سازشیں اور ان کا سدباب

گورننس سب سے بڑا بحران ہے۔ اس بحران نے لوگوں کو سیاسی ، سماجی ، انتظامی اور معاشی بنیاد پر تقسیم بھی کردیا ہے

salmanabidpk@gmail.com

پاکستان کا ایک مسئلہ داخلی ہے تو دوسرا مسئلہ علاقائی اور عالمی تعلقات سے جڑا ہوا ہے۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے اپنے پہلے کلیدی خطاب میں جہاں چند بڑے چیلنجز کا ذکر کیا ہے ان میں ایک نقطہ عوام اور فوج کے درمیان تقسیم پیدا کرنا یا ان میں دراڑیں ڈالنے میں ہمارا دشمن ریاستی اور سماجی ہم آہنگی ختم کرنا چاہتا ہے۔

ان کے بقول ظاہری و چھپے دشمن کو پہچاننے میں حقیقت اور ابہام میں واضح فرق رکھنا ہوگا تاکہ عوام اور فوج کے درمیان باہمی رشتے کو قائم رکھا جائے ۔اسی طرح انھوں نے ایک اور نقطہ پر زور دیا کہ ریاست کا محور عوام ہیں اور ہمارے نزدیک شہریوں کے تحفظ و سلامتی سے بڑھ کر کوئی چیز مقدس نہیں ۔اس نقطہ نظر کا ایک پس منظر ہے ۔

کچھ برسوں سے عوام اور فوج میں ایک خاص منصوبہ بندی یا سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت تقسیم یا دوریاں پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں۔ اس کھیل میں جہاں کچھ خارجی عناصر شامل ہیں وہیں کچھ داخلی عناصر بھی اس مہم کا حصہ ہیں ۔

اس کھیل میں ہائبرڈ وار یا ففتھ جنریشن وار ، سوشل یا ڈیجیٹل میڈیا جنگ کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔اس کھیل میں سیاسی ، سماجی ، معاشی طور پر یا اداروں کی سطح پر ایک دوسرے کے خلاف منفی مہم یا اس کے نتیجہ میں ایک بڑی تقسیم پیدا کرنا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں داخلی اور خارجی سطح پر ایک منظم سازش کے تحت یہ مہم دیکھنے کو مل رہی ہے جہاں اداروں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے ۔

بنیادی طور پر ہمارے معاشرے میں پچھلے کچھ برسوں میں بڑھتی ہوئی تقسیم نظر آرہی ہے اس میں ہماری سوچ، فکر ، خیالات میں شدت پسندی یا جذباتیت کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے ۔ خاص طور پر نئی نسل کی سطح پر جو ہمیں خیالات کی آزادی نظر آتی ہے اس میں لوگوں کے جذبات یا خیالات کی اہمیت اپنی جگہ مگر ان میں ریڈ لائن یا ذمے دارانہ طرز عمل کا فقدان نظر آتا ہے۔

لوگوں میں ریاستی یا حکومتی نظام ، اداروں کی کارکردگی یا ریاستی و حکومتی سطح پر لیے جانے والے فیصلوں یا اقدامات پر سخت ردعمل کی سیاست غالب ہے۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ عام آدمی کی اہمیت بہت کم ہوکر رہ گئی ہے اور یہ پورا ریاستی نظام طاقت ور طبقہ کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے ۔

اداروں اور عوام کا تعلق ایک مضبوط ریاست کے لیے ضروری ہے اور اداروں پر کی جانے والی بے جا تنقید بھی ریاستی مفاد کے برعکس ہے۔ یقیناً اس امر میں غیرملکی سازش بھی ہوسکتی ہے اور ہمارے بہت سے نوجوان اس کے شعوری یا لاشعوری طور پر حصہ بن گئے ہوں۔مگر نئی نسل میں ریاستی معاملات کے تناظر میں ردعمل کی سیاست کا غلبہ دکھائی دیتا ہے ۔آج کی دنیا ابلاغ اور جدید میڈیا یعنی ڈیجیٹل میڈیا کی دنیا ہے۔

ایسی دنیا میں معلومات کا پھیلاؤ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اور لوگوں کے پاس گلوبل سطح پر معلومات کا خزانہ ہے ، یہ معلومات درست بھی ہوسکتی ہیں اور غلط بھی اور اسی طرح اس میں مخالفانہ مہم یا پروپیگنڈا بھی ہوسکتا ہے۔

پڑھے لکھے نوجوانوں کی رسائی اب معلومات کے تناظر میں بہت بڑھ گئی ہے اور اس کو روکنا ممکن نہیں ۔آپ ریاستی یا نجی میڈیا یا ابلاغ کو کنٹرول کرسکتے ہیں مگر گلوبل میڈیا یا ڈیجیٹل میڈیا میں جاری معلومات کی جنگ کو روکنا ممکن نہیں۔دنیا میں اب میڈیا یا ڈیجیٹل میڈیا کو بنیاد بنا کر بیانیہ کی جنگ کا زمانہ ہے۔ یہ جنگ مثبت اور منفی مہم کا حصہ ہوسکتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر ہم نے قومی سطح پر قومی یکجہتی اور سماجی ہم آہنگی کو مضبوط بنانا ہے اور بیرونی سطح پر موجود ان خارجی سازشوں سے بچنا ہے تو اس کا علاج بھی علمی و فکری بنیادوں پر عالمی یا داخلی سطح پر موجود بیانیہ کی جنگ سے ہی جڑا ہوا ہے۔


یہ جنگ جذباتیت اور پرجوشیت کے بجائے ہوش مندی اور علمی و فکری بنیادوں پر لڑنی ہے تو اس کی حکمت عملی میں بھی ردعمل کی سیاست کے مقابلے میں سنجیدگی اور بردباری سمیت تدبر اور تحمل کی حکمت عملی کو بھی غالب ہونا ہوگا۔

ایک بنیادی بات ریاست کا محور عوام کے ساتھ جوڑنے کی ہے۔ یہ ہی وہ بنیادی نقطہ ہے اگر ہم اس کی موثر حکمت عملی اور عملی اقدامات کی بنیاد پر آگے بڑھنے کا فیصلہ کرلیں تو لوگوں میں موجود ریاستی نظام کے خلاف منفی مہم کمزور ہوسکتی ہے۔ ہماری قومی سیکیورٹی پالیسی میں بھی دو اہم نکات پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔

اول، ہم عام آدمی کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں اور خاص طور پر گورننس میں موجود خرابیوں کو ختم کرنا ہماری ترجیح کا حصہ ہوگا۔ دوئم، ہماری پوری ریاستی حکمت عملی جیو اسٹرٹیجک اور جیومعیشت کی بنیاد پر کھڑی ہوگی اور جو بھی ہمارے علاقائی یا عالمی تعلقات کی نوعیت ہوگی اس میں تنازعات میں الجھنا ، کسی کی جنگ کا حصہ بننا یا کسی کی جنگوں میں سہولت کاری کا کردار ادا کرنے کے مقابلے میں صرف معاشی بنیادوں پر تعلقات کو مضبوط اور مربوط بنایا جائے گا۔ ہمارا اصل بحران داخلی نوعیت کا ہے ۔

گورننس سب سے بڑا بحران ہے۔ اس بحران نے لوگوں کو سیاسی ، سماجی ، انتظامی اور معاشی بنیاد پر تقسیم بھی کردیا ہے اور ان میں ردعمل کی سیاست کو بھی جنم دیا ہے ۔ نوجوانوں کی سطح پر بے روزگاری ، عدم انصاف، سیاسی وقانونی اور معاشی سطح کا استحصال ،معاشی بنیادوں پر کمزور ہونے کی وجہ سے مختلف تفریق کا سامنا ، غیر یقینی صورتحال ، ریاستی وحکومتی نظام کی عوامی مفادات کی بنیاد پر عدم ترجیحات کا کھیل ،مخصوص خاندانو ں کی بنیاد پر حکومتی نظام، حکومتی نظام میں ریگولیٹ پر مبنی نظام کی ناکامی ،ریاست، حکومت اور طاقت ور مافیا کا براہ راست گٹھ جوڑ جیسے امور کی وجہ سے ہم شدید ترین داخلی بحران کا شکار ہیں۔

سیاست ، جمہوریت ، آئین اور قانون پر مبنی نظام کو عملی بنیادوں پر ایک مخصوص طاقت ور طبقہ نے اپنے مفادات کی بنیاد پر کنٹرول کرلیا ہے ۔

جب دشمن ریاستی اور سماجی ہم آہنگی یا نفرت کی بنیاد پر ہمیں تقسیم پیدا کرنا چاہتا ہے تو ہمیں ضرور اس کی نشاندہی کرنی چاہیے ، مگر اس بات کا بھی تجزیہ کیا جانا چاہیے کہ کیا ہمارا ریاستی و حکومتی نظام عام آدمی اور اس کے بنیادی حقوق اور مفادات کے تناظر میں اس کے معیار پر پورا اتر رہا ہے۔کیا وجہ ہے کہ یہاں سیاسی و جمہوری حکومتوں کی ترجیحات میں گورننس کی بہتری شامل نہیں اور ان کے مفادات یا ان کے ریاستی اداروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کے نتیجے میں عام آدمی کہاں کھڑا ہے۔

اصل اور بنیادی وجہ جو ہمیں اپنے ریاستی نظام میں تقسیم اور دراڑ کی صورت میں نظر آرہی ہے اس کی ایک بڑی بنیادی وجہ ہمارا عدم شفافیت پر مبنی حکمرانی کا نظام ہے۔یہ عدم شفافیت اور طاقت ور طبقہ کے مفادات پر مبنی حکمرانی کا نظام ہی نئی نسل میں غصہ، نفرت، تعصب اور خلیج پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے ۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اس بڑھتی ہوئی خلیج کا علاج طاقت یا ڈنڈے یا مقدمات یا ان کو دیوار سے لگا کر سکتے ہیں تو یہ درست حکمت عملی نہیں ہوگی ۔ ہمیں اس امر کا جائزہ لینا ہوگا کہ وہ کیا عوامل ہیں جو نئی نسل میں سخت ردعمل کا ماحول پیدا کررہے ہیں اور اس بنیاد پر سمجھنا ہوگا کہ ریاستی وحکومتی نظام میں کیا خرابیاں ہیں جو نئی نسل کو بغاوت یا خلیج کی طرف لے کر جارہی ہیں ۔

بیانیہ کی جنگ کبھی بھی انتظامی بنیادوں پر نہیں لڑی جاسکتی ہے ۔ انتظامی بنیاد اس جنگ کا ایک حصہ ہوتی ہے جب کہ باقی حصوں میں علمی بنیاد پر حکمت عملیاں اور نوجوانوں میں سیاسی ،سماجی شعور کو اجاگر کرنا، ان کے ریاست کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنا، ریاست اور شہریوں کا باہمی تعلق جو بنیادی حقوق کی ضمانت سے جڑا ہوا ہے کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنانا ہوگا۔

یہ کام کوئی ادارہ بھی تن تنہا نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس کو اس کا بوجھ بھی اٹھانا چاہیے ۔ یہ ایک مکمل پیکیج ہے جو ریاستی وحکومتی نظام سمیت اداروں کی شفافیت ، صلاحیت اور کارکردگی سے جڑا ہوا ہے ۔ ہماری ضرورت ریاستی و حکومتی یا ادارہ جاتی نظام کی ایک بڑی سرجری ہے ۔ اس سرجری میں سب ہی فریقین کو ایک دوسرے کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا اور خود کو سب سے پہلے احتساب یا جوابدہی کے عمل اور خود کو عوامی ترجیحات کے ساتھ کھڑاکرنا ہوگا۔
Load Next Story