اصلاح احوال کی ضرورت

اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ ملک میں بدانتظامی اور بگڑے ہوئے حالات کا سبب مارشل لا اور آمروں کی حکومت رہی ہے۔


فاطمہ نقوی April 21, 2014
[email protected]

اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ ملک میں بدانتظامی اور بگڑے ہوئے حالات کا سبب مارشل لا اور آمروں کی حکومت رہی ہے۔ آمروں کے حمایتی اپنا موقف یہ بیان کرتے ہیں کہ نوآبادیاتی نظام ہی جمہوریت کے بھیس میں کارفرما ہے اور اس جمہوریت سے تو آمریت بہتر ہے جس میں عوام کو کچھ سہولیات مل جاتی ہیں مگر کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے عوام کے لیے نہ یہ بہتر ہیں نہ وہ کیونکہ جب مارشل لا آتا ہے تو سیاسی لوگوں پر زندگی تنگ کردی جاتی ہے اور جمہوریت کے دعوے دار اپنے دور میں اپنے سیاسی مخالفین کو نوآبادیاتی طرز کی انتظامی مشنری کے ذریعے پوری طرح دیوار سے لگا دیتے ہیں۔ انتظامی معاملات کو چلانے کے لیے پولیس کا ایک بہت بڑا رول ہوتا ہے مرکز اور صوبائی سطح پر نظم و نسق کو چلانے کے لیے پولیس کی بھاری نفری کی ضرورت پڑتی ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں پولیس کے ذریعے سیاسی حکمرانوں نے وہ کام لیا جس کو روکنے کی ذمے دار پولیس ہے۔ آج بھی کوئی شریف شہری پولیس کے کارندوں کے سامنے بے بس نظر آتا ہے، ہر ذی شعور آدمی یہ سمجھتا ہے کہ پولیس کا موجودہ نظام پوری طرح سے عوام دوست نہیں ہے ۔

اس کا کام صرف مراعات یافتہ طبقے کی جائز و ناجائز خواہش کی تکمیل ہے ایسا قطعی نہیں ہے کہ پولیس کا پورا نظام ہی بالادست طبقوں کے زیر نگیں ہے کچھ افسران اور نوجوان ایسے بھی ہیں جوکہ پوری ایمان داری اور دیانتداری کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں مگر اصل حقیقت یہی ہے کہ پولیس مراعات یافتہ طبقوں کے زیرنگیں ہے اور ان کے ہی مفادات کی پیروی کرتی نظر آتی ہے، ہمارے موجودہ نظام میں پولیس حکومت کے لیے ہے جب کہ اسے عوام کے لیے ہونا چاہیے، مختلف چینلز پر پولیس کے ہاتھوں شکار افراد اکثر نظر آتے ہیں، اساتذہ ہوں یا وکلا یا عام شہری جب بھی اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں اور اپنے مطالبات کی فہرست لے کر احتجاجی مظاہرے کر رہے ہوتے ہیں تو یہ پولیس ہی ہے جو حکومت کو سہارا دینے کے لیے کبھی نہتے عوام پر آنسو گیس پھینکتی ہے تو کبھی گولیاں چلا رہی ہوتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ خواتین تک کو اس بے رحمی سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جیسے کہ وہ عادی مجرم ہوں مگر جب عادی مجرم اپنی کارروائی کر رہے ہوتے ہیں تو یہ بے بس نظر آتی ہے۔

اسلام آباد میں سکندر نامی شخص نے جس طرح پورے شہر کو یرغمال بنالیا تھا وہ پولیس ڈپارٹمنٹ کے لیے کبھی نہ مٹنے والا ایک دھبہ ہے پولیس کا کنٹرول مقامی نمایندوں کے ہاتھوں میں ہونا چاہیے ورنہ اس کا وجود جمہوریت کش ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر تھانہ ایک الگ بادشاہت ہے اور تھانے دار بادشاہ ۔عوام کی جائز شکایت یہ ہے کہ پولیس کی نگرانی میں ہر قسم کے جرائم کو خوب پھلنے پھولنے کا موقع ملتا ہے اب تو اکثر یہ مناظر بھی کثرت سے نظر آتے ہیں کہ پولیس وین کی موجودگی میں ڈاکو آتے ہیں اور بڑے اطمینان سے ڈاکہ ڈال کر چلے جاتے ہیں اسی طرح نگرانی پر مامور پولیس والے اپنی دیہاڑی بنانے میں لگے ہوتے ہیں اور جرائم پیشہ اپنا کام کر کے یہ جا وہ جا اس کے علاوہ جرائم پیشہ لوگوں کو علاقائی تھانے کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے جس کی وجہ سے جرائم پیشہ طبقہ بجائے خائف ہونے کے اپنی غنڈہ گردی پر اکڑتا نظر آتا ہے کتاب ''جمہوریت کی تلاش'' کے مصنف لکھتے ہیں کہ ایک تھانیدار کے تقرر کے لیے متعدد طریقوں سے سفارشات کی گئیں وہ تھانے دار لائن حاضر تھا اور کسی مخصوص تھانے میں اپنی تقرری چاہتا تھا۔ صاحب نے اسے اپنے دفتر بلایا اور ساتھ ہی اس کی فائل بھی منگوالی۔ تھانے دار پیش ہوا انھوں نے محض ازراہ مذاق پوچھا تم کیسے تھانیدار ہو کہ تم نے دو کروڑ سے زیادہ کی جائیداد بنالی ہے ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس تھانیدار نے بجائے اس کے کہ شرمندہ ہو، کمال ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ سر آپ کو میری جائیداد تو نظر آگئی ان تھانیداروں سے بھی تو باز پرس کریں جنھوں نے اربوں کھربوں کی جائیدادیں بنالی ہیں۔ یہ تو عام آدمی بھی بتا سکتا ہے کہ اچانک کروڑوں اربوں کی جائیداد جائز کمائی سے نہیں بنائی جاسکتی۔

پولیس کی ڈھٹائی کا ایک اور ثبوت یہ بھی ہے کہ کوئی معمولی شخص کسی جرم کے سلسلے میں اگر کوئی ایف آئی آر درج کروانا چاہے تو یہ اس کے لیے جوئے شیر لانے سے بھی بڑھ کر ہے اکثریت اپنے شناختی کارڈ گم ہوجانے کی صورت میں جب متعلقہ تھانے پہنچتی ہے تو بغیر پیسے لیے ایف آئی آر کا اندراج نہیں کیا جاتا ۔ مظفر گڑھ کی بد قسمت بیٹی کا واقعہ تو لوگ ابھی نہیں بھولے ہونگے جس میں ایک طالبہ نے پولیس کے مظالم کے خلاف خودسوزی کرکے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کردی مگر ہم عوام کو ابھی تک علم نہیں ہوسکا کہ ملزمان کو سزا ملی یا کچھ مک مکا کرکے چھوڑ دیا گیا اس لیے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ پولیس کے ہاتھوں کسی شریف انسان کی عزت و آبرو بلکہ زندگی تک محفوظ نہیں ہے۔ پولیس کی کرپشن کا تو یہ حال ہے کہ تھانوں کی بولیاں تک لگتی ہیں جو دام دیکر اٹھا لے، یہ مینا اسی کی ہے۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ کا مسئلہ یہ ہے کہ جمہوری حکمراں ہوں یا ہوں ڈکٹیٹر، ہر ایک نے پولیس کو استعمال کیا، پولیس کی تطہیر کرنے کی بجائے انھیں کرپشن کی راہ پر لگادیا گیا ہے۔ پولیس کا ایک سپاہی ہو یا ایک اعلیٰ افسر اس کی باڈی لینگویج سے ہی پتہ لگ جاتا ہے کہ وہ کتنا فرض شناس ہے ڈھیلے ڈھالے انداز میں چلنے والا یہ سپاہی جس طرح سے بوسیدہ پرانی بندوق لیے برسوں پرانی پولیس وین میں بیٹھا نظر آتا ہے، کیا ہم اس سے توقع کرسکتے ہیں کہ وہ جدید ہتھیاروں سے لیس ملزمان کو پکڑیں گے دوسرے یہ کہ سیاسی بنیادوں پر ہونے والی بھرتی نے بھی پولیس کے جوانوں کی کارکردگی کو مشکوک کیا ہوا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ سانحہ عباس ٹاؤن کے موقع پر پولیس کی نفری جائے وقوعہ پر بڑی تاخیر سے پہنچی تھی کیونکہ حکومت کی سرکردہ لیڈر کی نجی تقریب میں سیکیورٹی کے نام پر عملہ وہاں موجود تھا۔ اصل معاملہ پولیس کے عام سپاہیوں کا نہیں ہے یہ طبقہ جو کرتا ہے اپنے افسران بالا کی منشا اور ہدایات کے مطابق کرتا ہے۔ کہتے ہیں اگر گھر کا بڑا صحیح ہو تو سارا گھر درست سمت میں چل پڑتا ہے اس لیے اگر ہمیں ملک کے نظم و نسق کو درست سمت میں پروان چڑھانا ہے تو محکمہ پولیس کو ہنگامی بنیادوں پر ٹھیک کرنا ہوگا سیاسی بھرتیوں کی جگہ اوپن میرٹ پر لوگوں کا انتخاب کیا جائے جس طرح فوج میں وقفے وقفے سے ٹریننگ کا سلسلہ چلتا رہتا ہے اور عام فوجی سے لے کر اعلیٰ افسر تک چاک و چوبند نظر آتے ہیں اسی طرح مختلف محکمانہ ورکشاپس اور ٹریننگ سیشن منعقد کیے جائیں۔ پولیس کے ڈیپارٹمنٹ کی تربیت جدید خطوط پر استوار کی جائے اور خواتین کو بھی زیادہ سے زیادہ پولیس میں بھرتی ہونے کے لیے راغب کیا جائے اگر اب بھی ہم نے اس محکمے کو شفاف اور غیر جانبدار نہ بنایا تو اسی طرح جرائم پھیلتے رہیں گے حوا کی بیٹیاں خودسوزی کرتی رہیں گی عام آدمی معمولی مسائل کے سلسلے میں بھی خوار پھرتا رہے گا ہم دوسرے ممالک مثلاً انگلستان کی پولیس کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ انگلستان میں پولیس لوکل گورنمنٹ کے تحت آتی ہے اور عوامی سطح پر لوگوں کی بھلائی اور تحفظ دینا پولیس کی اہم ذمے داری ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں کے عوام اپنی پولیس کی کارکردگی سے مطمئن نظر آتے ہیں اور اپنی پولیس کی دل سے قدر کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ پولیس سے بھرپور تعاون بھی کرتے ہیں مگر اس کے برعکس پاکستان کی زیادہ تر عوام پولیس سے خوف و بیزاری کا اظہار کرتی نظر آتی ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس اور عوام کے درمیان فاصلے کم کیے جائیں اور عوام اور پولیس بجا طور پر کہہ سکیں ''پولیس کا ہے فرض مدد عوام کی۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں