ایکٹ، شاپ ایکٹ و دیگر قوانین پرانے ہی چل رہے ہیں، یہ قوانین آج بھی موثر ہیں۔ سنہ 2000ء کے بعد سے نئے معاملات نظر آتے ہیں، دنیا میں ایک لیبر و دیگر معاملات کے حوالے سے نئی چیزیں سامنے آئی۔
ورکرز کی بحالی، ان کی بہبود، کام کی جگہ کا ماحول، پیشہ وارانہ تحفظ، چائلڈ لیبر کا خاتمہ، ڈومیسٹ لیبر و ہوم بیسڈ ورکرز سمیت دیگر کے حوالے سے قانون سازی وغیرہ سے نئے باب کا آغاز ہوا ہے۔ اب دنیا ڈیجیٹلائزیشن کی جانب بڑھ رہی ہے لہٰذا سائبر سیف سپیس، فری لانسنگ، ورک فرام ہوم و دیگر معاملات کو بھی دیکھا جا رہا ہے کہ کس طرح آئی ٹی و اس سے منسلک شعبوں میں کام کرنے والوں کے حقوق کو تحفظ دیا جا سکتا ہے۔
ایک بات تو واضح ہے کہ جتنی بھی قانون سازی ہوئی ہے یا ہورہی ہے یا کی جائے گی، جتنے بھی اقدامات اٹھائے گئے ہیں یا اٹھائے جائیں گا ان سب کا مقصد مزدوروں کی 'سوشل پروٹیکشن' ہے۔کرونا وباء کے دوران یہ فیصلہ ہوا کہ سب سے کمزور طبقات کو 200 ملین دیے جائیں مگر معلوم ہوا کہ ڈیٹا ہی نہیں ہے۔
سوشل پروٹیکشن کیلئے ڈائریکٹری ہونی چاہیے جس میں تمام مزدوروں کا ریکارڈ موجود ہو۔ چائلڈ لیبر کی بات کریں تو اس میں ہمارا سکور12سے 13 فیصد ہے، 60 فیصد لیبر زرعی شعبے سے وابستہ ہے، اس میں اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ تمام بچے 'ولنرایبل' نہیں ہیں، ا ن میں سے بیشتر تو اپنے ہی والدین کے ساتھ کام کرتے ہیں، یہ ہماری روایات میں شامل ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں مزدوروں کے حوالے سے بہت کام ہوا ہے۔
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم پہ جی ایس پی پلس کی تلوار تھی، ایکسپورٹس بند ہو رہی تھی لہٰذا اچھی قانون سازی ہوئی اور اس پر عملدرآمد بھی ہوا۔ 'آئی ایل او ' کے ساتھ اصلاحات پر جتنا بھی کام ہوا وہ سہ فریقی ہوا ہے۔ میرے نزدیک سب سے اہم چیز ڈیٹا ہے، ہمارے پاس مزدوروں کا ریئل ٹائم ڈیٹا ہونا چاہیے۔
ورکرز خود کو رجسٹر نہیں کرواتے ، ہم اس پر توجہ دے رہے ہیں۔ ہم پریوینشن اینڈ پروٹیکشن سٹرٹیجی پر کام کر رہے ہیں، ایسی جامع پالیسی بنائی جا رہی ہے جس سے مزدوروں کی فلاح و بہبود ہوسکے۔اس وقت مزدوروں کے بچوں کو ٹیلنٹ سکالرشپ، ڈیتھ گرانٹ، شادی گرانٹ و غیرہ دی جا رہی ہے۔
14 ہزار کے قریب بچوں کو سکالر شپ دی گئی ہے، 1.5 بلین کی ڈیتھ گرانٹ دی گئی، التوا کا شکار کیسز کو بھی نمٹا دیا گیا ہے۔آن لائن ادائیگی کے نظام سے مزدوروں کو سہولت ملے گی، ای اوبی آئی اور پیسی کارڈ ہولڈرز کو آن لائن سسٹم سے لنک کیا جائے گا۔ اسی طرح فیئر پرائس شاپس جو فیکٹریوں میں موجود ہیں، وہاں بھی ورکرز کی سہولت یقینی بنائی جارہی ہے۔
ہمارے ورکرز ویلفیئر فنڈ کا 10 بلین وفاق کے پاس ہے، وہ مل جائے تو بہت بہتری ہوسکتی ہے۔ پنجاب نے لیبر کے حوالے سے اپنا قانون بنا لیا ہے، اس کے رولز فائنل ہوچکے ہیں، جلد منظوری کیلئے پیش کیا جائے گا۔ اس وقت اہم یہ ہے کہ مالک اور مزدور، دونوں حالات کی وجہ سے اکٹھے ہوگئے ہیں، امید ہے معاملات میں ضرور بہتری آئے گی۔
آئمہ محمود
(صدر ورکنگ ویمن آرگنائزیشن جنر ل سیکرٹری آل پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن)
پاکستان میں 7 کروڑ 69 لاکھ ورکرز ہیں۔ اس لیبر فورس میں خواتین کی شمولیت تقریباََ 25 فیصد ہے اور ان کی شمولیت کے حوالے سے دنیا میں ہمارا نمبر 144 واں ہے۔
10 فیصد خواتین ہوم بیسڈ ورکرز کے طور پر کام کر رہیں ہے۔ افسوس ہے کہ ہماری انڈسٹری سکڑ رہی ہے، غیر رسمی شعبے کو فروغ مل رہا ہے جو الارمنگ ہے۔ اس وقت 3 فیصد مزدور ٹریڈ یونینز کی صورت میں منظم ہیں جبکہ باقی اپنے اس بنیادی حق سے بھی محروم ہیں لہٰذا مزدوروں کیلئے تنظیم سازی کے حق کو آسان بنایا جائے۔ مزدوروں کی بحالی کیلئے ورکرز ویلفیئر فنڈ موجود ہے، انہیں سوشل سکیورٹی بھی دی گئی ہے۔
اس وقت پنجاب میں 11لاکھ مزدور سوشل سکیورٹی میں رجسٹرڈ ہیں جن میں سے صرف 6 لاکھ کے پاس کارڈ ہیں۔ مالک فارم نہیں دیتا جس کی وجہ سے مزدور اپنے حقوق سے محروم ہے، اگر ادارہ اس حوالے سے کام کرے تو بہتری لائی جاسکتی ہے۔ گزشتہ حکومت نے مزدور کارڈ جاری کیا، موجودہ حکومت نے اسے روک دیا،سیاسی معاملات کا شکار مزدور ہو رہا ہے جو افسوسناک ہے۔
پنجاب نے مزدور کی کم از کم تنخواہ 32 ہزار کرنے کا اعلان کیا، مزدور کو سرکاری مقرر کردہ کم از کم تنخواہ بھی نہیں ملتی، اگر مزدور کو اس کی اجرت بذریعہ بینک ملے تو فائدہ ہوسکتا ہے۔گزشتہ حکومت نے سیلف اسسیسمنٹ سکیم دی کہ فیکٹری مالکان خود رضاکارانہ طور پر اپنے ورکرز کی رجسٹریشن کروائیں، اس کا نقصان یہ ہوا کہ اگر فیکٹری میں ایک ہزار ملازمین ہیں تو صرف 300 بتا کر حکومت سے دھوکا کیا جاتا ہے، یہاں مانیٹرنگ کا مسئلہ ہے، جسے حل کرنا ہوگا۔
افسوس ہے کہ جہاں مالک کا فائدہ ہے، اس پر کام ہورہا ہے لیکن جہاں مزدور کا فائدہ ہونا ہوتا ہے وہاں خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ پہلے کسی بھی کام کی جگہ پر 5 یا اس سے زیادہ ورکرز پر سوشل سکیورٹی لازمی ہوتی تھی، اب اسے کم از کم 10 ورکرز کر دیا گیا ہے، جس سے لاکھوں مزدور علاج معالجے جیسی سہولت سے محروم ہوگئے ہیں۔صرف فیصل آباد میں متاثرین کی تعداد 6 لاکھ ہے۔
ملکی سیاسی، معاشی مسائل کی وجہ سے انڈسٹری بند ہورہی ہے، صورتحال بہت خراب ہے۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ ورکرز اور تمام سٹیک ہولڈرز پر مشتمل سہہ فریقی کانفرنس بلائی جائے۔ یہ ہمارا حق ہے اور حکومت اس کی پابند ہے، مگر کئی برسوں سے یہ کانفرنس نہیں ہوئی، مزدور کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے مزدوروں کا نعرہ یہ بن گیا ہے' 'انڈسٹری بچاؤ۔۔۔ مزدور بچاؤ''۔ پاکستان زرعی ملک ہے اور یہاں کی 44فیصد لیبر اسی شعبے سے وابستہ ہے مگر ان پر لیبر لاء کا اطلاق نہیں ہوتا، زرعی ملک میں آٹا نہیں مل رہا، افسوس ہے کہ مزدور آٹے کی لائنوں میں زندگی گنوا رہے ہیں۔
اس حوالے سے میری تجویز یہ ہے کہ فیکٹریوں میں جو فیئر پرائس شاپس قائم ہیں وہاں پر سستا آٹا فراہم کیا جائے، اس طرح مزدور کی عزت برقرار رہے گی اور اسے سہولت بھی ملے گی۔
مہنگائی اور موجودہ حالات کے پیش نظر مزدوروں، مالکان اور لیبر ڈیپارٹمنٹ کو مل کر معاملات کا سنجیدگی سے جائزہ لینا ہوگا اور اس کی روشنی میں موثر حکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔ ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لیبر کا ڈیٹا نہیں ہے۔ لیبر میں خواتین کی شمولیت کے اعداد و شمار اسی لیے کم ہیں لہٰذا سب سے اہم یہ ہے کہ مزدوروں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جائے تاکہ ان کی فلاح و بہبود کیلئے کام کیا جاسکے۔
ہمارے ہاں آج بھی 1954ء کا فیکٹری ایکٹ چل رہا ہے، ہمیں لیبر قوانین کو 'اپ گریڈ' کرنا ہوگا۔ ہوم بیسڈ ورکرز، ڈومیسٹک ورکرز و دیگر کے حوالے قانون سازی کا جائزہ لیا جا رہا ہے، قوانین کو یکجا کیا جا رہا ہے، آئی ایل او کی ریزولوشنز کو مدنظر رکھا گیا ہے، مزدوروں کے حوالے سے بہتر قانون سازی اور ان پر صحیح معنوں میں عملدرآمد سے ان کے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں، ان کی زندگی کو بدلا جا سکتا ہے، یقینا اس کے اچھے اثرات ملکی معیشت اور حالات پر ہوں گے۔
ڈومیسٹک ورکرز کو سہولت دینے کیلئے سوشل سکیورٹی نے رولز اینڈ ریگولیشنز بنا لیے ہیں، یہ ورکرز ماہانہ 300 روپے ادارے کو دیں گے، اس کے بدلے انہیں اور ان کے خاندان کو علاج معالجے کی سہولت دی جائے گی، سوشل سکیورٹی نے محنت کشوں کو تاحیات صحت کی سہولیات دینے کا قانون بنا لیا ہے، کابینہ سے منظوری و دیگر کام باقی ہیں، یہ عمل جلد مکمل ہوجائے گا۔ ورکرز ویلفیئر بورڈ انتہائی اہم ہے، شادی گرانٹ کو 2 لاکھ سے بڑھا کر 4 لاکھ کر دیا گیا ہے جبکہ ڈیتھ گرانٹ 6 سے بڑھا کر 8 لاکھ کر دی گئی ہے، واجبات کی ادائیگی میں تاخیر کو ختم کیا جا رہا ہے۔
بشریٰ خالق
(نمائندہ سول سوسائٹی)
عالمی یوم مزدور کے موقع پر ہر اس شخص کو سلام جو محنت مزدوری کرتا ہے۔ یہ مزدوری ہاتھ سے ہو یا قلم سے، نالج بیسڈ ہو یا گھریلو ملازمت، معاشرے کی تشکیل اور تعمیرو ترقی میں ا س کا اہم کردار ہوتا ہے جو قابل ستائش ہے۔ میرے نزدیک وہ مزدور توجہ طلب ہیں جو کام زیادہ کرتے ہیں مگر خود ان کی زندگی خوشحال نہیں ہے۔ اس وقت کروڑوں مزدور بے چین ہیں جن کی عزت نفس مجروح ہو رہی ہے، ان کی اجرت اتنی نہیں ہے کہ ان کی زندگی میں خوشحالی آسکے، وہ اپنے خاندان کی کفالت بہتر انداز میں کرسکیں۔
افسوس ہے کہ مزدور کو اس کی محنت کا پھل نہیں مل رہا، اس میں نظام کی خرابیاں ہیں، ریاست کی کمزوریاں ہیں اور پھر ہمارا اپنا کردار بھی ہے، ہم نے مزدور کے استحصال کی روش اپنا لی ہے اور اسے وہ بنیادی حقوق بھی نہیں دے رہے جس کی گارنٹی آئین پاکستان دیتا ہے۔ اس سب کے باجود یہ خوش آئند ہے کہ مزدور ہمیشہ اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھاتے رہے ہیں اور آج بھی اٹھا رہے ہیں۔
وہ مزدور جو سسٹم کے خلاف اور اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پر نکلے، خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ اس کا آغاز اور سہرا شکاگو کے مزدوروں کو جاتا ہے جن کی یاد میں مزدوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور جن کی بدولت آج مزدوروں کو ان کے حقوق مل رہے ہیں، اگرچہ بہت سارے مسائل ہیں جن کا حل ہونا باقی ہے۔
ان کی نشاندہی ہورہی ہے اور پرزور مطالبات بھی سامنے آرہے ہیں۔ہمارے ہاں صنعتی مزدوروں کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر پھر بھی پاکستان صنعتی ملک نہیں بن سکا، ہم نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی، دیگر شعبوں کی طرح یہ بھی نظر انداز رہا اور غلط پالیسیوں کا شکار ہوتا رہا۔ ہماری خواتین کی ایک بڑی تعداد صنعتوں سے وابستہ ہے مگر ان کے لیے ماحول سازگار نہیں ہے، حالات خراب ہیں، حفاظتی انتظامات نہیں ہیں، ان کی جان اور صحت کو خطرہ ہے جو افسوسناک ہے۔
حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ مزدور مشین نہیں انسان ہے جسے سکون بھی چاہیے لہٰذا 8 گھنٹے کام، 8 گھنٹے آرام اور 8 گھنٹے گھر و زندگی کے دیگر معاملات مگر افسوس ہے کہ مزدوروں سے بہت زیادہ وقت کام لیا جاتا ہے جس سے ان کی زندگی متاثر ہورہی ہے۔ہم نے ریاست، سیاست اور معیشت میں مزدور کی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا، اسے پہچان نہیں دی، اسے تحفظ نہیں دیا، ایک خلاء ہے جو ریاست اور مزدور کے درمیان ہے، اسے پر کرنا ہوگا۔
ہمارے ہاں چائلڈ لیبر ہو رہی ہے، مہنگائی کے دور میں اس میں مزید اضافہ ہوا ہے، اس کی روک تھام کیلئے قانون ساز اداروں کو متحرک ہونے کی ضرورت ہے،ا س حوالے سے ریاست لوگوں کو آگاہی پیغام دے۔ ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019ء میں بنا مگر آج تک اس کے رولز آف بزنس نہیں بن سکے، 4 برس سے زائد ہوگئے، ورکرز کے مسائل زیادہ ہوگئے مگر ان کو تحفظ نہ مل سکا، اس پر تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ اس میں بہتری کی گنجاش موجود ہے تاہم اس پر کام کرکے لوگوں کو آگاہی دی جائے اور ورکرز کو تحفظ دیا جائے۔
ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ کے باوجود یہ غیر محفوظ لیبر ہے، اسے سوشل سکیورٹی و دیگر حقوق بھی حاصل نہیں، اس پر توجہ دینا ہوگی۔ ڈومیسٹک ورکرز ویلفیئر فنڈ، ڈسپیوٹ ریزولوشن قابل ستائش ہیں مگر یہ سب اس ایکٹ کے قانون بننے کے بعد ہوگا۔ ڈومیسٹک ورکز نے خود کو منظم کرنا شروع کر دیا ہے۔
یہ ایکٹ ان کے لیے حوصلہ افزا ہے، اگر ڈومیسٹک وکرز کی فلاح و بحالی کیلئے کام کریں تو اس سے یقینا ملک کا فائدہ ہوگا، ان کی بہت بڑی تعداد ہے جو ملک میں کام کر رہی ہے مگر لیبر فورس کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے اپنے حقوق سے محروم ہے اور ملکی معیشت میں اس طرح کرداد ادا نہیں کر پارہی جس طرح ہونا چاہیے۔