حامد میر اور آئی ایس آئی

ان دنوں عزیزم حامد میر کے اس حادثے سے جو صورت حال پیدا ہوئی ہے وہ بڑی حکمت و دانش اور جرات مندی کا تقاضا کرتی ہے۔


Abdul Qadir Hassan April 21, 2014
[email protected]

میرا چھوٹا بھائی اور ہمارے دوست اور معاصر مرحوم وارث میر کا بیٹا ہونے کی وجہ سے ہمارا بھتیجا حامد میر اس وقت اسپتال میں بے ہوش ہے۔ اسے چھ گولیاں لگیں، ڈاکٹروں نے کچھ نکال لیں، کچھ باقی ہیں لیکن ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وہ خطرے سے باہر ہیں، جسم میں چھ گولیاں گڑ جانے کے باوجود وہ زندہ ہیں اور انھوں نے خود بھی یا اپنے عزیزوں کے ذریعے اپنے حملہ آوروں کا بھی تعین کر دیا ہے، اب جب وہ ہوش میں آئیں گے اور جب مناسب سمجھیں گے تو ان پر قاتلانہ حملے کا مقدمہ شروع ہو گا فی الوقت تو ان پر کسی کے قاتلانہ حملے کے علاوہ فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے مبینہ حملہ کیا ہے اور اب تک یہی ان کا مجرم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر کہ حامد بچ گیا اور اللہ تعالیٰ سے امید کہ وہ جلد ہی صحت یاب ہو کر اپنی صحافتی اور غیر صحافتی سرگرمیاں شروع کر دے گا۔

حامد میر نے اس حادثے میں پہلے سے بنی بنائی خبر لیک کر دی اور پاکستانی تاریخ میں پہلی بار کسی فوجی ادارے پر یوں برملا قتل کا الزام لگایا گیا بلکہ حامد میر کے ادارے کے ٹی وی چینل پر مسلسل ایک تصویر خبر کے ساتھ ساتھ دکھائی جاتی رہی جس کے بارے میں پتہ چلا کہ یہ آئی ایس آئی کے سربراہ کی تھی۔ ایسا سلوک تو فوج کے کسی سپاہی کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا، لگتا ہے کہ فوج کے جرنیل اتنے نیچے گر گئے ہیں کہ ان کے نام بمعہ تصویر ایف آئی آر میں چھاپے جا رہے ہیں اور اس پر تبصرے جاری ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس وقت تک فوج نے اس مسئلے پر غوروفکر کر لیا ہو گا اور کوئی لائحہ عمل طے ہو چکا ہو گا جس کا بہرحال مجھے علم نہیں ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے کہ یہ فوج اور ایک اخباری ادارے کا مسئلہ ہے۔ میرے پاس پرانی یادداشتوں میں کچھ معلومات جمع ہیں جن کو میں سنسر کر کے بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔

جس زمانے کا میں ذکر کر رہا ہوں، اس میں تینوں افواج کا یہ مشترکہ جاسوسی ادارہ بھارت کے لیے ایک سوہان روح تھا۔ بھارت کی فوج اور اس کے ذریعے حکومت بھی پاکستانی آئی ایس آئی سے خوفزدہ تھی جس طرح آج ہم بھارتی تخریب کاری سے خوفزدہ اور ہراساں ہیں جو ہمارے حکمرانوں کے مطابق ایک غیر ملک کے ملوث ہونے کی وجہ سے ہے۔ ہم ڈر کے مارے یا احتراماً بھارت کا نام نہیں لیتے ورنہ اور تو کوئی وجہ نہیں ہے۔ بہر کیف اس آئی ایس آئی نے بھارت کے ناک میں دم کر رکھا تھا اور بلاشبہ بھارت اس سے کانپتا تھا۔ میں ان مصدقہ معلومات کو بیان نہیں کرنا چاہتا البتہ کبھی تو جی چاہتا ہے کہ عوام کو حوصلہ دلانے اور حکومت کو بھی اس کے قدموں پر کھڑا کرنے کی مدد میں یہ انکشافات کر دوں لیکن پھر محتاط ہو جاتا ہوں۔

آپ صرف اتنا سمجھ لیں کہ فوج تو اپنی جگہ اس کی یہ جاسوس ایجنسی بھی ہمارے دشمن کو خوفزدہ کر دینے کے لیے کافی تھی۔ کولکتہ سے دلی تک بھارت کا امن ہمارے رحم و کرم پر تھا جس طرح ان دنوں ہم اس کے رحم و کرم پر ہیں۔ اگر ہماری سرزمین کا کوئی انچ محفوظ ہے تو یہ محض اتفاق ہے یا پھر یہ فی الوقت غیر ضروری ہے۔ ماضی کی بھارت سے مرعوب ایک سیاسی حکومت کے بارے میں یہ خبر آئی تھی کہ اس کے ایک بندے نے ان کئی بھارتی جاسوسوں کے نام بھارت کو دے دیے جو ہمارے لیے کام کر رہے تھے۔ ان دنوں مجھے ایک فوجی ملا جو رونے لگا۔ مجھے تعجب ہوا تو اس نے بتایا کہ آپ یہ تصور نہیں کر سکتے کسی کو اس کے ملک کے خلاف ایجنٹ بنانے میں کتنی محنت درکار ہوتی ہے۔ سرمایہ تو خرچ ہوتا ہی ہے اسے تو جانے دیں انسانی محنت کی قیمت کون لگا سکتا ہے اور مجھے تو اپنے ان بھارتی ایجنٹوں سے شرم آ رہی ہے جو آج ہمیں نہ جانے کیا کیا گالیاں دے رہے ہوں گے۔

ان کے ساتھ ہم نے مرنے جینے کے وعدے کیے تھے۔ اس ضمن میں میں نے جو قصے سنے تھے ان سے پاکستانی ذہانت اور بے پناہ حب الوطنی کی روشنی پھوٹتی تھی۔ بھارت میں جاسوسی پھیلاتے ہوئے اگر کوئی پکڑا گیا تو کوئی بھارتی حربہ اس سے ایک لفظ تک نہ اگلوا سکا اور اس نے جان دے دی۔ یوں پاکستانیوں نے جانیں دے کر ایک دوسرے میدان میں ملک کا دفاع کیا اور کامیابی کے ساتھ۔ میدان جنگ میں پاکستان کا کوئی مسلح سپاہی یا جاسوسی کے شعبے میں کوئی خاموش کارکن، ہر پاکستانی جہاں بھی ہے وہ دشمن کے لیے ایک ننگی تلوار ہے اور یہ ہم نے ثابت کیا ہے۔ پاکستان کے دفاع کے لیے قربانیاں دینے والوں سے بے خبر ہی آئی ایس آئی کو قاتل بنا سکتے ہیں۔ میں جب بھی اسلام آباد میں اس خشک سی عمارت کے سامنے سے گزرتا ہوں جس کی دیواروں کے پیچھے ہمارے اس خاموش دفاعی شعبے کے سپاہی سفید کپڑوں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں تو میں اس عمارت کے سامنے سے سر جھکا کر گزرتا ہوں۔ یہ اللہ و رسول پاک کے نام پر بننے والے ملک کے سپاہی ہیں کوئی معمولی انسان نہیں ہیں۔ ان کے ساتھ محبت اور ان کا ادب ہم پر واجب ہے۔

ان دنوں عزیزم حامد میر کے اس حادثے سے جو صورت حال پیدا ہوئی ہے وہ بڑی حکمت و دانش اور جرات مندی کا تقاضا کرتی ہے۔ خدا خیر کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں