جنوبی پنجاب میں معدومی کا شکار گدھوں کی بڑی تعداد دیکھی گئی

دستاویزی فلمیں بنانے والی ٹیم یزمان میں مصری اور رویشین گریفن گدھوں کو دیکھ کر حیران رہ گئی

فوٹو: انٹرنیٹ

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے جنوبی علاقے یزمان کے صحرائی علاقے میں معدومی کا شکار مصری اور رویشین گریفن گدھ (وولچرز) کی بڑی تعداد دیکھی گئی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے اگر جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے بڑے پیمانے پر سروے کیا جائے تو وولچرزکی مزید اقسام کی درست تعداد اورمساکن کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، پنجاب کے قدرتی ماحول میں پائی جانیوالی جنگلی حیات سے متعلق دستاویزی فلمیں تیارکرنیوالی ایک ٹیم نے بہاولپورمیں یزمان کے علاقے میں چھوٹے سائزکی مصری وولچرزکا مسکن تلاش کیا ہے جبکہ درختوں پر بیٹھے ان وولچرزکی عکس بندی بھی کی گئی ہے۔

جنگلی حیات کے ماہر بدرمنیر نے بتایا کہ ان کے لئے یہ حیرت انگیز خوشی کی بات تھی، اتنے زیادہ وولچرز ہمیں ایک ہی جگہ نظر آرہے تھے، ہم حیران تھے کہ یہ وولچرزکہاں سے آگئے؟، انہوں نے دعویٰ کیا کہ ناصرف مصری وولچرزبلکہ یوریشین گریفن وولچرزسمیت ایک اور اقسام کی بھی عکس بندی کی ہے جو ایک مردہ اونٹ کا گوشت کھارہے تھے۔ ان وولچرز کے گھونسلوں اوربچوں کا بھی پہلی بارسراغ لگایا گیا ہے۔

بدرمنیر کہتے ہیں وہ یہی سنتے آئے ہیں کہ پاکستان خاص طورپر پنجاب میں وولچرز کی بعض اقسام مکمل ناپید جبکہ کئی ناپیدی کے خطرات سے دوچار ہیں لیکن اب صحرائے چولستان میں اتنی زیادہ تعداد میں گدھ دیکھ کراندازہ ہوتا ہے کہ وولچرز کی درست تعداد اوران کے مساکن کا اندازہ لگانے کے لئے بڑے پیمانے پرکوئی سروے ہی نہیں کیا گیا ہے۔


وائلڈ لائف ریسرچ انسٹی ٹیوٹ گٹ والا فیصل آباد کی ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر مصباح سرور نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ چاربرسوں میں جب سے انہوں نے ذمہ داری سنبھالی ہے پنجاب میں وولچرزکا کوئی سروے نہیں کروایا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی ترجیح ایسے اینگولیٹس اوربرڈ ہیں جن کے شکار اورٹرافی ہنٹنگ کی اجازت دی جاتی ہے، پنجاب وائلڈلائف اپنے طورپربھی سروے کرتا ہے جبکہ اس کے لئے مختلف یونیورسٹیزکے متعلقہ شعبوں اور جنگلی حیات کی کنزرویشن کے لئے کام کرنیوالے اداروں کی بھی معاونت لی جاتی ہے۔

ڈاکٹر مصباح سرور کا کہنا تھا کہ پاکستان میں وولچرزکی مجموعی طورپر آٹھ اقسام ہیں جن میں سفید پشت والے گدھ، لمبی چونچ والے گدھ اور ریڈ ہیڈ یا سُرخ سر والے گدِھ اورچھوٹے سائز کے مصری گدھ قابل ذکر ہیں، یہ تمام اقسام آئی یوسی این (انٹرنیشنل یونین فارکنزرویشن آف نیچر) کی ریڈلسٹ میں شامل ہیں، پاکستان میں سفید پشت والے گدھ 99 فیصد ختم ہوچکے ہیں تاہم چھانگا مانگا وولچرزبریڈنگ سنٹر میں اس وقت 32 نراورمادہ گدھ موجود ہیں۔

پنجاب میں وولچرزکی کنزرویشن پرکام کرنیوالے ڈبلیوڈبلیوایف کے نمائندے جمشید چوہدری نے بتایا کہ پنجاب میں صرف سفید پشت والے گدھ کی کنزرویشن پرکام ہورہا ہے، دوہفتے قبل انہوں نے تھرپارکراورنگرپارکرکا سروے کیا ہے، اس وقت قدرتی ماحول میں ایک اندازے کے مطابق 50 سے 60 پرندے موجود ہیں تاہم وولچرز کی دیگر اقسام بھی موجود ہیں لیکن ان کی درست تعداد سے متعلق کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے۔

جمشید چوہدری نے بتایا کہ بد قسمتی سے پنجاب وائلڈ لائف کے پاس افرادی قوت اوروسائل کی کمی ہے جبکہ وولچرزکے سروے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ افرادی قوت اوروسائل چاہئیں، محکمہ اپنے وسائل کے حساب سے کام کررہا ہے، مصری وولچرز کی نسل بھی خطرے سے دوچارہے، یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ پنجاب میں مصری اوریوریشین وولچرسمیت دیگراقسام دیکھی گئی ہیں۔

پنجاب وائلڈلائف کے سابق ڈائریکٹر غضنفر لنگاہ نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا سرکاری طور پر اتنے وسائل اورسہولتیں میسرنہیں کہ پنجاب میں پائی جانیوالی مختلف اقسام کی جنگلی انواع کا تفصیلی سروے کروایا جاسکے اس لئے پھر مختلف غیرسرکاری تنظیموں اور اداروں کی سروے رپورٹس پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے جس طرح ابھی وولچرز کی تین اقسام کی تعداد اوران کے مساکن سامنے آئے ہیں اگرحکومت ایک ہمہ گیر سروے کروائے تو یقینا ناپیدی کے خطرات سے دوچار جنگلی جانوروں اور پرندوں کی درست تعداد کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
Load Next Story