سپریم کورٹ بل پر پارلیمانی ریکارڈ طلب جسٹس نقوی کو الگ کرنے فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد
سیاسی لوگ انصاف نہیں من پسند فیصلے چاہتے ہیں، مجھ سمیت سپریم کورٹ کے اکثر ججز کے خلاف شکایات آتی رہتی ہیں، چیف جسٹس
سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ء پر پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے جسٹس مظاہر نقوی کو بینچ سے الگ کرنے اور فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کردی۔
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 8 رکنی لارجر بینچ نے ''سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ء'' کے خلاف کیس کی سماعت کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اظہر حسن رضوی اور جسٹس شاہد وحید لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔
دوران سماعت عدالت نے کیس کے تمام فریقوں سے تحریری جواب طلب کرلیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ حکم نامہ عبوری نوعیت کا تھا۔ جمہوریت آئین کے اہم خدوخال میں سے ہے۔ آزاد عدلیہ اور وفاق بھی آئین کے اہم خدوخال میں سے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ عدلیہ کا جزو تبدیل ہوسکتا ہے؟ ۔ عدلیہ کی آزادی بنیادی حق ہے۔ اس حوالے سے یہ مقدمہ منفرد نوعیت کا ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیں: پارلیمنٹ اپنے اختیارات کے تحفظ کے لئے آخری حد تک جائے گی، وزیر اطلاعات
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مقدمے پر فریقین سے سنجیدہ بحث کی توقع ہے۔ لارجر بینچ کو بہترین معاونت فراہم کرنی ہو گی۔ پاکستان میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا قانون ہے ۔ یہ ریاست کے تیسرے ستون کے بارے میں ہے۔ عدالت نے سپریم کورٹ رولز اینڈ پروسیجر بل پر پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ طلب کر لیا۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے قائمہ کمیٹی میں ہونے والی بحث کا ریکارڈ بھی طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کردی۔ عدالت نے سیاسی جماعتوں اور وکلا تنظیموں سے 8 مئی تک جواب مانگ لیا۔
قبل ازیں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون سازی کے اختیار سے متعلق وفاقی فہرست کی کچھ حدود و قیود بھی ہیں۔ فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ کے سیکشن 55 کا بھی جائزہ لیں۔ یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوسکتی کہ آزاد عدلیہ آئین کا بنیادی جزو ہے۔ الزام ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئین کے بنیادی جزو کی قانون سازی کے ذریعے خلاف ورزی کی گئی۔
پاکستان بار کونسل کی جانب سے حسن رضا پاشا نے عدالت میں بتایا کہ پاکستان بار نے ہمیشہ آئین اور عدلیہ کے لیے لڑائی لڑی ہے۔مناسب ہوگا اگر اس مقدمے میں فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔ بینچ میں 7 سینئر ترین ججز شامل ہوں تو کوئی اعتراض نہیں کرسکے گا۔ بینچ کے ایک رکن کے خلاف 6 ریفرنس دائر کیے ہوئے ہیں۔ اس موقع پر پاکستان بار کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کو بینچ سے الگ کرنے کی استدعا کردی۔
سپریم کورٹ نے فل کورٹ بنانے کی استدعا فی الوقت مسترد کرتے ہوئے قانون پر عمل درآمد سے روکنے کے حکم میں توسیع کردی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 7 سینئر ججز اور فل کورٹ بنانا چیف جسٹس کا اختیار ہے۔ افتخار چوہدری کیس میں عدالت نے قرار دیا تھا کہ ریفرنس صرف صدر مملکت دائر کرسکتے ہیں۔ کسی جج کے خلاف ریفرنس اس کو کام کرنے سے نہیں روک سکتا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کی رائے آنے تک جج کو کام کرنے سے نہیں روکا جاسکتا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں بھی عدالت نے یہی فیصلہ دیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ شکایات ججز کے خلاف آتی رہتی ہیں۔ مجھ سمیت سپریم کورٹ کے اکثر ججز کے خلاف شکایات آتی رہتی ہیں۔ سیاسی معاملات نے عدالت کا ماحول آلودہ کردیا ہے۔ سیاسی لوگ انصاف نہیں من پسند فیصلے چاہتے ہیں۔ انتخابات کے مقدمے میں بھی کچھ ججز کو نکال کر فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے ججز کا فیصلہ عدالت کا فیصلہ ہوتا ہے۔ ہر ادارہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد کا پابند ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پاشا صاحب آپ نفیس آدمی ہیں ، اپنے ارد گرد سے معلوم کرائیں آپ کے لوگ کس کو فل کورٹ کہتے ہیں ۔ سپریم کورٹ بار نے ادارے کا تحفظ کرنا ہے۔ ججز نے آنا ہے اور چلے جانا ہے ۔ اگر سپریم کورٹ کے ججز کو احترام دینے کے بجائے انتخاب کیا جاتا تو پھر آپ انصاف نہیں چاہتے ۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل آف پاکستان کی جانب سے استدعا کی گئی کہ عدالت بینچ بڑھانے پر غور کرے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلے سمجھا تو دیں کہ قانون کیا ہے اور کیوں بنا؟ بینچ کی تعداد کم بھی کی جا سکتی ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کی حکم امتناع واپس لینے کی استدعا مسترد کردی۔
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 8 رکنی لارجر بینچ نے ''سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ء'' کے خلاف کیس کی سماعت کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اظہر حسن رضوی اور جسٹس شاہد وحید لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔
دوران سماعت عدالت نے کیس کے تمام فریقوں سے تحریری جواب طلب کرلیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ حکم نامہ عبوری نوعیت کا تھا۔ جمہوریت آئین کے اہم خدوخال میں سے ہے۔ آزاد عدلیہ اور وفاق بھی آئین کے اہم خدوخال میں سے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ عدلیہ کا جزو تبدیل ہوسکتا ہے؟ ۔ عدلیہ کی آزادی بنیادی حق ہے۔ اس حوالے سے یہ مقدمہ منفرد نوعیت کا ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیں: پارلیمنٹ اپنے اختیارات کے تحفظ کے لئے آخری حد تک جائے گی، وزیر اطلاعات
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مقدمے پر فریقین سے سنجیدہ بحث کی توقع ہے۔ لارجر بینچ کو بہترین معاونت فراہم کرنی ہو گی۔ پاکستان میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا قانون ہے ۔ یہ ریاست کے تیسرے ستون کے بارے میں ہے۔ عدالت نے سپریم کورٹ رولز اینڈ پروسیجر بل پر پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ طلب کر لیا۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے قائمہ کمیٹی میں ہونے والی بحث کا ریکارڈ بھی طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کردی۔ عدالت نے سیاسی جماعتوں اور وکلا تنظیموں سے 8 مئی تک جواب مانگ لیا۔
قبل ازیں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون سازی کے اختیار سے متعلق وفاقی فہرست کی کچھ حدود و قیود بھی ہیں۔ فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ کے سیکشن 55 کا بھی جائزہ لیں۔ یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوسکتی کہ آزاد عدلیہ آئین کا بنیادی جزو ہے۔ الزام ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئین کے بنیادی جزو کی قانون سازی کے ذریعے خلاف ورزی کی گئی۔
پاکستان بار کونسل کی جانب سے حسن رضا پاشا نے عدالت میں بتایا کہ پاکستان بار نے ہمیشہ آئین اور عدلیہ کے لیے لڑائی لڑی ہے۔مناسب ہوگا اگر اس مقدمے میں فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔ بینچ میں 7 سینئر ترین ججز شامل ہوں تو کوئی اعتراض نہیں کرسکے گا۔ بینچ کے ایک رکن کے خلاف 6 ریفرنس دائر کیے ہوئے ہیں۔ اس موقع پر پاکستان بار کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کو بینچ سے الگ کرنے کی استدعا کردی۔
سپریم کورٹ نے فل کورٹ بنانے کی استدعا فی الوقت مسترد کرتے ہوئے قانون پر عمل درآمد سے روکنے کے حکم میں توسیع کردی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 7 سینئر ججز اور فل کورٹ بنانا چیف جسٹس کا اختیار ہے۔ افتخار چوہدری کیس میں عدالت نے قرار دیا تھا کہ ریفرنس صرف صدر مملکت دائر کرسکتے ہیں۔ کسی جج کے خلاف ریفرنس اس کو کام کرنے سے نہیں روک سکتا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کی رائے آنے تک جج کو کام کرنے سے نہیں روکا جاسکتا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں بھی عدالت نے یہی فیصلہ دیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ شکایات ججز کے خلاف آتی رہتی ہیں۔ مجھ سمیت سپریم کورٹ کے اکثر ججز کے خلاف شکایات آتی رہتی ہیں۔ سیاسی معاملات نے عدالت کا ماحول آلودہ کردیا ہے۔ سیاسی لوگ انصاف نہیں من پسند فیصلے چاہتے ہیں۔ انتخابات کے مقدمے میں بھی کچھ ججز کو نکال کر فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے ججز کا فیصلہ عدالت کا فیصلہ ہوتا ہے۔ ہر ادارہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد کا پابند ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پاشا صاحب آپ نفیس آدمی ہیں ، اپنے ارد گرد سے معلوم کرائیں آپ کے لوگ کس کو فل کورٹ کہتے ہیں ۔ سپریم کورٹ بار نے ادارے کا تحفظ کرنا ہے۔ ججز نے آنا ہے اور چلے جانا ہے ۔ اگر سپریم کورٹ کے ججز کو احترام دینے کے بجائے انتخاب کیا جاتا تو پھر آپ انصاف نہیں چاہتے ۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل آف پاکستان کی جانب سے استدعا کی گئی کہ عدالت بینچ بڑھانے پر غور کرے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلے سمجھا تو دیں کہ قانون کیا ہے اور کیوں بنا؟ بینچ کی تعداد کم بھی کی جا سکتی ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کی حکم امتناع واپس لینے کی استدعا مسترد کردی۔