مربوط معاشی پالیسیوں کی ضرورت

حکومتی امداد کے سہارے چلنے والے بڑے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں سمیت بہت سے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے


Editorial April 21, 2014
حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو جو منظرنامہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطابق اندرون اور بیرون ملک حکومت کی اقتصادی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار کیا جا رہا ہے. فوٹو: فائل

موجودہ حکومت کو اس وقت توانائی بحران' امن و امان کی دگرگوں صورت حال، کمزور معیشت' اندرونی اور بیرونی قرضوں کے بوجھ اور حکومتی امداد کے سہارے چلنے والے بڑے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں سمیت بہت سے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ حکومت ان تمام چیلنجز سے نمٹنے کے عزم کا اظہار مسلسل کرتی چلی آ رہی ہے۔ حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو جو منظرنامہ تشکیل پاتا ہے اس کے مطابق اندرون اور بیرون ملک حکومت کی اقتصادی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ حکومت امن و امان کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے سرگرم ہے۔ بھرپور کوششوں کے باعث ریلوے کا محکمہ بہتری کی جانب بڑھ رہا ہے۔ وہ ادارے جو سرکاری خزانے کے لیے سفید ہاتھی ثابت ہو رہے ہیں' حکومت ان کی نجکاری کر رہی ہے۔ اگرچہ حکومت کی کوششوں اورمنصوبوں کے باعث ایک سال کے دوران مجموعی طور پر اقتصادی اشاریے بہتری کی نشاندہی کر رہے ہیں لیکن اس سب کے باوجود معاشی ماہرین کا ایک طبقہ معترض ہے کہ حکومت نے ملکی ترقی' عوامی خوشحالی اور امن و امان کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے روڈ میپ واضح نہیں کیا، ملکی مسائل سے نمٹنے کے لیے حکومت کے پاس کیا ایجنڈا ہے وہ ابھی تک سامنے نہیں آ سکا' اس گومگو کی کیفیت کو ختم کرنے کے لیے حکومت کو اپنی پالیسیوں کو تفصیلاً عوام کے سامنے لانا چاہیے۔

امن و امان کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے حکومت نے آج تک جو اقدامات کیے ہیں ان کی گائیڈ لائن بھی واضح نہیں۔ حکومت بدامنی پھیلانے والے اور ناراض مسلح گروہوں سے کس طرح نمٹے گی اور اگر ان کے ساتھ مذاکرات کامیاب بھی ہو جاتے ہیں تو اس کا ایجنڈا کیا ہو گا اور مستقبل میں ان گروہوں کا سیاسی اور سماجی مقام کیا ہو گا۔ توانائی کے بحران نے صنعتی' تجارتی اور زرعی کے ساتھ ساتھ زندگی کے تمام شعبوں کو متاثر کیا ہے۔ حکومت کو بھی ان حقائق کا بخوبی ادراک ہے اور وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے سندھ کے علاقے کشمور کے مقام پر 747 میگاواٹ پیداوار کے حامل گدو گیس پاور پلانٹ کا افتتاح کیا ہے، اس کے علاوہ متبادل ذرایع سے توانائی حاصل کرنے کے لیے بھی منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ پنجاب کے جنوبی صحرائی علاقے چولستان میں دس ہزار ایکڑ پر مشتمل ایک قائداعظم سولر پارک کے لیے بجلی کی ترسیل کے لیے لائنوں' پانی کی سپلائی اور سڑکوں کی تعمیر جاری ہے' حکومت پنجاب اس مقصد کے لیے 50 لاکھ ڈالر خرچ کر رہی ہے تاکہ علاقے میں دنیا کے شمسی توانائی کے چند بڑے مراکز میں سے ایک مرکز کا قیام عمل میں لایا جا سکے۔ دنیا بھر میں شمسی توانائی کو مقبولیت حاصل ہو رہی ہے کیونکہ توانائی حاصل کرنے کا یہ آسان اور سستا ذریعہ ہے۔

حکومت کی اقتصادی پالیسیوں پر نہ صرف اندرون ملک اعتماد کا اظہار کیا جا رہا ہے بلکہ غیر ملکی کمپنیاں بھی پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے لیے رخ کر رہی ہیں۔ چین پاکستان میں 32 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہے۔ ملک میں جس تیزی سے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافے کی خوش کن خبریں آ رہی ہیں اگر یہ سلسلہ یونہی بڑھتا رہا تو امید کی جاتی ہے کہ پاکستان کی کمزور معیشت جلد ہی بحرانی کیفیت سے نکل آئے گی اور خوشحالی اور ترقی کے نئے سفر کا آغاز ہو گا۔ اخبارات میں یہ خوش کن خبریں بھی آ رہی ہیں کہ اس سال ملکی زرمبادلہ میں زراعت کا حصہ 22 فیصد سے زائد ریکارڈ کیا گیا ہے۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان کا شمار بڑے زرعی ممالک میں ہوتا ہے کیونکہ پاکستان کا 70 فیصد انحصار زراعت پر ہے' صوبہ پنجاب کا80فیصد انحصار زراعت پر ہے۔ زرعی ماہرین کا کہنا ہے زرعی نظام میں اصلاحات اور کسان دوست اقدامات کے ذریعے زرعی خود کفالت حاصل کی جا سکتی ہے، حکومت زرعی مداخل کی قیمتوں میں کسانوں کو ریلیف دے، کھادوں، بیج، زرعی ادویات و زراعت سے متعلقہ دیگر ضروری اشیا کے حوالے سے کسانوں کو ہر ممکن ریلیف دے کر ہی زرعی خود کفالت کی منزل حاصل کی جا سکتی ہے۔ ڈالر کی قیمت کم ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ خوش آیند ہے۔ اس سب کے باوجود ابھی بہت سے سنگین چیلنجز حکومت کے سامنے منہ کھولے کھڑے ہیں۔ ٹیکس نظام میں بہتری لانے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر ٹیکس کا نظام ہی بہتر بنا دیا جائے تو حکومت کی آمدن میں سالانہ اربوں روپے کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق حکومت کو ٹیکس ریونیو میں کمی کا سامنا ہے۔ رواں مالی سال کے دوران سیلز ٹیکس میں ایک فیصد اضافے اور ایڈوانس ٹیکس لگانے کے باوجود ٹیکس وصولیوں میں توقع سے کم اضافہ ہوا ہے۔ یہ انکشافات بھی سامنے آئے ہیں ٹیکس ادا کرنے کے قابل شہریوں کی اکثریت ٹیکس ادا نہیں کرتی اور جو لوگ ٹیکس ادا کر رہے ہیں وہ بھی ٹیکس چوری میں ملوث ہے۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ارکان اسمبلی اور سیاستدانوں کی ایک بڑی تعداد' جاگیردار' وڈیرے اور بااثر افراد سرے سے ٹیکس ادا ہی نہیں کرتے جب کہ ان کا لائف اسٹائل شاہانہ انداز کا حامل ہے۔ یہ تمام سرکاری سہولتوں سے فیض یاب تو ہوتے ہیں مگر بدلے میں حکومت کو ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ حکومت ایسا نظام تشکیل دے کہ ٹیکس چوری کرنے والا کوئی بھی شخص قانون کی گرفت سے نہ بچ سکے۔ ٹیکس کا نظام ہی بہتر ہو جائے تو حکومت غیر ملکی امداد سے نجات پا سکتی ہے۔ معاشی ماہرین کے ایک حلقے کا کہنا ہے کہ اب تک مرتب ہونے والے حکومتی اقتصادی خوشحالی کے اثرات ایک خاص طبقے تک محدود ہیں اور عوام کی بڑی اکثریت اس سے مستفید نہیں ہو رہی، وہ اب تک بڑھتی ہوئی غربت کے باعث پریشانی کا شکار ہے۔ ملک میں معاشی انقلاب تب تک نہیں آ سکتا جب تک معاشرے کے پسماندہ اور پسے ہوئے طبقے کو ترقی کی دوڑ میں شامل نہیں کیا جاتا' جس کی واضح مثال ملائیشیا ہے جس نے معاشرے کے ہر طبقے کی ترقی کی طرف توجہ دی۔ کوئی بھی حکومت تنہا ملک کے مسائل حل نہیں کر سکتی، اس کے لیے ناگزیر ہے کہ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر حکومت کا ساتھ دیں۔ تنقید برائے تنقید کے منفی رویے کے بجائے تنقید برائے اصلاح کا مثبت رویہ اپنایا جائے۔ اگر سیاسی جماعتیں حکومت کی راہ میں مشکلات پیدا کریں گی اور اسے بلاجواز تنقید کا نشانہ بنا کر یا بے بنیاد الزامات لگا کر الجھائیں گی تو ملکی مسائل حل ہونے کے بجائے مزید گمبھیر ہوتے چلے جائیں گے۔ اس لیے ملکی ترقی یا بدحالی میں تنہا حکومت ہی کا ہاتھ نہیں ہوتا تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں بھی اس میں برابر کی شریک ہوتی ہیں۔ ہر بحران کا حکومت کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے اس کے ساتھ تعاون کیا جائے،اسی میں ملکی ترقی کا راز پنہاں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں