اردو‘ اقبال اور اپریل کا مہینہ

اپریل کا مہینہ ہماری قومی زبان اردو کے حوالے سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے


Shakeel Farooqi April 21, 2014
[email protected]

اپریل کا مہینہ ہماری قومی زبان اردو کے حوالے سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اسی ماہ کی 8 تاریخ کو 1900 میں اردو ہندی تنازع نے جنم لیا جب کہ اسی ماہ کی 21 تاریخ کو علامہ اقبال نے اس دار فانی سے کوچ کیا۔

برصغیر پاک و ہند میں اردو ہندی تنازع کا ایک مخصوص تاریخی و سیاسی پس منظر ہے۔ 18 اپریل کو ہندوستان کے صوبے یوپی میں جو اب اتر پردیش کہلاتا ہے۔ صوبے کے انگریز لیفٹیننٹ گورنر سر میکڈانلڈ نے دیوناگری کے نفاذ کا ریزولوشن جاری کردیا جس کے خلاف پورے یوپی میں خصوصاً اور غیر منقسم ہندوستان میں عموماً شدید احتجاج کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اس ریزولوشن کا اصل ہدف ہندوستانی مسلمان تھے جن کا دینی لٹریچر اورکلچر اس ریزولوشن کی زد میں تھے۔ہندو مسلم اتحاد کو بھی اس ریزولوشن سے بہت بڑا دھچکا لگا۔چنانچہ اس ریزولوشن کی مخالفت میں 2 مئی 1900 کو علی گڑھ میں نواب محسن الملک کی رہائش گاہ پر ایک احتجاجی جلسہ ہوا۔ اس جلسے سے قبل 29 اپریل 1900 کو لکھنو شہر میں ایک جلسہ عام بھی منعقد ہواجس سے بیرسٹر حامد علی خان نے خصوصی خطاب کیا۔

انھوں نے1898 میں متعصب ہندوؤں کے ایک وفد کی یوپی کے لیفٹیننٹ گورنر سے ایک اہم ملاقات کا حوالہ دیا جس نے ہندی کو عدالتی زبان بنانے پر زور دیا تھا۔ اس کے بعد ایم احتشام علی نے اپنی مختصر تقریر میں ایک قرارداد پیش کی جس کی عظیم ناول نگار عبدالحلیم شرر نے اپنی مختصر لیکن انتہائی جامع تقریر میں پرزور تائید کی۔ انھوں نے کہا کہ ہندوستانی مسلمانوں کے مفادات کو نقصان پہنچانے سے قطع نظر یہ ریزولوشن تمام قومیتوں کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ کیونکہ اردو زبان پورے ہندوستان کی عام بول چال کی زبان یعنی Lingua France کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ اس کے علاوہ عدالتی اور کاروباری نظام میں بھی یہ زبان ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے بعض دوسرے دلائل بھی پیش کیے۔غرض ریزولوشن کے خلاف شہر در شہر یکے بعد دیگرے کئی احتجاجی جلسے منعقد ہوئے اور ان تمام جلسوں میں متفقہ قراردادیں بھی منظور کی گئیں۔ لیکن یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس ریزولوشن کے نفاذ سے قبل بھی ممکنہ خدشات کے پیش نظر کانفرنسوں اور جلسوں کا انعقاد ہوتا رہا اور قراردادیں پیش کی جاتی رہیں۔

اس حوالے سے اخبار دی پنجاب آبزرور نے 3 فروری 1900 میں ایم اے او ای ایجوکیشنل کانفرنس کلکتہ کی کارروائی سے متعلق درج ذیل اقتباس پیش ہے:

''مسٹر محمد شاہ دین بیرسٹر ایٹ لا نے ریزولوشن کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ''کانفرنس نے سامنے یہ قرارداد پیش کرنا کیوں ضروری خیال کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حال ہی میں ایک یادداشت صوبہ جات کے ہندوؤں کی پرزور حمایت سے گورنمنٹ کو پیش کی گئی ہے جس میں سرکاری دستاویزات میں اردوکے فارسی رسم الخط کو دیوناگری رسم الخط میں بدلنے کی استدعا کی گئی ہے۔ ہمیں یہ دکھانا ہے کہ یہ یادداشت اگرچہ بظاہر غیر اہم ہے مگر اردو زبان کے جاری رہنے یا اس کے خاتمے پر منتج ہوگی۔ لہٰذا یہ اس کانفرنس کا فرض ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی رائے کا اظہار غیر مبہم اور واضح الفاظ میں کرے تاکہ گورنمنٹ مطلع ہوسکے کہ نہ صرف این ڈبلیو پی (شمال مغربی صوبہ) اور اودھ کے مسلمان اس نکتہ (مسئلے) پر قطعی رائے پر پہنچے ہیں بلکہ ہندوستان کے تمام علاقوں کے مسلمان اس مسئلے پر شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ یہ ایک سیاسی کے ساتھ ساتھ تعلیمی نقطہ نظر سے مصلحت آمیز نہ ہوگا کہ ان کی متفقہ آواز کو نظر انداز کیا جائے۔ میاں شاہ دین نے اپنی تقریر میں بعض دوسرے دلائل بھی پیش کیے۔ جن معروف لوگوں نے اس قرارداد کی حمایت میں تقریریں کیں ان میں مسٹر علی امام بیرسٹر ایٹ لا اور شیخ عبدالقادر بی۔اے بھی شامل تھے''۔

اسی پس منظر میں شمال مغربی صوبے (یوپی) میں دیوناگری ہندی کے نفاذ کی مخالفت میں لاہور میں بھی ایک احتجاجی جلسہ منعقد ہوا جسے دی پنجاب آبزرور لاہور نے اپنی 3جون 1900 کی اشاعت میں درج ذیل الفاظ میں رپورٹ کیا:

''مسلمان لاہور کا ایک نمایندہ جلسہ عام بروز اتوار 27 مئی کو ساڑھے سات بجے صبح نواب فتح علی خاں قزلباش ممتاز رئیس لاہور اور اودھ کے تعلق دار کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا۔ انھیں اس اجلاس کا صدر منتخب کیا گیا۔ اس اجلاس کا مقصد گورنمنٹ شمال مغربی صوبے کے حالیہ ریزولوشن کے خلاف احتجاج تھا جس میں اردو کی جگہ ناگری رسم الخط کے استعمال کی اجازت دی گئی تھی۔ صاحب صدر نے پہلی قرارداد پیش کی جس کے الفاظ یہ ہیں:

''مسلمانان لاہور کا یہ جلسہ عام جو انجمن اسلامیہ پنجاب کے زیر اہتمام منعقد ہوا گورنمنٹ شمال مغربی صوبہ و اودھ کی گورنمنٹ کے ریزولوشن مورخہ 18 اپریل کے خلاف مودبانہ اور پرزور احتجاج ریکارڈ پر لانا چاہتا ہے۔ یہ ریزولوشن پیش کی جانے والی ان عرض داشتوں، شکایتوں، تمام پروانہ ہائے طلبی اور اعلانات وغیرہ جو ان صوبوں کی عدالتوں اور ریونیو دفاتر سے عوام کے لیے جاری کیے گئے ہیں، میں ناگری رسم الخط کے ترجیحی استعمال کی اجازت دیتا ہے۔ یہ اجلاس اس صوبے سے عوام کے مفادات میں اس تبدیلی کو بلاضرورت اور ناپسندیدہ خیال کرتا ہے اور خصوصاً متعلقہ صوبوں کے مسلمانوں کے سماجی، تعلیمی اور سیاسی مفادات کے لیے مضر رساں سمجھتا ہے۔''

اس قرارداد کی پرزور تائید کرتے ہوئے میاں محمد شاہ دین بیرسٹر ایٹ لا نے کہا:

''اگر ہم مسلمانان پنجاب،گورنمنٹ شمال مغربی صوبے کے ریزولوشن مورخہ 18 اپریل کے خلاف متحدہ محاذ کا مظاہرہ نہیں کرتے اور اس کی تنسیخ یا کم ازکم محسوس تبدیلی کے لیے کوشش نہیں کرتے تو ہم ایک اہم فرض کو نظر انداز کریں گے اور اپنے مفادات کے لیے بے حساب نقصان کا باعث ہوں گے۔ اس معاملے میں ہمارا عمل پیرا ہونا ہمارا فرض ہے۔''

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اردو ہندی تنازع کے حوالے سے مسلمانان پنجاب بھی یوپی کے مسلمانوں کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوئے تھے جب کہ لاہور سے شایع ہونے والے اخبار دی پنجاب آبزرور نے اس سلسلے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور کلیدی کردار ادا کیا۔ اخبار نے اس مسئلے کے حوالے احتجاجی رودادیں شایع کرنے کے علاوہ خصوصی اداریے بھی تحریر کیے اور ایڈیٹر کے نام خطوط بھی شایع کیے۔ علامہ اقبال یقینی طور پر مسلمانوں کے ترجمان اس عظیم اخبار کے باقاعدہ قاری رہے ہوں گے اور انھوں نے اس صورتحال کا اثر بھی ضرور قبول کیا ہوگا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اقبال کی پہلے دور کی شاعری میں ہندو مسلم اتحاد کو جن اندیشوں اور خدشات نے گھیرا ہوا تھا، ان میں اردو ہندی لسانی تنازع کا حصہ بھی شامل تھا۔ بانگ درا کا درج ذیل شعر اردو ہندی تنازع کا ردعمل یا نتیجہ معلوم ہوتا ہے:

یا باہم پیار کے جلسے تھے' دستور محبت قائم تھا
یا بحث میں اردو ہندی ہے' یا قربانی یا جھٹکا ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں