یہ بے کار کی باتیں
حکمرانوں کو ہر اُس گائوں میں جانا ہوگا جہاں ایک مظلوم بیٹی کسی مسیحا کی منتظر ہے ۔
لاہور:
مہذب معاشرے میں سانحہ کے بعد وزرا ء مستعفی ہو جاتے ہیں لیکن سیاسی بازی گروں کی طرح ، چالاک انداز سے آکر چھوٹے مرغوں کو ذبح کر کے زبردستی کی واہ واہ نہیں لیتے ۔ اور آج بھی اگر بچوں اور عورتوں کے ساتھ زیادتی کے کیس سامنے آرہے ہیں تو اپنے گریبان میں جھانک کر ضرور دیکھیں کہ گڑ بڑ کہاں ہیں ؟ مگر مجھے حکومت کی بے بسی اور دکھاوے کا اندازہ ہے۔
حکمرانوں کو ہر اُس گائوں میں جانا ہوگا جہاں ایک مظلوم بیٹی کسی مسیحا کی منتظر ہے ۔
خانیوال میں ایک گیارہ سال کی معصوم طالبہ کو زیادتی کر کے قتل کر دیا گیا ۔ تھانے میں درج اطلاعات کے مطابق 10اپریل وہ منحوس دن تھا جب اسکول ٹیچر نے اُس معصوم کے گھر فون کر کے کہا کہ ''ویسے تو اسکول کا وقت ختم ہو گیا ہے لیکن آپ کی بیٹی کو ہم اضافی وقت دینا چاہتے ہیں اس لیے اُسے واپس اسکو ل بھیج دیں ۔'' والدین تو ہمیشہ خوش ہوتے ہیں کہ اگر شفقت،محبت اور بچوں کو وقت دینے والا استاد مل جائے لیکن اُن کے معصوم دلوں میں استاد کے روپ میں چھپے وحشیوں کی پہچان مشکل سے ہوتی ہے ۔ ماں باپ نے سوچا اچھا ہے گھر میں بیٹھی کیا کرے گی؟ تھوڑا وقت اور پڑھ لے گی ۔ ماں نے اُسے پھر اسکول بھیج دیا ۔ جہاں وحشی کی نظریں کچھ اور ہی کہانی چھپائے بیٹھی تھیں ۔ پولیس کے مطابق اشفاق نے جان بوجھ کر اُس وقت اُسے بلایا جب اسکول میں کوئی نہیں تھا ۔ اُس ظالم نے معصوم سے پھول کے ساتھ زیادتی کی اور پھر اُسے قتل کر دیا ۔
کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس طرح کے واقعات برداشت کیے جاسکتے ہیں ۔ آخر کیوں ہو رہے ہیں ۔ کبھی کوئی استاد ، تو کبھی کوئی رشتہ دار تو کبھی اپنا ہی خون کیوں ایسا ہو گیا ہے؟ کیا ہم نے کبھی سنجیدگی سے اس پر بات کرنے کی کوشش کی ہے یا شجر ِممنوع کہہ کر ہمیں اس پر بھی بات نہیں کرنی ؟یا اس بحث میں الجھا رہنا ہے کہ قائد اعظم کہاں پیدا ہوئے تھے ؟ میں کیا کہوں کہ جب میرے سامنے یہ رپورٹ پڑھی جا رہی ہو کہ صرف پنجاب میں تین ماہ کے اندر 60 زیادتی کے کیس ایسے ہیںکہ جس میں گھر کے مردوں یا محرم نے زیادتی کی ہو ۔ افسوس کی بات یہ ہے کوئی ماننے کے لیے تیار نہ ہو کہ محرم بھی یہ کر سکتے ہیں ۔ میں کس کے ہاتھ میں اپنا لہوتلاش کروں ۔ کئی لڑکیاں انصاف کی تلاش میں منوں مٹی تلے چلی گئیں ۔ کچھ نے خود کو آگ لگا لی اور کوئی دنیا کی نظروں سے مر گیا ۔ ایک طبقہ یہ کہنے پر بضد ہے کہ اس کی وجہ مغرب ہے تو جناب یہ بتائیں کہ جہاں یہ واقعات ہو رہے ہیں وہ ہر لحاظ سے مغرب سے کوسوں دور ہے ۔ انھیں تو معلوم ہی نہیں ہو گا کہ یہ مغرب کیا چیز ہے اور مشرق میں وہ کہاں رہ رہے ہیں ۔
خانیوال کے معصوم والدین کی پریشانی بڑھتی گئی جب رات ہونے کے باوجود اُن کے دل کا ٹکڑا گھر نہیں پہنچا ۔ گھر کے سب لوگ اسکول پہنچے دروازہ بند تھا ۔ ٹیچر لاپتہ تھا ۔ پولیس کے پاس گئے ۔ایک رسمی سی بات کی گئی اگلے دن پھر پولیس کے دروازے پر موجود تھے ۔ بے وجہ اور تذلیل کر دینے والے سوالات تھے ۔ لیکن پولیس نے رپورٹ درج کر لی ۔ لوگوں کا دبائو بڑھا اور جب پرنسپل سے پوچھا گیا تو اُس نے انکار کر دیا ۔ لیکن جب پولیس نے اپنے انداز سے تفتیش کی تو پرنسپل نے بتایا کہ اُس نے اور اسحاق نے لڑکی کے ساتھ زیادتی اور پھر قتل کر دیا ۔ پولیس نے اسحاق کی تلاش شروع کی ۔ کہا جاتا ہے کہ اگر پولیس سنجیدگی سے کام کرے تو وہ ہر معاملہ حل کر سکتی ہے ۔ پولیس نے معلوم کر لیا کہ وہ اس وقت مظفر گڑھ میں موجود ہے ۔ پولیس نے پھرتی دکھائی اور اُسے گرفتار کر لیا ۔ لیکن ...لیکن جناب ملزم نے بھاگنے کی کوشش کی اور پولیس مقابلہ میں مارا گیا ...آپ سمجھ تو گئے ہو نگے۔ کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔
اسی لیے تو بس DSP کو معطل کیا گیا۔ لیکن پھر سوال وہی ہے کہ آخر کیوں ؟
آئیے اسی روز جب اسحاق مظفر گڑھ میں مارا گیا وہی سے گجرات چلتے ہیں ، گجرات میں ایک لاچار بے بس باپ مظاہرہ کر رہا تھا ۔ یہ گجرات میں تھانہ ٹانڈو ہے جس کے کانسٹیبل نے چھ افراد کے ساتھ مل کر اُس لاچار باپ کی بیٹی کے ساتھ زیادتی کی اور پولیس اہلکار اپنے پیٹی بھائیوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں ۔
یہ سب بکواس ہو گا ۔ نہ تو ہمارے یہاں محرم کچھ کر سکتے ہیں ، نہ ہمارے یہاں استاد کبھی غلط کام کر سکتے ہیں اور نہ ہی پولیس کبھی یہ بدکاری کر سکتی ہے ۔ کاش جو کچھ پولیس نے خانیوال میں کیا وہ گجرات میں بھی کر لیتی، لیکن ایسا کیوں ہو گا ۔
کسی دن پھر کسی وزیر کو خبروں میں رہنے کا شوق ہو گا تو اڑتے ہوئے گجرات اور خانیوال آجائینگے، مگر یہ بات تو طے ہیں کہ یہ سب امریکا اور یہودیوں کی سازش ہو گی جو ہمارے ملک کو بدنام کرنے کے لیے کر رہے ہونگے، یا پھر میرا خیال ہیں یہ کوئی خارجی ہونگے جو یہ سب کچھ کر رہے ہیں ، اور ان کے پیچھے یقیناً انڈیا کا ہاتھ ہو گا جو اپنے یہاں ہونے والے ریپ کیسز کو چھپانے کے لیے ہمیں بدنام کر رہا ہے۔ ہمیں گرفتار ہوئے تمام لوگوں کو چیک کرنا چاہیے کہ یہ واقعی مسلمان ہیں کہ نہیں ، اور آپ کو تو معلوم ہو گا یہ کیسے چیک ہو گا ، مگر اس میں سب سے ضروری یہ ہے کہ پہلے یہ سندھ اسمبلی میں یہ بحث کر لیں کہ جناب خواتین رکن اسمبلی کو بیگ لانا چاہیے یا نہیں ، مگر اسی دن تو مظفر آباد میں بھی کچھ ہوا تھا،کیا ہوا تھا ، ؟
اوہ وہاں بھی تو ایک لڑکی کو قتل کر دیا تھا ، اور المیہ دیکھیں پہلا تاثر یہ لیا جاتا کہ یقینا لڑکی نے کچھ کیا ہو گا، کچھ نہیں کیا تھا اُس نے؟ہمارے یہاں کہ نوجوان اور بوڑھے اتنے شریف ہیں کہ کبھی آنکھ اٹھا کر کسی لڑکی یا عورت کو نہیں دیکھتے ، اتنا زبردست معاشرہ ہے کہ چھیڑنا تو دور کی بات کبھی لڑکی کے پیچھے بھی نہیں جاتے یہ تو مظفر آباد میں سازش ہوئی تھی ۔ یہ ریڈیو چوک ہیں جہاں اپنے گھر کو چھوڑ کر تعلیم کے لیے آئی لڑکی گاڑی سے اتر کر اپنی درس گاہ کی طرف جارہی تھی ، کہ ایک ہیرو جو یقینا غیر ملکی ایجنٹ ہو گا ، آ گیا، اور فلمی ہیرو کی طرح کہنے لگا کہ مجھ سے دوستی کر لو... ورنہ ... لڑکی نے منع کیا تو اُس کی مردانگی کو ٹھیس پہنچی اور اُس نے لڑکی کو پستول نکال کر کہا کہ اگر تم نے ہاں نہیں کہا تو تمھیں مار دونگا ۔ لڑکی کوئی سیاست دان تو تھی نہیں جو جھوٹا وعدہ کر لے اور پھر کہہ دے کہ جناب یہ کوئی قرآن تو نہیں ۔ لڑکی نہیں مانی اور اُس نوجوان نے اُسے قتل کر دیا۔
یہ سب جھوٹ ہو گا ، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہوتا ، یہاں اسکول ، آفس جاتی لڑکیاں بالکل آزادی سے جاتی ہیں کوئی انھیں بری نظر سے دیکھ ہی نہیں سکتا ، یہ سب تو مغرب اور بھارت کا پھیلایا ہوا ناٹک ہے ۔ جو بس طالبان سے مذاکرات کامیاب ہوتے ہی ختم ہو جائے گا۔ انشاء اللہ
مہذب معاشرے میں سانحہ کے بعد وزرا ء مستعفی ہو جاتے ہیں لیکن سیاسی بازی گروں کی طرح ، چالاک انداز سے آکر چھوٹے مرغوں کو ذبح کر کے زبردستی کی واہ واہ نہیں لیتے ۔ اور آج بھی اگر بچوں اور عورتوں کے ساتھ زیادتی کے کیس سامنے آرہے ہیں تو اپنے گریبان میں جھانک کر ضرور دیکھیں کہ گڑ بڑ کہاں ہیں ؟ مگر مجھے حکومت کی بے بسی اور دکھاوے کا اندازہ ہے۔
حکمرانوں کو ہر اُس گائوں میں جانا ہوگا جہاں ایک مظلوم بیٹی کسی مسیحا کی منتظر ہے ۔
خانیوال میں ایک گیارہ سال کی معصوم طالبہ کو زیادتی کر کے قتل کر دیا گیا ۔ تھانے میں درج اطلاعات کے مطابق 10اپریل وہ منحوس دن تھا جب اسکول ٹیچر نے اُس معصوم کے گھر فون کر کے کہا کہ ''ویسے تو اسکول کا وقت ختم ہو گیا ہے لیکن آپ کی بیٹی کو ہم اضافی وقت دینا چاہتے ہیں اس لیے اُسے واپس اسکو ل بھیج دیں ۔'' والدین تو ہمیشہ خوش ہوتے ہیں کہ اگر شفقت،محبت اور بچوں کو وقت دینے والا استاد مل جائے لیکن اُن کے معصوم دلوں میں استاد کے روپ میں چھپے وحشیوں کی پہچان مشکل سے ہوتی ہے ۔ ماں باپ نے سوچا اچھا ہے گھر میں بیٹھی کیا کرے گی؟ تھوڑا وقت اور پڑھ لے گی ۔ ماں نے اُسے پھر اسکول بھیج دیا ۔ جہاں وحشی کی نظریں کچھ اور ہی کہانی چھپائے بیٹھی تھیں ۔ پولیس کے مطابق اشفاق نے جان بوجھ کر اُس وقت اُسے بلایا جب اسکول میں کوئی نہیں تھا ۔ اُس ظالم نے معصوم سے پھول کے ساتھ زیادتی کی اور پھر اُسے قتل کر دیا ۔
کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس طرح کے واقعات برداشت کیے جاسکتے ہیں ۔ آخر کیوں ہو رہے ہیں ۔ کبھی کوئی استاد ، تو کبھی کوئی رشتہ دار تو کبھی اپنا ہی خون کیوں ایسا ہو گیا ہے؟ کیا ہم نے کبھی سنجیدگی سے اس پر بات کرنے کی کوشش کی ہے یا شجر ِممنوع کہہ کر ہمیں اس پر بھی بات نہیں کرنی ؟یا اس بحث میں الجھا رہنا ہے کہ قائد اعظم کہاں پیدا ہوئے تھے ؟ میں کیا کہوں کہ جب میرے سامنے یہ رپورٹ پڑھی جا رہی ہو کہ صرف پنجاب میں تین ماہ کے اندر 60 زیادتی کے کیس ایسے ہیںکہ جس میں گھر کے مردوں یا محرم نے زیادتی کی ہو ۔ افسوس کی بات یہ ہے کوئی ماننے کے لیے تیار نہ ہو کہ محرم بھی یہ کر سکتے ہیں ۔ میں کس کے ہاتھ میں اپنا لہوتلاش کروں ۔ کئی لڑکیاں انصاف کی تلاش میں منوں مٹی تلے چلی گئیں ۔ کچھ نے خود کو آگ لگا لی اور کوئی دنیا کی نظروں سے مر گیا ۔ ایک طبقہ یہ کہنے پر بضد ہے کہ اس کی وجہ مغرب ہے تو جناب یہ بتائیں کہ جہاں یہ واقعات ہو رہے ہیں وہ ہر لحاظ سے مغرب سے کوسوں دور ہے ۔ انھیں تو معلوم ہی نہیں ہو گا کہ یہ مغرب کیا چیز ہے اور مشرق میں وہ کہاں رہ رہے ہیں ۔
خانیوال کے معصوم والدین کی پریشانی بڑھتی گئی جب رات ہونے کے باوجود اُن کے دل کا ٹکڑا گھر نہیں پہنچا ۔ گھر کے سب لوگ اسکول پہنچے دروازہ بند تھا ۔ ٹیچر لاپتہ تھا ۔ پولیس کے پاس گئے ۔ایک رسمی سی بات کی گئی اگلے دن پھر پولیس کے دروازے پر موجود تھے ۔ بے وجہ اور تذلیل کر دینے والے سوالات تھے ۔ لیکن پولیس نے رپورٹ درج کر لی ۔ لوگوں کا دبائو بڑھا اور جب پرنسپل سے پوچھا گیا تو اُس نے انکار کر دیا ۔ لیکن جب پولیس نے اپنے انداز سے تفتیش کی تو پرنسپل نے بتایا کہ اُس نے اور اسحاق نے لڑکی کے ساتھ زیادتی اور پھر قتل کر دیا ۔ پولیس نے اسحاق کی تلاش شروع کی ۔ کہا جاتا ہے کہ اگر پولیس سنجیدگی سے کام کرے تو وہ ہر معاملہ حل کر سکتی ہے ۔ پولیس نے معلوم کر لیا کہ وہ اس وقت مظفر گڑھ میں موجود ہے ۔ پولیس نے پھرتی دکھائی اور اُسے گرفتار کر لیا ۔ لیکن ...لیکن جناب ملزم نے بھاگنے کی کوشش کی اور پولیس مقابلہ میں مارا گیا ...آپ سمجھ تو گئے ہو نگے۔ کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔
اسی لیے تو بس DSP کو معطل کیا گیا۔ لیکن پھر سوال وہی ہے کہ آخر کیوں ؟
آئیے اسی روز جب اسحاق مظفر گڑھ میں مارا گیا وہی سے گجرات چلتے ہیں ، گجرات میں ایک لاچار بے بس باپ مظاہرہ کر رہا تھا ۔ یہ گجرات میں تھانہ ٹانڈو ہے جس کے کانسٹیبل نے چھ افراد کے ساتھ مل کر اُس لاچار باپ کی بیٹی کے ساتھ زیادتی کی اور پولیس اہلکار اپنے پیٹی بھائیوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں ۔
یہ سب بکواس ہو گا ۔ نہ تو ہمارے یہاں محرم کچھ کر سکتے ہیں ، نہ ہمارے یہاں استاد کبھی غلط کام کر سکتے ہیں اور نہ ہی پولیس کبھی یہ بدکاری کر سکتی ہے ۔ کاش جو کچھ پولیس نے خانیوال میں کیا وہ گجرات میں بھی کر لیتی، لیکن ایسا کیوں ہو گا ۔
کسی دن پھر کسی وزیر کو خبروں میں رہنے کا شوق ہو گا تو اڑتے ہوئے گجرات اور خانیوال آجائینگے، مگر یہ بات تو طے ہیں کہ یہ سب امریکا اور یہودیوں کی سازش ہو گی جو ہمارے ملک کو بدنام کرنے کے لیے کر رہے ہونگے، یا پھر میرا خیال ہیں یہ کوئی خارجی ہونگے جو یہ سب کچھ کر رہے ہیں ، اور ان کے پیچھے یقیناً انڈیا کا ہاتھ ہو گا جو اپنے یہاں ہونے والے ریپ کیسز کو چھپانے کے لیے ہمیں بدنام کر رہا ہے۔ ہمیں گرفتار ہوئے تمام لوگوں کو چیک کرنا چاہیے کہ یہ واقعی مسلمان ہیں کہ نہیں ، اور آپ کو تو معلوم ہو گا یہ کیسے چیک ہو گا ، مگر اس میں سب سے ضروری یہ ہے کہ پہلے یہ سندھ اسمبلی میں یہ بحث کر لیں کہ جناب خواتین رکن اسمبلی کو بیگ لانا چاہیے یا نہیں ، مگر اسی دن تو مظفر آباد میں بھی کچھ ہوا تھا،کیا ہوا تھا ، ؟
اوہ وہاں بھی تو ایک لڑکی کو قتل کر دیا تھا ، اور المیہ دیکھیں پہلا تاثر یہ لیا جاتا کہ یقینا لڑکی نے کچھ کیا ہو گا، کچھ نہیں کیا تھا اُس نے؟ہمارے یہاں کہ نوجوان اور بوڑھے اتنے شریف ہیں کہ کبھی آنکھ اٹھا کر کسی لڑکی یا عورت کو نہیں دیکھتے ، اتنا زبردست معاشرہ ہے کہ چھیڑنا تو دور کی بات کبھی لڑکی کے پیچھے بھی نہیں جاتے یہ تو مظفر آباد میں سازش ہوئی تھی ۔ یہ ریڈیو چوک ہیں جہاں اپنے گھر کو چھوڑ کر تعلیم کے لیے آئی لڑکی گاڑی سے اتر کر اپنی درس گاہ کی طرف جارہی تھی ، کہ ایک ہیرو جو یقینا غیر ملکی ایجنٹ ہو گا ، آ گیا، اور فلمی ہیرو کی طرح کہنے لگا کہ مجھ سے دوستی کر لو... ورنہ ... لڑکی نے منع کیا تو اُس کی مردانگی کو ٹھیس پہنچی اور اُس نے لڑکی کو پستول نکال کر کہا کہ اگر تم نے ہاں نہیں کہا تو تمھیں مار دونگا ۔ لڑکی کوئی سیاست دان تو تھی نہیں جو جھوٹا وعدہ کر لے اور پھر کہہ دے کہ جناب یہ کوئی قرآن تو نہیں ۔ لڑکی نہیں مانی اور اُس نوجوان نے اُسے قتل کر دیا۔
یہ سب جھوٹ ہو گا ، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہوتا ، یہاں اسکول ، آفس جاتی لڑکیاں بالکل آزادی سے جاتی ہیں کوئی انھیں بری نظر سے دیکھ ہی نہیں سکتا ، یہ سب تو مغرب اور بھارت کا پھیلایا ہوا ناٹک ہے ۔ جو بس طالبان سے مذاکرات کامیاب ہوتے ہی ختم ہو جائے گا۔ انشاء اللہ