چین ماحولیات اور جیرڈ ڈائمنڈ پہلاحصہ

چین کی ہوا کا معیار خوفناک حد تک خراب ہے۔ اب آپ چین میں کئی لوگوں کو سڑکوں پر ماسک پہن کر چلتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں


Shaikh Jabir April 21, 2014
[email protected]

KARACHI: جیرڈ میسن ڈائمنڈ (یکم ستمبر1937)، معروف امریکی سائنسدان ہیں۔آپ لاس اینجلس(امریکا) میں واقع یونی ورسٹی اوف کیلیفورنیا میں جغرافیا کے پروفیسر ہیں۔آپ کو امریکا کا بہترین و ماہر ترین جغرافیہ دان مانا جاتا ہے۔گزشتہ برس ہم نے آپ کی تازہ ترین تحقیق و تصنیف ''دی ورلڈ انٹل یسٹر ڈے (2012)''کے آخری باب سے ماخوذکالم'' نمک، شکر،چکنائی اور کہولت ''نذر کیا تھا۔آپ کے وقیع کام کو اردو میں پیش کیے جانے کی ضرورت ہے۔آج ہم آپ کی ایک اور معرکۃالآراکتاب ''کولیپس:ہاؤ سوسائٹیز چوز ٹوفیل اور َسکسیڈ (2005)'' کے بارہویں باب سے کچھ اقتباسات پیش کرنے کی کوشش کرینگے۔یہ چین سے متعلق ہے۔

''چین دنیا کا سب سے زیادہ گنجان آباد ملک ہے۔ اس کی آبادی ایک ارب30کروڑ ہے جو دنیا کی کل آبادی کا پانچواں حصہ ہے۔ رقبے کے لحاظ سے اس کا نمبر تیسرا ہے اور نباتاتی تنوع میں اس کا نمبر تیسرا ہے۔اس کی معیشت 10 فیصد سالانہ کی رفتار سے بڑ ھ رہی ہے۔ اسٹیل کی پیداوار، سیمنٹ کی پروڈکشن، آبی خوراک اور ٹیلی ویژن سیٹوں کے حوالے سے بھی یہ دنیا کا سب بڑا ملک ہے۔ کوئلہ، کھادیں اور تمباکو بھی یہاں سب سے زیادہ پیدا ہوتا ہے اور دنیا بھر میں سب سے زیادہ استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ بجلی کی پیداوار کے حوالے سے بھی چین سرفہرست ہے اور کاروں کی پیداوار کے حوالے سے بھی یہ جدید دنیا میں پہلے نمبر پر ہو گا۔ لکڑی کا استعمال بھی یہاں بہت زیادہ ہے اور یہاں دنیا کا سب سے بڑا ڈیم بھی تعمیر ہونے جارہا ہے۔

پانی کو متبادل راستہ فراہم کرنے کا منصوبہ بھی زیرِ غور ہے۔ یہ کامیابیاں یقینا دلخوش کُن ہیںلیکن چین کے ماحولیاتی مسائل بھی دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہیں اور دن بدن شدت اختیار کرتے جارہے ہیں فضائی آلودگی، حیاتیاتی تنوع کا زوال، زیر کاشت رقبے میں کمی، گھاس کے میدانوں کا خاتمہ اوردیگر انسانی ذرایع سے ماحول کو پہنچنے والے نقصانات جیسے سیم و تھور، زمین کا کٹاؤ ، کوڑا کرکٹ کا جمع ہونا اور آبی آلودگی وغیرہ۔ یہ ماحولیاتی مسائل معاشی نقصان، سماجی جھگڑوں اور صحت کے مسائل کا باعث بن رہے ہیں اور یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو تشویشناک ہے۔ چین کا وسیع رقبہ اور بڑی آبادی اس امرکا بھی ثبوت ہے کہ اس کے یہ مسائل محض چین تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ اس کے اثرات باقی دنیا پر بھی مرتب ہونگے، چین سب سے زیادہ سلفر آکسائیڈ، کلورو فلورو کاربنز اور اوزون میں کمی کا باعث بننے والے مادے پیدا کر رہا ہے ۔جلد ہی فضا میں چھوڑی جانیوالی کاربن ڈائی کے لحاظ سے بھی یہ پہلے نمبر پر ہوگا۔ اس کی گرد اور فضائی آلودگی مشرق کی طرف سفر کرتی ہے اور شمالی امریکا تک راستے میں آنیوالے سبھی ممالک کو متاثر کرتی ہے۔ بارشی جنگلات کی لکڑی درآمد کرنیوالے دو بڑے ممالک میں ایک نام چین کا بھی ہے، اس طرح چین جنگلات کی کٹائی میں بھی اہم کردار ادا کررہا ہے۔

آئیے اپنی بحث کا آغاز چین کے جغرافیہ ، آبادی کے رحجانات اور معیشت سے کرتے ہیں۔ چین کا ماحول پیچیدہ اور مقامی لحاظ سے زد پذیر ہے۔ اس میں دنیا کا بلند ترین پہاڑی میدان ہے دنیا کے بلند ترین پہاڑوں میں سے چند یہاں واقع ہیں۔ دنیا کے دو طویل ترین دریا دریائے یانگزے اور دریائے زرد چین میں بہتے ہیں۔ کئی جھیلیں ہیں، ایک لمبا ساحلی علاقہ ہے اور ایک طویل براعظمی شیلف ہے۔ یہاں گلیشیئرز سے لے کر صحرا اور معتدل بارشی جنگلات سبھی کچھ موجود ہے۔ انھی ''ایکو'' نظاموں میں وہ علاقے واقع ہیں جو مختلف وجوہ کی بناء پر زد پذیر اور نازک ہیں۔ مثال کے طور پر شمالی چین میں بارشوں کا معاملہ حد سے زیادہ متغیر ہے۔ اس کے علاوہ تیز ہوائیں چلتی ہیں اور خشک سالی بھی ہو جاتی ہے۔ اس وجہ سے یہاں گرد کے طوفان اٹھتے ہیں اور مٹی کا کٹاؤ ہوتا ہے جب کہ جنوبی چین میں کافی بارشیں ہوتی ہیں جس سے پہاڑی چٹانوں پر کٹاؤ کا عمل ہوتا ہے۔

چینی حکومت نے مختلف طریقوں سے اپنی آبادی کے بڑھنے کی شرح پر قابو پایا ہے اس طرح چین میں کُنبوں کا حجم کم کیا گیا ہے۔ چین کی آبادی کی ایک اور اہم خصوصیات اس کو شہری آبادی میں تبدیل کرنا ہے۔ 1953سے2001کے درمیانی عرصے میں چین کی آبادی دو گنا ہوگئی تاہم آبادی کو شہری علاقوں میں تبدیل کرنے کا عمل تین گنا بڑھا اور شہری آبادی13فی صد سے بڑھکر38 فی صد ہوگئی۔ شہروں میں 4گنا اضافہ ہوا اور ان کی تعداد700 رہی جب کہ موجودہ شہر بھی پہلے کی نسبت پھیل گئے۔چین کی معیشت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ چین میں سب سے زیادہ کوئلہ نکالا اور استعمال کیا جاتا رہا اور یہ دنیا بھر میں استعمال ہونیوالے کوئلے کا ایک چوتھائی بنتا ہے، یہاں کھادیں، حشرات کش ادویات اور سئیل بھی دنیا بھر میں سب سے زیادہ پیدا ہوتا ہے،یہاں سے حشرات کش ادویات برآمد بھی کی جاتی ہیں، یہاں سورکا گوشت سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے لیکن چونکہ آبادی بڑھ رہی ہے اس لیے بڑے وچھوٹے گوشت اور چکن کے گوشت کی طلب میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

چین میں انڈوں کا استعمال پہلی دنیا کے ممالک جتنا ہی ہوتا ہے اور 1978سے 2001 کی درمیانی مدت میں یہاں گوشت ، انڈوں اور دودھ کی کھپت میں فی کس کے حساب سے چار گنا اضافہ ہوا ہے اس کا مطلب ہے زرعی پیداوار کا بہت زیادہ ضیاع کیونکہ ایک پاونڈ گوشت حاصل کرنے کے لیے10 سے 20 پاؤنڈ زرعی مواد چاہیے ہوتا ہے۔ جانوروں کا فضلہ صنعتی ٹھوس فاضل مادوں کی نسبت 3گنا زیادہ ہوتا ہے۔اس میں زرعی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی کھادوں، مچھلی سے بننے والی غذا اور مچھلی کے فاضل مادوں کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ اس سے زمینی اور فضائی آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے۔ چین میں پہلے گاڑیاں کم تھیں لیکن 1952 سے 1997کے درمیانی عرصے میں یہاں گاڑیوں کا سیلاب آگیا چنانچہ ریل کی پٹریوں ، عام سڑکوں اور ہوائی راستوں کی طوالت میں اس عرصے کے دوران بالترتیب 2.5،10 او108گنا اضافہ ہوا۔ موٹر گاڑیوں )زیادہ تر ٹرک اور بسیں( کی تعداد میں 1920سے2001 کے درمیانی عرصہ میں15گنا اضافہ ہوا اور کاروں کی تعدا د 130 گنا بڑھی ۔ 1994 میں چین نے اپنی کار کی صنعت کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا اور اس منصوبے پر کام شروع کردیا گیا۔ اس طرح جلد ہی چین امریکا اور جاپان کے بعد سب سے زیادہ کاریں تیار کرنیوالا ملک بن جائے گا۔ جب گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا تو اس سے ہوا کا معیار متاثر ہوگا اور ماحول پر بھی اثرات مرتب ہونگے کیونکہ ان گاڑیوں کی پارکنگ اور ان کو چلانے کے لیے زیادہ جگہ درکار ہوگی۔

یہ سارے اعدادوشمار اپنی جگہ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان مقاصد کے لیے جو ٹیکنالوجی استعمال کی جارہی ہے وہ فرسودہ ہے اس کی کارکردگی بھی مناسب نہیں ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آلودگی کو بڑھانے والی ہے۔ صنعتی پیداوار میں توانائی کی کارکردگی پہلی دنیا کے مقابلے میں نصف ہے۔ چین میں توانائی کے ذریعے کے طور پر تین چوتھائی کوئلہ استعمال ہوتا ہے جو آلودگی بڑھانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ماحولیات کے حوالے سے چین کی تاریخ مختلف مراحل پر مبنی ہے یہاں صدیوں سے جنگلات کی کٹائی جاری ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد چین میں شروع ہونے والی خانہ جنگی اور 1949 میں حالات کے بہتر ہو جانے کے بعد جنگلات کی کٹائی کا عمل تیزی پکڑ گیا ۔ جانوروں کو حد سے زیادہ چَرانے کا نتیجہ مٹی کے کٹاؤ کی صورت میں سامنے آیا۔1958سے 1965 تک چین میں تیز رفتار ترقی کا دور تھا اس دوران اس کی فیکٹریوں کی تعداد میں 4گنا اضافہ ہوا اور ان فیکٹریوں کو ایندھن فراہم کرنے کے لیے زیادہ لکڑی کاٹی گئی۔یہ لکڑی جلانے سے آلودگی مزید بڑھ گئی۔ چین کے ماحولیاتی مسائل کو چھ حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ہوا، پانی، مٹی ، ماحول کو پہنچنے والا نقصان، حیاتیاتی تنوع کے نقصانات اور میگا پراجیکٹس ۔

چین کی ہوا کا معیار خوفناک حد تک خراب ہے۔ اب آپ چین میں کئی لوگوں کو سڑکوں پر ماسک پہن کر چلتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ کئی شہروں میں ہوائی آلودگی دنیا بھر میں بد ترین سطح پر ہے اور انسانی صحت کے لیے محفوظ سطح سے کئی گنا زیادہ ہے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے اور گاڑیوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے ہوا میں نائٹروجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھ رہی ہے۔ اسی وجہ سے تیزابی بارشوں کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔ چینی دریاؤں اور پانی کے زیر زمین ذخائر میں پانی کا معیار بھی زوال پذیر ہے۔(جاری ہے۔)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں