دشمنی پر مبنی سیاست میں انتخابات

پی ٹی آئی سمیت ہر جماعت تسلیم کر رہی ہے کہ ملک میں سیاسی مخالفت دشمنی میں تبدیل ہو چکی ہے سیاسی پارہ بہت ہائی ہے


Muhammad Saeed Arain May 02, 2023
[email protected]

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کی دشمنی میں اتحادی حکومت نے انتقامی کارروائیوں کی انتہا کردی ہے ہمارے کارکنوں کو اٹھا کر انھیں بے بنیاد مقدمات میں ملوث کردیا جاتا ہے خود مجھ پر ایک سو سے زائد کیس بنائے گئے ہیں۔ حکومت ہمیں مقدمات میں الجھا کر انتخابی مہم سے دور کرنا چاہتی ہے۔ کارکنوں کو گرفتار کرکے سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کیے جا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی رہنماؤں پر جعلی مقدمے بنائے گئے اگر ایک میں ضمانت ملتی ہے تو ایک اور پرچہ نکل آتا ہے۔

اتحادی حکومت کے رہنما اور وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ عمران خان قابل اعتبار نہیں، ان کے موقف بدلتے رہتے ہیں، ان سے مذاکرات سے پہلے ہزار بار سوچنا پڑتا ہے۔ عمران خان سے متعلق (ن) لیگی رہنما مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن کا موقف سب سے سخت ہے۔

مریم نواز نے مدینہ منورہ میں کہا کہ عمران خان کے جھوٹ زیادہ نہیں چلیں گے۔ سچ کو جتنا بھی دبایا جائے وہ اتنا ہی ابھرتا ہے۔ وقت نے ثابت کردیا ہے کہ نواز شریف کے خلاف جو کچھ ہوا وہ انتقامی کارروائیاں تھیں۔

سپریم کورٹ کے سینئر جج قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ کوئی بھی ناانصافی زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتی پھونک پھونک کر قدم اٹھایا جائے۔ غلط فیصلوں کی وجہ سے پاکستان ٹوٹا تھا غلط فیصلے غلط ہی رہتے ہیں ہمیں آئین کو مقدم سمجھنا چاہیے ہم نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔

عوام ماضی کے بعض سیاسی عدالتی فیصلوں کو مشکوک اور بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کو عدالتی قتل قرار دیتے ہیں ،کچھ فیصلے متنازع قرار پائے جاتے ہیں اور بعض سیاسی حلقے موجودہ سیاسی صورت حال کا ذمے دار بھی ایسے ہی فیصلوں کو قرار دیتے آ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ نظریہ ضرورت پر اب بھی عمل ہو رہا ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی کہہ دیا ہے کہ عدالت نے آئین کو ری رائٹ کیا ہے جو آئین کے خلاف ہے قانون سازی کے اختیارات پارلیمنٹ کے پاس ہیں جس کی راہ میں رکاوٹ سامنے آ رہی ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ ملک میں سیاسی صورت حال سخت کشیدہ اور سیاسی پارہ بہت ہائی ہے جسے کم کرنے کی شدید ضرورت ہے۔

حکومتی اتحادی موجودہ سیاسی صورت حال کی کشیدگی کا ذمے دار خود عمران خان کو قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انھوں نے سیاسی کشیدگی کو سیاسی دشمنی میں تبدیل کردیا ہے اور اپنی حکومت میں انھوں نے اپنے سیاسی مخالفین سے جس طرح انتقام لیا ان پر جھوٹے مقدمات بنوائے اور اپنے تمام مخالفین کو گرفتار کرایا اور ان پر جیلوں میں سختیاں کروا کر خود محفوظ ہوا کرتے تھے اور انھوں نے سیاسی انتقام کی انتہا کردی تھی اور اب خود واویلا کر رہے ہیں حالانکہ موجودہ حکومت نے ان پر کوئی غلط مقدمہ نہیں بنایا اور عمران خان نے جو کچھ کیا۔

اسی پر ان پر مقدمات بنے ہیں اور پی ٹی آئی کے کارکنوں نے پولیس پر تشدد کیا جس پر مقدمات بنے ہیں۔ عمران خان کے سیاسی مخالفین کی باتوں میں وزن ہے کہ عمران خان سیاسی مخالفت کو سیاسی دشمنی میں تبدیل کرنے کے واحد ذمے دار ہیں۔

عمران خان نے خود کہا تھا کہ اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد میں زیادہ خطرناک ہو جاؤں گا اور وہ ملکی سیاست ہی نہیں سلامتی کے لیے بھی خطرناک ہو چکے ہیں۔ حکومت عمران خان کی چھوڑی ہوئی تباہ حال معیشت کو سدھارنے اور ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے اور عمران خان ملکی معاشی و سیاسی صورت حال کو بگاڑنے پر تلے ہوئے ہیں اور ثابت ہو چکا ہے کہ وہ خود اور پی ٹی آئی نہیں چاہتی کہ ملک کو آئی ایم ایف سے قرض ملے تاکہ ملک کی معاشی حالت بہتر بنائی جاسکے اور معاشی بہتری لا کر ملک کو مہنگائی سے نجات دلائی جاسکے۔

پی ٹی آئی سمیت ہر جماعت تسلیم کر رہی ہے کہ ملک میں سیاسی مخالفت دشمنی میں تبدیل ہو چکی ہے سیاسی پارہ بہت ہائی ہے۔ عمران خان کو اپنی جان کا بہت خوف ہے کہ انھیں قتل کردیا جائے گا۔

عمران خان نے اقتدار سے نکالے جانے کے بعد پنجاب و کے پی میں درجنوں جلسے کیے تو انھیں کوئی خوف نہیں تھا کیونکہ وہاں ان کی اپنی حکومتیں تھیں اور سرکاری سیکیورٹی کے باوجود وزیر آباد میں ان پر حملہ ہوا جس کے بعد سے وہ زمان پارک میں محدود ہیں اور مجبوری میں عدالتوں میں جاتے ہیں۔

جہاں انھیں اپنی جان کا خوف رہتا ہے اور اپنی جان کے لیے انھوں نے اپنے سر پر بلیک بکس لگانا شروع کر رکھا ہے اور زمان ٹاؤن میں اپنی حفاظت کے لیے انھوں نے سیکڑوں کارکنوں کا حصار بنوا رکھا ہے اور خصوصی طور پر بلٹ پروف آہنی گیٹ لگوانے سمیت تمام حفاظتی انتظامات کر رکھے ہیں جو ان کا حق ہے مگر کسی اور سیاسی رہنما کے ساتھ ایسی صورت حال نہیں ہے۔

سیاسی صورت حال کو سیاسی دشمنی میں اس طرح تبدیل کیا جا چکا ہے کہ بعض حکومتی اتحادی ان سے بات تک کرنے کو تیار نہیں اور نہ ہی عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہیں۔ ملک میں انتہا پر پہنچی سیاسی کشیدگی میں عمران خان کیسے انتخابی مہم چلائیں گے یہ ایک بڑا سوال ہے۔

چیف جسٹس ہر حال میں پنجاب میں الیکشن چاہتے ہیں جس کے لیے حکومت تیار نہیں وہ ایک ہی دن ملک میں انتخابات چاہتی ہے ملک میں سیاسی کشیدگی اب سیاسی دشمنی بن چکی ہے ایسے سنگین حالات میں پنجاب میں فوری انتخابات کیسے ممکن ہیں یہ حکومت تو سوچ رہی ہے مگر عمران خان اور ان کے حامی نہیں سوچ رہے۔ اب ملک میں دہشت گردی سے زیادہ سیاسی دشمنی زیادہ خطرناک ہو چکی ہے جو کہیں نہیں بلکہ گلی گلی تک پہنچ چکی ہے۔

ایسی کشیدہ سیاسی صورت حال فوری انتخابات کی متحمل ہو ہی نہیں سکتی کہ جس میں سخت خونریزی کا خدشہ ہو۔ یہ حقیقت پی ٹی آئی میں بھی دیکھی جا رہی ہے مگر حصول اقتدار کی ہوس اصل حقائق اور سیاسی صورت حال نہیں دیکھنے دے رہی جس سے ملکی سلامتی کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔