کم عمری کی شادیاں۔۔۔
مختلف مسائل کا سبب بننے والا یہ مسئلہ عالمی ہے
بچیوں کی کم عمری میں شادی کا رواج صرف پاکستان ہی میں نہیں، بلکہ ترقی پذیر ممالک کے ساتھ ساتھ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ جو کہ دنیا بھر میں لڑکیوں کی زندگی، فلاح و بہبود اور مستقبل کے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ایک دہائی قبل اگر چار میں سے ایک لڑکی کی شادی کم عمری میں ہوتی تھی تو آج یہ شرح پانچ میں سے ایک کی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں چائلڈ میرج کے رجحان میں کمی آئی ہے، لیکن یہ اب بھی دنیا بھر خصوصاً پاکستان میں یہ ایک مستقل رواج اور روایت کی شکل اختیار کیے ہوئے ہے۔ لڑکیوں کی کم عمری کی شادیاں عموماً صنفی عدم مساوات کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ عالمی سطح پرلڑکوں کی کم عمری کی شادی کا رجحان لڑکیوں کے مقابلے میں صرف چھٹا حصہ ہے۔
لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کا جائزہ لیا جائے تو اس کا سب سے تاریک پہلو یہ ہے کہ کم سنی میں کی گئی شادیاں لڑکیوں سے نہ صرف ان کا بچپن، بلکہ بے فکری اور ذہنی سکون بھی چھین لیتی ہیں۔ جن بچیوں کی شادیاں 18 سال سے پہلے ہو جاتی ہیں، ان کے لیے اپنے حقوق سے آگاہی اور تعلیم کے مواقع کم، جب کہ گھریلو تشدد کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
کم عمری میں شادی کے بندھن میں جڑنے والی بچیاں اپنی غیر شادی شدہ سہیلیوں کے مقابلے میں معاشی اور صحت سے جڑے مسائل کا شکار نظر آتی ہیں اور پھر صحت کے ان مسائل کا نہ تھمنے والا مسئلہ آئندہ نسلوں میں منتقل ہوتا نظر آتا ہے۔
بچیوں کی کم سنی میں کی گئی شادیاں ایک سنگین معاشرتی مسئلہ ہے، جو کہ نہ صرف لڑکیوں، بلکہ آئندہ نسلوں پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ 18 سال سے قبل اور اس کے بعد کے سال بچیوں کو خود کو پہچاننے، اپنی تعلیمی قابلیت سمیت صلاحیتوں کو بروئے کار لانے اور اپنے مستقبل سے جڑے خوابوں کی پلاننگ کا وقت ہوتا ہے۔
ذہنی طور پر شادی کے لیے تیار نہ ہونا، اپنے تمام فیصلے خود کرنے کی صلاحیت ہونا نہ ہونا اور ساتھ مزاج میں پختگی نہ ہونا۔ ایسے وقت میں جب وہ خود بہت سے آنے والے مسائل سے آگاہ نہیں ہوتیں۔ بچیوں کی مرضی کے خلاف ان کی شادیاں کر دینا ان کی آنے والی زندگی کے لیے ذہنی تناؤ کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور خاندانی بگاڑ کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
بچپن کی اور جبری شادیوں کو ختم کرنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے اس دقیانوسی نظام، اصولوں اور طرزِ عمل کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو ان روایات کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ساتھ ہی کم عمری کی شادی جیسے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ان عوامل کی شناخت ضروری ہے، جو کہ چائلڈ میرج کا باعث بنتی ہیں۔
اگرچہ کہ دنیا کے ہر ملک، ثقافت اور معاشرے میں یہ متحرک عوامل مختلف ہیں، لیکن غربت، تعلیمی مواقع کا فقدان اور صحت کی دیکھ بھال تک رسائی نہ ہونا معاشروں میں کم سنی کی شادی جیسی روایات کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
اگرچہ کہ یہ بات خوش آئند نہیں، لیکن یہاں یہ ذکر کرنا بھی نہایت ضروری ہے کہ کچھ خاندان ایسے بھی ہیںِ، جو اپنے معاشی بوجھ کو کم کرنے کے لیے لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر دیتے ہیں اور کبھی بھاری رقم کے عوض کم عمربچیوں کی شادیاں اپنے غریب خاندانوں کے لیے کمائی کا ذریعے بن جاتی ہیں۔
دوسری طرف کم خواندہ اور دقیانوسی روایات سے جڑے خاندانوں کو ایسا لگتا ہے کہ کم عمری کی شادیاں ان کی بچیوں کے مستقبل کو محفوظ بنائیں گی، جب کہ اس کے برعکس ایسی شادیاں دیگر نفسیاتی، ذہنی، سماجی، اور معاشی مسائل کو جنم دیتی ہیں۔
چائلڈ میرج اور جبری شادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ ایک نقصان دہ معاشرتی عمل ہے، جو عالمی سطح پر خواتین اور لڑکیوں کو غیر متناسب طور پر متاثر کرتا ہے، اور انھیں مختلف قسم کے تشدد سے آزاد اپنی زندگی گزارنے سے روکتا ہے۔
کم سنی کی شادیاںدنیا بھر کی لڑکیوں کی نہ صرف زندگی بلکہ ان بچیوں اور ان سے جڑے افراد کے مستقبل کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔ کم عمری میں کی گئی شادیوں کے باعث لڑکیاں نہ صرف اپنی زندگی کے بارے میں آزادانہ فیصلے کرنے کی صلاحیت کھو دیتی ہیں، بلکہ یہ روایت ان کی معاشی، سیاسی اور سماجی شعبوں میں کارکردگی کو بھی متاثر کرتی ہے۔
کم عمری کی شادی سے جڑی لڑکیوں کے بچپن کی ایک تباہ کاری بار بار حمل اور بچوں کے پیدائش بھی ہے، جس سے براہ راست لڑکی اور دنیا میں آنے والا بچہ متاثر ہوتا ہے اور اس سب کے نتیجے میں زچگی کے دوران بیماری اور زچہ و بچہ دونوں کی اموات کی شرح اوسط سے زیادہ ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کبھی جبری اور کم عمری کی شادی سے بچنے کے لیے لڑکیاں اپنی برادریوں سے بھاگنے کی کوشش کرتی ہیں یا تو پھر خود کُشی جیسے انتہائی اقدام سے بھی دوچار ہوتی ہیں۔
اگر متاثرہ خواتین کی داد رسی کی جائے اور تمام شعبوں اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کیا جائے، تو ہم بہ حیثیت معاشرہ جلد یا بدیر ایسے فرسودہ رسم ورواج اور روایات سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔
ان روایات کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس عمل میں بنیادی اور مرکزی کردار خواتین کے علاوہ ان سے جڑے ہوئے خاندان، افراد اور برادری کردار ادا کریں۔ معاشرے سے ان منفی سماجی اصولوں، رسم و رواج کا خاتمہ کریں، جو کہ لڑکیوں کے لیے آگے بڑھنے کے مواقع، انتخاب اور کردار کو محدود کرتے ہیں۔
دوسری طرف چائلڈ میرج کے حوالے سے عالمی سطح پر رویوں میں تبدیلی کے لیے بھی ضروری ہے کہ بین الاقوامی ادارے، حکومتیں، سیاسی اور مذہبی راہ نما ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوں اور دنیا بھر میں انسانی حقوق کے معیار کو عملی جامہ پہنانے کا عہد کریں۔
ساتھ ہی لڑکیوں اور خواتین کے لیے معیاری تعلیم، ذہنی اور جسمانی صحت کی دیکھ بھال، صنفی سماجی تحفظ کے نظام اور ایک منصفانہ اور مساوی حقوق تک رسائی کو بھی یقینی بنایا جائے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ایک دہائی قبل اگر چار میں سے ایک لڑکی کی شادی کم عمری میں ہوتی تھی تو آج یہ شرح پانچ میں سے ایک کی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں چائلڈ میرج کے رجحان میں کمی آئی ہے، لیکن یہ اب بھی دنیا بھر خصوصاً پاکستان میں یہ ایک مستقل رواج اور روایت کی شکل اختیار کیے ہوئے ہے۔ لڑکیوں کی کم عمری کی شادیاں عموماً صنفی عدم مساوات کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ عالمی سطح پرلڑکوں کی کم عمری کی شادی کا رجحان لڑکیوں کے مقابلے میں صرف چھٹا حصہ ہے۔
لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کا جائزہ لیا جائے تو اس کا سب سے تاریک پہلو یہ ہے کہ کم سنی میں کی گئی شادیاں لڑکیوں سے نہ صرف ان کا بچپن، بلکہ بے فکری اور ذہنی سکون بھی چھین لیتی ہیں۔ جن بچیوں کی شادیاں 18 سال سے پہلے ہو جاتی ہیں، ان کے لیے اپنے حقوق سے آگاہی اور تعلیم کے مواقع کم، جب کہ گھریلو تشدد کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
کم عمری میں شادی کے بندھن میں جڑنے والی بچیاں اپنی غیر شادی شدہ سہیلیوں کے مقابلے میں معاشی اور صحت سے جڑے مسائل کا شکار نظر آتی ہیں اور پھر صحت کے ان مسائل کا نہ تھمنے والا مسئلہ آئندہ نسلوں میں منتقل ہوتا نظر آتا ہے۔
بچیوں کی کم سنی میں کی گئی شادیاں ایک سنگین معاشرتی مسئلہ ہے، جو کہ نہ صرف لڑکیوں، بلکہ آئندہ نسلوں پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ 18 سال سے قبل اور اس کے بعد کے سال بچیوں کو خود کو پہچاننے، اپنی تعلیمی قابلیت سمیت صلاحیتوں کو بروئے کار لانے اور اپنے مستقبل سے جڑے خوابوں کی پلاننگ کا وقت ہوتا ہے۔
ذہنی طور پر شادی کے لیے تیار نہ ہونا، اپنے تمام فیصلے خود کرنے کی صلاحیت ہونا نہ ہونا اور ساتھ مزاج میں پختگی نہ ہونا۔ ایسے وقت میں جب وہ خود بہت سے آنے والے مسائل سے آگاہ نہیں ہوتیں۔ بچیوں کی مرضی کے خلاف ان کی شادیاں کر دینا ان کی آنے والی زندگی کے لیے ذہنی تناؤ کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور خاندانی بگاڑ کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
بچپن کی اور جبری شادیوں کو ختم کرنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے اس دقیانوسی نظام، اصولوں اور طرزِ عمل کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو ان روایات کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ساتھ ہی کم عمری کی شادی جیسے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ان عوامل کی شناخت ضروری ہے، جو کہ چائلڈ میرج کا باعث بنتی ہیں۔
اگرچہ کہ دنیا کے ہر ملک، ثقافت اور معاشرے میں یہ متحرک عوامل مختلف ہیں، لیکن غربت، تعلیمی مواقع کا فقدان اور صحت کی دیکھ بھال تک رسائی نہ ہونا معاشروں میں کم سنی کی شادی جیسی روایات کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
اگرچہ کہ یہ بات خوش آئند نہیں، لیکن یہاں یہ ذکر کرنا بھی نہایت ضروری ہے کہ کچھ خاندان ایسے بھی ہیںِ، جو اپنے معاشی بوجھ کو کم کرنے کے لیے لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر دیتے ہیں اور کبھی بھاری رقم کے عوض کم عمربچیوں کی شادیاں اپنے غریب خاندانوں کے لیے کمائی کا ذریعے بن جاتی ہیں۔
دوسری طرف کم خواندہ اور دقیانوسی روایات سے جڑے خاندانوں کو ایسا لگتا ہے کہ کم عمری کی شادیاں ان کی بچیوں کے مستقبل کو محفوظ بنائیں گی، جب کہ اس کے برعکس ایسی شادیاں دیگر نفسیاتی، ذہنی، سماجی، اور معاشی مسائل کو جنم دیتی ہیں۔
چائلڈ میرج اور جبری شادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ ایک نقصان دہ معاشرتی عمل ہے، جو عالمی سطح پر خواتین اور لڑکیوں کو غیر متناسب طور پر متاثر کرتا ہے، اور انھیں مختلف قسم کے تشدد سے آزاد اپنی زندگی گزارنے سے روکتا ہے۔
کم سنی کی شادیاںدنیا بھر کی لڑکیوں کی نہ صرف زندگی بلکہ ان بچیوں اور ان سے جڑے افراد کے مستقبل کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔ کم عمری میں کی گئی شادیوں کے باعث لڑکیاں نہ صرف اپنی زندگی کے بارے میں آزادانہ فیصلے کرنے کی صلاحیت کھو دیتی ہیں، بلکہ یہ روایت ان کی معاشی، سیاسی اور سماجی شعبوں میں کارکردگی کو بھی متاثر کرتی ہے۔
کم عمری کی شادی سے جڑی لڑکیوں کے بچپن کی ایک تباہ کاری بار بار حمل اور بچوں کے پیدائش بھی ہے، جس سے براہ راست لڑکی اور دنیا میں آنے والا بچہ متاثر ہوتا ہے اور اس سب کے نتیجے میں زچگی کے دوران بیماری اور زچہ و بچہ دونوں کی اموات کی شرح اوسط سے زیادہ ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کبھی جبری اور کم عمری کی شادی سے بچنے کے لیے لڑکیاں اپنی برادریوں سے بھاگنے کی کوشش کرتی ہیں یا تو پھر خود کُشی جیسے انتہائی اقدام سے بھی دوچار ہوتی ہیں۔
اگر متاثرہ خواتین کی داد رسی کی جائے اور تمام شعبوں اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کیا جائے، تو ہم بہ حیثیت معاشرہ جلد یا بدیر ایسے فرسودہ رسم ورواج اور روایات سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔
ان روایات کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس عمل میں بنیادی اور مرکزی کردار خواتین کے علاوہ ان سے جڑے ہوئے خاندان، افراد اور برادری کردار ادا کریں۔ معاشرے سے ان منفی سماجی اصولوں، رسم و رواج کا خاتمہ کریں، جو کہ لڑکیوں کے لیے آگے بڑھنے کے مواقع، انتخاب اور کردار کو محدود کرتے ہیں۔
دوسری طرف چائلڈ میرج کے حوالے سے عالمی سطح پر رویوں میں تبدیلی کے لیے بھی ضروری ہے کہ بین الاقوامی ادارے، حکومتیں، سیاسی اور مذہبی راہ نما ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوں اور دنیا بھر میں انسانی حقوق کے معیار کو عملی جامہ پہنانے کا عہد کریں۔
ساتھ ہی لڑکیوں اور خواتین کے لیے معیاری تعلیم، ذہنی اور جسمانی صحت کی دیکھ بھال، صنفی سماجی تحفظ کے نظام اور ایک منصفانہ اور مساوی حقوق تک رسائی کو بھی یقینی بنایا جائے۔