ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
ملک کا قانون کہتا ہے کہ مزدور یونین سازی کرسکتا ہے لیکن حقیقت میں اسے اس حق سے محروم رکھا گیا ہے
پوری دنیا کی طرح ، پاکستان میں بھی یوم مزدور کی مناسبت سے محنت کش تنظیموں نے ریلیوں، مظاہروں اور جلسہ ، جلوسوں کا اہتمام کیا ۔
ملک بھرکی مزدور تنظیموں نے اس موقع پر اپنے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ اپنے جائز حقوق کے تحفظ اور منصفانہ نظام معیشت کی تعمیر کے لیے اپنی تاریخی جدوجہد جاری رکھیں گی۔
ملک کا قانون کہتا ہے کہ مزدور یونین سازی کرسکتا ہے لیکن حقیقت میں اسے اس حق سے محروم رکھا گیا ہے، بدقسمتی سے پاکستان میں مزدور یونینز ختم کردی گئی ہیں۔
اس طرح کی تمام تنظیمیں حکومت اور افراد کے درمیان پل کا کام کرتی ہیں۔ یہیں سے لیڈرز قومی دھارے میں لائے جاتے ہیں، لیکن آپ پاکستان کی پچھلے بیس سال کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو ان تنظیموں کا وجود ناپید ہوتے ہوئے نظر آئے گا۔
ہمارے یہاں کچھ لوگ شاید کسی بیلچہ چلانے والے یا راج مستری کا کام کرنے والے کو ہی مزدور سمجھ لیتے ہیں، لیکن حقیقت میں ہر وہ انسان مزدور ہے جو کسی فیکٹری ، دکان، اسکول، کارخانے یا دفتر میں کام کرتا ہے، اس لیے مزدوروں کی بات کرتے وقت ان سب لوگوں کی مجبوریوں کا بھی احساس کرنا ہوگا۔
عالمی قوانین کے تحت آٹھ گھنٹے کام ، آٹھ گھنٹے تفریح اور آٹھ گھنٹے آرام کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ کیا ہم ان قوانین پر عمل کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں؟ کیا پاکستان میں آج میں مزدور کی کم سے کم اجرت 25 ہزار روپے اسے دی جا رہی ہے؟ مزدور سے صرف آٹھ گھنٹے کام لیا جا رہا ہے؟ کیا مزدور کا جنسی، جسمانی، معاشی استحصال نہیں کیا جا رہا ؟ ہمارے پاس جوابات موجود ہیں اور وہ جوابات '' نہیں'' میں ہیں۔
اگر ہم محض غیر منظم شعبوں کی حالت زار پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں مزدوروں کے غیر منظم شعبوں کی حالت بہت زیادہ دگرگوں ہے۔ مثال کے طور پر ملک میں زراعت ، بھٹہ خشت، تعمیرات، کان کنی، مواصلاتی شعبوں کے مزدوروں کا کوئی پرسان حال نہیں جب کہ دوسری طرف منظم صنعتی شعبوں کے مزدوروں کی حالت بھی بہت زیادہ اچھی نہیں اور وہاں بھی اکثر اوقات منقسم اور غیر مستحکم حالات کا شکار ہیں۔
اسی طرح اگرچہ آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی سے زائد کام غیر قانونی ہے لیکن درحقیقت اسی کو قانون کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ صحت ، تحفظ ، پنشن اور قانون سازی حق ہے لیکن محنت کش نہ صرف اس سے محروم ہے بلکہ اس پر اگر وہ بات بھی کرے تو اسے فوری طور پر بے روزگار ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
آئی ایل او اور دیگر ٹریڈ یونینز کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سماجی تبدیلی کی بنیادی اکائی یعنی محنت کش، مزدور، ہاری اور کسان ملکی آبادی کا 32 فیصد سے زائد ہیں اور بالغ آبادی کے تناسب کو دیکھا جائے تو یہ 70 فیصد سے زائد یعنی چھ کروڑ نفوس پر مشتمل حصہ بنتا ہے۔ ملک کی لیبر فورس میں نوجوانوں کا حصہ 60 فیصد سے زائد ہے جب کہ صنعتی مزدوروں میں نوجوانوں کی شرح 72 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
یہ وہ متحرک طبقہ ہے جو کسی بھی ریاست کی معاشی سمت کا تعین کرسکتا ہے اور اگر اس کے بہتر حقوق اور فعال کردار کو تسلیم کرلیا جائے تو کوئی بھی ملک صحت مند معاشی مرتبہ حاصل کرسکتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہم نے اس بڑے حصے کو نہ صرف فراموش کردیا بلکہ اِن کو بے یار و مددگار بھی چھوڑ دیا ہے۔
اگر اعداد و شمار پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں لیبر فورس کا 80 فیصد سے زائد حصہ غیر منظم شعبے سے تعلق رکھتا ہے جب کہ منظم ٹریڈ یونین میں اس کی شرح 2 فیصد سے بھی کم ہے، اگر حکومتی سیکٹر یعنی ریلوے، واپڈا، بلدیات، آئل و گیس ، اسٹیل ملز وغیرہ کے مزدوروں کا شمار نہ کیا جائے تو پرائیویٹ سیکٹر کی ٹریڈ یونین میں منظم مزدور1 فیصد سے بھی کم رہ جاتے ہیں جو جنوبی ایشیاء میں سب سے کم تر سطح ہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں مزدور تحریک کو منظم کرنے کے قانونی ذرایع تیزی کے ساتھ اپنی اہمیت کھوتے جا رہے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں مزدور تو بہت زیادہ ہوں گے لیکن اِنہیں کسی بھی منظم مزدور یونین کا سہارا میسر نہیں ہوگا۔ یہی سب کچھ نجی و سرکاری سرمایہ دارانہ ادارے اور قوتیں چاہتی ہیں کہ کسی بھی طرح ایک آزاد اور متحرک ٹریڈ یونین کا وجود قائم نہ ہونے پائے۔
ملک بھر میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے کم از کم اجرت کا اعلان کیا جاتا ہے جو اس وقت25 ہزار روپے ماہانہ ہے ، تاہم اس کم از کم اجرت پر عمل درآمد نہیں ہوتا ، گزشتہ دو سال کے دوران پاکستانی روپے کی قدر میں جس تیزی سے کمی ہوئی ہے۔
اس سے ان کی تنخواہ میں مزید کمی آگئی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرط پر سبسڈیز کے خاتمے اور ٹیکس وصولی بڑھنے سے غریب محنت کشوں کی حالت مزید خراب ہوگئی ہے۔ سیاسی جماعتیں مزدوروں کے لیے بات تو کرتی ہیں لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کرتیں، حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو، محنت کشوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے کیونکہ سیاسی جماعتیں بھی محنت کشوں سے زیادہ سرمایہ کاروں کو سپورٹ کرتی ہیں۔
محنت کشوں کو فیکٹریوں اور کارخانوں میں تھرڈ پارٹی سسٹم کے تحت بھرتی کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے زندگی بھر محنت کرنے والے ایک لمحے میں فارغ کر دیے جاتے ہیں لیکن ان کے پاس اپنی محنت ثابت کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔ دراصل اسی انداز میں ورکرز کو تبدیل کیا جاتا ہے کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ نئے ورکرز کم اجرت پر زیادہ کم کرتے ہیں جب کہ کچھ سال کام کرنے کے بعد نسبتا پرانے ورکرز تنخواہوں میں اضافے سمیت دیگر ڈیمانڈ کرنے لگتے ہیں۔
پاکستان میں مزدوروں کو یونین سازی کا حق نہیں دیا جارہا، پرائیویٹ شعبے میں بمشکل0.5فیصد مزدور یونین کا حصہ ہیں۔ اسی طرح سوشل سیکیورٹی میں ورکرز کا اندارج نہیں کیا جاتا۔ پنشن کے لیے ای او بی آئی میں اندراج بھی نہیں کیا جاتا۔ ورکرز کی ایک بڑی تعداد کو معلوم ہی نہیں کہ ان کے لیے سوشل سیکیورٹی اور ای او بی آئی جیسے ادارے بھی کام کررہے ہیں۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی، مزدوروں کا جسمانی، معاشی استحصال ایک عام سی بات تصور کی جاتی ہے۔ چائلڈ لیبر لا کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہو رہی ہے۔
چودہ سال سے کم عمر کو بچہ تصور کیا جاتا ہے۔ آپ کو یہ بچے بھٹوں، ہوٹلوں اور دکانوں پر کام کرتے یا بازاروں میں بھیک مانگتے عام نظر آئیں گے۔ یہ وہ '' چھوٹے'' ہیں جو اپنے گھروں کے بڑے ہوتے ہیں۔
سارا دن گاہکوں کی جھڑکیاں سننے کے بعد انتہائی قلیل مزدوری کے ساتھ شام کو اپنے گھر کی دہلیز پار کرتے ہیں تو اس دکھ اور کرب کا اندازہ انتظار کرتی ہوئی ماں لگا سکتی ہے، آپ کے اور میرے بس کی بات نہیں۔ حکومت کے اس بارے اقدامات صرف کاغذوں تک محدود ہیں۔ بچوں کے ریپ اور گھروں میں کام کرنے والی عورت مزدوروں کے جنسی استحصال کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ درج ہونے والے مقدمات کی زیادہ تعداد دفتروں اور گھروں میں کام کرنے والی مزدور عورتوں کی ہے، جب کہ نہ درج ہونے والے مقدمات کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔
مزدوروں کو ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ اور تعلیم صحت چھت اور روزگار کی ضمانت اور تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔ لیبر قوانین بھی صرف رجسٹرڈ مزدوروں کی تعداد کو سامنے رکھ کر بنائے جاتے ہیں حالانکہ کھیتوں میں دن بھر محنت کرنے والے، اینٹوں کے بھٹوں پر خون پسینہ ایک کرنے والے، ہوٹلوں اور ورکشاپوں میں کام کرنے والے ہزاروں ، لاکھوں مزدور ایسے ہیں جن کو کبھی کسی ادارے نے رجسٹرڈ نہیں کیا۔
یہاں مزدور ،محنت کش اور کسان کی محنت کا پھل سرمایہ دار اور جاگیردار کھاتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ مزدوروں اور کسانوں کے حقوق غصب کرنے والا ٹولہ ہی ان کی وکالت کی ڈرامہ بازی کر کے انھیں بار بار دھوکا دیتا ہے۔ عوام کی بنیادی ضروریات تعلیم، صحت، روزگار، چھت اور امن عامہ کا قیام اور جان و مال کا تحفظ فراہم کرنا حکومت کی اولین ذمے داری ہے، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان تمام شعبوں میں حکومت بری طرح ناکام نظر آتی ہے اور ہر شعبہ زبوں حالی کی تصویر بن چکا ہے۔ بے روزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے۔
تعلیم سرکاری شعبے سے نکل کر پرائیویٹ سیکٹر میں چلی گئی ہے اور یہ اتنی مہنگی ہے کہ ایک متوسط طبقہ کے لیے اس کا حصول ناممکن ہوتا جارہا ہے۔
شعبہ صحت کی حالت اس سے بھی زیادہ پریشان کن ہے اور سرکاری اسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولتیں ہیں اور نہ آبادی کے حساب سے سرکاری اسپتال موجود ہیں۔ اسپتالوں میں مریضوں کے لیے بستر ہیں نہ ادویات دستیاب ہیں۔ بڑے سرکاری اسپتالوں میں ایک ایک بستر پر دو دو تین تین مریض پڑے ہوتے ہیں۔
بدترین مہنگائی کی وجہ سے محنت کش طبقہ جن بے پناہ مسائل کا شکار ہے، اِن سے نجات کے لیے حکومت کو چاہیے، مزدور کی کم ازکم ماہانہ اُجرت پچاس ہزار مقرر کرے، مزدوروں کو معاشرے میں با وقار مقام دلانے کے لیے لیبر قوانین پر سختی سے عمل کروایا جائے۔
سرمایہ دار اور محنت کش کے درمیان فرق کو ختم کر کے اُن کے لیے بہتر طبعی سہولیات، بچوں کی تعلیم اور رہائش کا بندوبست کیا جائے اور اشیاء ضروریات زندگی کی مناسب قیمتوں پر ترسیل کو آسان بنائے حکمران ایسی پالیسیاں بنائیں کہ اِن پر عمل پیرا ہوکر یہ مجبور اور مظلوم طبقہ بھی زندگی سے اپنے حِصے کی خوشیاں حاصل کرسکے۔
ملک بھرکی مزدور تنظیموں نے اس موقع پر اپنے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ اپنے جائز حقوق کے تحفظ اور منصفانہ نظام معیشت کی تعمیر کے لیے اپنی تاریخی جدوجہد جاری رکھیں گی۔
ملک کا قانون کہتا ہے کہ مزدور یونین سازی کرسکتا ہے لیکن حقیقت میں اسے اس حق سے محروم رکھا گیا ہے، بدقسمتی سے پاکستان میں مزدور یونینز ختم کردی گئی ہیں۔
اس طرح کی تمام تنظیمیں حکومت اور افراد کے درمیان پل کا کام کرتی ہیں۔ یہیں سے لیڈرز قومی دھارے میں لائے جاتے ہیں، لیکن آپ پاکستان کی پچھلے بیس سال کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو ان تنظیموں کا وجود ناپید ہوتے ہوئے نظر آئے گا۔
ہمارے یہاں کچھ لوگ شاید کسی بیلچہ چلانے والے یا راج مستری کا کام کرنے والے کو ہی مزدور سمجھ لیتے ہیں، لیکن حقیقت میں ہر وہ انسان مزدور ہے جو کسی فیکٹری ، دکان، اسکول، کارخانے یا دفتر میں کام کرتا ہے، اس لیے مزدوروں کی بات کرتے وقت ان سب لوگوں کی مجبوریوں کا بھی احساس کرنا ہوگا۔
عالمی قوانین کے تحت آٹھ گھنٹے کام ، آٹھ گھنٹے تفریح اور آٹھ گھنٹے آرام کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ کیا ہم ان قوانین پر عمل کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں؟ کیا پاکستان میں آج میں مزدور کی کم سے کم اجرت 25 ہزار روپے اسے دی جا رہی ہے؟ مزدور سے صرف آٹھ گھنٹے کام لیا جا رہا ہے؟ کیا مزدور کا جنسی، جسمانی، معاشی استحصال نہیں کیا جا رہا ؟ ہمارے پاس جوابات موجود ہیں اور وہ جوابات '' نہیں'' میں ہیں۔
اگر ہم محض غیر منظم شعبوں کی حالت زار پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں مزدوروں کے غیر منظم شعبوں کی حالت بہت زیادہ دگرگوں ہے۔ مثال کے طور پر ملک میں زراعت ، بھٹہ خشت، تعمیرات، کان کنی، مواصلاتی شعبوں کے مزدوروں کا کوئی پرسان حال نہیں جب کہ دوسری طرف منظم صنعتی شعبوں کے مزدوروں کی حالت بھی بہت زیادہ اچھی نہیں اور وہاں بھی اکثر اوقات منقسم اور غیر مستحکم حالات کا شکار ہیں۔
اسی طرح اگرچہ آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی سے زائد کام غیر قانونی ہے لیکن درحقیقت اسی کو قانون کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ صحت ، تحفظ ، پنشن اور قانون سازی حق ہے لیکن محنت کش نہ صرف اس سے محروم ہے بلکہ اس پر اگر وہ بات بھی کرے تو اسے فوری طور پر بے روزگار ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
آئی ایل او اور دیگر ٹریڈ یونینز کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سماجی تبدیلی کی بنیادی اکائی یعنی محنت کش، مزدور، ہاری اور کسان ملکی آبادی کا 32 فیصد سے زائد ہیں اور بالغ آبادی کے تناسب کو دیکھا جائے تو یہ 70 فیصد سے زائد یعنی چھ کروڑ نفوس پر مشتمل حصہ بنتا ہے۔ ملک کی لیبر فورس میں نوجوانوں کا حصہ 60 فیصد سے زائد ہے جب کہ صنعتی مزدوروں میں نوجوانوں کی شرح 72 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
یہ وہ متحرک طبقہ ہے جو کسی بھی ریاست کی معاشی سمت کا تعین کرسکتا ہے اور اگر اس کے بہتر حقوق اور فعال کردار کو تسلیم کرلیا جائے تو کوئی بھی ملک صحت مند معاشی مرتبہ حاصل کرسکتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہم نے اس بڑے حصے کو نہ صرف فراموش کردیا بلکہ اِن کو بے یار و مددگار بھی چھوڑ دیا ہے۔
اگر اعداد و شمار پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں لیبر فورس کا 80 فیصد سے زائد حصہ غیر منظم شعبے سے تعلق رکھتا ہے جب کہ منظم ٹریڈ یونین میں اس کی شرح 2 فیصد سے بھی کم ہے، اگر حکومتی سیکٹر یعنی ریلوے، واپڈا، بلدیات، آئل و گیس ، اسٹیل ملز وغیرہ کے مزدوروں کا شمار نہ کیا جائے تو پرائیویٹ سیکٹر کی ٹریڈ یونین میں منظم مزدور1 فیصد سے بھی کم رہ جاتے ہیں جو جنوبی ایشیاء میں سب سے کم تر سطح ہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں مزدور تحریک کو منظم کرنے کے قانونی ذرایع تیزی کے ساتھ اپنی اہمیت کھوتے جا رہے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں مزدور تو بہت زیادہ ہوں گے لیکن اِنہیں کسی بھی منظم مزدور یونین کا سہارا میسر نہیں ہوگا۔ یہی سب کچھ نجی و سرکاری سرمایہ دارانہ ادارے اور قوتیں چاہتی ہیں کہ کسی بھی طرح ایک آزاد اور متحرک ٹریڈ یونین کا وجود قائم نہ ہونے پائے۔
ملک بھر میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے کم از کم اجرت کا اعلان کیا جاتا ہے جو اس وقت25 ہزار روپے ماہانہ ہے ، تاہم اس کم از کم اجرت پر عمل درآمد نہیں ہوتا ، گزشتہ دو سال کے دوران پاکستانی روپے کی قدر میں جس تیزی سے کمی ہوئی ہے۔
اس سے ان کی تنخواہ میں مزید کمی آگئی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرط پر سبسڈیز کے خاتمے اور ٹیکس وصولی بڑھنے سے غریب محنت کشوں کی حالت مزید خراب ہوگئی ہے۔ سیاسی جماعتیں مزدوروں کے لیے بات تو کرتی ہیں لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کرتیں، حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو، محنت کشوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے کیونکہ سیاسی جماعتیں بھی محنت کشوں سے زیادہ سرمایہ کاروں کو سپورٹ کرتی ہیں۔
محنت کشوں کو فیکٹریوں اور کارخانوں میں تھرڈ پارٹی سسٹم کے تحت بھرتی کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے زندگی بھر محنت کرنے والے ایک لمحے میں فارغ کر دیے جاتے ہیں لیکن ان کے پاس اپنی محنت ثابت کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔ دراصل اسی انداز میں ورکرز کو تبدیل کیا جاتا ہے کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ نئے ورکرز کم اجرت پر زیادہ کم کرتے ہیں جب کہ کچھ سال کام کرنے کے بعد نسبتا پرانے ورکرز تنخواہوں میں اضافے سمیت دیگر ڈیمانڈ کرنے لگتے ہیں۔
پاکستان میں مزدوروں کو یونین سازی کا حق نہیں دیا جارہا، پرائیویٹ شعبے میں بمشکل0.5فیصد مزدور یونین کا حصہ ہیں۔ اسی طرح سوشل سیکیورٹی میں ورکرز کا اندارج نہیں کیا جاتا۔ پنشن کے لیے ای او بی آئی میں اندراج بھی نہیں کیا جاتا۔ ورکرز کی ایک بڑی تعداد کو معلوم ہی نہیں کہ ان کے لیے سوشل سیکیورٹی اور ای او بی آئی جیسے ادارے بھی کام کررہے ہیں۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی، مزدوروں کا جسمانی، معاشی استحصال ایک عام سی بات تصور کی جاتی ہے۔ چائلڈ لیبر لا کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہو رہی ہے۔
چودہ سال سے کم عمر کو بچہ تصور کیا جاتا ہے۔ آپ کو یہ بچے بھٹوں، ہوٹلوں اور دکانوں پر کام کرتے یا بازاروں میں بھیک مانگتے عام نظر آئیں گے۔ یہ وہ '' چھوٹے'' ہیں جو اپنے گھروں کے بڑے ہوتے ہیں۔
سارا دن گاہکوں کی جھڑکیاں سننے کے بعد انتہائی قلیل مزدوری کے ساتھ شام کو اپنے گھر کی دہلیز پار کرتے ہیں تو اس دکھ اور کرب کا اندازہ انتظار کرتی ہوئی ماں لگا سکتی ہے، آپ کے اور میرے بس کی بات نہیں۔ حکومت کے اس بارے اقدامات صرف کاغذوں تک محدود ہیں۔ بچوں کے ریپ اور گھروں میں کام کرنے والی عورت مزدوروں کے جنسی استحصال کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ درج ہونے والے مقدمات کی زیادہ تعداد دفتروں اور گھروں میں کام کرنے والی مزدور عورتوں کی ہے، جب کہ نہ درج ہونے والے مقدمات کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔
مزدوروں کو ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ اور تعلیم صحت چھت اور روزگار کی ضمانت اور تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔ لیبر قوانین بھی صرف رجسٹرڈ مزدوروں کی تعداد کو سامنے رکھ کر بنائے جاتے ہیں حالانکہ کھیتوں میں دن بھر محنت کرنے والے، اینٹوں کے بھٹوں پر خون پسینہ ایک کرنے والے، ہوٹلوں اور ورکشاپوں میں کام کرنے والے ہزاروں ، لاکھوں مزدور ایسے ہیں جن کو کبھی کسی ادارے نے رجسٹرڈ نہیں کیا۔
یہاں مزدور ،محنت کش اور کسان کی محنت کا پھل سرمایہ دار اور جاگیردار کھاتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ مزدوروں اور کسانوں کے حقوق غصب کرنے والا ٹولہ ہی ان کی وکالت کی ڈرامہ بازی کر کے انھیں بار بار دھوکا دیتا ہے۔ عوام کی بنیادی ضروریات تعلیم، صحت، روزگار، چھت اور امن عامہ کا قیام اور جان و مال کا تحفظ فراہم کرنا حکومت کی اولین ذمے داری ہے، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان تمام شعبوں میں حکومت بری طرح ناکام نظر آتی ہے اور ہر شعبہ زبوں حالی کی تصویر بن چکا ہے۔ بے روزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے۔
تعلیم سرکاری شعبے سے نکل کر پرائیویٹ سیکٹر میں چلی گئی ہے اور یہ اتنی مہنگی ہے کہ ایک متوسط طبقہ کے لیے اس کا حصول ناممکن ہوتا جارہا ہے۔
شعبہ صحت کی حالت اس سے بھی زیادہ پریشان کن ہے اور سرکاری اسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولتیں ہیں اور نہ آبادی کے حساب سے سرکاری اسپتال موجود ہیں۔ اسپتالوں میں مریضوں کے لیے بستر ہیں نہ ادویات دستیاب ہیں۔ بڑے سرکاری اسپتالوں میں ایک ایک بستر پر دو دو تین تین مریض پڑے ہوتے ہیں۔
بدترین مہنگائی کی وجہ سے محنت کش طبقہ جن بے پناہ مسائل کا شکار ہے، اِن سے نجات کے لیے حکومت کو چاہیے، مزدور کی کم ازکم ماہانہ اُجرت پچاس ہزار مقرر کرے، مزدوروں کو معاشرے میں با وقار مقام دلانے کے لیے لیبر قوانین پر سختی سے عمل کروایا جائے۔
سرمایہ دار اور محنت کش کے درمیان فرق کو ختم کر کے اُن کے لیے بہتر طبعی سہولیات، بچوں کی تعلیم اور رہائش کا بندوبست کیا جائے اور اشیاء ضروریات زندگی کی مناسب قیمتوں پر ترسیل کو آسان بنائے حکمران ایسی پالیسیاں بنائیں کہ اِن پر عمل پیرا ہوکر یہ مجبور اور مظلوم طبقہ بھی زندگی سے اپنے حِصے کی خوشیاں حاصل کرسکے۔